بسم الله الرحمن الرحيم
طہارت سے متعلق نئےمسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو
موبائل:9451924242
14-سسٹو اسکوپ
یہ ایک ایساطبی آلہ ہے جس میں باریک نلکی لگی رہتی ہے اورجس کے سرے پر کیمرہ ہوتا ہے، اسے پیشاب کے راستے سے اندر داخل کرکے مثانہ اور گردے وغیر ہ کی پتھری،سوجن یا سوزش کا مشاہدہ کیاجاتا ہے۔
اور پیشاب ، پائخانہ کے راستے سے کسی چیز کو داخل کرنے اور نکالنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، کیونکہ یقینی طور پر اس کے ساتھ گندگی کے اثرات باہر آئیں گے گر چہ اس کی مقدار بہت ہی معمولی کیوں نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
’’کان رسول اللہﷺ یامرنا اذاکنا سفرا الاننزع خفافنا ثلاثۃ ایام ولیالھن الامن جنابۃ ولکن من غائط وبول ونوم‘‘ (جامع ترمذی:96)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ سفر میں ہم تین دن اور رات تک اپنا خف نہ نکالیں الا یہ کہ جنابت پیش آجائے تو اسے اتارنا ہے البتہ پیشاب پاخانہ کے کسی بھی جزء اور نیند کے بعد اسے نہیں اتارنا ہے ۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب و پائخانہ کی کسی بھی مقدار کے نکلنے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
اور ان راستوں سے کسی چیز کو داخل کرکے نکالنے کی وجہ سے غالب گمان یہ ہے کہ اس کے ساتھ گندگی بھی باہر آئے گی اورظن غالب کا اعتبار کرتے ہوئے حدیث میں نیند کو ناقض وضو میں شمار کیا گیا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ہوا خارج ہونے کا امکان ہوتا ہے ۔اوران راستوں کے ذریعے کسی چیز کوداخل کرکے نکالنے پرتری اورنمی کا نہ ہونا ایک نادر واقعہ ہے اور کسی نادر واقعہ پر مسئلے کا دار و مدار نہیں ہوتا۔ (1)
(۱)’’ولو ادخلت فی فرجھا اودبرھا یدھا اوشیئا آخر ینتقض وضوء ھا اذا اخرجتہ لانہ یستصحب النجاسۃ،(تبیین الحقائق 8/1) وکل ما وصل الی الداخل من الاسفل ثم عاد نقض لعدم انفکاکہ عن بلۃ وان لم یتم الدخول بان کان طرفہ فی یدہ، (الہندیہ 10/1)ولو احتشی فی قبلہ او دبرہ قطنا اومیلا ثم خرج بلا بلۃ فقیل لاینقض…وقبل ینقض… قلت وھو الصواب وخروجہ بلابلۃ نادر جداً‘‘(الفروع لابن المفلح141/1.نیز دیکھئے المجموع للنووی13/2)
15-انڈو اسکوپی
بعض امراض مثلاً پیٹ کے کینسرکی تشخیص کے لیے معدہ تک کیمیرے والی نلکی داخل کی جاتی ہے اور بسااوقات اس کے ذریعے گوشت کے ٹکڑے کو بھی تجربے کے لیے کاٹ کر نکال لیا جاتا ہے، اس پائپ کو پیٹ میں داخل کرنے اور نکالنے سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑےگا کیونکہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ پیٹ کے ذریعے منہ کے راستے کسی چیز کے نکلنے سے وضو اسی وقت ٹوٹیگا جب کہ وہ کثیر ہو اور ظاہر ہے کہ معدہ سے گزر کر جو نلکی باہر آئے گی اس پرنجاست کی بہت معمولی مقدار لگی ہوگی(1)اسی طرح سے گوشت کے ٹکڑے کا نکالنا بھی ناقض وضو نہیں ہے (2)البتہ اگر اس عمل کے نتیجے میں منہ سے خون نکل آئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، کیونکہ خون کا نکلنا مطلقاً ناقض وضو ہے خواہ وہ قلیل ہو یاکثیر ہو۔ (3)
