صفۂ نبوی پہلی اسلامی درسگاہ

صفئہ نبوی

(پہلی اسلامی درسگاہ )

ترتیب/ محمد قمر الزماں ندوی 

استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 6393915491

    دنیا میں سب سے زیادہ جس مذہب نے علم پر زور دیا، تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا اور بنیادی دینی و دنیاوی تعلیم کو لازمی قرار دیا، وہ مذہب اسلام ہے ، اسلام کی ابتداء ہی لفظ تعلیم سے ہے، کیونکہ فترہ کے بعد آپ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں پہلا لفظ اقراء ہے ۔ جس معنی ہیں پڑھو علم حاصل کرو ۔ آپ اندازہ کیجئے کہ دنیا کے نقشہ پر اور دنیا کے جغرافیہ میں بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کی حالت کیا تھی ،جہالت کا دور دورہ تھا ،عرب کا بڑا حصہ بلکہ اکثر حصہ جہالت و ناخواندگی کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں تھا اور نہ صرف علم کی دولت سے محروم تھا ،بلکہ عرب علم کی اہمیت ،اس کی عظمت اور اس کی افادیت و اہمیت سے بھی نابلد تھا ۔ 

ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں کفر و شرک کی تردید نہیں اور خدا پر ایمان لانے کا صراحت کے ساتھ ذکر نہیں ،جو قرآن کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت کا عطر اور خلاصہ ہے ۔اس پہلی وحی میں آخرت اور فکر عقبیٰ کا تذکرہ نہیں، جو ایمان و عمل کا اصل محرک ہے ۔ اس پہلی وحی میں نبوت و رسالت کی بہت زیادہ تشریح اور اعلان نہیں، جس پر اسلام کی پوری بنیاد اور عمارت کھڑی ہے ۔ اس میں ظلم و ناانصافی اور افتراق و انتشار کی مذمت بھی نہیں جو عرب کے مزاج میں داخل ہوگیا تھا ،اس وحی میں اخلاقی برائیوں اور اخلاقی پستیوں پر بھی تنقید نہیں، جن کی اصلاح کو آپ نے اپنی دعوت اور اپنی زندگی کا مشن بنایا بلکہ یہ پہلی وحی انسانیت کو علم کی طرف متوجہ کرتی ہے ،جس میں پہلا لفظ ہی اقراء کا ہے جس کے معنی ہیں علم شکھچھا اور گیان حاصل کرو ۔۔۔ اس سے تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ قرآن مجید نے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جس حیثیت کو سب سے زیادہ واضح کیا وہ یہی ہے کہ آپ معلم ہیں داعی اور مبلغ ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انما بعثت معلما میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعثنی اللہ معلما اور فرمایا بعثنی اللہ مبلغا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے معلم و مبلغ بنا کر بھیجا ۔ آپ نے بنیادی دینی تعلیم اور شعور و آگہی کے حاصل کرنے کو لازمی قرار دیا ،ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام بچوں کے جبری تعلیم کا قائل ہے تاکہ ہر شخص اپنے نفع و نقصان کو اچھی طرح جان سکے اور اپنی مقصد پیدائش سے واقف ہوسکے ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں علم کا چراغ بن کر آئے اور اس جہالت کو اپنا نشانہ بنایا جس کے سایہ میں برائیاں پنپتی ہیں ۔

   آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں بھی جہاں مسلمانوں کے لیے حالات بہت مشکل تھے ،آپ نے تعلیم و تربیت کو نظر انداز ہونے نہیں دیا اور اپنے ایک جانثار کے مکان دار ارقم کو ۔۔۔۔۔۔۔۔جو صفا کی چوٹی پر واقع تھا اور جو ہر لحاظ سے وہاں کے لیے موزوں تھا، تعلیمی و تربیتی مرکز بنایا اور تعلیم کا ماحول برپا کیا ۔

  جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولین کام یہی کیا کہ مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی اور اسی کے متصل ایک چبوترہ تعلیمی مقصد کے لیے بنایا جسے صفہ کہا جاتا تھا یہ گویا اسلامی تاریخ کا پہلا مدرسہ تھا اور دنیا میں جتنے بھی ادارے اور مدارس قائم ہیں ان سب کا شجرہ اسی صفئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے ۔۔ اس مدرسہ میں مقیم اور غیر مقیم دونوں طرح کے طلبہ علم حاصل کرتے تھے اور یہی دار الاقامہ اور دار العلوم تھا ،ان میں طلبہ کی تعداد حالات و زمانہ کے اعتبار سے گھٹتی بڑھتی رہتی تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس درسگاہ کے سرپرست ناظم مہتمم نگراں اور معلم بلکہ ناظم مطبخ بھی تھے ۔ اس ادارہ سے اس وقت استفادہ کرنے والوں کی تعداد ریکارڈ کے مطابق نوسو تک تھی ۔ یہاں کبھی طلبہ کی تعداد سو ہوتی کبھی ڈیڑھ سو ۔

ذیل کے مضمون میں ہم اس پہلی اسلامی درسگاہ کا مکمل تعارف مختلف ماخذ اور متعدد مراجع کی روشنی میں پیش کرتے ہیں تاکہ ہم اسلام میں علم کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور صفہ نبوی کی علمی تاریخی اور دینی حیثیت کو جان سکیں ۔۔۔۔۔

۔

صفہ کے معنی ہیں چبوترا (تھڑا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد نبوی سے متصل پیچھے کی جانب تھوڑا سا چبوترا بنادیا گیا تھا جہاں مہمان اترتے تھے اور علم سیکھنے والے فقراء صحابہ وہاں مستقل طور پر رہتے تھے۔صفہ سائبان اور سایہ دارجگہ کو کہتے ہیں، عہد رسالت میں تحویل قبلہ کے بعد مسجد نبوی کے شمال ِمشرق میں مسجدسے متصلا ایک چبوترا بنایا گیا ،جس پر سایہ کا بھی انتظام کیا گیا تھا ،اس چبوترا کو صفہ کہا جاتا ہے ،اس جگہ قیام کرنے والے صحابہ کرام کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے ۔

صفہ اور اصحاب صفہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو مسافر ،ضعفائے مسلمین و فقرائے مہاجرین اور وہ مساکین جن کا گھر بار نہیں ہوتا تھا ،وہ حضرات بارگاہِ نبوت ورسالت میں حاضر ہوتے اور اسی چبوترے میں قیام فرماتے تھے،موجودہ توسیع کے اعتبار سے ریاض الجنہ کے پیچھے ،باب جبرئیل یا باب النساء سے داخل ہونے کے بعد بائیں جانب واقع ہے ،مقام صفہ کا طول وعرض چالیس مربع فٹ ہے ۔[1] یہ حضرات اصحاب صفہ کہلاتے تھے انہی کی سی صفات رکھنے والوں کو آج صوفیاء کہتے ہیں، یعنی صفائی دل اور صوف کا لباس رکھنے والی جماعت یہ حضرات کم و بیش ہوتے رہتے تھے کبھی 70 اور کبھی 200 سے زیادہ گویا یہ مدرسہ نبوی تھا۔ ان حضرات میں مشہور صحابہ کرام یہ ہیں ابو ذر غفاری، عمار ابن یاسر، سلمان فارسی، صہیب، بلال، ابوہریرہ، عقبہ ابن عامر، خباب ابن ارت، حذیفہ ابن یمان، ابو سعیدخدری، بشر ابن خصاصہ، ابو موہبہ رضی اللہ عنھم وغیرہ ، انہی حضرات کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی”وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ”الخ۔[2]

