کیا سیکولر پارٹیوں کا رویہ مسلمانوں کو مایوس کررہاہے ؟
سرفرازاحمدقاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186
ملک کی آزادی کو 75 سال ہونے کو ہے، اس دوران بھارت کے مسلمان اسی امید کے ساتھ زندگی گذارتے رہے کہ عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والی مختلف حکومتیں ہمارا بھی خیال کریں گی،ہمارے مسائل پر بھی توجہ دےگی۔ برادرانِ وطن کی طرح ہمیں بھی اس ملک میں یہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔حکومتیں بنتی اوربگڑتی رہی لیکن کسی پارٹی اور حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ مسلمانوں پر توجہ نہیں دی۔نہ انکے مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی دکھائی۔ساری پارٹیوں نے مسلمانوں سے ان کا ووٹ تو حاصل کیا لیکن بھارت کے مسلمانوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ترقی نام کی چڑیا مسلمانوں کے قریب سے بھی نہیں گذری۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی حالت دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی گئی۔ساری پارٹیوں نے انھیں نظر انداز کیا۔ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کا استحصال کیا جاتارہا۔کبھی یہاں مسلمانوں کو فسادات کے ذریعے برباد کیاگیا،کبھی تعلیمی میدان میں منظم پلاننگ کے تحت پیچھے رکھاگیا،کبھی انھیں جھوٹے اور فرضی الزامات کے تحت جیلوں میں بھرکر ان کی زندگیاں اجیرن بنادی گئی۔ملک جب آزاد ہوا تو اسے سیکولرزم کا لباس پہنایا گیا اور پھر اسی انداز میں دستور کو مرتب کیاگیا،لیکن اس نام نہاد سیکولرزم نے ملک کے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہونچایا۔گویا ایک طریقے سے سیکولرزم کا راغ الاپ کر مسلم قوم سے فراڈ کیا گیا۔سیاسی لیڈروں نے سیکولرزم کو اپنے ووٹ بینک اور موقع پرستی کےلئے استعمال کیا۔مسلمانوں سے نفرت انکی گھٹی میں پڑی رہی۔یہ ٹوپی پہن کر مسلمانوں کو ٹوپی پہناتے رہے۔گلے میں رومال ڈال کر،کرتا پاجامہ زیب تن کرکے یہاں کے مسلمانوں کے آرزو ارمان کا خون کرتے رہے۔سیکولر کہلانے والے لیڈروں نے ٹوپی تو پہنی،مسلمانوں کے مذہبی پروگرام میں شرکت تو کی،افطار پارٹی کے نام پرانھیں بہلایا تو ضرور لیکن انکے دلوں سے کٹر وادی اور مسلم دشمنی ختم نہ ہوسکی۔ماتھے پر تلک لگا کر انھوں نے خود کو بڑا ہندو ثابت کرنے کی تو کوشش کی لیکن یہ لیڈران حقیقی سیکولرنہ ہوسکے اور مسلمانوں سے متعلق انکا نظریہ نہ بدل سکا۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بھارت کے مسلمان جذباتی واقع ہوئے ہیں،یہ فوری جھانسے میں آجاتے ہیں۔کبھی انھوں نے کانگریس اوراسکے لیڈران کو اپنا مسیحا سمجھا تو کبھی لالو اور ملائم کو انھوں نے اپنی آنکھوں پر بٹھایا،کبھی مایا وتی،ممتا بنرجی، نتیش کمار، شرد پوار،پاسوان،کے سی آر،کیجریوال یہ وہ لوگ ہیں جنھیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت پڑی تو مسلمانوں نے متحد ہوکر انھیں ووٹ دیا اور انھیں اقتدار حوالے کیا،لیکن مسلمانوں کا کیابھلا ہوا؟