سیاسی غلام،فکری غلام

سیاسی غلام، فکری غلام

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

ہم عام طور پر اپنی گفتگو میں آمریت اور تاناشاہی کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ناپسندیدہ صفات کے ساتھ اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔مگر کیا ہم نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ آمریت یا استبداد آخر کس چڑیا کا نام ہے۔ آمریت کا مطلب ہے حکمراں کا غیر قانونی طور سے بے جا طاقت استعمال کرکے سب کو اپنے آگے سرنگوں کر دینا۔

آمریت واستبداد کی بدترین شکل وہ ہوتی ہے جب اس کے ذریعے ڈھائے جانے والے مظالم کو درست اور دانش مندانہ قرار دینے کے لیے مختلف حیلوں، بہانوں اور دلیلوں کو تراشا جاتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ استبداد اپنی حقیقت کے اعتبار سے یک رنگ ویک ہیئت نہیں ہوتا،جیسا کہ بیشتر لوگ غلطی سے ایسا سمجھتے ہیں،بلکہ اس کے مختلف درجے اور سطحیں ہیں جن میں بدترین درجہ سیاسی اور فکری آمریت کا ہوتا ہے۔ان دونوں قسم کے استبدادوں کا شکار ہونے والے افراد الگ الگ ہوتے ہیں۔

اہلِ علم وقلم اور اربابِ فکر ونظر میں سے وہ لوگ سیاسی آمریت کے پرستار ہوتے ہیں جو سیاسی اطاعت کے مفہوم میں مبالغہ آمیزی اور وسعت پسندی سے کام لیتے ہیں اور شریعت نے مسلم فرمانرواؤں کی اطاعت کے سلسلے میں جو حدودمتعین کر دی ہیں ان سے بار بار تجاوز کر جاتے ہیں۔انھیں طبقۂ حکمراں کے احتساب وجائزے،یا اس پر نقد کی جانے والی باتوں سے نفرت ہوتی ہے۔ حاکمِ وقت کے ہر حکم کو وہ شرعی حکم کی سطح پر لے آتے ہیں اور ظالم وجابر سربراہِ مملکت کے ہر فیصلے اور اقدام کو شرعی اعتبار واستناد بخشنے کے لیے دینی نصوص اور فقہی کتابوں میں چھان پھٹک شروع کر دیتے ہیں، درکنار اس سے کہ اس کے لیے انہیں دینی نصوص کا کوئی نیا مفہوم کیوں نہ تراشنا پڑے یا فقہاء کی عبارتوں میں تحریف کیوں نہ کرنی پڑے۔

سیاسی آمروں اور بادشاہوں کا تذکرہ اگر کسی موقعے پر نکل آئے تو تعظیم واحترام پر مشتمل ایسے القابات وخطابات سے نوازتے ہیں جو قطعاً حدِ اعتدال سے خارج اور ایک طرح سے سوقیانہ پن کے زمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ایسا یہ لوگ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ سیاسی استبداد کے سامنے سپر ڈال چکے ہوتے ہیں اور ذہنی اور نفسیاتی طور پر ہار مانتے ہوئے غلامی پر رضامند ہو جاتے ہیں۔

اس کے برعکس آج دانشوروں اور مفکروں کا وہ طبقہ جو مغرب طاقتوں کے تہذیبی اور ثقافتی استبداد کا پرستار اور غلام بن چکا ہے، ان کا طرزِ فکر وعمل یہ ہوتا ہے کہ سیاسیات، سماجیات، بین الاقوامی قوانین وغیرہ علمی میدانوں میں مغربی فلاسفہ وحکماء نے جوافکار ونظریات پیش کیے ہیں اور اپنے حالات اور ماحول کے مطابق جو راہِ عمل اختیار کی ہے اسے شرعی مکھوٹا اور دینی چوکھٹا فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ان حضرات کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ مغرب کی غالب تہذیب وثقافت کے جملہ تصورات ومفاہیم کو درست اور مطابقِ شریعت باور کرانے کی دُھن میں حسبِ منشا آیات واحادیث تلاش کرتے ہیں اور ان میں من چاہا مفہوم پیدا کرتے ہیں،اور ہزار جتن کرکے ان کی روشنی میں مغرب کے تہذیبی موقف کو درست قرار دیتے ہیں،پھر چاہے اس کے لیے انھیں ناروا جوڑ توڑ کرنا پڑے، یا معنوی تحریف کا ارتکاب کرنا پڑجائے۔

یہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان کی زبان وقلم پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کا ذکر آئے گا تو قاری کو گرمیِ جذبات اور حرارتِ ایمانی بالکل محسوس نہیں ہوگی۔امتِ مسلمہ کی تاریخ اور موجودہ حالات کی تاریک سے تاریک اور یاس انگیز تصویر پیش کرنے میں انھیں خاص مہارت حاصل ہوگی۔ مگر یہی لوگ جب موقعہ بے موقعہ مغرب کی خوبیاں گنانا شروع کریں گے تو عام آدمی بھی یہ بات محسوس کیے بنا نہیں رہ پاتا ہےکہ اب تحریر میں جذبے کی آنچ، وفا کی گرمی اور تعلقِ خاطر کا ارتعاش موجزن ہے۔ کبھی مغربی تہذیب کو انسانی معجزہ کہیں گے،کبھی اسے انسانی ارتقاء کی معراج اور آخری سرحد لکھیں گے اور کبھی مغربی انسان کو تمام اعلیٰ خوبیوں کا جامع اور مرقع قرار دیں گے۔یہ سب صرف نفسیاتی ہزیمت اور ذہنی فلاکت کی وجہ سے ہے۔ دراصل یہ لوگ مغربی دنیا کے تہذیبی وثقافتی استبداد وآمریت کے آگے ڈگ ڈال چکے ہوتے ہیں اور فکری غلامی پر مطمئن ہوگئے ہیں۔

سیاسی استبداد کا شکار ہونے والوں سے اگر آپ کہہ دیں کہ بھائی! تم لوگ حکمراں طبقے کی منشا اور خواہش کے مطابق شریعت میں اجتہاد کرتے ہو اور اس کے ہرحکم اور فیصلے کو سندِ اعتبار وجواز بخشنے کے لیے دینی نصوص کو نئے معانی پہناتے ہو۔اگر آپ ان میں کسی سے یہ کہہ دیں تو دیکھیں گے کہ وہ سخت ناراض ہوگیا ہے۔ وہ آپ کے اوپر تعصب، تنگ نظری،جانب داری اور بے انصافی کا الزام لگائے گا اور بار بار کہے گا کہ اس نے آج تک جو بھی اجتہاد کیا ہے اور حاکمِ وقت کی تائید میں جو فتویٰ بھی دیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ بغیر شرعی دلیل کے دیا ہو۔ اس کے پاس بھی دلائل ہیں اور ان دلائل کی روشنی میں ہی وہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے یاحق سے زیادہ قریب ہے۔ منشائے شاہی سے اس کے فتووں اور اجتہادوں کی مطابقت محض ایک حسنِ اتفاق ہے۔

ٹھیک اسی طرح اگر آپ مغرب کے تہذیبی وفکری استبداد کا آلۂ کار بننے والے کسی قلم کار اور نام نہاد دانشور سے کہہ دیں کہ تم مغربی تہذیب کی ہواخواہی میں اسلامی شریعت میں توڑ مروڑ کرتے ہو اور فقہائے دین کے اقوال وآراء میں سے اُن کا انتخاب کرتے ہو جو مغربی افکار ونظریات کے موافق ہوں۔اگر آپ ایسا کہہ دیں تو یقین جانئے کہ یہاں بھی سامنے والا شدید غصے سے بھرجائے گا اور وہی سب باتیں دہرائے گا جو اوپر گزر چکی ہیں،یعنی کہ تم جانب داری برت رہے ہو اور ہمیں غلط سمجھ رہے ہو، ہمارے پاس بھی شریعت کے محکم دلائل موجود ہیں اور ہمارا اور تمہارا اختلاف صرف نقطۂ نظر اور رائے کا اختلاف ہے،اور ہر صاحبِ علم کو اپنے علم کی حد تک اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے۔

