ضعیف حدیثوں پر عمل

ضعیف حدیثوں پر عمل

ذکی الرحمٰن غازی مدنی

جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

حدیث کی لغوی  تعریف

لفظ حدیث لغت میں قدیم کی ضد، یعنی جدید کا ہم معنی ہے۔ اس کی جمع احادیث آتی ہے۔ہر کہی جانے والی بات یا جو دوسروں سے سننے کو ملے اسے حدیث کہہ سکتے ہیں۔ (لسان العرب: ۱/۱۳۱۔ الخلاصۃ فی اصول الحدیث، طیبیؒ:ص۳۰۔ تدریب الراوی:۱/۴۲) 

حدیث اصطلاح شرع میں

اصطلاح میں نبیﷺ سے منسوب ہر قول، فعل، سری جہری رضامندی(تقریر)اورآپؐ کی اخلاقی اور جسمانی صفات کا بیان حدیث کہلاتا ہے۔

کل ما أضیف إلی النبیﷺ من قول أو فعل أو تقریر أو صفۃ۔(نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر:ص۵۲۔ تدریب الراوی:۱/۴۲۔ تیسیر مصطلح الحدیث، طحانؒ:ص۱۴)

بعض حضرات نے اس تعریف میں صحابیؓ اور تابعیؒ سے منسوب اقوال وافعال کو بھی شامل کیا ہے۔ اس اعتبار سے نبیﷺ سے منسوب روایت مرفوع حدیث کہلاتی ہے، صحابی سے منسوب روایت موقوف حدیث اور تابعی سے منسوب روایت مقطوع حدیث مانی جاتی ہے۔(لمحات فی اصول الحدیث، محمد ادیب الصالح:ص۲۷)کچھ لوگوں نے صرف اقوالِ نبویہ کو حدیث مانا ہے۔(توجیہ النظر إلی اصول الاثر، طاہر الجزائریؒ:ص۳)بعض علمائے متاخرین نے سیرتِ پاک کے ہر واقعے کو حدیث کے زمرے میں رکھا ہے چاہے آپﷺ نے کسی فعل کو زندگی میں محض ایک بار کیا ہو، یا اسے صرف ایک راوی نے امت کو بتایا ہو۔(تحقیق معنی السنۃ وبیان الحاجۃ إلیہ:ص۱۸)

ضعیف احادیث

ضعیف حدیث کی تعریف میں مختلف آراء ہیں۔علامہ ابن حجرؒ نے علماء کے متعدد اقوال ذکر کیے ہیں اور ان پر نقد ونظر کے بعد یہ تعریف اختیار فرمائی ہے کہ ’’ہر وہ حدیث ضعیف ہے جس میں مقبولِ حدیث کے اوصاف اکٹھا نہ ہوپائیں۔‘‘ انھوں نے اس تعریف کے بہتر ہونے کی دلیل یہ دی کہ اول یہ مختصر ہے اور دوم ہراعتراض سے خالی ہے۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح، ابن حجرؒ:۱/۴۹۱) 

ہم بتادیں کہ جملہ ضعیف حدیثوں کا ضعف یکساں درجے میں نہیں ہوتا۔ جس طرح صحیح حدیث کے مختلف درجات ہیں، اسی طرح ضعیف حدیثوں کے بھی متنوع درجات ہیں۔ کچھ بہت ضعیف ہیں اور کچھ منکر ہیں۔ضعیف حدیث کی بدترین قسم جعلی اور موضوع روایات ہیں۔ (علوم الحدیث، ابن الصلاح:ص۸۹۔ قواعد التحدیث:ص۱۰۹)موجبِ ضعف اسباب چونکہ کئی ہیں، اس لیے اسی حساب سے ضعیف حدیثوں کے نام بھی الگ الگ ہیں۔ علماء نے بہت سی انواع کے نام گنائے ہیں،مگر ان سب کو تین بڑے خانوں میں رکھا جاسکتا ہے۔(الوضع فی الحدیث، عمر بن حسن فلاتہ:۱/۶۶-۶۷)