واضح رہے کہ اگر یہ نلکی پیچھے کے راستہ سے معدہ تک پہنچائی گئی ہے تو بہر صورت ناقض وضو ہے، اس پر نجاست کا نظر آنا ضروری نہیں ہے۔ (4)
(1)’’کقی حیۃ اودودکثیرلطھارتہ فی نفسہ، ای وماعلیہ قلیل لایملأ الفم فلایعتبرناقضاً‘‘ (رد المحتار 266/1)
(2)’’فصار کما لوانفصل قطعۃ من اللحم فانہ لاینقض‘‘ (البحر الرائق 82/1)
(3)’’فخروج الدم ناقض بلاتفصیل بین کثیرہ وقلیلہ‘‘ (السعایہ219/1.رد المحتار 267/1)
(4)’’لان ھذہ الاشیاء وان کانت طاھرة فی انفسھما لکنھا لا تخلوعن قلیل نجس یخرج معھا‘‘ (البدائع25/1)
16- خون نکالنا اور چڑھانا
بعض امراض کی تشخیص یا خون منتقل کرنے کے لیے جسم سے خون نکالنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور جسم سے خون نکلنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اس لیے اگر انجکشن یا کسی اور ذریعے سے اتنی مقدار میں خون نکالا جائے کہ وہ جسم سے نکل کر بہہ سکے تواس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے گا۔(1) چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’من اصابہ قی او رعاف او قلس او مذی فلینصرف ثم ليبني علی صلاتہ وھو فی ذلک لایتکلم‘‘(ابن ماحه:1221)
اگر کسی کو قے ہوجائے یا نکسیر پھوٹ پڑے یا مذی نکل آئے تو نماز چھوڑ کر جائے اور وضو کرکے آئے اور پھر جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے شروع کردے بشرطیکہ اس دوران وہ بات چیت نہ کرے ۔سندی اعتبار سے حدیث ضعیف ہے مگر یہ روایت متعدد سندوں سے منقول ہے اس لیے یہ حسن لغیرہ سے فروتر نہیں، نیز صحیح سند کے ساتھ مرسلاً بھی منقول ہے (2) اور مرسل روایت جمہور محدثین کے نزدیک لائق دلیل ہے، علاوہ ازیں حضرت علیؓ، (3)ابن عمرؓ، (4) ابن عباسؓ اور سلمان فارسیؓ کے قول اور فتوے کی حیثیت سےیہ روایت ثابت ہے اور کسی صحابی کا خلاف قیاس فتویٰ مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے لہذا ان تمام تائیدات کی وجہ سے مذکورہ حدیث استدلال کے لائق ہوجاتی ہے ۔البتہ خون چڑھانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ جسم میں نجاست داخل کرنے کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا، جیسے کہ وضوکے بعد شراب پینا ناقض وضو نہیں ہے، البتہ اگر سرنج لگانے کی وجہ سے خون نکل کر بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
(1) ، وکذا ینقضہ علقۃ مصت عضوا وامتلأت من الدم ومثلھا القراد ان کان کبیرا لانہ حینئذ یخرج منہ دم مسفوح سائل والا تکن العلقۃ والقراد کذالک لاینقض کبعوض وذباب کما فی الخانیۃ لعدم الدم المسفوح۔ (رد المحتار268/1) (2)دیکھیے علل الحدیث لابن ابی حاتم:21/1، السنن الکبری للبیہقی:252/2. دارقطنی154/1۔ (3) الجواھرالنقی مع البیھقی: 256/2، علل الحدیث:۱/۳۱۔ (4) قال البیھقی ھذا عن ابن عمرصحیح۔ البیھقی: 256/2 .