یہاں ہمارے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے۔وہ یہ ہے کہ وہ کیا خفیہ طریقۂ کار ہے جس کے ذریعے سیاسی یا تہذیبی استبداد کی ہم نوائی کی خاطر شرعی نصوص کو توڑا مروڑا جاتا ہے؟

اس کا جواب ہے کہ اس خفیہ طریقۂ کار کو دو ٹوک انداز میں تشخیص نہیں کیا جاسکتا۔ ہوتا یہ ہے کہ شرعی نصوص یعنی قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ، بہت سے معانی کا احتمال رکھتی ہیں جو ان کی لغوی اور لسانی ساختیات کا ایک طبعی نتیجہ ہے۔ یہ معنی ومفہوم کا تنوع ہے جسے ہم علمِ دلالت (Semantics) بھی کہہ سکتے ہیں۔علمائے دین ہمیشہ سے کسی ایک دینی نص کے متعدد محتمل (Probable) معانی ومفاہیم کے تعلق سے ایک مکمل علمی منہج کی پیروی کرتے آئے ہیں اور اس کے ذریعے صرف اُس مفہوم ومعنی کو اختیار کرتے رہے ہیں جو شارعِ حکیم کی منشا ومراد کو بہ طریقِ احسن بیان کرتا ہو۔ ڈھنگ سے دیکھا جائے تو سیاسی اور تہذیبی، یا کسی بھی نوعیت کے استبداد سے آزاد عالم یا مفکر کا یہی فطری رویہ ہونا چاہیے۔

مگر سیاسی یا تہذیبی استبداد کا شکار جو لوگ ہوجاتے ہیں وہ یہ کرتے ہیں کہ دینی نص کے متعدد احتمالی معانی ومفاہیم میں ترجیح کا معیار کسی علمی اور معروضی منہج کو نہیں بناتے،بلکہ وہ محتمل معانی ومفاہیم میں سے اُس معنی اور مفہوم کو چُن لیتے ہیں جو حکمراں کی خواہش کے مطابق ہو، یا جو غالب تہذیبی نظریات وافکار کے موافق دکھائی پڑے۔ کسی دینی نص کے مختلف احتمالی معنوں میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دینے کا ان کا عمل کسی علمی نہج کے تابع نہیں ہوتا،بلکہ سیاسی یا تہذیبی بالادستوں اور آمروں کی خوشنودی ورضامندی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

سیاسی استبداد کی ذلت آمیز اتباع اور چاپلوسی کا یہ مظاہرہ زیادہ تر اُن اصحاب قلم کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے جو بہ نفسِ نفیس کسی حکومتی عہدے پر فائز ہوں یا جن کے ذاتی مفادات حاکمِ وقت کے ساتھ وابستہ ہو گئے ہوں۔جب کہ تہذیبی وثقافتی استبداد کی چاپلوسی اور غلامی کا رویہ ان دانشوروں اور مفکرین -غیر علمائے دین- کے یہاں زیادہ پایا جاتا ہے جو فکرِ معاصر سے کسی نہ کسی انداز میں جڑے ہوئے ہیں اور اپنے پیچھے علمِ دین کی باقاعدہ تحصیل وتکمیل کا کوئی خلفیہ نہیں رکھتے۔

آج ہم لبرل ازم کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ موجودہ دور فکری سطح پر مغربی لبرل ازم کی بالادستی اور غلبے کا دور ہے۔آج مغربی افکار ونظریات انتہائی موثر وسائل کے ذریعے ہم پر مسلط کیے جارہے ہیں۔ آزادانہ فکر اور سوچ پر سخت پہرہ بیٹھا دیا گیا ہے اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ انہی سوالوں کو پوچھیں اور انھیں اشکالات کو حل کریں جو مغرب ہمارے سامنے رکھے۔ مغربی تہذیب کی روشنی میں آج ہمارا فکری سانچہ تراشا جارہا ہے اور ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے پر مغرب کے نفسیاتی اور عقلی استبداد نے پنجے گاڑ دیے ہیں۔مغرب نواز اہلِ قلم کی تحریریں اگر پڑھیں یا ان کی تقریریں اگر سنیں تو ذرا دھیان لگاکر آپ الفاظ میں چھپی ان کی شکست خوردگی کا ادراک کر لیں گے۔