ان کا تعلیمی فیصد کتنا بلند ہوا؟ انھیں کتنی فیصد نوکریاں اور روزگار ملے؟انکی فلاح بہبود کےلئے کتنی اسکیمیں بنائی گئی اور خلوص دل سے اس پر کتنا عمل کیاگیا؟آج ملک میں مسلمانوں کی حالت انتہائی پسماندہ قوم کی حیثیت سے ہے آخر کون ہے اسکا ذمہ دار؟کانگریس پارٹی ایک لانبے عرصے تک ملکی اقتدار پر مسلم ووٹ کے بل بوتے پر اقتدار کا مزہ لیتی رہی۔اقتدار پرقابض ہونے والے فرضی سیکولر حکومتوں نے مسلمانوں کے حالات معلوم کرنے کےلئے کبھی سدھیر کمیٹی،توکبھی سچرکمیٹی اورکبھی رنگاناتھ مشرا کمیشن توقائم کیا، لیکن ان کمیشنوں کی سفارشات کو کبھی نافذ نہیں کیاگیا۔ آخران سفارشات کےنفاذ میں کیاچیز مانع رہی؟ بدلے میں مسلمانانِ ہند کو مسلم کش فسادات کا لامتناہی سلسلہ ملا۔
محترم ودود ساجد صاحب ایڈیٹر انقلاب کے مطابق بابری مسجدکی شہادت کے بعد جمیعت علماء ہند کےلئے وزارتِ خارجہ کے سابق افسر قاضی مسعود حسن صدیقی نے ایک جائزہ لیاتھا۔اس جائزے کے مطابق 90 کی دہائی تک ملک میں 67 ہزار 500 مسلم مخالف فسادات ہوچکے تھے۔ان میں سے 23 ہزار 500 فسادات 1984 کے سکھ مخالف فسادات کی شدت کے تھے۔37 سال پہلے ہونے والے سکھ مخالف فسادات بلاشبہ بڑے بھیانک تھے۔جس میں 2200 لوگ مارے گئے تھے،2004 تک ہر متاثر کو دہلی اور مرکزی حکومتوں سے مختلف قسم کی مالی امداد دی جاتی رہی،لیکن اسکے باوجود اپریل 2005 میں اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کی صدارت میں کابینہ نے 2200 متاثرین کے اہل خانہ کےلئے 7 ارب 22 کروڑ سے بھی زیادہ کی رقم مختص کردی۔کیا 2005 تک برپا ہونے والے ہزاروں مسلم مخالف فسادات میں سے کسی ایک فساد کے متاثرین کےلئے بھی کانگریس یا کسی اور سیکولرحکومت نے ایسی کوئی رقم مختص کی؟کسی نے جاکر منموہن سنگھ یا سونیا گاندھی سے نہیں کہاکہ کم سے کم 1984 تک برپا ہونے والے مسلم مخالف فسادات کے متاثرین کی ہی خبرگیری کرلی جائے”۔
اس اقتباس کو بار بار پڑھئے اور سوچیے کہ آخر ہم مسلمانوں کا قصور کیا ہے جسکی وجہ سے ہمیں ہر سطح پر نظر انداز کیاگیا۔کانگریس کے دور حکومت یہ سارے فسادات ہوئے،ٹاڈا اور پوٹا جیسے خطرناک قوانین بناکر مسلمانوں کو جیلوں میں ٹھونسا گیا۔لاکھوں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کردی گئی۔ایک تازہ رپورٹ جوانتہائی حیرت انگیز ہے، اسکے مطابق منموہن سنگھ کے دوسرے دور حکومت میں قومی سطح پر زیرسماعت ملزمین کی کل تعداد میں مسلمانوں کی تعداد ساڑھے 22فیصد تھی،جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 14.9 فیصد ہے۔لاء اینڈ آرڈر کا موضوع ریاستی حکومتوں کے تحت آتاہے لہذا یہاں ریاستی سطح پر جائزہ لینا ضروری ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34 فیصد ہے،لیکن وہاں کی جیلوں میں زیر سماعت مسلم قیدیوں کی تعداد ساڑھے 47 فیصد ہے۔گجرات میں مسلمان دس فیصد ہیں مگر وہاں کی جیلوں میں انکی تعداد 27فیصد ہے۔مودی جب گجرات کے وزیر اعلی تھے تو زیر سماعت مسلم قیدیوں کی تعداد 24 فیصد تھی،اب اس میں تین فیصد کا اضافہ ہوگیاہے۔