غزہ کے حالات سے ناامید اور شکستہ خاطر نہ ہوں
محمد قمر الزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 6393915491
قدس ہمارا قبلئہ اول ہے ،اس سے ہمارا تعلق ایمانی دینی اور شرعی ہے ، ہم یہ سمجھتے ہیں اور ہمارا یہ ایمان اور اعتقاد ہے کہ
بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق، شرعی، قانونی،دستوری اور اخلاقی ہے ،کیونکہ یہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے اور یہاں جو لوگ آباد ہیں وہ نسلا ابراہیمی و اسمعیلی ہیں ، یہودی یہاں امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی سے جبراً آباد ہوگئے ہیں ،یہودی غاصب، جابر، خائن اور ظالم ہیں ، ان کو اور ان کی ریاست کو تسلیم کرنے والا بھی مجرم ،غدار اور ظالموں کا پشت پناہ اور مددگار سمجھا جائےگا اور ان کا شمار ظالموں اور مجرموں میں ہوگا ۔۔
۔۔۔ ارض شام و فلسطین کی اہمیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ مسجد اقصیٰ یہ وہ مبارک مسجد ہے، جہاں سے آپ نے اسراء و معراج کا سفر کیا، جو دنیا کا سب سے مبارک اور بابرکت اور عالمی و آفاقی سفر تھا اور جس سفر کا مسافر دنیا کا سب سے قیمتی اور عظیم مسافر تھا ۔
ارض فلسطین یہ وہ مقدس اور محترم قطعہ ارض ہے ، جہاں مسجد اقصیٰ ہے، جو اللہ کے نزدیک قابل احترام اور قابل تعظیم ہے، حضرت آدم علیہ السلام نے اس کو تعمیر کیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعہ اس کی تعمیر نو ہوئی ، اور حدیث شریف میں جن تین مساجد کی طرف سفر کرنے کی تاکید آئی ہے، ان میں خانہ کعبہ، مسجد نبوی کے ساتھ مسجد اقصی بھی شامل ہے۔ لا تشد الرحال الا الی ثلثة مساجد الخ
ارض مقدس کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ انبیاء کا مسکن ہے، بے شمار انبیاء کرام اور رسولان عظام اس سرزمین پر آئے اور انہوں نے یہاں دعوت کا کام کیا، یہ زمین ان کا دعوتی محور و مرکز اور ان کا مدفن بھی ہے، ان کی قبروں کے آثار آج بھی پائے جاتے ہیں ، اس طرح اللہ تعالی نے اس زمین کو با برکت بنایا ہے، روحانی تعلیمات کا مرکز یہ زمین تو شروع سے رہی ہے، مزید اللہ تعالی نے ظاہری برکتوں ، شادابیوں سے اس کو مالا مال کیا ہے۔ بارکنا حولہ میں اس جانب اشارہ ہے ۔ آیت میں برکنا حولہ میں حول سے مراد پوری زمین شام ہے ،فلسطین اسی کا حصہ ہے ،ایک حدیث کے مطابق عرش سے دریائے فرات تک مبارک زمین بنائی گئی ہے، اور اس میں فلسطین کی زمین کو تقدس خاص حاصل ہے ۔
مسند احمد کی حدیث ہے کہ دجال ساری زمین میں پھرے گا مگر چار مسجدوں تک اس کی رسائی نہیں ہوگی ۔مسجد مدینہ منورہ ،مسجد مکہ مکرمہ مسجد اقصیٰ اور مسجد طور ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء اور معراج کے موقع پر اس سرزمین پر انبیاء کرام (علیہم السلام) کی امامت فرمائی ، اور آپ امام الانبیاء قرار پائے ، اس سرزمین کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کے تصرف سے آزاد کیا ، پھر وہ دوبارہ جب ان کے زیر تصرف ہوا تو اللہ تعالی نے سلطان صلاح الدین ایوبی (رحمہ اللہ ) کو پیدا فرمایا، انہوں نے اللہ رب العزت کی توفیق اور حسن تدبیر سے اس سرزمین کو 1149ء میں عیسائیوں کے تصرف سے آزاد کیا۔
یہ علاقہ ایک طویل عرصہ تک مسلمانوں کے زیر اقتدار رہا، ان کا اس سے روحانی، ایمانی اور اسلامی تعلق ہے؛ ہم فلسطین کا ساتھ قومی اور انسانی بنیاد پر نہیں اصلا ایمانی بنیاد پر دے رہے ہیں ۔ ہم لوگ قیامت تک اس سے دستبردار نہیں ہوسکتے ۔اور نہ کسی حکومت اور سلطنت کو حق ہے کہ وہ اس بارے میں کوئی ڈیل اور سودا کرے ۔ ہم کو اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہاں کی ایک انچ زمین یا وہاں ایک ذرہ کسی کو بیچے یا دان کرے۔