بسااوقات آپ کو محسوس ہوگا کہ وہ اس فکری جبر واستبداد سے آزادی چاہتے ہیں، مگر ہر بار ان کی کوشش رائیگاں جاتی ہے۔ جب کبھی وہ علمیت اور معروضیت کی پیروی کرکے وحیِ الٰہی کے راجح مفہوم کی طرف مائل ہوتے ہیں، دفعتاً تہذیبی عبودیت کی زنجیریں کھینچ کر دوسری سمت لے جاتی ہیں۔بار بار ایسا ہوتا ہے۔یہاں تک کہ ان کا لاشعور ان کے شعور کو یہ پٹی پڑھا دیتا ہے کہ وہ اپنے افکار ونظریات میں آزاد خیال اور مجتہد ہیں۔ ایسے لوگ نفسیاتی طور سے اسی وقت اپنے آپ کو طاقتور اور صحیح سمجھتے ہیں جب ان کے افکار ونظریات مغربی افکار ونظریات کے موافق بن جائیں۔

بیشتر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس طرح کی ثقافتی وتہذیبی آمریت کے سامنے لاشعوری طور پر ذہنی مرعوبیت اور نفسیاتی ہزیمت کا رویہ اختیار کرلیتا ہے۔ یہ براہِ راست نتیجہ اس بات کا بھی ہے کہ ثقافتی وتہذیبی استبداد کے معنی ومفہوم میں بڑا خلفشار ہے اور یہ بھی کہ تہذیبی آمریت پسندی کے معانی ومفاہیم بڑی حد تک معاصر علمی قالبوں میں ڈھلے ہوئے ہیں۔چنانچہ فریب خوردہ انسان موقع بے موقع ان معانی ومفاہیم سے سیراب اور آسودہ ہوتا رہتا ہے۔کبھی ٹی وی مباحثوں میں ان کا ذکر ہوتا ہے،کبھی ناولوں اور افسانوں میں بنیادی تھیم کے طور پر انھیں پروسا جاتا ہے، کبھی فلموں اور سنیما میں مرکزی کردار اور کہانی کے واسطے سے انھیں پیش کیا جاتا ہے، کبھی کسی اخباری کالم یا سرکاری وغیر سرکاری رپورٹ میں ان کی قصیدہ خوانی ہوتی ہے۔

یہاں ہم اس ثقافتی وتہذیبی استبداد کی چند مثالیں اختصار کے ساتھ پیش کرنا چاہیں گے جن سے معلوم ہوجائے گا کہ مغربی تہذیب وثقافت کے افکار وتصورات اور نظریات وخیالات کے تئیں جس خود سپردگی، آمادگی اور نفسیاتی پسپائی کے ساتھ یہ لوگ جی رہے ہیں وہ کس پستی تک پہنچ چکی ہے۔

مثال کے طور پر آپ بعض لوگوں کو دیکھیں گے کہ ان کے نزدیک ہمارے زمانے کا سب سے اہم اور نازک مسئلہ بس یہ ہے کہ دوسری قوموں اور ملتوں کے تئیں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ اس موضوع پر بات کیجئے تو آپ پائیں گے کہ وہ اس مسئلے کو ایک ملّی بحران اور اجتماعی المیے کے طور پر پیش کر رہے ہیں حالانکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ اگر ہمارے قدیم اسلامی علمی وفقہی سرمائے کو دیکھا جائے تو اس میں یہ موضوع بہت ہی معمولی اور عادی حیثیت کا نظر آئے گا۔ مگر یہ لوگ اس موضوع کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے کہ گویا ہمارے علمی وفقہی سرمائے میں سرے سے اس موضوع پر کبھی کچھ لکھا اور کہا ہی نہیں گیا، اور اب پہلی بار ان دانشمندوں کو اس موضوع پر بات کرنے کی توفیق ارزانی ہورہی ہے۔