کرناٹک میں مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد اور جیلوں میں 22فیصد ہے۔2013 سے 2017 تک مسلم قیدیوں کی تعداد بھی وہاں آبادی کے تناسب کے مطابق 13فیصد تھی۔یہ اضافہ اچانک 2018 میں ہوا۔کیرلا میں مسلم آبادی ساڑھے 26 فیصد ہے،جبکہ جیلوں میں انکی تعداد 30 فیصد ہے۔مدھیہ پردیش میں مسلمان ساڑھے 6 فیصد ہیں،جبکہ جیلوں میں 15 فیصد ہیں۔مہاراشٹر میں مسلمان ساڑھے 11فیصد ہیں جبکہ 2015 تک جیلوں میں انکی تعداد 30 فیصد تھی،لیکن دکن ہیرالڈ کے مطابق 30اگست 2020 تک انکی آبادی بڑھکر 14.2 فیصد ہوگئی اور جیلوں میں انکی تعداد 18.26 فیصد ہوکر رہ گئی۔راجستھان میں مسلمانوں کی آبادی 9فیصد ہے جبکہ وہاں کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 23 فیصد ہے۔تامل ناڈو میں مسلم آبادی 6 فیصد ہے جبکہ جیلوں میں مسلمان 11 فیصد ہیں۔یوپی کے اعدادوشمار بھی حیرت انگیز ہیں وہاں مسلم آبادی 19 فیصد ہےاور جیلوں میں انکی تعداد 29 فیصد ہے۔یعنی دوگناسے 9فیصد کم۔مغربی بنگال میں بھی صورتحال یوپی جیسی ہی ہے یہاں مسلم آبادی 27 فیصد ہے جبکہ جیلوں میں انکی تعداد 36 فیصد ہے۔بہار میں مسلمانوں کی آبادی 17 فیصد ہے جبکہ جیلوں میں 15 فیصد ہیں۔
اب ان تمام تفصیلات سے جو نکتہ نکل کر سامنے آتاہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی آبادی کے اعتبار سے جیلوں میں زیادہ ہیں،مگر آخر کار زیادہ تر بری ہوجاتے ہیں۔لیکن جب تک انکے معاملات تصفیہ کے مرحلے میں پہونچتے ہیں وہ اپنی زندگی کا بیشتر اور قیمتی حصہ جیلوں میں یا مقدمہ کا سامنا کرتے ہوئے گذارچکے ہوتے ہیں۔وہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر چکے ہوتے ہیں۔ایک طرف انکے اعزاء ان سے دور ہوجاتے ہیں،تو دوسری طرف انکا کاروبار یا روزگار ختم ہوچکا ہوتاہے۔اب نہ تو وہ معاشرے میں ہی سراٹھاکر عزت کی زندگی جی سکتےہیں اور نہ ہی وہ خاطی پولیس والوں کے خلاف تلافی کی کوئی کارروائی کرسکتے ہیں۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پورے ملک کی پولس انتہائی متعصب ہوچکی ہےاور مسلم دشمنی انکے رگ وپے میں بھردی گئی ہے”(انقلاب دہلی)
اب کون ہے اسکا ذمہ دار؟ کیا یہ سیکولرزم کی سزا اور اسکا مذاق نہیں ہے؟ آخر مسلمان ہی کیوں نشانے پر ہے؟کیا یہ سب ملک کے مسلمانوں سے سوتیلا سلوک نہیں ہے؟ حکومتیں آتی ہیں،چلی جاتی ہیں،چہرے بدلتے رہتے ہیں،مگر مسلمانوں کے ساتھ رویہ اور سلوک نہیں بدلتا ایسا کیوں؟2014 کے بعد سے تو ملک کا سیاسی منظر نامہ بالکل تبدیل ہوچکاہے۔ملکی اقتدار پرفاشسٹ طاقتیں قابض ہیں۔ بی جے پی حکومت اور آرایس ایس کے لوگوں نے سیکولرزم کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے،جسکا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہر پارٹی ایک دوسرے سے اس بات پر مقابلہ کررہی ہے کہ وہ زیادہ شدت پسند ہے یا پھر وہ ہندتوا نظریات کو فروغ دینے کی زیادہ اہل ہیں۔اور اب غلطی سے بھی کوئی سیکولر پارٹی کا نمائندہ مسلمانوں کا نام لینا تک گوارا نہیں کررہاہے اور نہ اسکی ضرورت محسوس کررہاہے۔