17- ڈائلسیز
گردے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ خون میں موجود زہریلے اور فاسد مادے کو صاف کرکے اسے پیشاب کے راستے سے باہر کردیتا ہے اورجب کسی کا گردہ ناکاہ ہوجاتا ہے تو پھر مصنوعی طریقے سے خون کی صفائی کی جاتی ہے جسے ڈائلسیزکہا جاتا ہے اور اس وقت اس کی دو صورتیں رائج ہیں:
۱۔ مصنوعی گردے کے ذریعے خون کی صفائی:
اس طریقے میں ہاتھ یا گردن کی رگ میں ایک پائپ لگا ديا جاتا ہے اورپھر اس کے ذریعے جسم سے خون نکال کرایک مشین سے گزاراجاتا ہے جسے مصنوعی گردہ کہاجاتا ہے، پھر اس کے ذریعہ خون صاف کرکے دوبارہ جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس طریقے میں جسم سے خون کو نکالاجاتا ہے اور یہ گزر چکا ہے کہ جسم سے خون نکالنے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا کسی نے وضو کے بعد ڈائلسیز کرایا ہے تو پھر اس کا وضو باقی نہیں رہا۔
۲۔ پریٹونیم کے ذریعے خون کی صفائی:
پریٹونیم اوجھڑی میں چاروں طرف موجود ایک جھلی کا نام ہے اور خون صاف کرنے میں یہ بھی بالکل مصنوعی گردے کی طرح کام کرتا ہے اورجس میں انسان کے قدو قامت کے اعتبار سے ایک سے تین لیٹر تک پانی بھرنے کی گنجائش ہوتی ہے، اس میں ایک نلکی کے ذریعے سے خون صاف کرنے والا سیال مادہ داخل کیاجاتا ہے اور پھر کچھ گھنٹوں کے بعد اس کو نکال لیاجاتا ہے جس کے ذریعے خون میں موجود فاسد مادے اور زہریلے اثرات باہر آجاتے ہیں اور اس پانی میں پیشاب کے تمام اجزا ء موجود ہوتے ہیں اور وہ بالکل پیشاب کے مانند ہوتا ہے اور اس طرح سے وہ ایک نجس پانی ہوتا ہے، اور جسم کے کسی بھی حصے سے نجاست کا نکلنا ناقض وضو ہے، اس لیے اس اس طرح سے ڈائلسیز کرنے سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ (1)
(1) وینقضہ خروج کل خارج نجس منہ ای من المتوضی الحی معتادا اولا من السبیلین اولا۔(الدر المختار:260/1)
18-ناف کے نیچے کے حصے کو بے حس کر دینا
آپریشن یا میڈیکل ٹیسٹ کے لیے ناف کے نیچے کے حصے کو سن کر دیا جاتا ہے، اس حالت میں مریض گرچہ پورے ہوش وحواس میں رہتا ہے لیکن اسے پیشاب و پائخانہ اور ہوا کے نکلنے کا احساس نہیں رہتااور اس ادراک کے نہ ہونے کی بنیاد پرحدیث میں نیند کو ناقض وضو شمار کیاگیا ہے، حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:
’’وکاء السہ العینان فمن نام فلیتوضأ‘‘ (ابوداؤد:203.ابن ماجہ:477.دارمی:749)
شرمگاہ کے لئے آنکھیں بندھن کی طرح ہیں لہذا جو سوجائے وہ وضو کرے اور نیند ہی کی طرح بے ہوشی بھی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے، اس لیے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ بے ہوشی کی وجہ سے وضو واجب ہے۔(1)لہٰذا جسم کے نچلے حصے کو بے حس کردینے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے گا، کیونکہ اس با ت کا امکان ہے کہ ہوا خارج ہوئی ہو اور اسے پتہ نہ چلا ہو۔
(1)اجمعت الامۃ علی انتقاض الوضوء بالجنون والاغماء(المجموع 28/2)
19-نلکی کے ذریعہ پیشاب و پائخانہ
