علم کی تڑپ اور لگن

علم کی تڑپ اور لگن

اسلاف کے علمی شوق اور دلچسپی کے بارے میں چند واقعات دیکھیں:

(مولانا ذکی الرحمٰن غازی ) 

پہلا واقعہ حضرت کثیرؒ بن قیس نے نقل کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں دمشق کی مسجد میں صحابیِ رسول حضرت ابودرداءکی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسی اثناء میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا: ’’ابو درداء، میں شہرِ نبیؐ مدینہ منورہ سے ایک حدیث کی خاطر سفر کرکے یہاں حاضر ہوا ہوں۔ وہ حدیث آپ کے واسطے سے لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ حضرت ابودرداء نے اس سے سوال کیا: ’’واقعی تمہاری آمد کا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے؟ تم یہاں تجارت وغیرہ کسی کاروباری غرض سے نہیں آئے ہو؟‘‘اس آدمی نے نفی میں جواب دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا: ’’پھرکسی اور کام سے آئے ہوگے؟‘‘اس نے اس بار بھی نفی میں جواب دیا۔اس پر حضرت ابودرداء نے فرمایا: ’’میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی علم کی تلاش میں کوئی راستہ طے کرتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ ہموار کر دیتے ہیں، اور بے شک اللہ کے فرشتے طالبِ علم کی کارکردگی سے خوش ہوکر اپنے پروں کو اس کے لیے جھکا دیتے ہیں، آسمان اور زمین کی ہر مخلوق، حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی طالبِ علم کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں، اور بے شک علم والے کی فضیلت عبادت کرنے والے کے اوپر ویسی ہی ہے جتنی کہ چاند کی فضیلت دیگر ستاروں پر ہے۔ بے شک علماء وارثینِ انبیاء ہوتے ہیں، اور انبیاء اپنے پیچھے دینار ودرہم کی میراث نہیں چھوڑجاتے، وہ ورثے میں اپنا علم چھوڑتے ہیں، تو اب جو اسے لے، اچھی طرح سوچ سمجھ کر لے۔‘‘ [کنت جالسا عند أبی الدرداء فی مسجد دمشق فأتاہ رجل فقال لہ یا أبا الدرداء أتیتک من المدینۃ مدینۃ رسول اللہﷺ لحدیث بلغنی أنک تحدث بہ عن النبیﷺ قال فما جاء بک تجارۃ قال لا قال ولا جاء بک غیرہ قال لا قال فإنی سمعت رسول اللہﷺ یقول من سلک طریقا یلتمس فیہ علما سہل اللہ لہ طریقا إلی الجنۃ وإن الملائکۃ لتضع أجنحتہا رضا لطالب العلم وإن طالب العلم یستغفرلہ من فی السماء والأرض حتی الحیتان فی الماء وإن فضل العالم علی العابد کفضل القمر علی سائر الکواکب وإن العلماء ورثۃ الأنبیاء وإن الأنبیاء لم یؤرثوا دینارا ولا درہماِ إنما ورثوا العلم، فمن أخذہ أخذہ بحظ وافر] (سنن ابو داؤدؒ:۲/۳۴۱۔ سنن ترمذیؒ:۵/۴۸۔ سنن ابن ماجہؒ:۱/۸۱)