ایسے میں وہ مسلمانوں کے مسائل کیسے اٹھائیں گے؟ گویا مسلم ووٹ کو پوری طرح بے حیثیت اور بے وزن کردیاگیا۔اب کسی پارٹی بالخصوص وہ پارٹیاں جو کچھ سالوں پہلے تک سیکولر کا چولہ پہن کر گھوم رہی تھی اور انھیں اقتدار کےلئے مسلم ووٹوں کی ضرورت تھی اب انکی نظر میں مسلم ووٹ بے وقعت ہوچکاہے ۔تو جب انھیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں تو یہ مسلم مسائل پر توجہ کیوں دیں؟ کیوں اپنا وقت ضائع کریں؟
ایک زمانے میں لالو یادو سیکولرزم کی وردی پہن کر نمودار ہوئے اور مسلمانوں کی صفوں میں اپنی موجودگی درج کرائی،مسلمانوں نے دل کھول کر انھیں اپنا ووٹ دیا اور بیس سال تک یہ اقتدار کامزہ لیتے رہے۔پیچھے مڑکر انھوں نے کبھی مسلمانوں کو نہیں دیکھا اور نہ ہی انکے مسائل پر کوئی معمولی توجہ دی جووعدہ انھوں نے مسلمانوں سے کیاتھا اسکو بھی بھلا بیٹھے۔1989 کے بھاگلپور کا فساد جو آزاد ہندوستان کا سب سے بڑا فساد تھا اسکے متاثرین کو انصاف دلانے کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ ہی رہا۔اب تک وہاں کے مظلوموں کو انصاف نہ مل سکا۔ملائم سنگھ بھی سیکولر کی بیساکھی کے سہارے مسلم ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیاکہ انھیں لوگ”ملا ملائم سنگھ یادو” بھی کہنے لگے۔انھوں نے مسلم سماج کےلئے کیاکیا؟ اپنے بیٹے اکھلیش یادو کو اقتدار حوالے کیا تو بدلے میں اکھلیش نے مسلمانوں کو مظفرنگر کا بھیانک اور رونگٹے کھڑے کردینے والا فساد تحفے میں دیا۔مایاوتی بھی کبھی مسلم ووٹ پر عیش کرچکی ہیں لیکن انھوں نے مسلمانوں کےلئے کیاکیا؟دہلی میں کیجریوال کو پورے اعتماد کے ساتھ مسلمانوں نے ووٹ دیا لیکن کیجریوال اب اپنی طاقت خود کو سافٹ ہندو ثابت کرنے میں صرف کررہے ہیں۔،دہلی کو کئی دنوں تک جلنے کےلئے چھوڑ دیاگیا اور یہ چیف منسٹر ہوکر تماشہ دیکھتے رہے۔مسلمان لٹتے رہے،کٹتے رہے،انکی عزت وعصمت پامال ہوتی رہی،گھر،دکان سب دہلی کے مسلمانوں کا تباہ کردیاگیا اور کیجریوال خاموشی سے یہ سب نظارہ کرتے رہے۔بنگال میں ممتا بنرجی نے مسلمانوں سے بھیک مانگی اور مسلمانوں نے اقتدار پر کئی بار فائز کردیا لیکن بنگالی مسلمانوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،معاشی وتعلیمی حالت تو انکی وہاں انتہائی افسوسناک ہے۔
2014 میں تلنگانہ ریاست وجود میں آئی اور پھر نئے کھلاڑی کے طور پر کے سی آر مسلمانوں کے درمیان جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔8سال گذر جانے کے بعد بھی انھیں مسلمانوں سے کئے وعدے یاد نہیں ہیں۔اور اب یہ بھی اپنے کو خالص ہندو ثابت کرنے کی دوڑ میں مصروف ہے۔بابری مسجد کے کلیدی ملزم نرسمھاراؤ کا یہ خودساختہ چیلہ انکی برسی پر کروڑوں روپے پانی کی طرح بہادیا آخر یہ کس کو خوش کرنےکےلئے؟نظام سرکار کی قدیم عمارتیں یہ چن چن کر منہدم کرنے میں مگن ہے۔ آخر یہ سب کس لئے؟ کیا ریاست کے مسلمان صرف افطار پارٹی اور دوسوروپے کی ساڑی کےلئے زندہ ہیں؟ ان سے کئے گئے وعدوں کا کیاہوگا؟ نتیش کمار سے بھی مسلمانوں کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں لیکن انھوں نے بھی انکی امیدوں پر پانی پھیردیا۔وہ اپنا اقتدار بچانے کےلئے پلٹی مارنے لگے یہاں تک کہ اب وہ بھی مودی کی گودمیں جاکر بیٹھ گئے اورانکی فاشسٹ حکومت کے ساتھ ہیں۔کیا ان باتوں سے آپ کو نہیں لگتا کہ ان سارے سیکولر پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں کا رویہ مسلمانوں کو مایوس کررہا ہے؟مسلم نمائندگی اور مسلم چہرے کے نام پر جن کو ان لوگوں نے ٹکٹ دیا اور وہ کامیاب ہوتے رہے انھوں نے اپنی قوم کی ترجمانی کرنے سے زیادہ پارٹی کی وفاداری نبھائی ۔اور اپنی پارٹی کاقرض اتارتے رہے یاپھر مسلم مسائل پر سرد مہری اختیار کی۔وہ یہ بھی بھول گئے کہ میں جس کمیونٹی سے آیا ہوں،جس حلقے سے مجھے بھیجاگیا ہے وہاں کے بھی کچھ تقاضے ہیں،کچھ مسائل ہیں۔ لیکن وہ ان ساری چیزوں کو بھلاکر پارٹی کی وفاداری نبھاتے رہے،اقتدار کے مزے لیتے رہے۔پارٹی انھیں ہر موقعے پر استعمال کرتی رہی اور یہ استعمال ہوتے رہے۔
اگر ایمانداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو آج سیکولر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی مسلم لیڈر ایسا نہیں ہے جو یہ کہ سکے کہ میں نے اپنی کمیونٹی کےلئے کوئی قابل ذکر کام کیاہے،اور ترقی کی رفتار میں مسلمانوں کی شراکت کو یقینی بنایا ہے۔ لالو یادو اورا نکی پارٹی نے ڈاکٹر شہاب الدین مرحوم کے ساتھ کیا رویہ اپنایا یہ آپ کو معلوم ہے۔سماجوادی پارٹی نے اعظم خان اور مایاوتی نے نسیم الدین صدیقی،کانگریس نے غلام نبی آزاد،سلمان خورشید اور دیگر مسلم نام کے لیڈروں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا یہ بھی آپ جانتے ہیں۔یہ سب اس ملک میں مسلمانوں کو اچھوت بنانے کےلئے کیا جاتا رہا،پھر اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ علاقے جہاں مسلم آبادی کی بڑی تعداد آباد ہے اور وہاں آزادی کے بعد مسلمانوں نے مسلم قیادت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔مسلم پارٹی اور مسلم قیادت کو ٹھکرا دیا تھا آج وہاں ایک نئی لہر پیدا ہوگئی ہے۔وہاں کے مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں اور اسی وجہ سے حیدرآباد کی مسلم پارٹی کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔گذشتہ بہار کے الیکشن میں سیمانچل کے علاقے میں اویسی کی پارٹی نے 5سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔یہ وہی سیمانچل ہے جو ملک کا انتہائی پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں کے مسلمانوں نے آزادی کے بعد مسلم قیادت کو ٹھکرادیا تھا۔آج ان علاقوں کے علاوہ ملک کے مختلف ریاستوں میں نوجوانوں اور نئی نسل کی ایک بڑی تعداد اویسی اورانکی پارٹی کی حمایت کررہی ہے اور جذباتی طور پر ان سے امیدیں وابستہ کررہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اویسی اور انکی پارٹی مسلمانوں کی خیر خواہ اور ہمدرد ہے یا پھر صرف انکے نعرے ہی جذباتی ہیں؟ یہ سمجھنے کی بات ہے،اسد اویسی جنکی عمر تقریباً 52 سال ہے۔حیدرآباد میں لوک سبھا کی ایک اور اسمبلی کی 7 سیٹیں انکی پارٹی کے پاس ہے۔ایک طویل عرصے سے اس پارٹی کی سیاسی اجارہ داری قائم ہے۔حیدرآباد لوک سبھا سیٹ پر 35 سال سے اس کا قبضہ ہے۔مجلس اتحاد المسلمین کا قیام 1928 میں ہوا تھا۔1948 میں انضمام حیدرآباد کے بعد اس پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔پھر 1958 میں اسد اویسی کے دادا مولانا عبدالواحد اویسی مرحوم نے نئے دستور کے ساتھ پارٹی کا احیاء کیاتھا۔2013 تک یہ پارٹی روایتی طور پر حیدرآباد تک محدود رہی اور تلنگانہ،رائلسیما،مہاراشٹر اور کرناٹک کے بعض علاقوں میں مجالس مقامی کی نمائندگی کرتی رہی۔2014 میں اسد اویسی نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے پارٹی کی توسیع کی کوشش کی۔24 امیدوار میدان میں اتارے جن میں دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔2015 میں مجلس نے بہار اسمبلی الیکشن میں سیمانچل علاقے سے 6 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے،جو قابل لحاظ مسلم آبادی والا علاقہ ہے۔لیکن تمام یعنی 6 سیٹوں پر شکست ہوئی تھی،صرف ایک امیدوار کی ضمانت بچ سکی تھی۔پھر 5سال بعد یعنی 2020 میں بہار الیکشن کے وقت 20 سیٹوں پر مقابلہ کرتے ہوئے 5 سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔جھارکھنڈ میں مجلس نے 16 سیٹوں پر مقابلہ کیاتھا لیکن کسی پر کامیابی نہیں ملی۔2021 کا سال اس پارٹی کےلئے اچھا نہیں رہا کیونکہ پارٹی نے توسیعی منصوبہ کے تحت مغربی بنگال اور تامل ناڈو میں بھی مقابلہ کیاتھا لیکن کامیابی نہیں ملی۔بنگال میں انڈین سیکولر فرنٹ سے مفاہمت میں ناکامی کے بعد مجلس نے 7 سیٹوں پر مقابلہ کیاتھا جبکہ تامل ناڈو میں دینا کرن کی زیر قیادت اے ایم ایم کے پارٹی سے مفاہمت کے ذریعے تین سیٹوں پر مقابلہ کیاتھا لیکن دونوں ریاستوں میں کوئی کامیابی نہیں ملی تھی۔
اب اتر پردیش میں یہ پارٹی کامیابی کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔2017 کے یوپی الیکشن میں اس پارٹی نے 38 سیٹوں پر مقابلہ کیاتھا،لیکن ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔اترپردیش میں مسلم آبادی 19 فیصد ہے اور 403 اسمبلی سیٹیں ہیں۔2022 میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اسد اویسی نے 100 سیٹوں پر مقابلے کا اعلان کردیا ہے ان پر ووٹ کاٹنے جیسے دیگر الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔لیکن انھوں نے ان الزامات کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کی،لیکن یہ الزامات جو زیادہ تر سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کی جانب سے لگائے جاتے رہے۔ آج تک اسے کوئی پارٹی ثابت نہ کرسکی۔ان کا واضح پیغام یہ ہے کہ ملک کے مسلمان اپنی قیادت خود طے کریں۔ مسلمانوں کو انکا حق ملنا چاہئے،اقتدار میں انکی حصے داری ہونی چاہئے،تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں انکے ساتھ جو امتیاز برتا گیا اور انھیں نظر انداز کیاگیا اسکی پابجائی ہوسکے۔