وجہ تسمیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صحابہ کرام کا ایک گروہ جو محض عبادت الہٰی اور صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر مہاجرین مکہ تھے اور فقر و غنا کی زندگی بسر کرتے تھے۔ مسجد نبوی کے ایک کنارے پر ایک چبوترا تھا،جس پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنا دی گئی تھی۔ اسی چبوترا کا نام صفہ ہے جو صحابہ گھر بار نہیں رکھتے تھے وہ اسی چبوترا پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی لوگ اصحاب صفہ کہلاتے ہیں۔[3]

نبوی درسگاہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جہاں کہیں تبلیغ و دعوت اسلام کی ضرورت ہوتی ان میں سے بعض‌حضرات کو بھیج دیا جاتا۔ قرآن شریف میں بھی ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے اور احادیث میں بھی ان کا ذکر تھا۔

وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ سب لوگ بکھر جائیں۔ کیوں نہ ہر گروہ سے کچھ لوگ (ٹھہر جائیں) تا کہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کر یں اور جب واپس اپنی قوم میں جائیں تو ان کو اللہ کا خوف دلائیں، شاید وہ لوگ کفر سے پرہیز کرنے لگیں۔ [4]

صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ ابوہریرہ نے فرمایا میں نے 70 ستر اصحاب صفہ کو دیکھا جن میں سے کسی ایک کے بدن پر بھی چادر نہ تھی‘ یا لنگی (تہ بند) تھی‘ یا کمبلی‘ جس کو گلے میں انھوں نے باندھ رکھا تھا۔ کسی کے آدھی پنڈلی تک تھی‘ کسی کے ٹخنوں تک۔ اپنے ہاتھ سے وہ اس کو سمیٹے رہتا تھا تاکہ ستر نہ کھل جائے۔[5]

قتادہ کا بیان ہے کہ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ۔۔ سے اصحاب صفہ مراد ہیں جن کی تعداد سات سو تھی یہ سب نادار لوگ تھے اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) : کی مسجد میں فروکش تھے نہ کسی کی کھیتی تھی نہ دودھ کے جانور نہ کوئی تجارت‘ نمازیں پڑھتے رہتے تھے ایک وقت کی نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں رہتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ستائش ہے اس اللہ کے لیے جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا کر دیے جن کی معیت میں مجھے جمے رہنے کا حکم دیا۔[6]

اصحاب صفہ کی مصروفیات

اور وہاں کا نصاب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصحاب صفہ ارباب ِتوکل اور اصحاب تبتل کی ایک جماعت تھی جو رات دن تزکیہ نفس ،کتاب و حکمت کی تعلیم پانے اور دینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خدمت اقد س میں حاضر رہتے تھے ،اصحابِ صفہ میں حضرت ابوہریرة ، حضرت ابوالدرداء،حضرت سلمان فارسی ،حضرت بلال وغیرہ حضرات سر فہرست ہیں،ان حضرات کو نہ تجارت سے کوئی مطلب تھا،نہ زراعت سے کوئی سروکار، یہ حضرات اپنی آنکھوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار پرانوار کے لیے ،کانوں کو آپ کے کلمات قدسیہ کے سننے کے لیے اور جسم کو آپ کی صحبت و معیت کے لیے وقف کر چکے تھے ۔

اصحابِ صفہ اپنے اوقات قرآن مجید سیکھتے ،احادیث نبویہ سننے اور ذکر واذکار میں صرف کرتے ،یا ان خدمات کی انجام دہی میں اپنا وقت لگاتے جن کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیا کرتے تھے ،قبائل تک اسلام کی دعوت پہنچانا ،نو مسلم جماعتوں کو قرآن مجید اور اسلام کی تعلیم دینا اور تقاضوں کے پیش نظر جنگی مہمات میں شرکت ان حضرات کی مشغولی تھی، بئر معونہ میں ستر قراء صحابہ کی شہادت ہوئی ،ان کا تعلق بھی اصحاب صفہ ہی سے تھا، گویا صفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم گاہ ،تربیت گاہ ،خانقاہ اور اضیاف اسلام کا مہمان خانہ تھا۔ اصحابِ صفہ دعوتی و تبلیغی اسفار، سرایا میں شرکت ،وطن واپسی ،نکاح ،گھر کا انتظام اور وفاتِ وغیرہ کی وجہ سے کبھی کم ہو جاتے اور کبھی بڑھ جاتے ،کبھی ستر(70) ہو گئے اور کبھی کم وبیش حتی کہ یہ تعداد کبھی چار سو(400) تک جا پہنچتی ۔[7]

  اس درسگاہ کے نصاب تعلیم کا موضوع قرآن مجید اور احکام کی تعلیم تھی ،لیکن اس کے علاوہ تحریر و کتابت پر بھی توجہ دی جاتی ، جس کی عرب معاشرے میں بڑی اہمیت تھی ۔یہاں شعبئہ خطاطی بھی تھا اور اس کے ماہر استاد حضرت عبد اللہ بن سعید بن عاص انصاری تھے ۔ ۔تعلیم کے حصول میں اس مدرسہ نے دین و مذہب کے اختلاف کو بھی رکاوٹ بننے نہیں دیا ،چنانچہ غزوئہ بدر میں جو مشرکین قید ہوکر آئے ان میں جو لوگ کتابت سے واقف تھے آپ نے ان کا فدیہ یہی مقرر فرمایا کہ وہ مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں ۔

اصحاب ِ صفہ کی تعلیم و تربیت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت ابو طلحہؓ حضرت ام سلیم ؓ کے پاس آئے اور فرمایا :میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہو کر آیا ہوں ،آپ اصحاب ِصفہ کو سورة النساء پڑھا رہے ہیں،آپ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے ۔ [8] حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں: ہم صفہ میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے ،فرمایا: تم میں سے کون چاہتاہے کہ صبح سویرے بطحان یا عقیق نامی بازار میں جائے ، وہاں سے دو کوہان والی اونٹیاں گناہ اور قطع رحمی کے بغیر لے آئے ،ہم نے عرض کیا ،ہم میں سے ہر ایک اس کی خواہش کرے گا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص صبح سویر ے مسجد جاکر قرآن پاک کی دو آیتیں سیکھے ،وہ دو اونٹیوں سے افضل ،تین آیتیں سیکھے، تین اونٹیوں سے افضل اور چار آیتوں کا سیکھنا چار اونٹیوں سے افضل ہے [9] حدیث کی کتابوں اور سیرت طیبہ میں ہمیں بے شمار واقعات اس نوعیت کے ملتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب صفہ کے علم و ذکر کے حلقوں میں تشریف لے جاتے ،انھیں قرآن مجید کی تعلیم دیتے ،تربیت فرماتے، احادیث نبوی سناتے ،ان کی حوصلہ افزائی فرماتے، تحصیل علم کی ترغیب دیتے اور فقر وفاقہ پر صبر کی تلقین فرماتے ،مذکورہ دو روایتیں بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں ۔

اصحاب صفہ کی اہمیت اور مقام 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنحضرت اپنے اہل بیت کے مقابلے میں ان کا حق مقدم سمجھتے تھے اور ان کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرمایا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاتے اور بیچ کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی ضرورت پوری کرتے۔ جولوگ شادی کر لیتے تھے وہ اس زمرے سے نکل جاتے تھے۔ حضرت بلال، ابوذرغفاری، زید بن خطاب اسی گروہ سے تھے اور ہر وقت رسول اللہ کی خدمت میں حاضری کے باعث زیادہ تر احادیث انہی سے مروی ہیں۔

آپﷺ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء سلام علیہا کو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے ایک خادمہ کی ضرورت تھی، وہ اپنے والد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا ابّا جان! مجھے ایک خادمہ کی ضرورت ہے، مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ قیدی آپ کے پاس لائے گئے ہیں اگر ان میں سے ایک کو مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیٹی! خدا کی قسم! میں تمھیں نہیں دے پاؤں گا، کیا میں اہل صفہ کو بھوکا رہنے دوں، ان پر نہ خرچ کروں، میں ان غلاموں کو فروخت کرکے ان کی قیمت اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔ [10]

اصحابِ صفہ کا زہد و توکل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:میں نے ستر(70) اصحاب صفہ کو دیکھا کہ ان کے پاس چادر تک نہ تھی ،فقط تہبند تھا ،یا کمبل جس کو اپنی گردنوں میں باندھ لیتے تھے، کمبل اس قدر چھوٹا کہ کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتا، کسی کے ٹخنوں تک اور ہاتھوں سے اس کو تھامتے کہ کہیں ستر کھل نہ جائے ۔[11]

صفہ والے اسلام کے مہمان تھے ،ان کے کھانے کا انتظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے ، حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر ؓ فرماتے ہیں :اصحاب صفہ فقراء ومساکین تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہے ،وہ تیسرے آدمی کو اپنے ساتھ لے جائے ،جس کے گھر میں تین آدمیوں کا کھانا ہے،وہ چوتھے کولے جائے ،جس کے پاس چار لوگوں کا کھانا ہو، وہ پانچویں اور چھٹے آدمی کولے جائے ، حضرت ابوبکر ؓ تین افراد کو لے آتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دس افراد کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ [12]

اہل صفہ کا انتظام خورد و نوش اور مطبخ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو طلبہ صفہ میں مقیم تھے ،اہل مدینہ ان کے کھانے کا نظم کرتے اور ان کو اپنا اور اپنے رسول کا مہمان سمجھ کر ان کے ساتھ اکرام کا معاملہ فرماتے تھے ان کے کھانے کا نظم دو طرح سے ہوتا تھا ۔اول یہ کہ خود صفہ میں کھانے کی چیزیں پہنچا دی جاتی ۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ کچھ طلبہ کو اپنے گھر بلا کر لاتے اور ان کو کھانا کھلاتے ۔۔۔حضرت سعد بن عبادہ رض کا مکان اہل صفہ کے لیے گویا سب سے بڑا مہمان خانہ تھا ،ابن سیرین کی روایت ہے کہ سعد بن عبادہ ہر شب اسی طلبہ کو اپنے یہاں شب کا کھانا کھلاتے ۔( سیر اعلام النبلاء 1/ 200) اس پتہ چلتا ہے کہ عام طور پر 80/ طلبہ تو دار الاقامہ میں ہوتے ہی تھے ۔

مطبخ کے نظم و نسق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان طلبہ کے قیام وطعام کے مسائل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غافل نہ رہتے تھے اور کھانے کے معیار پر بھی نظر رکھتے تھے ۔ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،دست مبارک میں عصا تھا اور کچھ کھجور کا ایک خوشہ لٹکا ہوا تھا یہ کجھور اچھی نہیں تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاٹھی سے اس خوشہ کو مارا اور فرمایا کہ اگر یہ شخص چاہتا تو اس سے بہتر کھجور بھی دے سکتا تھا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا قیامت کے دن یہ بھی ایسا معمولی کھجور کھائے گا ۔(ابو داؤ شریف حدیث نمبر 1608)

  ابتداء اسلام میں صفہ ہی تعلیم کا اصل مرکز تھا ، لیکن یہ چھوٹی سی جگہ تھی ، اس لیے اگر واردین کی کثرت ہوتی اور طالبان کا اژدہام ہو جاتا تو عارضی طور پر ان طلبہ کو مختلف اہل علم پر تقسیم کر دیا جاتا کہ وہ ان کے قیام وطعام کا نظم کریں ۔اور تعلیم و تربیت کا بھی ۔اس سلسلہ میں وفد عبد القیس کا واقعہ سیرت کا ایک مشہور واقعہ ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صحابہ پر تقسیم فرمایا ،پھر آپ نے استفسار حال بھی فرمایا کہ میزبان بھائیوں کا کیسا سلوک رہا ؟ وفد نے بڑی تعریف کی اور کہا انہوں نے رہائش کا بہتر نظم کیا، اچھے کھانے کھلائے اور شب و روز ہمیں کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور وفد کے ایک ایک رکن سے ان کی تعلیم و تربیت کے بارے میں الگ الگ گفتگو کی ۔۔۔( دینی و عصری تعلیم مسائل و حل )

قبائل میں صفہ کے مبلغین اور ان کی شہادت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: چند لوگ( قبیلہ رعل ،ذکوان ،عصیہ اور بنولحیان) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ ہمارے ساتھ آپ کے چند اصحاب کو روانہ فرمائیں جو ہمیں قرآن وسنت سکھائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار میں سے ستر صحابہ جن کو قراء کہا جاتا تھا، ان کے ساتھ روانہ فرمایا: جن میں میرے ماموں،حرام بھی شامل تھے ،یہ حضرات راتوں میں قرآن پڑھتے ،یاد کرتے اور سیکھتے تھے،دن میں مسجد میں پانی لاتے ، لکڑی کاٹ کر بیچتے اور فقراء واصحاب صفہ کے لیے کھانا وغیرہ خرید کر لاتے ،منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی درمیانی راستے میں ان سب حضرات کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا،ان شہداء نے دعا کی۔

اللہم بلغ عنا نبینا انا قدلقیناک، فرضینا عنک ،ورضیت عنا ،قال: واتی رجل حراما خال انس من خلفہ، فطعنہ برمح حتی انقذہ ،فقال حرام : فزت ورب الکعبة ،الخ

اے اللہ ! ہمارے نبی کو ہماری طرف سے اطلاع دیجئے کہ ہم آپ سے آکر مل گئے ہیں ، ہم آپ سے راضی ہو گئے ہیں اور آپ ہم سے راضی ،حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: ایک شخص میرے ماموں کے پیچھے سے آیا اوراس نے نیزے سے حملہ کر دیا ،میرے ماموں نے کہا : ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ،(اللہ نے ان لوگوں کی دعا قبول فرمائی اور اپنے رسول تک ان کی خبر پہنچائی پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ خبر پہنچائی۔[13] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ سے شدید صدمہ پہنچا ،آپ نمازِ فجر میں تقریباً ایک ماہ تک دعائے قنوت میں ان قبائل کے لیے بددعا کرتے رہے۔

اصحاب صفہ اورحیرت ناک قوت حافظہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت ابوہریرة ؓصفہ کے مشہور ونامور طالب علم ہیں،صحابہ کرام میں سب سے زیادہ روایت کرنے والے صحابی ہیں،حدیث کی کتابوں میں تقریباً آپ سے پانچ ہزار تین سو چوہتر (5374) روایات مروی ہیں ، حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضر ت ابوہریرة ؓفرماتے تھے۔

تم کہتے ہو کہ ابوہریرة ؓ بہت احادیث بیان کرتے ہیں(حالاں کہ انھوں نے سن آٹھ ہجری کے بعد اسلام قبول کیا ہے ) ۔اللہ کے یہاں حساب ہوگا۔مہاجرین اور انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی احادیث کیوں نہیں بیان کرتے ؟(اس سوال کا جواب یہ ہے کہ )میرے مہاجر بھائی بازار میں تجارت میں مشغول رہتے اور میرے انصاری بھائی باغات وغیرہ میں مصروف رہتے ،میں ایک فقیر انسان تھا ،بقدر کفایت روزی کے ساتھ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پڑا رہتا تھا، جس وقت یہ حضرات موجود نہیں ہوتے ،میں اس وقت بھی حاضر خدمت رہتا، جو احادیث وہ بھول جاتے ،میں ان کو یاد کر لیا کرتا تھا۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا: جب تک میں اس مجلس میں گفتگو کروں، اس وقت تک تم میں سے جو شخص چادر پھیلائے رکھے گا،پھر اس کو اپنے سینے سے لگالے گا ،وہ کبھی ان احادیث کو نہیں بھولے گا ،میں نے اپنی چادر پھیلادی ،اس چادر کے علاوہ میرے پاس کوئی چادر بھی نہیں تھی ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطاب مکمل فرمایا، اس وقت میں نے اس چادر کو اپنے سینے سے لگایا ،قسم ہے، اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا، میں نے اس مجلس کی کسی بات کو آج تک نہیں بھولا۔[14] ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرة ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ،یا رسول اللہ !آپ سے بے شمار احادیث سنتاہوں ،پھر بھول جاتا ہوں،آپ نے ارشاد فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھلائی ، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں سے چلو بھرا (چلو بھر کر چادر میں کسی محسوس چیز کے ڈالنے کی طرح اشارہ فرمایا) اس کے بعد فرمایا : اس کو اپنے سینے سے لگا لو، میں نے ایسے ہی کیا ،اس کے بعد سے کبھی کوئی حدیث میں نے نہیں بھولی ۔[15]

اصحاب صفہ کی تعداد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علامہ جلال الدین سیوطی نے اصحاب صفہ کے ایک سو ایک نام گنائے ہیں (جو ان کو معلوم ہو سکے) اور ایک مستقل رسالہ میں ان حضرات کے اسماء گرامی تحریر فرمائے ہیں، محدث حاکم نے اپنی مشہور کتاب مستدرک میں چونتیس نام تحریر فرمائے ہیں، حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں 43 نام لکھے ہیں، حافظ ابن حجر کی تحریر کے موافق ابن عربی اور سلمی نے بھی ان حضرات کے اسماء گرامی جمع کیے ہیں اصحاب صفہ کے اسمائے گرامی محمد حاکم نے مستدرک میں جن حضرات اصحاب صفہ کے اسمائے گرامی درج کیے ہیں، وہ یہ حضرات ہیں :

(1) سلمان فارسی

(2) ابوعبیدہ ابن جراح

(3) عمار بن یاسر

(4) عبد اللہ بن مسعود

(5) مقداد بن الاسود

(6) خباب بن الارت

(7) بلال بن رباح

(8) صہیب بن سنان

(9) زید بن الخطاب(عمر فاروق کے بھائی)

(10) ابو کبشہ

(11) ابو مرثد الغنوی

(12) صفوان بن بیضاء

(13) ابو عبس بن جبر

(14) سالم مولی ابی حذیفہ

(15) مسطح بن اثاثہ

(16) عکاشہ بن محصن

(17) مسعود بن الربیع

(18) عمیر بن عوف

(19) عویم بن ساعدہ

(20) ابولبابہ بن عبد المنذر

(21) سالم بن عمیر

(22) ابو الیسر کعب بن عمرو

(23) خبیب بن یساف

(24) عبد اللہ بن انیس

(25) ابو ذر غفاری

(26) عتبہ بن مسعود

(27) ابو الدرداء

(28) عبد اللہ بن زید الجہنی

(29) حجاج بن عمرو الاسلمی

(30) ابو ہریرہ دوسی

(31) ثوبان مولیٰ محمد

(32) معاذ بن حارث القاری

(33) سائب بن خلاد

(34) ثابت بن ودیعہ

حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں جن حضرات کو اصحاب صفہ میں سے تسلیم کیا ہے یا جن کے اصحاب صفہ میں سے ہونے کی تغلیط نہیں کی وہ یہ ہیں۔

