انعام الحق قاسمی
عقلمندی اور ذہانت کے حیرت انگیز واقعات
ایاس بن معاویہ المزنی قاضیٔ بصرہ
پہلا واقعہ] نقل کیا جاتا ہے کہ اِیاس بن معاویہ کے پاس تین عورتیں آئیں ،انہوں نے ان تینوں عورتوں کو دیکھ کر کہا کہ ان میں سے ایک بچے کو دودھ پلانے والی ہے اور دوسری کنواری ہے اور تیسری بیوہ ہے ۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ انہوں نے جواب دیا : دودھ پلانے والی جب بیٹھی تو اس نے اپنے ہاتھ سے پستان کو سنبھالا اور جب کنواری آئی تو اس نے کسی کی طرف توجہ نہیں کیا اور بیوہ جب آئی تو وہ دائیں بائیں (اِدھر اُدھر) اپنی نظریں پھراتی رہی۔[کتاب الاذکیاء لابن الجوزی،الباب الثانی عشر،ص ۴۱]
دوسرا واقعہ] ابو الحسن قیسی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کسی دوسرے عام شخص کے پاس کچھ مال امانت کے طور پر رکھا ، اور یہ شخص ایسا امانت دار مشہور تھا جس کے بارہ میں کسی کو کوئی اندیشہ نہ تھا (کہ یہ شخص کبھی خیانت کرسکتا ہے ) پھر امانت رکھنے والا شخص مکہ چلا گیا ، جب مکہ سے واپس آیا تو اپنا مال اس سے مانگا تو وہ شخص مکرگیا اور انکار کردیا (کہ اس نے مجھے کوئی مال نہیں دیا ہے ) تو مدعی (جس کا مال تھا ) قاضی ایاس بن معاویہ کے پاس پہنچا اور پورا واقعہ سنایا ۔ قاضی ایاس نے کہا ؛ کیا میرے پاس تمہارے آنے کی خبر اس کو ہوگئی ہے ؟ اس نے کہا نہیں ، پھر ایاس نے پوچھا تم کسی شخص کی موجودگی میں اس سے لڑائی جھگڑا کئے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں ، کسی کو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے ۔ قاضی ایاس نے کہا تم واپس لوٹ جاؤ اور کسی کے سامنے اس کا تذکرہ بھی نہ کرنا اور دو دن کے بعد پھر مجھ سے ملو ،وہ شخص واپس چلا گیا ۔
اب قاضی ایاس نے اس امانت رکھنے والے شخص کو بلاکر کہا کہ ہمارے پاس ڈھیر سارا مال آ گیا ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ وہ تمہارے حوالے کردیں کیا آپ کا مکان محفوظ ہے ؟ اس نے کہا ہاں ،ایاس نے کہا تو مال رکھنے کے لئے کوئی مناسب جگہ تیار کرلو اور اس کو اٹھاکر لے جانے والے مزدوروں کا بھی انتظام ہونا چاہئے ۔پھر وہ امانت رکھنے والا شخص آیا تو اس سے ایاس نے کہا کہ اب تم جاکر اس سے اپنا مال مانگو ،اگر وہ تمہارا مال دیدے تو ٹھیک ہے اور اگر انکار کرے تو اس سے کہنا کہ میں قاضی کو بتا دوں گا ، چنانچہ یہ شخص اس کے پاس گیا اور اس کے کہا کہ میرا مال دیدے ورنہ میں قاضی کے پاس جاکر شکایت کر دوں گا اور پرا واقعہ ان سے بیان کردوں گا ۔
اس نے اس کا مال اس کو واپس دے دیا اس شخص نے ایاس کے پاس جاکر اطلاع دی کہ اس نے مال واپس کردیا ہے پھر وہ امین (جس کے پاس امانت رکھی گئی تھی) ایاس کے پاس پہنچا تو انہوں نے اس کو مار پیٹ کر نکلوا دیا اور کہا کہ اے خیانت کرنے والے ! خبر دار کبھی ادھر کا رخ بھی نہ کرنا ۔[ایضاً]
تیسرا واقعہ] جاحظ نے ذکر کیا کہ ایاس بن معاویہ نے زمین میں ایک شگاف دیکھ کر کہا کہ اس میں کوئی جانور ہے لوگوں نے غور سے دیکھا تو اس میں سانپ تھا ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیسے سمجھے کہ اس میں کوئی جانور ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس شگاف میں دو اینٹ کے درمیان کچھ نمی دیکھ کر میں سمجھا کہ نیچے کوئی سانس لینے والی شیئ ہے ۔[ایضاً]
چوتھا واقعہ]جاحظ کہتے ہیں کہ ایاس سفر حج میں تھے کہ ایک کتے کی بھونکنے کی آواز سن کر کہنے لگے کہ یہ کتا بندھا ہوا ہے ۔ پھر اس کے بھونکنے کی آواز آئی تو بولے کہ اب وہ کھول دیا گیا ہے ، جب لوگ (آبادی میں) پانی تک پہنچ گئے تو وہاں کے لوگوں سے معلوم کیا تو ایاس کی بات صحیح ثابت ہوئی ، ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیسے سمجھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب کتا بندھا ہوا تھا تو اس کی آواز ایک ہی جگہ سے سنائی دے رہی تھی ، پھر میں نے سنا کہ وہ آواز کبھی قریب ہوجاتی تھی اور کبھی بعید ۔[ایضاً]
پانچواں واقعہ]ایک مرتبہ ایاس کا گزر ( آبادی میں ) پانی پر ہوا تو کہنے لگے کہ میں ایسے کتے کی آواز سن رہا ہوں جو اس بستی سے باہر کا ہے ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیسے پہچانا تو کہا کہ ایک آواز دبی ہوئی ہے اور دوسری آوازیں سخت ہیں ،جب وہاں کے لوگوں سے پوچھا گیا تو ایسا ہی ثابت ہوا کہ ایک اجنبی ( دوسری بستی کا) کتا تھا جس پر اسی بستی کے کچھ کتےبھونک رہے تھے ۔[ایضاً]
چھٹا واقعہ] حضرت عمر بن عبد العزیر رحمۃ اللہ علیہ نےاپنےعامل حضرت عدی بن ارطاۃ کے پاس خط لکھا کہ آپ ایاس بن معاویہ اور قاسم بن ربیعہ جوشنی کو جمع کرکے منصبِ قضا کو ان میں سے جو زیادہ لائق ہے سپرد کردیں ، چنانچہ انہوں نے ان دونوں کو جمع کیا تو ایاس بن معاویہ نے ان سے فرمایا : جناب ! آپ بصرہ کے دونوں فقیہ حضرت حسن بصری اور ابن سیرین علیہما الرحمہ سے میرے اور قاسم ابن ربیعہ کے بارہ میں پوچھ لیں ، اور قاسم ابن ربیعہ حضرت حسن بصری اور ابن سیرین علیہما الرحمہ کے پاس آتے جاتے تھے اور ایاس کا ان دونوں کے پاس آنا جانا نہیں تھا ، اس لئے قاسم ابن ربیعہ کو معلوم تھا کہ اگر ان دونوں سے دریافت کریں گے تو انہیں کا مشورہ دیں گے تو قاسم ابن ربیعہ نے (منصب قضا کے بار گراں سے بچنے کیلئے ) کہا :آپ میرے اور ان کے متعلق دریافت نہ کریں، سو قسم ہے اس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یقیناً ایاس مجھ سے بڑے فقیہ اور امور قضا کا مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں، لہذا اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ مناسب نہیں کہ عہدہ قضا مجھ جیسے جھوٹے کو سپرد کریں اور میں سچ بول رہا ہوں تو آپ کیلئے مناسب ہےکہ آپ میری بات مان لیں ، تو ایاس نے حضرت عدی سے کہا : آپ نے ایک شخص کو پیش کیا پھر اسے جہنم کے کنارے کھڑا کردیا ۔ پھر اس نے اپنے آپ کو جھوٹی قسم کھاکر(منصب قضا کی ذمہ داری سے) بچا لیا جس سے وہ اللہ سے مغفرت طلب کرلے گا(یعنی جھوٹی قسم کا گناہ اللہ سے معاف کرالے گا ) اور جس چیز کا خوف تھا اس سے نجات پاجائے گا ، تو حضرت عدی نے ایاس سے کہا : جب آپ(اتنا سب کچھ) سمجھ گئے تو آپ ہی اس کے زیادہ حق دار ہیں پھر انہیں کو قاضی بنادیا ۔[نفحۃ العرب للشیخ اعزاز علی ، ص۴۸]
ساتواں واقعہ] ایاس بن معاویہ مزنی کی ذہانت کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ ان کے پاس دو آدمی مقدمہ لے کر آئے دو چادروں کے سلسلے میں، ان میں سے ایک چادر سرخ اور دوسری سبز تھی ، تو ان دونوں میں سے ایک نے کہا : میں غسل کرنے کیلئے تالاب میں داخل ہوا اور اپنی چادر رکھ دی پھر یہ شخص آیا اور اپنی چادر میری چادر کے بغل میں رکھ دیا پھر تالاب میں داخل ہوا اور غسل کرکے مجھ سے پہلے نکل گیا ، اور میری چادر لے لی تو میں نے اس کا پیچھا کیا تو اس نے دعوٰی کیا کہ یہ چادر اسی کی ہے ، تو قاضی ایاس نے فرمایا :کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ، قاضی ایاس نے کہا: میرے پاس ایک کنگھی لے کر آؤ ، چنانچہ کنگھی لائی گئی ، پھر آپ نے(پہلے) اس کے سر میں کنگھی کی پھر دوسرے کے سر میں ،تو ان دونوں میں سے ایک کے سر سے سرخ اون اور دوسرے کے سر سے سبز اون نکلا ، تو آپ نے سبز اون والے کیلئے سبز چادر کا اور سرخ اون والے کیلئے سرخ چادر کا فیصلہ فرمادیا ۔[نفحۃ العرب للشیخ اعزاز علی ، ص۳۱]
اس ویب سائٹ پہ مختلف مقالہ نگاروں کی تحریر اپڈیٹ کی جاتی ہے ، اگر آپ ہر اپڈیٹ وقت پر چاہتے ہیں تو آپ گھنٹی نما لال بٹن کو کلک کرکے سبسکرائب کرلیجئے ۔ شکریہ
ماشاءاللہ بہت زبردست
شکریہ
پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔
اللّٰه معبودِ برحق مجھے بھی ایسی سمجھ بوجھ اور حکمت نصیب فرمائے۔ آمین یارب العالمین
پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔
اللّٰه معبودِ برحق مجھے بھی ایسی سمجھ بوجھ اور حکمت نصیب فرمائے۔ آمین یارب العالمین
آمین