مجلس پر سیکولر ووٹ تقسیم کرنے اور بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کا الزام غیر بی جے پی پارٹیوں کی جانب سے لگایا جاتا رہاہے،لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے بھارت میں جہاں سیکولرزم نے دم توڑ دیا ہے وہاں سیکولر کون ہے؟ اور کیا سیکولرزم کا مقصد صرف مسلم ووٹ حاصل کرنا ہے یااسکے علاوہ کچھ اور ہے؟میں ذاتی طور پر اویسی اور اسکی پارٹی کی جذباتی سیاست سے اتفاق نہیں رکھتا اور نہ انکی سیاست کو ملک کے مسلمانوں کےلئے مفید سمجھتا ہوں، لیکن آخر اسکا حل کیا ہے اور مسلمانوں کےلئے راستہ کیا ہے؟ اس پر تو غور ہونا چاہئے۔مسلمان کدھر جائیں؟ اور کیاکریں؟ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ آخر اویسی کو اس کام کےلئے کس نے مجبور کیا جو وہ پورے ملک میں گھوم گھوم کر مسلم مسائل کو پیش کرتے ہیں۔پارلیمنٹ سے لیکر عوامی جلسوں تک انکی تقریریں مدلل ہوتی ہیں،اور وہ پوری طاقت کے ساتھ مسلمانوں سے متعلق مسائل اٹھاتے ہیں اور اس پر بحث کرتے ہیں۔جو کام سیکولر کہلانے والی پارٹی،حکومت اور انکے نمائندوں کو کرنا چاہیے اس سے وہ چشم پوشی کیوں کرتے ہیں؟ یہ کام اویسی کیوں کررہےہیں؟ کیا سیکولر پارٹیوں کو یہ سمجھنے اور مسلمانوں کے تئیں ان کے رویے میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے؟آخر مسلم نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اویسی کی جذباتی باتوں اور نعروں میں کیوں بہہ رہا ہے؟ اس پر غور کون کرےگا ؟اور اسکے سدباب کےلئے لائحہ عمل طے کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
بھارت کے مسلمان ہندوستانی ہیں اور ہندوستانی ہونا ہمارا پیدائشی حق ہے۔پاکستان، مسلم لیگ سے وابستہ لوگوں کا مطالبہ تھا ظاہر ہے یہ سارے مسلمانوں کا مطالبہ نہیں تھا لیکن بہر حال انکا مطالبہ پورا کردیاگیا اور پاکستان انھیں مل گیا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تقسیم وطن کےلئے ہندو شدت پسند عناصر نے جس طرح اس وقت ماحول تیار کیاتھا آج بھی وہ لوگ یہی سب کررہے ہیں انکی حرکتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ہندتوا کے علمبردار اور نفرت کے پجاری ایک عجیب بحرانی کیفیت میں مبتلا ہیں اور وہ وقفے وقفے سے ملک کی عظیم شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی اور مسلم مخالف نفرت کی مہم چلارہے ہیں کیا ان چیزوں سے ملک محفوظ اور متحد رہ سکے گا؟ اور کیا ملک کو متحد رکھنے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے؟ پھر یہاں کی حکومتیں اور سیکولرزم کا چولہ پہنے سیاسی لیڈران،دانشوران اور امن و محبت کے داعی لوگوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور کب وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے؟ یہ کون بتائے اورسمجھائے گا؟آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ آپ بھی سوچئے میں بھی سوچوں۔
(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)