بعض امراض کی وجہ سے طبعی طریقہ پر فضلا ت کانکالنا دشوار ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں جگہوں پر یا پیٹ کے نچلے حصے میں جگہ بناکر پائپ لگا دیا جاتا ہے، جس سے پیشاب و پائخانہ خارج ہوکر ایک تھیلی میں جمع ہوتا ہے اور اس کے خارج ہونے میں مریض کے ارادہ و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہوتا ہے اوریہ گزر چکا ہے کہ نجاست کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ نجاست متعین جگہ سے نکلے یاجسم کے کسی بھی حصے سے، البتہ چونکہ اسے روکنے کی قوت موجود نہیں ہے اس لیے ایسے شخص کو معذور سمجھا جائے گا اور معذور کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر وقت کی نماز کے لیے تازہ وضو کرے، گرچہ اس کے علاوہ وضو کو توڑنے والی چیزوں میں سے کوئی چیز پیش نہ آئی ہو۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ:
’’جاء ت فاطمۃ بنت حبیش الی النبیﷺ فقالت یا رسول اللہ انی امرأۃ استحاض فلا اطھرافادع الصلوٰۃ قال لا إنما ذلک عرق ولیست بالحیضۃ فاذا اقبلت الحیضہ فدعی الصلاۃ واذا ادبرت فاغسلی عنک الدم وصلی، قال ابو معاویۃ فی حدیثہ وقال توضئی لکل صلاۃ حتی یجییٔ ذلک الوقت‘‘ (جامع ترمذي :116)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت فاطمہ بنت حبیش آئیں اور عرض کیا : اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کی بیماری ہے اس لئے میں کبھی پاک نہیں رہتی ۔کیا میں نماز چھوڑ دوں؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں۔وہ تو رگ کا خون ہے ۔حیض نہیں ہے ۔اس لئے جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب ختم ہوجائے تو خون دھو دو اور غسل کرکے نماز پڑھو اور ایک روایت میں ہے کہ ہر نماز کے لئے وضو کرو۔یہاں تک کہ تمہارے حیض کا زمانہ آجائے۔
اورہر وضو سے پہلے تھیلی کو بدل دینا یا تھیلی میں موجود گندگی کو صاف کردینا ضروری ہے(1) لیکن اگر ایسا کرنے میں شدید مشقت ہو یا تھیلی تبدیل کرنے میں ناقابل تحمل مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے تو پھر اس کے ساتھ نماز اداکرنے کی اجازت ہوگی، اس لیے کہ:
’’لایکلف اللہ نفساً إلا وسعھا‘‘ (سورہ البقرہ:286)
اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتے ۔
ایسا شخص گھر پہ نماز پڑھے ، پیشاب کی تھیلی کے ساتھ مسجد نہ آئے کیونکہ مسجد میں کسی ناپاک چیز کو لانا مکروہ اور اس سے مسجد کی آلودگی کا خطرہ ہے نیز دوسرے لوگ اس سے گھن محسوس کرتے ہیں اور انھیں تکلیف ہوتی ہے (2)
(1)ويجب رد عذره او تقليله بقدر قوته (الدر المختار307/1)
(2)(قوله: وإدخال نجاسة فيه) عبارة الأشباه: وإدخال نجاسة فيه يخاف منها التلويث. اهـ. ومفاده الجواز لو جافة، لكن في الفتاوى الهندية: لايدخل المسجد من على بدنه نجاسة .(ردالمحتار 665/1،مطلب في أحكام المسجد)
20-مصنوعی طریقہ تولید کے بعد غسل
مردو عورت میں کسی نقص کی وجہ سے طبعی طریقے پر نطفہ بار آور نہ ہوسکے تو پھر اولاد کے حصول کے لیے مصنوعی طریقہ اپنایا جاتا ہے جس میں کبھی مرد سے مادۂ منویہ لے کر سرنج کے ذریعے عورت کے رحم میں پہنچا دیا جا تا ہے اور کبھی دونوں کے تولیدی مادے کو کچھ دنوں تک ایک مخصوص ٹیوب میں رکھاجاتا ہے اور پھر اسے بچہ دانی میں منتقل کردیا جاتا ہے۔
دو نوں صورتوں میں جب کہ تولیدی مادے کو مرد یا عورت سے طبی آلات کے ذریعہ حاصل کیا گیاہے اور اس کے نکلنے میں شہوت کو دخل نہیں ہے تو دونوں میں سے کسی پر غسل فرض نہیں ہے، کیوں کہ غسل فرض ہونے کے لیے منی کا شہوت کے ساتھ نکلنا ضروری ہے، حنفیہ، مالکیہ اورحنابلہ اسی کے قائل ہیں(1)، چنانچہ حضرت علیؓ کہتے ہیں :
’’کنت رجلا مذاء فجعلت اغتسل حتی تشقق ظھری۔ فذکرت ذالک للنبیﷺ، فقال رسول اللہﷺ لاتفعل، اذا رایت المذی فاغسل ذکرک وتوضا وضوءک للصلاۃ فاذا فضخت الماء فاغتسل‘‘(ابوداؤد:206)
مجھے کثرت سے مذی آتی تھی اور میں اس کی وجہ سے غسل کیا کرتا تھا جس سے میری پیٹھ پھٹنے لگی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا:غسل مت کیا کرو۔جب مذی نظر آئے تو اپنی شرمگاہ دھو دو اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرو۔اور جب جوش کے ساتھ پانی نکلے تو غسل کرو۔
حدیث میں وارد لفظ” فضخ “کے معنی ہیں شدت و شہوت کے ساتھ نکلنا (عون المعبود)لہٰذا شہوت کے بغیر منی نکلنے پر غسل واجب نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذی کے نکلنے پر غسل نہیں ہے، حالانکہ وہ بھی منی ہی کی طرح ہے، کیونکہ وہ شہوت کے ساتھ نہیں نکلتی ہے۔
البتہ امام شافعی کے نزدیک شہوت کے بغیر بھی منی نکلنے سے غسل واجب ہے، (المجموع 158/2)اس لئے احتیاطاً غسل کرلینا چاہئے ۔
اور شہوت کے بغیر بھی مرد و عورت سے منی نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا (البدائع 24/1)
اسی طرح سے طبی آلات کی ذریعے شرمگاہ کے راستے سے عورت کا بیضہ حاصل کیا گیا ہے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر پیٹ میں سوراخ کرکے بیضہ کوحاصل کیاگیا ہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا الا یہ خوننکل کر بہہ پڑے کیونکہ بیضہ کے ناپاک ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اس لیے اباحت اصلیہ کے ضابطے سے اسے پاک سمجھاجائے گا۔ اور اگر ناپاک بھی ہو تو وہ اس درجہ باریک اور لطیف ہوتا ہے کہ خورد بین کے بغیر اسے نہیں دیکھاجاسکتا ہے، اس لیے وہ قلیل کے درجے میں اور اس طرح سے کم مقدار میں ناپاکی معاف ہے۔
اور مرد سے منی حاصل کرکے طبی آلات کے ذریعے بچہ دانی میں داخل کرنے سے عورت پر غسل واجب نہیں ہے بشرطیکہ اس عمل کی وجہ سے اسے انزال نہ ہو، چاروں امام اسی کے قائل ہیں۔ (2)وجہ یہ ہے کہ شریعت نے غسل کو اس شخص پر واجب قرار دیا ہے جس سے منی خارج ہو، کیونکہ شہوت کے ساتھ منی کے نکلنے سے لذت اور تسکین حاصل ہوتی ہے اور ٹیوب کے ذریعے منی داخل کرنے میں یہ وجہ نہیں پائی جاتی۔ (۱)
(1) دیکھیے الہدایہ:61/1. عقد الجواهر الثمينة لابن الشاش المالكي:65/1.المغني 128/1.
(2)ولو جامعھا فیما دون الفرج فدخل منیہ فی فرجھا لا یجب علیھا الاغتسال منہ۔( البناية275/1)سالت مالکاعن الرجل یجامع امرأتہ فیما دون الفرج فیقضی خارجاً من فرجھا فیصل الماء الی داخل الفرج اتری علیھا الغسل قال لا ان تکون التذت یرید بذلک انزلت۔(المدونة29/1.نیز دیکھئے: المھذب:30/1، الانصاف:232/1)
21- بے ہوشی کے بعد غسل
دو ا وغیرہ کے ذریعہ کسی کو مکمل طورپر بے ہوش کر دیاجائے تو ہوش آنے پر اس کے لیے غسل کرلینا مستحب ہے گرچہ کپڑے یاجسم پرمنی وغیرہ کے اثرات نہ ہوں۔(1)
چنانچہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں :
’’ثقل النبیﷺ فقال اصلی الناس قلنا لا، ھم ینتظرونک قال ضعوا لی مائً فی المخضب قالت ففعلنا فاغتسل فذہب لینوء فاغمی علیہ ثم افاق فقال اصلی الناس قلنا لا، ھم ینتظرونک یارسول اللہ، قال: ضعوا لی ماء فی المخضب قالت فقعد فاغتسل‘‘ (صحیح بخاری:687.صحیح مسلم:418)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بوجھل ہوگئی ۔آپ نے پوچھا کیا لوگ نماز پڑھ چکے ؟ہم نے کہا نہیں ۔وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا: میرے لئے لگن( ٹب )میں پانی رکھ دو۔ ہم نے ایسا ہی کیا ۔آپ نے غسل فرمایا اور پھر چاہا کہ اٹھیں لیکن آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی اور افاقہ کے بعد پوچھا: لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ہم نے کہا نہیں ۔وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا: میرے لئے لگن میں پانی رکھ دو ۔ پھر آپ نے اس میں بیٹھ کر غسل فرمایا ۔
آپ ﷺ کے اس عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ بے ہوشی سے افاقہ پر غسل کرلینا چاہیے البتہ اگر افاقہ ہونے پر تری دکھائی دے اور اس کے منی ہونے کا یقین ہو تو غسل واجب ہے اور اگر منی یامذی ہونے میں شک ہو تو غسل واجب نہیں ہے۔ (رد المحتار 300/1.308/1)
(1)’’وندب لمجنون افاق وکذا المغمی علیہ‘‘ (الدر المختار:310/1 )
22- کنڈوم کے ساتھ صحبت کرنے سے غسل
مرد کے ختنے کی جگہ کے بقدر حصہ عورت کی شرمگاہ میں داخل ہوجائے تو غسل واجب ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’اذا جاوز الختان الختان وجب الغسل‘‘ (ترمذی:108.ابن ماجہ:608)
جب مرد کے ختنے کی جگہ عورت کے ختنے کی جگہ سے آگے بڑھ جائے تو غسل واجب ہے ۔
اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے منقول روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’اذا التقی الختان الختان وتوارت الحشفۃ فقد وجب الغسل‘‘ (رواہ ابن ابی شیبہ۔ نیل الاوطار278/1)
اور جب مرد وعورت کے ختنے کی جگہ باہم مل جائے اور سپاری چھپ جائے تو غسل واجب ہے ۔
اور بعض روایتوں میں التقاء کی جگہ ملامسہ (چھونے) کا ذکر ہے، اور التقاء وملامسہ (ملنے اور چھونے)کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو، اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص شرمگاہ پر کپڑا وغیرہ لپیٹ کر داخل کرے اور انزال نہ ہوتو غسل واجب نہیں بشرطیکہ حائل کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کی حرارت اور لذت محسوس نہ کریں اور اگر رکاوٹ کے باوجود حرارت اور لذت محسوس ہو تو انزال کے بغیر بھی غسل واجب ہے۔ (1)
اور کنڈوم کے استعمال کامقصد ہی ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں مگرحمل نہ ٹھہرے، اس لیے وہ اس درجہ باریک بنا یاجاتا ہے کہ اس کی موجودگی میں بھی دونوں جنسی لذت حاصل کرتے ہیں لہٰذا اس کے ساتھ جنسی عمل سے غسل واجب ہے گرچہ انزال نہ ہو۔
(1)ولولف ذکرہ بخرقہ و اولجہ ولم ینزل، فالاصح انہ اذا وجد حرارۃ الفرج واللذۃ وجب الغسل والافلا، والاحوط وجوب الغسل فی الوجھین۔ (حاشیہ طحطاوی علی المراقی54/1)
23- حیض روکنے یالانے کے لیے دوا کا استعمال
بعض فرائض کی ادائیگی جیسے کہ حج کرنے یا رمضان کے خیرو برکات سے استفادے کے لیے حیض روکنے والی دواؤں کا استعمال جائز ہے بشرطیکہ اس سے صحت اور بچہ جننے کی صلاحیت کو کوئی نقصان نہ پہنچے، نیز اگر اس سے شوہر کا کوئی حق متعلق ہو تو اس سے اس کی اجازت لے لی جائے اور جائز ہونے کے باوجود بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے، کیونکہ فطری طریقے پر چلنے میں سلامتی ہے، محدث عبدالرزاق نے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا کہ:
’’تطاول بھا دم الحیضۃ فارادت ان تشرب دواء بقطع الدم عنھا فلم یر ابن عمر باسا ونعت ابن عمر ماء الاراک‘‘(مصنف عبدالرزاق 318/1)
حیض کا خون زیادہ مدت تک آنے کی وجہ سے اگر کوئی عورت اسے روکنے کے لئے دوا پی لے تو کیا اس میں کوئی قباحت ہے ؟حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور انھوں نے کہا کہ اس کے لئے وہ پیلو کی لکڑی کا پانی استعمال کرے ۔
اور معمر کہتے ہیں کہ:
’’وسمعت ابن ابی نجیح یسأل عن ذالک فلم یریہ باسا‘‘ (حوالہ مذکور)
میں نے سنا کہ ابن نجیح سے اس کے بارے میں پوچھا جارہا تھا تو انھوں نے بھی کوئی حرج نہیں سمجھا ۔
اور دوا کے استعمال کے بعد خون نہ آئے تو عورت پاک سمجھی جائے گی، کیونکہ حیض نام ہے خاص دنوں میں خون کے آنے کا اور جب خون کا آنا بند ہے تو ان خاص دنوں میں وہ پاک رہے گی۔ (1)
اسی طرح سے حیض جلد آنے کے لیے بھی کسی دوا کااستعما ل کرنا درست ہے، بشرطیکہ اس کے لیے شوہر سے اجازت لے لی جائے اور کسی واجب کو ساقط کرنے کے لیے بطور حیلہ اسے نہ اپنایاجائے اور دوا کے ذریعہ آنے والا خون حیض شمار ہوگا، اگر پندرہ دن یا اس سے زائد پاک رہنے کے بعد آئے اور تین دن تک برقرار رہے، گرچہ وہ عادت کے دنوں میں نہ آئے۔
(1) یجب ان یعلم بان حکم الحیض والنفاس والاستحاضۃ لا یثبت الابخروج الدم وظھورہ وھذا ھوظاہرمذھب اصحابنا وعلیہ عامۃ المشائخ۔( فتاوی تاتار خانیہ:330/1)
24-بچہ دانی میں ورم یاکینسر کاعلاج
بچہ دانی میں ورم یا کینسر کا علا ج دو طرح سے کیاجاتا ہے، ایک ریزکے ذریعے اس کی سینکائی کی جاتی ہے اور دوسرے بچہ دانی کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے، پہلی صورت میں علاج کے دوران یا اس کے بعد آنے والے خون کو حیض کاخون سمجھاجائے گا بشرطیکہ وہ حیض کے دنوں میں آئے اور اگر حیض کے دنوں کے علاوہ آئے تو اسے استحاضہ کا خون باور کیا جائے گا کیوں کہ وہ رگوں کا خون ہے جو اس کے علاج کی وجہ سے بہہ پڑا ہے، رسول اللہ ﷺ سے حضرت فاطمہ بنت جیش نے پوچھا:
’’انی استحاض فلا اطھر افادع الصلوٰۃ فقال علیہ الصلوٰۃ والسلام لا انما ذلک عرق ولیس بحیض فاذا اقبلت حیضتک فدعی الصلوٰۃ واذا ادبرت فاغسلی عنک الدم ثم صلی‘‘(صحیح بخاری:226)
مجھے استحاضہ کا مرض لاحق ہے کیا نماز چھوڑ دوں ؟فرمایا : نہیں ۔وہ تو رگ کا خون ہے ۔حیض نہیں ہے ۔لہذا جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز نہ پڑھو اور جب وہ وقت ختم ہوجائے تو خون دھوکر اور غسل کرکے نماز پڑھو۔
اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دو، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض کی عادت کے دنوں کے علاوہ جو خون آئے اسے حیض کا خون نہیں سمجھاجائے گا۔دوسری صورت میں جب کہ بچہ دانی کوختم کردیاجائے اور اس کے بعد بھی خون آئے تو اسے حیض کاخون نہیں سمجھاجائے گا، کیونکہ حیض کا خون وہ ہے جو بچہ دانی سے آئے، چنانچہ حیض کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’ھوالدم الخارج من الرحم الممتد الی وقت معلوم‘‘(تحفة الفقهاء/33)
حیض وہ خون ہے جو بچے دانی سے آئے اور ایک مخصوص وقت تک دراز رہے ۔
25-ڈیجیٹل قرآن کو بے وضو چھونا