(1)وہ ضعیف حدیث جس کے ضعف کی وجہ راوی کا حفظ وضبط ہو۔

(2)وہ ضعیف حدیث جس کے ضعف کا سبب راوی کی دینداری اور کردار کی راستی (عدالت) ہو۔

 (3)وہ ضعیف حدیث جس کے ضعف کا مأخذ راوی کا مجہول الحال ہونا ہو۔

 فی الوقت ضعیف حدیث سے ہماری مراد وہ حدیثیں ہیں جو اپنے شدید ضعف کی وجہ سے اور اس لیے کہ ان کے ضعف کے ازالے کے اسباب ندارد ہیں،کسی صورت میں بھی ضعیف روایت کے زمرے سے نکل کر حسن حدیث کے درجے میں نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ 

جیسا کہ بتایا گیا کہ ضعیف حدیث کا بدترین حصہ موضوع اور جعلی حدیث ہے۔ ویسے ’وضع‘ کے لغوی معنی گرانے، ہٹانے اورنیچے رکھنے کے آتے ہیں۔اسی سے چسپاں کرنے، گھڑ لینے اور جعل سازی کرنے کا مفہوم اس میں پیدا ہوگیاہے۔

دیکھیں:۔(القاموس المحیط:۳/۹۳۔ معجم مقاییس اللغۃ، ابن فارسؒ:۶/۱۱۷۔ تہذیب اللغۃ: ۳/۷۴۔ تنزیہ الشریعۃ، ابو الحسن کنانیؒ:۱/۵۔ لسان العرب:۸/۳۹۶۔ فتح المغیث، سخاویؒ:۱/۲۳۴)

موضوع اسمِ مفعول کا صیغہ ہے۔ موضوع حدیث کا مطلب ہے پایۂ اعتبار سے گری ہوئی، جعلی اور زبردستی دین سے چپکائی گئی بات۔ اصطلاح میں اس سے مراد وہ گھڑا ہوا جھوٹ ہے جسے اللہ کے رسولﷺ سے منسوب کردیا جائے۔ (علوم الحدیث:ص۸۹۔ تدریب الراوی:۱/۲۷۴۔ تیسیر مصطلح الحدیث:ص۸۸)

اگر کسی حدیث کا ضعف فاحش(خوب نمایاں) ہے، دوسری روایات (توابع وشواہد) کی روشنی میں اسے کم یا ختم نہیں کیا جاسکتا ہے تو علماء کا اس بارے میں متفق علیہ فیصلہ ہے کہ اس کے مطابق عمل کرنا یا کرانا جائز نہیں۔ حافظ علائیؒ نے اس سلسلے میں علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔(تدریب الراوی:۲/۲۹۸)لیکن اگر حدیث کا ضعف ایسا ہے کہ اسے ختم کرنا ممکن ہے اور حدیث کے دوسرے طرق اور متابعات وشواہد کی روشنی میں وہ مضبوط ہوجاتی ہے کیونکہ دوسرے طرق اسبابِ ضعف سے خالی ہیں، ایسی صورت میں علماء کے درمیان اختلافِ رائے ہے کہ آیا اسے لینا اور اس کے مطابق عمل کرنا ٹھیک ہے یا نہیں۔ 

اس سلسلے میں تین اقوال ہیں جن کا خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:

(1)پہلا قول مطلقاً جواز کا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ حدیث میں درج معلومات کا تعلق عقائد کے باب سے ہے یا احکامِ عملیہ کے باب سے یا فضائلِ اعمال، مواعظ وقصص اور ترغیب وترہیب کے باب سے ہے۔ مگر اس قول کے قائلین کے نزدیک بھی دو شرطوں کا لحاظ رکھا جائے گا۔

نمبر ایک روایت کا ضعف ہلکا ہو کیونکہ ضعفِ شدید رکھنے والی حدیث کو بالاتفاق چھوڑ دیا جائے گا۔ اور نمبر دو اس حدیث میں درج معلومات اُسی باب سے متعلق کسی صحیح اور حسن درجے کی حدیث میں درج معلومات سے نہ ٹکراتی ہوں۔ آسان لفظوں میں اس کے معارض کوئی طاقتور دلیل نہ ملے۔ 

یہ مسلک ائمۂ اربعہ (ابو حنیفہؒ، مالکؒ، شافعیؒ، احمدؒ) اور امام ابو داؤدؒاور امام نسائیؒ وغیرہ اساطین اہلِ علم کی نسبت سے مشہور ہے۔