حالانکہ اسلامی علمی سرمائے کو سامنے رکھیں تو یہ بہت ہی معمولی قسم کا مسئلہ ہے۔ اسلافِ صالحین نے ہر طرح کے مخالفین کے تئیں امتِ مسلمہ کے موقف پر کافی وشافی گفتگو فرمائی ہے اور کمالِ وضاحت اور قطعیت کے ساتھ مخالفین کی مخالفت پر نقد وجرح کیا ہے۔ ایسے کسی نوتعلیم یافتہ شخص سے اگر آپ پلٹ کر پوچھ دیں کہ میرے بھائی، مخالفینِ دین کے ساتھ شرعی موقف کا مسئلہ ہی کیوں تاریخ کے اس دوراہے پر ایک بحرانی شکل اختیار کر گیا ہے؟ آج جب کہ مغرب میں لبرلزم کو غلبہ حاصل ہے اور اس کے نتیجے میں انفرادی آزادی میں غلوپسندی اور مبالغہ آرائی کی روح معاشرے کے رگ وپے میں پھیل گئی ہے۔ ٹھیک اسی وقت کیوں یہ مسئلہ ابھارا گیا؟ شاید اُس کے لیے یہ سوال اس موضوع پر غیر جانبدارانہ غور وفکر کے دریچے کھول دے اور بچکانی باتوں کے بجائے وہ شعور اور تعقل کے ساتھ مسئلے پرغور کر سکے۔

اسی طرح بعض تحریکی اور فکری حلقوں کو دیکھیں گے کہ وہ رافضی شیعوں اور دیگر اسلام مخالف نام نہاد مسلم فرقوں کے بارے میں کچھ لکھنے یا بولنے کو،ان کی گمراہی اجاگر کرنے اور امت کے لیے ان کی خطرناکی بیان کرنے اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک وشبہات کا ردّ کرنے کو آج کے زمانے میں فرقہ پرستی اورملت میں انتشار وخلفشار پھیلانے کی مکروہ کوشش قرار دیتے ہیں۔ٹھیک ہے، مگر کیوں ایسا ہوا کہ پوری اسلامی تاریخ میں علمائے اہلِ سنت والجماعت ان گمراہ اسلامی فرقوں کی گمراہیوں کی بابت وہ کچھ لکھتے آئے ہیں جس کا عشرِ عشیر بھی آج کے نام نہاد داعیانِ دین نہیں لکھ سکے۔ایسا کیوں ہوگیا کہ آج گمراہ فرقوں کے خلاف لکھنا،ان کی گمراہیوں کو اجاگر کرنا اور اہلِ سنت والجماعت سوادِ اعظم کو ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے باخبر کرنا غلط اور نامناسب ہو گیا؟ کیا اس کی وجہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے کہ ہمارے زمانے میں مغرب سے درآمد شدہ لبرلزم کے فلسفے کو غلبہ ملاہوا ہے جس کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ فرقے اور جماعت کی بنیاد پر کسی کو برا نہ کہا جائے؟ ہماری تمنا ہے کہ یہ سوال بھی اس قسم کے پڑھے لکھے لوگوں کے لیے چشم کشا ثابت ہو، اور وہ مغربی تہذیب وثقافت کے خول سے باہر نکل کر مسئلے کی جملہ ابعاد پر غور کر سکیں۔

اسی طرح بعض مسلم مفکرین کو دیکھیں گے جو بڑ بولے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم صرف افکار پر تنقید کرتے ہیں،ذاتیات پر نہیں۔ٹھیک ہے،مگر کیا ہمارے اسلاف کا بھی یہی طرزِ عمل تھا جو آج آپ مغرب سے سیکھ کر ہمیں سکھا رہے ہیں؟کیا ایسا نہ تھا کہ ہمارے اسلاف افکار اور اشخاص دونوں پر تنقید کرتے تھے؟ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ غیر اسلامی اصول علمائے دین اور اسلافِ امت کے سامنے ایک دن بھی نہیں رہا کہ فکر پر تنقید کریں اور فکر کا پرچار کرنے والے کی شخصیت کو زیرِ بحث نہ لائیں۔ہمارا پورا اسماء الرجال اور علمِ جرح وتعدیل اسی اصول پر مبنی ہے کہ اگر آدمی کا کیریکٹر خراب اور مشکوک ہے تو اس کی بتائی بات بھی خراب اور مشکوک ہوگی۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ خبر لانے والا اگر فاسق ہے تو اس کی بات کا اعتبار نہ کرو،بلکہ تحقیق کرو۔ یہ نہیں کہ مخبر کا کردار وعمل مت دیکھو، بس اطلاع پر غور کرو۔کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم یہاں بھی مغرب کے لبرلزم کے فلسفے سے متاثر ہوگئے ہیں جس کی رو سے اشخاص کی حریت غلوآمیز حد تک مقدس ہے اور نتیجتاً کسی بھی قول پر نقد کرتے ہوئے قائل کی زندگی کو معرضِ بحث میں نہیں لانا چاہیے۔

