*پیتا ہوں دھو کے خسروِشیریں سخن کے پاؤں*
طوطیِ ہند حضرت امیر خسروؔ
(1253 تا 1325)
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری ۔۔۔
تصور کریں ۔۔۔۔۔۔
تیرھویں و چودھویں صدی عیسوی کا ۔۔۔۔
جب فتنہ تاتاری کی یورش سے پورا وسطِ ایشاء( middle east ) خصوصا بلادِ اسلامیہ۔۔کی چولیں ہل گئیں تھیں ۔۔بڑے بڑے سورماؤں اور بہادروں نے نقلِ مکانی اور ہجرت کو غنیمتِ خاطر اور حرزِ جاں بنا لیا تھا
انہیں مہاجرین میں سے ترک خاندان سیف الدین نے (جو کہ اپنے وطن میں والینٹر فوجی دستہ کے چیف تھے) ماوراء النھر سے ہجرت کرکے ہندوستان کا رخ کیا ۔۔
اس وقت ہندوستان میں قطب الدین ایبکؒ کے آزاد کردہ غلام و داماد غلام ونش ( Dynasty of ghulam) کے بانی ولیِ کامل سلطان شاہی سلطان التمش تخت نشین تھے۔۔
ترک کمانڈر سیف الدین نے اپنے فوجی دستہ کے ہمراہ سلطان التمش کے فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔۔۔
بہادری سے متاثر ہوکر ۔۔التمش نے انکو پٹیالی ضلع ایٹہ اترپردیش کی جاگیر عطا کی۔۔۔۔
پٹیالی مومن آباد میں اس بہادر سپاہی کے گھر ایک بچہ کی کلکاری گونجتی ہے ۔۔
سپاہی اس نو زائیدہ بچے کو کپڑے میں لپیٹ کر تحنیک ( کسے بزرگ سے چوہارے یاشیرینی چبواکر بچے کے منہ میں ڈالنا) کے لئے پڑوس میں مقیم ایک مجذوب کے پاس لے جاتا ہے
نوزائیدہ بچے کو دیکھکر مجذوب پکار اٹھتا ہے یہ بچہ تو خاقانی (ایران کے ایک مشہور درویش) سے بھی آگے جائیگا۔۔۔۔۔
یہی بچہ آگے چلکر۔۔۔سلطان الشعراء، برہان الفضلاء، فنا فی الشیخ، شیریں سخن، عالمِ علومِ زمانہ۔۔ *حضرت امیر خسرو نظامیؒ* کہلایا۔۔۔
امیر خسرو کی پیدائش 1253 پٹیالی مومن آباد ضلع ایٹہ اتر پردیش میں ہوئی۔
آٹھ سال کی عمر میں والد سیف الدین کا انتقال ہوگیا۔۔
اسکے بعد دہلی اپنے نانا عمادالملک جو کہ دربارِ شاہی کے خاص رہ چکے تھے۔۔زیرِ کفالت آگئے۔۔۔نانا نے خسرو کا بہت خیال رکھا۔۔۔
بچپنے سے سعادت مندی کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے۔۔تھے۔۔
خسرو کی 72 سالہ زندگی ۔ لگ بھگ آٹھ بادشاہوں کا عروج و زوال مختلف جنگی مہمات ۔تصنیف و تالیف رزم و بزم کی جوہر و رونق سے سرشار۔۔فارسی زبان کے علاوہ علاقائی ایک درجن سے زائد زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ سینکڑوں کتابیں جو سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں آپکے قلم سے نکلے۔۔۔جن میں سے ۔بیس کے علاوہ۔ بقیہ نایاب ہیں ۔۔گردشِ زمانہ اسکی حفاظت نہ کرسکا
امیر خسرو ایک عبقری ( genius) شخصیت تھے۔۔ایک عظیم قصہ گو، قصیدہ گو ایک عظیم مثنوی نگار، ایک عظیم غزل گو ایک عظیم ماہرِ چیستاں، ایک عظیم نثر نگار ،ایک عظیم صوفی، ایک عظیم ماہر فن موسیقی۔۔ سخنے دو سخنے کہ مکرنیاں۔۔گھر کی کنیز تھی۔۔
صوفی کے حیثیت سے فنا فی اللہ، ندیم کے حیثیت سے ارسطوئے زمانہ ،عالم کے حیثیت سے متبحر علامہ،۔مہارتِ موسیقی کے حساب سے امام، مؤرخ کے حیثیت سے بے نظیر محقق، شاعر کی حیثیت سے ملک الشعراء،
اسلام پسندی اور انسانیت پسندی کے وصف سے مزین اونچ نیچ تعصب و تنگ نظری سے خدا واسطے بیر تھا۔۔انکا یہ دوہا انسانیت کی خمیر سے تیار ہے
*خسروؔ دریا پریم کا الٹی واکی دھار*
*جو اترا سو ڈوب گیا جو ڈوبا سو پار*
یہی وجہ ہے کہ سات صدیاں گزرجانے کے بعد بھی نغمہِ خسرو ترو تازہ ہے۔۔بقول اقبال مرحوم
*رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی*
*ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمہِ خسرو*
جب اردو زبان اپنے قدموں کے بل کھڑی بھی نہ ہوئی تھی اور اسکا ھیولیٰ ابھی آب و گِل میں تھا خسرو نے گھٹنوں کے بل رینگنے والی اس زبان میں شعر و شاعری کا راگ چھیڑا اور اس دوشیزہ کے مانگ میں شاعری کا حسین سیندور بھردیا۔۔
اسی وجہ سے تاریخی اعتبار سے خسرو کو اردو کا پہلا شاعر اور اردو شاعری کا باوا آدم کہا جاتا ہے
غالب کی جلوہ صدرنگ شاعری کی معنویت بھی خسرو کے سامنے طفلِ مکتب ہے مگر غالب کی وسعتِ ظرفی و کشادہ نظری نے اس حقیقت کا برملا اظہار کیا ہے۔۔اور خسرو کے چشمہِ فکر سے سیرابی پر فخر بھی کیا ہے
*غالبؔ تیرے کلام میں کیوں کر مزہ نہ ہو*
*پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پاؤں*
انگریزی کا ایک محاورہ ہے ۔۔
JACK OF ALL TRADS MASTER OF NONE
مطلب ،،،تنوع کمال کا منافی ہے،،،
ایک شخص کئی ایک جہات سے با کمال نہیں ہوسکتا۔۔۔
خسرو نے اس محاورے کی حقیقت کو توڑ کر اپنے آپ کی مثال پیش کی ہے کہ ہر قاعدہ کلیہ نہیں ہوتا اور ہر کلی میں استثناء ہوتا ہے اور وہ میں ہوں۔۔
انکی شخصیت اساطیری پیکر کی جلوہ گری لیے ہوئے ہے۔۔ہمہ رنگ پہلو، ہر پہلو ایک دوسرے سے مختلف ابھی ایک روپ کی عبقریت کا سحر نہیں ٹوٹا کہ دوسرا روپ اپنے سحر میں گرفتار کرلیتا ہے۔۔
تک بندی اور برجستہ گوئی کا کبھی اور کہیں امتحان لے لو۔فائز المرام لوٹوگے۔ ایک بار کہیں جا رہے تھے پیاس لگی راستے میں ایک کنواں دیکھکر رک گئے۔چار عورتیں پانی بھر رہی تھیں وہاں پہونچے پانی مانگا عورتوں نے پہچان لیا یہ مسافر امیر خسرو ہیں
عورتوں نے کہا پانی تو تب ملیگا جب ہمارے دیئے ہوئے چار الفاظ ( کھیر، چرخا کتا،ڈھول) پر ایک شعر کہ دو۔۔
خسرو بر جستہ بولے۔۔۔
کھیر پکائی جتن سےاور چرخا دیا
چلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
لا پانی لا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر خسرو ذہنی تفریح کے لیے شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اپنی شاعری کے جِلو میں قومی یکجہتی اور وطن دوستی کا راگ چھیڑتے تھے۔
مزید۔انکے اشعار کے ظاہری مفہوم سے یہ مغالطہ نہ پیدا ہو کہ انکے اعصاب پر کوئی عورت سوار تھی کیونکہ یہاں کشادہ ذہن و دل و گوش کی ضرورت ہے۔۔انکے اشعار میں کیفیاتِ باطنی ،وارداتِ قلبی جوش و سرمستی، بے خودی ،وارفتگی، اندرونی سرشاری، چاشنی ،نمکینی، ترکیب کی چستی، کلام کی برجستگی استعاروں اور تشبیہات کی نزاکت و لطافت ،اور سب سے بڑی خوبی وہ خود موسیقی کے استاذ اعظم تھے۔اسی لئے ترنم مصرعوں کے اندر آخری درجے کی ملتی ہے۔آج بھی مزارِ نظام الدین اولیاءؒ کے پاس قوال انکا کلام مترنم لب ولہجے میں پڑھتے نظر آتے ہیں ۔۔۔اور سرور و مستی میں جھوم جانے پر آمادہ کرتے ہیں ۔۔۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ امیر خسروؒ کے تعلقات۔۔کے بارے صرف اتنا کہنا کافی ہے۔۔
کہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ جب خدا مجھ سے پوچھے گا دنیا سے کیا لایا ہے؟ تو میں خسرو کو بارگاہِ رب میں پیش کردونگا۔۔۔اب خسرو کے کلام کو ملاحظہ کریں ۔۔اب اس میں راقم کےلئے بڑی مشکل پیش آئی کہ کون کون سے کلام کا انتخاب کرے۔سارے معیاری ہیں اور شیریں ہیں اور سب میں شہد و شِیر کا ذائقہ ہے چند دیکھیں جو مجھے بے حد پسند ہیں انشاءاللہ آپکو بھی پسند آئیگا