دیکھیں:۔ (علوم الحدیث، ابن الصلاحؒ: ص۳۴۔ فتح المغیث، سخاویؒ:۱/۲۶۷۔ إعلام الموقعین، ابن القیمؒ:۱/ ۳۱ – ۳۲، ۸۱-۸۲۔ شرح فتح القدیر، ابن الہمامؒ:۲/۱۳۳۔ الأجوبۃ الفاضلۃ للأسئلۃ العشرۃ الکاملۃ، عبدالحی لکھنویؒ: ص۵۱۔ المدخل إلی مذہب الامام احمد بن حنبل، ابن بدران: ص ۴۳۔ الوضع فی الحدیث: ۱/۶۹ -۷۰)

 ۲-دوسرا قول مطلقاً ممانعت کا ہے۔ یہ گویا پہلے قول کی ضد ہے۔ یعنی حدیثِ ضعیف کا تعلق چاہے دین کے جس باب سے ہو، اس کے بہ موجب عمل نہیں کیا جائے گا۔ جن حضرات نے اس کی تصریح کی ہے یا جن کے طرزِ عمل سے یہ آشکارہ ہے ان میں امام یحییٰ بن معینؒ، امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام ابوبکر رازیؒ حنفی، امام فخر الدینؒ رازی، امام خطابیؒ، علامہ ابن حزمؒ، قاضی ابوبکرابن العربیؒ مالکی، ابو شامہ مقدسیؒ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، امام شوکانیؒ، شیخ احمد شاکرؒ اور محدثِ عصر علامہ ناصر الدین البانیؒ وغیرہ حضراتِ اہلِ علم کے اسمائے گرامی آتے ہیں۔

دیکھیں:۔ (المراسیل، ابن ابی حاتمؒ: ص۷۔ شرح علل الترمذی، ابن رجبؒ:۱/۷۴۔ الکفایۃ، خطیب بغدادیؒ:ص۵۶۔ أحکام القرآن، ابن العربیؒ:۲/۵۸۰۔ معالم السنن، خطابیؒ:۱/۷۸۔ قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ، ابن تیمیہؒ:ص۱۶۲۔ الفوائد المجموعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ:ص۲۸۳۔ نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار: ۱/۱۵۔ صحیح الجامع الصغیر:۱/۴۵)

(3)اس بارے میں تیسرا قول یہ ہے کہ حدیثِ ضعیف کا تعلق اگر فضائلِ اعمال، اخلاقِ کریمہ اور ترغیب وترہیب سے ہے تو اسے لیا جائے گا، اور حلال وحرام پر مشتمل احکامِ شرعیہ کے باب سے ہے تو نہیں لیا جائے گا۔ یہ گویا سابقہ دونوں اقوال کے بیچ کا راستہ ہے۔ بیشتر محدثین کا یہی موقف ہے۔اس کے قائلین کی فہرست میں سفیان ثوریؒ، سفیان بن عیینہؒ، عبداللہ بن مبارکؒ، عبدالرحمن بن مہدیؒ، احمد بن حنبلؒ -راجح روایت میں-، ابو زکریا عنبریؒ، ابن عبدالبرؒ، موفق الدین ابن قدامہؒ، نوویؒ، ابن کثیرؒ، جلال الدین سیوطیؒ، جلال الدین محلیؒ، خطیب شربینیؒ، تقی الدین فتوحیؒ، سخاویؒ، ملا علی قاریؒ، عبدالحی لکھنویؒ جیسے اساطینِ علم وفضل کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔(دیکھیں الکفایۃ، خطیب بغدادیؒ:ص۲۱۲-۲۱۳۔ شرح علل الترمذی، ابن رجبؒ:۱/ ۷۳۔ الأذکار، نوویؒ، تحقیق عبدالقادر ارناؤوطؒ:ص۲۸،۲۴۹۔ المغنی، ابن قدامہؒ:۲/۱۷۱۔ فتح المغیث:۱/۲۶۷۔ الأجوبۃ الفاضلۃ:ص۳۶۔ منہج النقد فی علوم الحدیث، نور الدین عتر:ص ۲۹۴۔ الحدیث الضعیف وحکم الاحتجاج بہ، عبدالکریم الخضیر:ص۲۷۸-۲۸۷)