بعض لوگوں کو اسلامی شریعت کے ایک امتیازی حکم اور سماجی استحکام کے اہم انتظامی ادارے “انکارِ منکر” یعنی برائی پر نکیر سے بڑی کوفت ہوتی ہے کیونکہ شریعت کا یہ ادارہ ان کے ذہن ودماغ پر حاوی اور غالب لبرلزم کے فلسفے کے بالکل خلاف پڑتا ہے۔ایسے لوگ جب اللہ کے کسی بندے کو انکارِ منکر کا فریضہ ادا کرتے دیکھتے ہیں تو فوراً کہتے ہیں کہ یہ تو داداگیری اور زبردستی والی بات ہے۔ تھانے داری اور داروغہ گردی محض ایک پیرایۂ بیان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک خاص تہذیب وثقافت کے ترجمان الفاظ ہیں جن کی رگوں میں لبرلزم کے فلسفے کا لہو رواں دواں ہے۔

ایسا ہی ایک لبرل محاورہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ اہلِ قلم اور مفکرین کے یہاں کافی رائج ہے کہ بات کرو،مگر ہاتھ نہ چلائو۔انگلش کی کہاوت بھی اس سے ملتی جلتی ہے کہ تمہاری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے۔(Your Freedom Ends Where My Nose Begins)اگر آپ اس اصول کی معقولیت پر اعتراض کرتے ہوئے کہیں کہ بھائی! برائی کے خلاف بولنا اور لکھنا جائز ہے تو اسے مٹانے کے لیے ہاتھ بڑھانا کیوں ناجائز ہو سکتا ہے؟تو فوراً کہا جائے گا کہ دراصل زبانی احتجاج آزادیِ رائے ہے،مگر ہاتھ سے انکارِ منکر کرنا ایک گونہ زیادتی، سرکشی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والی بات ہے۔ ٹھیک ہے،لیکن اگر کوئی دریدہ دہن ایسی بات منھ سے نکالے جو اللہ رب العزت،اس کے رسول اکرم ﷺ، صحابۂ کرامؓ یا دین کے کسی حکم اور فیصلے کے استہزاء واستخفاف کے مرادف ہو تو؟کیا ایسی صورت میں زبانی سرکشی کسی لحاظ سے بھی دستی اور عملی سرکشی سے کم لائقِ سرزنش ہوگی؟

انکارِ منکر اور برائی کے ازالے اور روک تھام کے لیے جب اسلام ہاتھ استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے یا اسے واجب قرار دیتا ہے تو اس سے مراد وہ عملی اقدامات ہیں جو وحیِ الٰہی کی نصوص کی روشنی میں انجام دیے جائیں اور جن کے معروف ومشہور ضوابط وقواعد فقہ کی مستند کتابوں میں مرقوم ہیں۔ انکارِ منکر کی آڑ میں انارکی اور افراتفری کی اجازت تو خود اسلام بھی نہیں دیتا۔

روشن خیالی کے یہ چند فکری نمونے یا مزعومہ اصول ہم نے اوپر بیان کیے ہیں،انھیں قارئین مجرد آراء یا افکار سمجھنے کی غلطی نہ کریں۔لبرل ازم کے داعیوں کے یہاں یہ نقد ونظر کا معیار اور کسوٹی ہیں کیونکہ اُن کے رگ وپے میں مغربی تہذیب کی بالادستی اور مشرقی اقدار کی پسپائی کا احساس خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ان نام نہاد اصولوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی رائے اور اس کے عمل میں تفریق کی جائے گی۔ رائے زنی کا میدان انتہائی حد تک وسیع کر دیا جائے اور عملی پیش رفت کی گاڑی کو بری طرح قانون اور دستور کی بیڑیوں سے جکڑ دیا جائے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انسان کا عمل اور کردار مغربی فکر ومزاج میں ضمنی اور ثانوی حیثیت رکھتا ہے،اصل اس کی آراء وافکار ہیں۔

مگر لاکھ روپے کا سوال ہے کہ کیا قول وعمل یا فکر وسلوک میں تفریق کا یہ تصور اسلام کا دیا ہوا ہے؟ کیا مسلمانوں میں یہ شروع سے موجود رہا ہے؟ جواب ہے: ہرگز نہیں۔ہم بہ حیثیت مسلمان سمجھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف سرکشی کا رویہ کسی بھی انسان کے خلاف سرکشی اور زیادتی کے رویے سے زیادہ سنگین اور قبیح ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مقام ومرتبہ ہمارے دلوں اور نگاہوں میں کسی بھی دوسرے شخص کی حیثیتِ عرفی یا عزتِ نفس سے زیادہ عظیم اورمحترم ہے۔اس کے برخلاف مغرب کے بیمار مفکرین کے پیشِ نظر صرف اپنے نفس اور اپنی شخصیت کی تعظیم رہی ہے۔

شریعت کی نگاہوں میں انحراف پر مبنی کوئی رائے یا تصور کسی منحرف عمل سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔گمراہ آراء وافکار کو رواج دے کر شریعت کی نظری تخریب اور اعتقادی بیخ کنی ہماری نظروں میں مسلمانوں پر بالفعل ظلم وزیادتی سے زیادہ گھناؤنی حرکت ہے۔

امام ابن تیمیہؒ نے اس نکتے کی خاطر خواہ تفہیم کرانے کی کوشش کی ہے۔ فرماتے ہیں:’’دین کے باب میں زبان سے آمادۂ جنگ ہونا کبھی کبھی عملی جنگ سے زیادہ نقصان دہ اور مضرت رساں ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے نبیﷺ اس طرح زبان سے محاربہ کرنے والوں کو قتل فرمادیتے تھے، حالانکہ دستی محاربہ کرنے والوں میں سے بعض کو آپﷺ نے زندہ چھوڑا ہے، اور گاہے معاف بھی فرمایا ہے۔ درحقیقت دنیا میں فساد اور بگاڑ ہاتھ سے بھی مچایا جاسکتا ہے اور زبان سے بھی۔ادیان وشرائع کے تعلق سے انسان کی زبان وبیان کی صلاحیتوں سے جتنی خرابی پیدا ہو سکتی ہے اتنی شمشیر وسنان سے پیدا نہیں ہو سکتی۔‘‘[والمحاربۃ باللسان فی باب الدین قد تکون أنکیٰ من المحاربۃ بالید ولذلک کان النبیﷺ یقتل من کان یحاربہ باللسان مع استبقائہ بعض من حاربہ بالید وکذلک الإفساد قد یکون بالید وقد یکون باللسان وما یفسدہ اللسان من الأدیان والشرائع أضعاف ما تفسدہ الید] (الصارم المسلول، ابن تیمیہؒ:۳/۷۳۵)

غور کیجئے کہ امام ابن تیمیہ نے شریعت پر زبانی زیادتی کو بیشتر اوقات دستی زیادتی سے زیادہ ضرر رساں قرار دیا ہے۔ اس کے بعد آپ جدید مسلم فکر میں درآمد اس مغربی لبرل اصول کو دیکھیے کہ بولنے کی فُل آزادی ہوگی،مگر ہاتھ سے روک تھام نہیں کی جائے گی۔جدید مسلم مفکرین کے یہاں اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ اس لبرل فکر کے خلاف جانے والے جملہ شرعی احکام کی توجیہ وتاویل پر اور کھینچ تان کرکے انھیں مغربی عقل کے موافق بنا دینے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ارتداد کی سزا کا مسئلہ، اسلامی ریاست میں ذمیوں کے احکام، اور اقدامی وطلبی جہاد وغیرہ شریعت کے اُن حصوں کو ایک تسلسل کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے جو اس مزعومہ آزادیِ رائے اور حریتِ اعتقاد کے خلاف ہمارے مغرب نواز مسلم مفکرین کو دکھائی پڑرہے ہیں۔

اس کے باوجود ملتِ اسلامیہ کے یہ دونوں طبقے یعنی سیاسی استعمار کے شکار لوگ اور فکری وتہذیبی استعمار کے شکار لوگ،دونوں کے ساتھ اسلام کے داعیوں کو نرمی اور ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔ دونوں طبقوں کے سامنے اس بزدلی اور غلامی سے نکلنے کی راہ کھولنی چاہیے جس میں یہ لوگ جی رہے ہیں۔ انھیں بتایا جائے کہ مکمل اور حقیقی آزادی اسلام کے سائے میں نصیب ہوتی ہے اور یہیں انسان کو وہ سجدہ ملتا ہے جو آدمی کو ہزار سجدوں سے نجات بخشتا ہے۔ عقلِ سلیم رکھنے والے کسی بھی مسلمان کو نہ کسی سیاسی ڈکٹیٹر کا دستِ نگر اور تابعِ مہمل بن کر رہنا چاہیے، اور نہ کسی غیر کی تہذیبی وثقافتی غلامی کا طوق گردن میں ڈال کر جینا چاہیے۔

مگر ان مفکروں کی اصلاح کے بارے میں زیادہ پُر امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔خال خال ہی ایسا ہوتا ہے کہ استبداد وآمریت کا شکار فرد اپنی حالتِ زار کا حقیقی شعور حاصل کر پائے۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ خود کو مکمل طور سے آزاد اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوا سمجھتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ مدتِ مدید سے وہ غلامی کی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ چکا ہوتا ہے۔

فکری،تہذیبی اور ثقافتی غلامی کا علاج یہی ہے کہ فرد میں عزتِ نفس، خود اعتمادی، خود داری، اپنی قدر وقیمت کا احساس اور بالغ نظری وفراز بینی پیدا کی جائے۔ شرافت ونجابت اور عزت وشوکت کے جذبات اس میں پیدا کیے جائیں تو امید بن سکتی ہے کہ سربلندی اور آزادی کی فضا میں سانس لینے والا فرد کسی سیاسی تاناشاہ کی غلامی قبول نہیں کرے گا۔ وہ کسی کی اطاعت اسی شرط پر قبول کرے گا کہ اسے برابری کا مقام دیا جائے اور ہر فیصلے اور تجویز اور قرار داد میں اس کی مساویانہ شراکت کو قانونی سطح پر منظور کیا جائے۔ خودی اور خودداری کے یہی اعلیٰ جذبات ہیں جو انسان کے اندر کسی بھی تہذیبی اور ثقافتی جارحیت کے بالمقابل مزاحمت کا لاوہ اُبال سکتے ہیں۔ وہ بہ بانگِ دہل اعلان کر سکتا ہے کہ میں کسی خاص شخص یا قوم کے بنائے قانونوں کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں نہیں ڈالوں گا۔ نہ میرا حال یہ ہوگا کہ لبرل ازم اور ڈیموکریسی جیسے پُرفریب نعروں سے دھوکا کھاجائوں، ظاہراً خود کو آزاد سمجھوں اور پسِ پردہ مغرب کی فکر وتہذیب کے موافق بنانے کے لیے احکم الحاکمین رب کے فرامین، اور رحمۃ للعالمین رسولﷺ کے ارشادات میں تراش خراش شروع کر دوں۔ میں بندۂ مومن ہوں،اور بندۂ ایمان ہر نوع کی غلامی سے آزاد ہوتا ہے۔

من کی دنیا، من کی دنیا، سوز و مستی، جذب وشوق
تن کی دنیا، تن کی دنیا، سود وسودا، مکر وفن

من کی دنیا میں نہ دیکھا، میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ وبرہمن

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

اپنی راۓ یہاں لکھیں