موبائل وغیرہ میں جس وقت اسکرین پر قرآنی آیت ظاہر ہو تو اس وقت موبائل کو بلاوضو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے، کیونکہ اس وقت وہ قرآن کے مانند ہے، اور حدیث میں کہا گیا کہ صرف پاک شخص ہی قرآن کو ہاتھ لائے(” أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ “موطا :534)
البتہ کسی قلم یا اس مقصد کے لیے بنائی گئی پنسل سے موبائل کو ہاتھ لگائے بغیر اسے پڑھناممکن ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
اور اگر اسکرین پر حروف ظاہر نہ ہوں بلکہ صرف آواز آئے تو پھر موبائل کو بلاوضو ہاتھ لگانا اور اس کے ذریعے قرآن سننا درست ہے۔
26-جنابت اور بے وضو ہونے کی حالت میں قرآن کی کمپوزنگ
جنابت کی حالت میں قرآن پاک پڑھنا بھی ممنوع ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرئنا القرآن مالك يكن جنبا (ترمذی:146)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کے علاوہ ہر حال میں ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے ۔
اور انھیں سے منقول ایک روایت میں ہے :
لا يحجبه عن القرآن شيء ليس الجنابة(ابوداؤد:229)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن کے پڑھنے سے نہیں روکتی تھی۔
گویا کہ جنابت کی وجہ سے ناپاکی کا اثر منہ اور ہاتھ دونوں تک پھیل جاتا ہے اس لئے اس حالت میں قرآن پڑھنا اور چھونا دونوں ممنوع ہے اور بے وضو ہونے کی صورت میں ناپاکی کا اثر صرف چھونے تک محدود رہتا ہے اس لئے ہاتھ لگائے بغیر تلاوت جائز ہے ۔اور دونوں صورتوں میں اسے براہ راست چھونا ناجائز ہے البتہ کسی علاحدہ غلاف وغیرہ کےذریعے اسے ہاتھ لگانے میں کوئی حرج نہیں اس لئے اگر اسکرین پر ہاتھ نہ لگے تو جنابت اور بے وضو ہونے کی حالت میں کمپوزنگ درست گرچہ بہتر یہ ہے کہ مکمل طور پر پاکی کی حالت میں کمپوزنگ کی جائے اور جنابت و بے وضو ہونے کی حالت میں کمپوزنگ سے احتیاط کیا جائے (1)
(1)ولا تکرہ کتابة قرآن والصحیفة أو اللوح علی الأرض عند الثاني خلافاً لمحمد، وینبغي أن یقال: إن وضع علی الصحیفة ما یحول بینھا وبین یدہ یوٴخذ بقول الثاني وإلا فبقول الثالث، قالہ الحلبي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، ۳۱۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”خلافاً لمحمد“: حیث قال: أحب إلي أن لا یکتب ؛ لأنہ في حکم الماس للقرآن ، حلیة عن المحیط، قال في الفتح: والأول أقیس؛ لأنہ في ھذہ الحالة ماس بالقلم وھو واسطة منفصلة فکان کثوب منفصل إلا أن یمسہ بیدہ ۔ قولہ: ”وینبغي الخ“: یوٴخذ ھذا مما ذکرنا عن الفتح (رد المحتار)، قولہ: ”علی الصحیفة“: قید بھا؛لأن نحو اللوح لا یعطی حکم الصحیفة؛ لأنہ لا یحرم إلا مس المکتوب منہ،ط (المصدر السابق)، ثم الحدث والجنابة حلا الید فیستویان في حکم المس، والجنابة حلت الفم دون الحدث فیفترقان في حکم القرء ة (الھدایة، کتاب الطھارة، باب الحیض والاستحاضة، ۱: ۶۴، ط: المکتبة الرشیدیة، کوئتة، باکستان) ۔
27-ترجمہ قرآن کو بے وضو ہاتھ لگانا
قرآن کریم کی ترجمے کو خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہوں بے وضو ہاتھ لگانا مکروہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے قرآن کے معانی کی ترجمانی ہوتی ہے اس لئے اس کا احترام بھی مطلوب ہے ۔(1)
(1) ولو كان القرآن مكتوبا بالفارسية يكره لهم مسه عند ابي حنيفة وكذا عندهما على الصحيح (الهندية 20/1)