 اس قول کی شہرت کے پیشِ نظر بعض لوگوں نے اس پر علماء کا اتفاق بھی نقل کیا ہے۔ مگر بہ ظاہر ان کی مراد علمائے محدثین ہیں۔دیکھیں:۔( مقدمہ کتاب الاربعین للنوویؒ:ص۳۔ الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ، ملا علی قاریؒ:ص۳۱۵۔ المنہل اللطیف:ص۱۳)

 مگر محققین علماء (جیسے عز بن عبدالسلامؒ، ابن دقیق العیدؒ، ابو الحسن بن قطانؒ اور علامہ ابن حجرؒ)نے اس قول کے مطابق عمل کے لیے بھی تین اضافی شرطیں بیان کی ہیں:

نمبر ایک یہ کہ حدیث کا ضعف شدید نہ ہو۔ چنانچہ واضعین، کذابین اور متہم بالکذب یا بہ کثرت غلطی کرنے والے راویوں کی روایتیں اس سے نکل جاتی ہیں۔ 

 نمبر دو، وہ حدیث دین کے کسی کلی اصول اور جامع قاعدے کے دائرے میں آجاتی ہو۔ اس شرط کی بنا پر وہ تمام ضعیف حدیثیں نکل جاتی ہیں جن میں دین کے معروف اصولوں سے ہٹ کر کوئی نئی بات بتائی گئی ہے۔اسی طرح وہ تمام روایتیں بھی نکل جاتی ہیں جن کی دین میں کوئی اصل نہیں۔اصل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ حدیث کثرتِ طرق سے نقل ہو اور طرق اتنے زیادہ ہوں کہ انھیں دیکھتے ہوئے لامحالہ تسلیم کرنا پڑے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ صرف ایک یا دو طرق سے آنے والی ضعیف روایت اس عموم سے خارج ہے۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ کسی طرق سے وہ روایت مرفوعاً بھی نقل ہوئی ہو، یا کسی صحیح حدیث سے اس کی معنوی تائید نکلتی ہو یا پھرقرآنِ کریم کی کسی عبارت کے ظاہری مفہوم کی وہ ترجمانی کرتی ہو۔(تدریب الراوی: ۲/۱۷۲)

تیسری شرط یہ ہے کہ اُس حدیث پر عمل کرتے وقت اس کے سنتِ نبوی یا قولِ نبوی ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے مبادا اللہ کے نبیﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کرنے کا گناہ ہو جائے جو آپ ﷺ نے نہیں فرمائی یا جس پر آپﷺ نے کبھی عمل نہیں کیا۔(دیکھیں تدریب الراوی: ۱/ ۲۹۸-۲۹۹۔ القول البدیع:ص۲۴۵)

 مگر اس سلسلے میں ہمارے نزدیک راجح قولِ ثانی ہے،یعنی ضعیف حدیثوں کو مطلقاً دین کے کسی مسئلے میں دلیل نہ بنایا جائے؛ نہ احکام میں،نہ اخلاق میں اور نہ ترغیب وترہیب اور فضائل ومحاسن وغیرہ میں۔اس ترجیح کے کچھ اسباب ووجوہ ہیں جو مختصراً یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:

 ۱-فضائل اور ترغیب وترہیب کے موضوعات پر اللہ کے رسولﷺ کی مؤثر،جامع اور پرمغز، اور ساتھ ہی صحیح وثابت شدہ حدیثوں کا بڑا ذخیرہ دستیاب ہے،ایسے میں انھیں چھوڑ کر کیوں ضعیف حدیثوں کا بوجھ ڈھویا جائے۔ پھر یہ بھی قابلِ غور مسئلہ ہے کہ فضائلِ اعمال، مکارمِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کے طریقے دین کے بنیادی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے اور احکامِ شرعیہ کے درمیان اس حوالے سے کوئی فرق نہیں کہ دونوں صحیح اور حسن درجے کی حدیثوں سے ثابت ہونے چاہئیں۔ضروری ہے کہ دین کے ہر شعبے کا مأخذ ومصدر قرآن کے علاوہ صرف وہی حدیثیں ہوں جو ازروئے روایت ودرایت لائقِ استناد اور قابلِ قبول ہوتی ہیں۔(مقاصد الحدیث: ۲/ ۱۳۸۔ اصول الحدیث:ص۳۴۸۔ نزل الأبرار، قنوجیؒ:ص۷-۸)