اگلا واقعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا ہے۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ جب اللہ کے رسولﷺ کی وفات ہوئی تھی، اس وقت میں ایک نوعمر لڑکا تھا۔ میں نے اپنے ایک انصاری ہم عمر دوست سے کہا کہ بھائی، آئو اللہ کے رسولﷺ کے صحابۂ کرامؓ کی صحبت میں بیٹھیں تاکہ دین کی باتیں سن کر سیکھ لیں، ابھی صحابۂ کرامؓ اچھی خاصی تعداد میں با حیات موجود ہیں۔ مگر میرے ساتھی نے جواب دیا کہ ’’ابن عباسؓ، تم پر تعجب ہوتا ہے؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگ کبھی تمہارے محتاج ہونگے، حالانکہ اِس وقت دنیا میں بڑے بڑے صحابۂ کرامؓ موجود ہیں؟‘‘ حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے ساتھی کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور علمی سوالات پوچھنے اور صحابۂ کرام کی محفلوں میں شرکت کرنے لگا۔ مجھے کسی کے بارے میں معلوم ہوتا کہ اس نے اللہ کے رسولﷺ سے ایک حدیث سن رکھی ہے تومیں حدیث سننے کی غرض سے اس کے گھر جاتا۔ وہاں معلوم ہوتا کہ وہ کھانا کھا کر قیلولہ کر رہے ہیں تومیں گھر کے دروازے پر ہی چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا۔ گرم ہوا کے تھپیڑے میرے چہرے کو جھلساتے رہتے تھے۔ کافی دیر بعد جب وہ صاحب اٹھ کر باہر آتے تو مجھے دیکھ کر کہتے: ’’اللہ کے رسولﷺ کے چچا زاد بھائی! یہاں اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘میں کہتا کہ ’’میری اطلاع کے مطابق آپ نے ایک حدیث اللہ کے رسولﷺ سے سنی ہے، میں وہ آپ سے سننا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ کہتے:’’مجھے کہلا دیا ہوتا تو میں خود آپ کے گھر آجاتا۔‘‘ مگر میں کہتا کہ حدیث کی طلب میں اس طرح آنے کا حق مجھ پر واجب ہے۔‘‘ بہرحال اس طرح سے میں نے علم حاصل کیا۔ پھر ایک زمانہ وہ آیا کہ میرا وہ انصاری دوست جس نے میرا ساتھ دینے سے انکار کیا تھا، اکابرینِ صحابہؓ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ میرے محتاج ہوگئے اور مجھ سے علمِ دین سیکھ رہے ہیں۔ اب وہ دوست مجھ سے ملتا تو کہتا تھا کہ ابن عباسؓ، تم مجھ سے زیادہ عقل مند ثابت ہوئے۔‘‘ [لما قبض رسول اللہﷺ وأنا شاب قلت لشاب من الانصار یا فلان ہلم فلنسأل أصحاب رسول اللہﷺ ولتعلم منہم فإنہم کثیر قال العجب لک یابن عباس آتری الناس یحتاجون إلیک وفی الأرض من تری من أصحاب رسول اللہ قال فترکت ذالک وأقبلت علی المسألۃ وتتبع أصحاب رسول اللہ فإن کنت لآتی الرجل فی الحدیث یبلغنی أنہ سمعہ من رسول اللہ فأجدہ قائلا فأتوسد ردائی علی بابہ تسفی الریح علی وجہی حتی یخرج فإذا خرج قال یاابن عم رسول اللہ ما لک فأقول بلغنی حدیث عنک أنک تحدثہ عن رسول اللہ فأحببت أن أسمعہ منک قال فیقول فہلا بعثت إلی حتی آتیک فأقول أنا أحق أن آتیک فکان الرجل بعد ذلک یرانی وقد ذہب أصحاب الرسول واحتاج الناس إلیّ فیقول کنت أعقل منی](جامع بیان العلم وفضلہ:۱/۱۰۳)

حضرت سعیدؒ بن مسیب طبقۂ تابعین کے سرگروہوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ میں ایک حدیث سننے کے لیے تین تین دن پیدل چل کر جاتا تھا۔[إني کنت لأسیر ثلاثا فی الحدیث الواحد](تذکرۃ الحفاظ:۱/۵۲۔ جامع بیان العلم وفضلہ:۱/۱۱۳)

حضرت عامر شعبیؒ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص شام کے اِس کنارے سے یمن کے اُس کنارے تک محض حکمت کی ایک بات سننے کے لیے سفر کرے تب بھی میری نظروں میں اس کا سفر کامیاب ہے۔‘‘ [لو أن رجلا سافر من أقصی الشام إلی أقصی الیمن لیسمع کلمۃ حکمۃ ما رأیت أن سفرہ ضاع](جامع بیان العلم وفضلہ:۱/۱۱۴)

حضرت زیرؒ بن حبیش کہتے ہیں کہ میں حضرت صفوانؓ بن عسال مرادی کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میری آمد کا مقصد پوچھا۔ میں نے بتایا کہ علم کی کھوج میں نکلا ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ’’طلبِ علم کے لیے اگر کوئی گھر سے نکلتا ہے تو ملائکہ اس کی سعی وجہد سے خوش ہوکر اپنے پر اس کی راہ میں بچھا دیتے ہیں۔‘‘ [أتیت صفوان بن عسال المرادی فقال ما جاء بک قلت أنبط العلم قال فإنی سمعت رسول اللہﷺ یقول ما من خارج خرج من بیتہ فی طلب العلم إلا وضعت لہ الملائکۃ أجنحتہا رضا بما صنع](سنن ابن ماجہؒ:۱/۱۳۱)

ان واقعات کو پڑھیں اور اپنی ذات کا جائزہ لیں کہ ہم کہاں کھڑےہیں۔

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا۔

علم کی تڑپ اور لگن“ ایک تبصرہ

اپنی راۓ یہاں لکھیں