اسماء بن حارثہ، اغر المزنی، بلال بن رباح، البراء بن مالک، ثوبان مولیٰ رسول ﷺ، ثقیف بن عمرو، ابو ذر غفاری، جرہد بن خویلد، جعیل بن سراقہ الضمری، جاریہ بن جمیل، حذیفہ بن اسید، حارثہ بن النعمان، حازم بن حرملہ، حنظلہ بن ابی عامر غسیل الملائکہ، الحکم بن عمیر، حرملہ بن ایاس، خباب بن الارت، خنیس بن حذافۃ السہمی، خریم بن فاتک، خریم بن اوس الطائی، خبیب بن یساف، دکین بن سعید، عبد اللہ ذو البجادین، ابو لبابہ الانصاری، ابو رزین، زید بن الخطاب، سلمان فارسی، سعد بن ابی وقاص، سعید بن عامر، سفینہ مولی رسول اللہ، سالم مولی ابی حذیفہ، سالم بن عبید الاشجعی، سالم بن عمیر، سائب بن خلاد، شقران مولی رسول اللہ ﷺ، شداد بن اسید، صہیب بن سنان، صفوان بن بیضاء، طخفہ بن قیس، طلحہ بن عمرو، طفاوی دوسی، عبد اللہ بن مسعود، ابو ہریرہ”۔[16]

کچھ اور درس گاہیں اور مکاتب 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  مدینہ منورہ میں صفہ کی اس درسگاہ کے علاوہ بعض اور مکاتب اور چھوٹی چھوٹی درس گاہیں بھی تھیں ۔حضرت مخرمہ بن نوفل رض کا مکان تو دار القراء ہی سے مشہور تھا ۔اور یہاں بھی تعلیم کا پورا نظم تھا ۔حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رض کے بارے میں آتا ہے کہ وہ غزوئہ بدر کے کچھ ہی دن بعد تشریف لائے تو اسی دار القراء میں مقیم ہوئے ۔یہاں بھی محدود ہی سہی طلبہ کے قیام کا نظم تھا ۔

صفہ سے متعلق خلاصہ کلام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ”حلیہ الاولیاء“میں امام حاکم نے ”المستدرک “ میں صفہ اور اصحاب صفہ کے حالات کے مفصل بیان کیاہے ،نیز حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری، کتاب الاستیذان باب کیف کان عیش النبی واصحابہ میں اصحاب الصفہ سے متعلق بہت ساری تفصیلات جمع کی ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ صفہ اسلامی تاریخ کا اولین دار العلوم ہے ، جہاں کے پہلے مدرس اور صدر مدرس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،وہاں کے ممتاز طالب ِعلم اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے محدث ہیں،یہ مقام نہایت بابرکت ہے ،بطور خاص علما وطلبہ کے لیے کہ اگر اللہ تعالیٰ مدینہ پاک کی حاضری کی سعادت نصیب فرمائیں ،تو اس مقام میں حاضر ہوکر علمی کمال پیدا کرنے کے لیے کوئی ظاہری تدبیر ضرور کرنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔

  خلاصہ یہی کہ صفہ اولین درسگاہ ہے کہ دنیا میں جتنی درس گاہیں آج تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دے رہی ہیں ،یہ ان کا اصل سرچشمہ ہے ،بلکہ ایک دینی تعلیم ہی پر منحصر نہیں بلکہ یہی ہر علم نافع کا منبع ہے ۔جس کی بنیاد ایک نبی امی صلی اللہ علیہ کے ہاتھوں پڑی تھی اور جس کی روشنی میں مشرق و مغرب اور شمال و جنوب غرض دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تمام دانش گاہیں روشنی حاصل کر رہی ہیں اور اس کے عالم تاب کرنوں سے ذرہ ذرہ منور ہے ۔ لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہو اس کے پہلے معلم و منتظم اور بانی و سرپرست پر اور ان کے عالی مقام رفقاء پر ۔۔۔

(مختلف مصادر و مراجع اور جدید ذرائع ابلاغ سے مستفاد ہے یہ مضمون)

اپنی راۓ یہاں لکھیں