 ۲-دوسری بات یہ ہے کہ ضعیف حدیثوں کو اگر دینی ابواب میں قابلِ استدلال سمجھا جائے تو اس سے بہت سی صریح قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ کی مخالفت لازم آتی ہے جن میں صحتِ حدیث کے تثبت اور تیقن سے پہلے اسے آگے بیان کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔

مثلاً ارشادِ باری ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ}(حجرات،۶)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہوجائو۔‘‘ 

 حدیثوں میں امام مسلمؒ کی نقل کردہ ایک مرفوع حدیث دیکھیں۔اس میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جو میرے حوالے سے کوئی ایسی حدیث بیان کرے جس کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ خود بھی ایک جھوٹا ہے۔‘‘ [من حدث عنی حدیثا یری أنہ کذب فہو أحد الکاذبین](صحیح مسلم،مقدمہ، باب وجود الروایۃ عن الثقات:۱/۹۔ مسند احمدؒ:۵/۲۰۔ سنن ابن ماجہ، مقدمہ، باب من حدث عن رسول اللہ حدیثا وہو یری أنہ کذب:۱/۱۴- ۱۵۔ الجامع الصغیر، سیوطیؒ:۶/۱۱۶) اس مضمون کی اور بھی درجنوں حدیثیں موجود ہیں۔

 ۳-تیسری بات یہ ہے کہ ضعیف حدیث زیادہ سے زیادہ ظنِ مرجوح (مشکوک گمان) کا افادہ کرتی ہے حالانکہ ظنِ مرجوح کے بارے میں اسلامی شریعت کا فیصلہ ہے کہ حق کے تناظر اور سیاق میں وہ چنداں کارگر نہیں ہے۔(ارشاد الفحول، شوکانیؒ:ص۴۸)

 ۴- چوتھی بات یہ ہے کہ ہرزمانے میں علماء ومحدثین نے بالاتفاق حدیثِ ضعیف کو حدیثِ مردود کہا ہے۔ یہ گویا قرینہ ہے کہ حدیثِ ضعیف ناقابلِ استدلال ہوتی ہے۔

 ۵-اگر ضعیف حدیثوں سے استدلال کو جائز مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ صحیح حدیثوں سے توجہ ہٹ جائے گی اور لوگ فضائلِ اعمال اور حکایاتِ صحابہ جیسے عنوانوں سے وہ کتابیں لکھیں گے جن میں ضعیف حدیثوں کی بھرمار ہوگی اور صحیح حدیثیں آٹے میں نمک کے برابر ہوں گی۔ آج بہ خوبی اس اندیشے کو حقیقت بنتے ہوئے سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔

 ۶-ضعیف حدیثوں کے رواج کی وجہ سے بدعتوں اور خرافاتوں کو رواج ملے گا اور اخذ واستدلال کا صحیح طریقہ نگاہوں سے اوجھل ہوجائے گا کیونکہ عام طور سے ضعیف حدیثوں میں بات کو سخت کرنے اور ڈراؤنا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ اس طرح کی حدیثیں بدعتی اور صوفی حلقوں اور جماعتوں میں خاص طور سے مقبول ہوتی ہیں اور عام لوگوں کو دین پر مبنی اعتدال اور میانہ روی سے دور کر دیتی ہیں۔(الحدیث الضعیف وحکم الاحتجاج بہ:ص۳۰۳-۳۰۴)

 ۷-اگر ضعیف حدیثوں پر عمل درآمد بند کر دیا جائے تو آدمی اللہ کے نبیﷺ کے نام پر جھوٹ گھڑنے کے گناہ سے نچنت اوربے فکر ہوجاتا ہے۔ ہم تجربے سے یہ بات جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس اصول کی مخالفت کی وہ چاروناچار کسی نہ کسی درجے میں ’’کذب علی الرسول‘‘ جیسے شنیع گناہ کے مرتکب ہوگئے۔ وہ اس طرح کہ یہ لوگ ہر الٹی پلٹی حدیث یا روایت پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ یہ بھی کذب علی الرسول کی ایک شکل ہے۔(صحیح الجامع الصغیر، البانیؒ:۱/۵۱)