ماضی قریب میں عالمی سیاست میں وہ منحوس دن بھی آیا، جب ۱۹۴۸ء میں اس سرزمین پر اسرائیل نام سے ایک منحوس حکومت اور ریاست قائم کر دی گئی اور اس کو با اختیار بنایا گیا، ایٹمی طاقت بھی اس کو حاصل ہوئی ، اس طرح مشرق وسطی میں اسرائیل کی حیثیت قلب انسانی میں خنجر سے وار کرنے کے مماثل قرار پائی ، پھر اس کے ذریعہ فلسطینی عوام اور وہاں کے اسلام پسندوں پر جو ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے وہ دنیا کی نگاہوں سے مخفی نہیں ہیں۔۔۔
اس وقت یقینا اہل فلسطین سخت آزمائش اور مشکل گھڑی میں ہیں لیکن سلام اہل غزہ کے پائے استقامت کو اور سلام فلسطین کے ان جیالوں کو جنہوں نے اپنی ایمانی طاقت کے سبب دشمنان خدا یہودیوں کو یہ باور کرا دیا کہ –
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
لیکن افسوس کہ اس وقت مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ تذبذب ناامیدی اور غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے ،وہ لوگ مایوس ہیں ، اور فلسطین کے مستقبل کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ کو مٹا دیا جائے گا اور وہاں مسلمانوں کا وجود تک باقی نہیں رہے گا ، بعض سنجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقہ اور پڑھے لکھے حضرات بھی اب موجودہ حالات کو دیکھ کر حماس کو ہی مجرم قرار دے رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ حماس کا اقدام ہی غلط تھا، ان کی وجہ سے ہزاروں جانیں جارہی ہیں،لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں ۔اس کی تائید میں وہ لوگ بھی پیش پیش ہیں جو اپنی کو سلفی الفکر کہتے ہیں اور جو سفارت خانہ سے قریب و تعلق بنا کر سفارتی زبان استعمال کرتے ہیں ۔۔
موجودہ حالات سے مسلمانوں کو گھبرانا اور ناامید نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی انہیں مایوس اور سکشتہ خاطر ہونا چاہیے ، اس لڑائی میں اگر حماس نے بہت کچھ کھویا ہے تو بہت کچھ پایا بھی ہے ۔اسرائیل کو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے ،ان کو بھی بہت حد تک کمزور کردیا ہے ،سفارتی طور پر بھی اور معاشی طور پر بھی، اس کو جھٹکا لگا ہے ،ذلت و مسکنت جو اس کی زندگی کا حصہ اور لازمہ ہے ،اس میں اور بھی اضافہ ہوا ہے ۔ خود اسرائیلی عوام اور افواج میں افرا تفری ہے ،لوگ اسرائیل چھوڑ کر دوسرے مغربی ممالک بھاگ کر پناہ لے رہے ہیں، انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے ۔ اسکے برعکس فلسطینی مسلمان پوری ہمت بہادری شجاعت اور ثابت قدمی سے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور وہی اپنے کو پورے ارض مقدسہ کے مالک سمجھ رہے ہیں اور یقینا ہیں ۔۔
اس وقت ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں کچھ نکات پیش کررہے ہیں تاکہ ہم مایوسی کے دلدل سے اپنے کو نکال سکیں اور ہمیں یہ یقین ہو کہ ان شاءاللہ غالب ہمیں رہیں گے اور اس ارض مقدسہ کے مالک ہم ہی ہوں گے ۔۔
1/ اس وقت یقینا فلسطین لہو لہان ہے ،لاشوں کا انبار ہے ،دشمن ہر چہار جانب سے حملہ آور ہے ،بموں میزائلوں اور راکٹوں کی بارش نہتے فلسطینیوں پر ہورہی ہے ۔لیکن جانگسل اور سخت ترین حالات اور مکمل بے سروسامانی کے باوجود فلسطین کے نہتے مجاہد اور عوام محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور قبلئہ اول کی حفاظت کر رہے ہیں ۔انہوں نے اپنی دفاعی کوششوں میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ ایسی چیز نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے ۔۔اگر آپ تصویر کے اس رخ کو دیکھیں گے تو آپ مایوسی خوف اور وہن کا شکار نہیں ہوں گے ۔
2/ فلسطین کی خبروں سے اور غزہ میں اسرائیل فلسطینیوں پر
جو ظلم و ستم ڈھا رہا ہے، اس سے ہر حساس اور درد مند دل کو سخت صدمہ پہنچا ہے ،یہ فطری چیز ہے ،7/ اکتوبر سے ہی بھیانک مظالم کی خبریں آرہی ہیں ۔ لیکن یہی موقع ہے کہ ہمیں اپنے دل و دماغ کو اور اپنے ایمان کو اور اپنے حوصلے کو تھامیں اور ذرا برابر مایوسی کو پھٹکنے اور اپنے سے قریب نہ آنے دیں ۔۔
ہم میڈیا کی خبروں سے متاثر نہ ہوں بلکہ ہم اللہ کی طرف رجوع ہوں ۔ہم اپنی تقریروں تحریروں اور مجلسوں میں قرآن وحدیث کی زبان بولیں، وہاں کا حوالہ دیں ۔ لیکن عام طور پر ذہن و دل اور قلب ودماغ پر صرف سوشل میڈیا کی خبریں چھائی رہتی ہیں اور سیاسی و صحافتی بیان سے ہم متاثر رہتے ہیں ۔ ہم کو اس ماحول سے نکلنا ہوگا ۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ ایسے وقت میں قرآنی و نبوی طرز فکر پر کچھ اظہار خیال کیا جاتا ہے تو لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں ۔
آپ غور کیجئے کہ سورہ آل عمران میں غزوئہ احد کی کیسی تصویر کشی کی گئی ہے، اس جنگ میں پیش آنے والے حالات اور جیتی ہوئی بازی ہار جانے کا کیسا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اور قرآن نے اس کی حکمت اور مصلحت بیان کرتے ہوئے کیا کہا ہے ۔۔ فاثابکم غما بغم لکیلا تحزنوا علی مافاتکم ولا ما اصابکم ۔۔ یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے دیا رنج پر رنج اور غم پر غم تاکہ تم رنج نہ کرو اس چیز کا جو ہاتھ نہ آئے اور اس مصیبت سے بد دل نہ ہو جایا کرو جو تم پر آپڑے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سنگین آزمائش جو ایک سزا کی صورت رکھتی تھی واقعہ میں سزا اور پاداش نہ تھی، ایک تربیت کی صورت تھی ۔جیسا کہ مفسرین بیضاوی رح وغیرہ لکھتے ہیں ۔تمرنوا علی الصبر فی الشدائد ۔۔تاکہ سخت سے سخت حالات جھلینے کی مشق تمہیں ہوجائے ۔۔
3/ اس وقت ضرورت ہے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کریں، زیادہ سے زیادہ عاجزی انکساری اور ابتہال کیساتھ اللہ تعالیٰ سے فلسطینی بھائیوں کے لیے دعا کا اہتمام کریں ۔اسی سے مدد کی بھیک مانگیں اور بعض انبیاء کی زبان سے نکلی ہوئی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔
وما لنا الا نتوکل علی اللہ قد ھدانا سبلنا ،ولنصبرن علی ما اذیتمونا ،وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون ۔۔ ہمارے لیے کیا جواز ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ اسی نے ہم کو ہدایت سے نوازا اور تہماری طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں میں ہم ضرور بالضرور صبر سے کام لیں گے اور بھروسہ تو بھروسہ کرنے والوں کو صرف اللہ ہی پر کرنا چاہیے ۔
4/ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر اس کی قدرت اور صبر و استقامت پر اس کی مدد پر کامل یقین ہونا چاہیے اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مشکل کے بعد آسانی ضرور آتی ہے ۔ ان مع العسر یسرا فان مع العسر یسرا اور حدیث شریف میں آیا ہے ان مع العسر یسران ۔۔اور یہ یقین بھی کہ اللہ تعالیٰ کا حکم و فیصلہ نافذ ہوکر رہتا ہے ۔