*آفاق را گردیدہ ام مہرِ بتاں ورژیدہ ام*
*بسیار خوباں دیدم ام اما تو چیزے دیگری*
*من تو شدم تو من شدی من جاں شدم تو تن شدی*
*تا پس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری*
میں ملکوں ملکوں گھوما ہوں محبوب لوگوں کی محبت میں الجھا بھی ہوں
سب حسین دیکھے ہیں مگر تو سب سے الگ کوئی اور ہی چیز ہے۔۔
میں تجھ میں سماجاتا ہوں تو مجھ میں سماجا۔
میں جان بن جاتا ہوں تو بدن بن جا۔
تاکہ اسکے بعد کوئی یہ نہ کہ سکے کہ ہم دونوں الگ الگ ہیں
*اگر فردوس بروئے زمیں۔۔۔۔۔ است*
*ھمین است و ھمین است و ھمین است*
اگر زمین پر جنت کہیں ہوتی۔۔
تو یقینا یہیں ہوتی ۔۔۔
*زحالِ مسکیں مکن تغافل ،دْرائے نیناں بنائے بتیاں*
*کہ تابِ ہجراں ندارمِ جاں ،نا لیہو کاہے لگائے چھتیاں*
*شبانِ ہجراں دراز چوں زلف بروز وصلت چوں عمر کوتاہ*
*سکھی پیا کو جو میں نا دیکھوں،تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں*
اس غریب کے ساتھ تغافل مت برت ، باتیں بنا کر آنکھیں نہ پھیر ۔
میری جاں اب جدائی کی تاب نہیں ہے مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگاتے۔
جدائی کی راتیں زلف کی طرح دراز ہیں، اور وصال کے دن عمر کے مانند مختصر۔
اے دوست محبوب کو دیکھے بنا یہ اندھیری راتیں کیونکر کاٹوں۔۔
*گفتم کی روشن از قمر گفتا کی رخسارِ منست*
*گفتم کی شیریں از شکر گفتا کہ گفتارِ منست*
*گفتم کی مرگِ ناگہاں گفتا کہ دردِ ہجرِ من*
*گفتم علاجِ زندگی گفتا کہ دیدارِ منست*
*گفتم کہ حوری یا پری گفتا کہ من شاہِ بتاں*
*گفتم کی خسرو ناتواں گفتا پرستار منست*
میں نے پوچھا کہ چاند سے روشن کیا ہے؟ اس نے کہا میرے گال
میں نے پوچھا شکر سے میٹھا کیا ہے اس نے کہا میری گفتار
میں نے کہا اچانک کی موت کیا ہے اس نے کہا میرے ہجر کا درد
میں نے کہا زندگی کا علاج کیا ہے اس نے کہا میرا دیدار
میں نے کہا تم حور ہو یا پری اس نے کہا کہ میں خوبرؤوں کا سردار
میں نے کہا ناتواں خسرو کیا ہے اس نے کہا میرا بھکت ہے۔(وہ بھی طبیعت سے)
*نمی دام چہ منزل بود شب جائیکہ من بودم*
*بہر سو رقصِ بسمل بود شب جائیکہ من بودم*
*خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسروؔ*
*محمدؐ شمعِ محفل بود شب جائیکہ من بودم*
مجھے یقینی طور پر نہیں معلوم کہ کل رات میں کہا گیا تھا
ہاں اتنا معلوم ہے وہاں پر جانثاروں کا رقص ہورہا تھا کل رات میں جہاں گیا تھا
خسرو کل رات جہاں میں گیا تھا ایک لا مکاں جگہ پر خدا خود میرِ مجلس تھا اور رسولؓ خدا شمعِ محفل تھے۔۔۔
آخر میں خسرو غیاث الدین تغلق کے ہمراہ ایک جنگی مہم پر تھے۔۔۔اطلاع ملی کہ انکے شیخ کا انتقال ہوگیا۔
درد و کرب کی تاب نہ لاکر گریباں چاک و سینہ کوبی کرتے ہوئے شیخِ کے مزارمقدس پہ آ پڑے۔۔
چار مہینے بعد 18 شوال 725ھ مطابق 27 ستمبر 1325عیسوی کو جس کج کلاہِ فقیر کی طرف اپنا قبلہ راست کیا تھا اور جس آستانہ پر وہ خواہشات کی کشتیاں جلا بیٹھے تھے جان جانِ افریں کے سپرد کرکے مالک حقیقی سے جا ملے۔۔
جان دیدی خسرو نے آج پائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو آخر قرار آہی گیا۔۔
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری مقیم حال عثمان آباد مہاراشٹر انڈیا
91+8795492282..