 ۸-ضعیف حدیث پر عمل کے جواز کو ہمیشہ سے بعض مصنفوں اور مفسروں نے بہانہ بنایا ہے اور اس کی آڑ میں اپنی کتابوں کو عجیب وغریب روایتوں،حیرت انگیز اوہام وخرافات اور قصص وحکایات سے بھر دیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عقلِ سلیم اور فطرتِ سلیمہ رکھنے والے لوگ دین کی حقیقت سے بدظن ہوگئے اور صحیح اور مسلمّہ غیبی حقائق قبول کرنا ان کے لیے دشوار ہوگیا۔ بنابریں اس برائی کا سدِ باب کرنے کے لیے ضعیف حدیثوں سے بالکلیہ اجتناب کرنا چاہیے۔ ضعیف حدیثوں پر مبنی قصوں اور خیالی کہانیوں کا بہت بڑا ذخیرہ امام غزالیؒ کی کتاب ’’إحیاء علوم الدین‘‘ ہے۔ اس کتاب کے منفی اثرات آج تک مسلم ذہن وفکر پر کم وبیش مرتسم ہیں۔

 ۹-کوئی کہہ سکتا ہے کہ امام نوویؒ اور ان کی اتباع میں ملا علی قاریؒ نے فضائلِ اعمال میں -نہ کہ احکامِ شرعیہ میں- ضعیف حدیث کی حجیت پر اجماع نقل کیا ہے۔ مگر یہ دعویٰ دو وجہ سے محلِ نظر ہے۔پہلی بات یہ کہ امام سخاویؒ اور امام سیوطیؒ بھی اگرچہ اس کے قائل ہیں،مگر انہوں نے اس طرح کے کسی اجماع کا تذکرہ نہیں کیا،بلکہ اس بارے میں اختلافات نقل کیے ہیں۔ (دیکھیں فتح المغیث:۱/۲۶۷۔ تدریب الراوی:۱/۲۹۸)

 اگر کوئی عالمِ دین کسی مسئلے میں اجماع نقل کرے اور دوسرا کوئی عالمِ دین آکر بتادے کہ اس مسئلے میں نزاع رہا ہے،ایسے میں دوسرے کی بات مانی جائے گی کیونکہ وہ نزاع کا اثبات کر رہا ہے اور اجماع کی بات کہنے والا اس کی نفی کر رہا ہے ، اور اصول یہ ہے کہ مثبت (Affirmer)کو نافی (Denier)پر فوقیت اور ترجیح دی جائے گی۔ (دیکھیں مجموع الفتاوی:۱۹/۲۷۱۔ الحدیث الضعیف:ص۲۹۸)

 دوسری بات یہ ہے کہ امام نوویؒ نقلِ اجماع میں اپنے تساہل کو لے کر موضوعِ گفتگو بنے ہیں، اس لیے علمائے محققین کے نزدیک محض ان کے کہہ دینے سے ثبوتِ اجماع نہیں ہوتا۔ پھر امام نوویؒ کی کتابوں میں ہی ایسے شواہد ملتے ہیں جن سے متعدد مسائل میں ان کے دعوائے اجماع کی تردید ہوجاتی ہے۔ یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں،مگر ایک مثال ذکر کردوں تاکہ توضیحِ مدعا میں آسانی ہوجائے۔

امام نوویؒ نے رفعِ یدین کے باب میں لکھا ہے کہ امت کا اجماع ہے کہ تکبیرِ احرام کے وقت ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔۔۔اور اس پر اجماع ہے کہ ہاتھ اٹھانے کی کوئی بھی صورت فرض نہیں۔[أجمعت الأمۃ علی استحباب رفع الیدین عند تکبیرۃ الإحرام ۔۔۔وأجمعوا علی أنہ لا یجب شییٔ من الرفع](شرح النووی علی صحیح مسلمؒ:۴/۹۵) مگر چند ہی سطروں بعد وہ اپنا دعوائے اجماع توڑ دیتے ہیں۔ خود لکھتے ہیں: ’’داؤد ظاہریؒ سے نقل ہوا ہے کہ وہ تکبیرِ احرام میں رفعِ یدین کو واجب کہتے تھے، یہی قول امام ابو الحسن احمد بن سیار السیاریؒ کا ہے جو ہمارے اُن اصحاب(یعنی فقہائے شوافع) میں سے ہیں جو بعض مسائل میں مختلف الرائے تھے۔ میں نے ’شرح المہذب‘ اور ’تہذیب اللغات‘ میں ان کا مسلک نقل کیا ہے۔‘‘ [حکی عن داؤد إیجابہ عند تکبیرۃ الإحرام وبہذا قال الإمام أبو الحسن أحمد بن سیار السیاری من أصحابنا أصحاب الوجوہ وقد حکیتہ عنہ فی شرح المہذب وفی تہذیب اللغات](مرجعِ سابق:۴/۹۵۔