5/ مایوسی اور ناامیدی سے ہم دور رہیں ،یقین اور امید کے ساتھ ہمیں مشکل راستوں کو عبور کرنا ہے اور جد وجہد اور استقامت کے ساتھ ہمیں تکلیفوں کو بھی برداشت کرنا ہے ۔ہمیں اچھی طرح جاننا چاہتے کہ فتح کی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور مایوسی مومن کا طریقہ اور شیوہ نہیں ہے ۔ ولا تیئاسوا من روح اللہ ۔الا القوم الکافرون ۔۔
6/ آپس میں ایک دوسرے مومن کے لئے شدید محبت و عقیدت اور الفت و شفقت کے جذبات ہمارے دلوں میں ہوں ،ہم یہ سمجھیں کہ یہ حالات فلسطینی مسلمانوں پر نہیں ہم پر آئے اور ٹوٹے ہیں ۔
7/ سخت سے سخت آزمائش میں بھی پائے ثبات میں جنبش پیدا نہ کریں ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ،، کتنے نبیوں کیساتھ اللہ والوں نے قتال کیا، اللہ کے راستے میں ان پر جو مصیبتیں آئیں ان کی وجہ سے وہ ذرا بھی پست ہمت نہیں ہوئے اور نہ کمزور پڑے اور نہ جھکے ۔اللہ محبت فرماتا ہے جمے رہنے والوں سے ۔
8/ فتح کے ظاہری اسباب اور تدبیروں کے اختیار کرنے کے باوجود ہماری امیدوں کا مرکز صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی رہنی چاہیے ۔۔ اور اس حالت میں بھی ثابت قدمی ، صبر ، اتحاد ،ذکر اور اطاعت خدا و اطاعت رسول ضروری ہے ۔
9/ 10/
اس وقت ضرورت ہے کہ ہم پوری مسلمان متحد ہو جائیں سارے اسلامی ممالک اس کے لئے ایک ہوجائیں اور یہودیوں کو یہ بتا دیں کہ تم دنیا کی سب سے بزدل ذلیل ،رسوا اور بے مروت قوم ہو ۔
اس وقت مسلمانوں کو اپنے آپ کو ہر اعتبار سے مضبوط ہونے کی بھی ضرورت ہے، تاکہ دشمن کو ہماری طاقت کا احساس ہو ۔
ساتھ ہی۔ ہمیں معاشی طور پر دشمن کو کمزور کرنا چاہیے اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ یہودی اور اسرائیلی مصنوعات کا ہم مکمل بائکاٹ کریں ،اپنے نفس کو اپنی خواہشات کو ماریں، دبائیں اس کا متبادل تیار کریں اور اس کو استعمال کریں اور دشمن کو احساس دلائیں کہ تم میرے بغیر اپنی معیشت کو مضبوط و مستحکم نہیں کرسکتے ۔۔۔ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے ایمان لانے کے بعد یمامہ یمن سے غلہ راسن مکہ والوں کے لیے بند کردیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا آپ نے سکوت اختیار کیا ،جب مکہ کے لوگ نان شبیہ کے محتاج ہوگئے ،بری حالت ہوگئی ، لا چار اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کرائی ،آپ کی سفارش کے بعد غلہ آنا شروع ہوا ۔ اس سے پتہ چلا کہ یہ بہت ہی کارگر صورت اور نشانے پر لگانے والا وار ہے ۔
لیکن اس کے لئے مجاہدہ کرنا ہوگا ،خواہشات کو دبانا ہوگا ،متحد ہونا ہوگا ،مضبوط فیصلہ کرنا پڑے گا۔ تبھی اس کے مکمل اور صحیح نتائج ظاہر ہوں گے ۔
اس وقت اس ملک میں رائے عامہ کو بھی ہموار کرنے کی ضرورت ہے اور پورے ہندوستان کے لوگوں کو بتانا ہے کہ ہندوستان ہمیشہ فلسطین کے لوگوں کے ساتھ رہا ہے اور فلسطین کی سرزمین کو ان کا حق قرار دیتا ہے ۔۔ میڈیا کے ذریعے جو فتنہ برپا ہے اور جو جھوٹ پھیلایا جارہا ہے ،جس سے ناخواندہ اور بے شعور مسلمان بھی متاثر ہورہے ہیں اس کو دبانے کی ضرورت ہے اور اس کو ناکام کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔اس کے لئے پوری طاقت صرف کرنی ہوگی ۔۔
ناشر/ مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
9506600725واٹس ایپ نمبر
نوٹ / مختلف مراجع کی روشنی میں یہ خطئہ جمعہ تیار کیا گیا ہے ۔