نیز دیکھیں شرح المہذب: ۳/۳۰۵۔ تہذیب الأسماء واللغات، نوویؒ:۱/۱۱۳)

 ۱۰-جن حضرات نے بھی ضعیف حدیث پر عمل کی اجازت دی ہے انہوں نے بعض شرطیں لگائی ہیں جیسا کہ اوپر ان کا ذکر ہوا۔ ان کی پہلی دو شرطوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فرق تحصیلِ حاصل اور بے مقصد ہے اور سارا اختلاف صرف لفظی ہے۔

اسی لیے شیخ عمر حسن فلاتہ اس بارے میں لکھتے ہیں:’’پہلی شرط کے بارے میں میری رائے ہے کہ یہ تحصیلِ حاصل ہے کیونکہ حدیثِ ضعیف پر عمل سے روکنے والے اور اسے جائز کہنے والے، دونوں گروہ اس نقطے پر متفق ہیں کہ شدید ضعف سے دوچار حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ علامہ علائیؒ نے اس بارے میں اتفاقِ رائے نقل کیا ہے۔ ۔۔۔رہی دوسری شرط کہ وہ کسی معمول بہ اصلِ دین کے تحت آجاتی ہو، یعنی اس کے طرق متعدد ہوں، یا قرآن وسنت سے اس کی معنوی تائید ہوتی ہو، تو اس بارے میں ہمیں عرض کرنا ہے کہ متعدد طرق سے نقل ہونے کے بعد کسی بھی حدیث کا درجہ اونچا ہوجاتا ہے اور وہ ضعیف حدیث نہیں کہلاتی،بلکہ ’حسن لغیرہ‘ بن جاتی ہے اور سب کے نزدیک اس وقت وہ ایک قابلِ عمل دلیل ہوتی ہے۔ اس وقت اس کا نام ضعیف باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مانعین ومجیزین کے نزدیک سارا اختلاف محض لفظی ہے۔(الوضع فی الحدیث:۱/۷۳)

 بہرحال یہ دس وجوہِ ترجیح ہیں۔ انہیں دیکھتے ہوئے یہی مسلک مناسب اور معقول لگتا ہے کہ ضعیف حدیثوں کو ہمارے دینی نظامِ فکر وعمل میں کوئی جگہ نہیں ملنی چاہیے۔ آخر میں ہمیں یہ نکتہ بھی بہ خوبی سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح کسی بھی علم وفن کے جزوی اور تفصیلی مسئلے میں اعتبار واعتماد اس کے ماہرین ومتخصصین پر کیا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح احادیث کی تصحیح وتضعیف کے سلسلے میں آخری فیصلہ محدثین اور ماہرین ِ جرح وتعدیل کا ہوگا، نہ کہ کسی انجینئر، ڈاکٹر، راج گیر، مستری، ایڈوکیٹ اور مفکر کا، بلکہ کسی فقیہ یا مفسر کو بھی یہ حق علی الاطلاق اور بلا تحفظات نہیں دیا جاسکتا ہے۔ یہ بات سمجھ لینا اس لیے ضروری ہے کہ آج کل سیلف میڈ مفکرین کی بھرمار ہے جن کی فکری جولانیوں کا نشانہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ احادیثِ صحیحہ بن رہی ہیں۔ 

اللہ ہمیں دین کا وہی فہم دے جو اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہؓ کرام کا فہم تھا، اور انہی کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

اس ویب سائٹ(علم کی دنیا ) پہ اسی طرح کے علمی و اصلاحی نیز ادبی اور سائنسی مضامین بھی شائع کئے جاتے ہیں ، جڑنے کے لئے سبسکرائٹ والا لال بٹن دبالیں ۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں