(پانچویں قسط)
دین کی نئی تفہیم وتعبیر
شیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اس مکتبۂ فکر کا چوتھا بنیادی اصول یہ ہے کہ حقیقتِ کاملہ نہ تو موجود ہے اور نہ کسی کی دسترس میں آسکتی ہے۔ یہ لوگ کسی بھی ایسے عقیدے یا سچائی یا حق بات کو تسلیم نہیں کرتے جو زمان ومکان سے ماوراء ہو اور حالات وتغیرات اس پر اثر نہ ڈال سکتے ہوں۔ ان کے نزدیک حق اضافی (Relative) ہوتا ہے۔جو چیز تم حق سمجھتے ہو، ہو سکتا ہے کسی دوسرے کی نگاہ میں وہ باطل ہو، اور جسے تم آج راہِ صواب خیال کرتے ہو ممکن ہے کہ وہ کل راہِ صواب نہ رہے۔
محمد ارکون لکھتے ہیں: ’’یہ کہنا کہ دنیا میں کوئی آئیڈیل اسلامی حقیقت پائی جاتی ہے جو کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور پوری تاریخ میں برابر اس حیثیت سے جاری وساری رہی ہے اور آج بھی موجود ہے؛ ایسی بات کرنا صرف ایک اسطوری واہمہ (Mythological Hallucination)ہے، اس کا حقیقت اور سچائی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘[إن القول أن ہناک حقیقۃ إسلامیۃ مثالیۃ وجوہریۃ مستمرۃ علی مدار التاریخ وحتی الیوم لیس إلا وہما اسطوریا لا علاقۃ لہ بالحقیقۃ والواقع] (الفکر الإسلامی نقد واجتہاد، محمد ارکون:ص۲۴۶،۲۴۷)
یہ لوگ کہتے ہیں کہ کسی کے پاس بھی کامل سچائی نہیں ہے۔اسے کبھی یہ لوگ تعددیت (Plurality) اور کبھی قبولِ غیر(Acceptance of Other) کا عنوان دیتے ہوئے سیاسی تناظر میں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اغیار سے ان کی مراد لادینیت کے علمبراد، ملحدین اور فسق وفجور میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسے تمام لوگوں کے زندگی گزارنے کے طریقے اور فکر وعمل کا یکساں طریقے سے احترام کرنا چاہیے۔ کوئی کسی پر نکیر نہ کرے۔ کوئی کسی کی فکر پر سوال نہ اٹھائے۔ کوئی کسی کی شذوذ پسندی کو برا نہ کہے کیونکہ حقیقتِ کلیہ اور حقِ مطلق (Universal Truth)سرے سے غیر موجود ہے۔
اس مکتبۂ فکر کا ایک فرد کہتا ہے:’’اگر تم کسی رائے کو یہ مان کر قبول کرتے ہو کہ وہ حقیقت ہے تو تم کبھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر نہیں ہو سکتے ہو۔ ہر حقیقت اضافی (Relative)اور انفرادی (Individual)ہے، کوئی سچائی مطلق(Absolute) اور کامل (Perfact)نہیں ہے۔‘‘[لن تکون متقدما أو صاحب أمل فی التقدم إذا قبلت الرأی علی أنہ حقیقۃ والحقیقۃ علی أنہا مطلقۃ ولیست نسبیۃ](من ہنا یبدأ التغییر:ص۳۴۷)
ان تمام دعووں کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی کے لیے جائز اور ممکن نہیں کہ وہ یہ طے کرے کہ اس کی رائے یا اس کا عقیدہ ہی برحق اور صائب ہے اور یہ کہ دوسروں کی رائے اور عقیدہ قطعی طور سے نادرست ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی رائے درست ہے جس میں خطا کا امکان پایا جاتا ہے اور دوسروں کی رائے غلط ہے، جس میں درستی کا امکان پایا جاتا ہے۔
مگریہ ادعاء کھلم کھلا اسلامی عقائد کی نفی کرتا ہے۔ یقینا جن مسائل میں قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر اجتہاد ہوا ہے اور اختلافِ آراء کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے، وہاں ہمارے علماء یہی کہتے ہیں کہ میرا موقف درست ہے اور خطا کا احتمال رکھتا ہے اور دوسرے کا موقف غلط ہے مگر صحت کا احتمال رکھتا ہے۔ مگر دین کے وہ احکام وعقائد جو قطعیات (Decisives) اورمسلّمات (Agreed upon)کا درجہ رکھتے ہیں اور حلال وحرام کی وہ سرحدیں (Boundries)جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے خوب نمایاں (Elaborate)کر دی ہیں، ان کے بارے میں یہ بات ہمارے علمائے دین نے نہ کبھی کہی ہے اور نہ آئندہ کبھی کہیں گے۔
اس کے برعکس ملحدوں کا یہ گروہ کہنا چاہتا ہے کہ اس دنیا میں قطعیت کے ساتھ کوئی چیز نہ اچھی ہے اور نہ بری ہے۔ایک چیز کو کوئی حق سمجھتا ہے اور دوسرا اسے باطل قرار دیتا ہے۔ ایک چیز کسی کے نزدیک برائی ہے، مگر دوسرے کے نزدیک اچھائی ہے۔ یہی حقیقت کا اضافی ہونا ہے، یعنی حقیقت ہر فرد کی ذہنی وفکری سطح کے حساب سے چولا (Body)بدلتی رہتی ہے۔اس دعوے کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ حق کبھی اسلام کی شکل میں ہو سکتا ہے اور کبھی دیگر باطل اور محرف مذاہب کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے۔کبھی اہلِ سنت حق پانے والے ہوسکتے ہیں اور کبھی دیگر گمراہ فرقے اور جماعتیں ہدایت یافتہ ہو سکتی ہیں۔ اس لیے اگر کوئی مسلمان کبھی ہندو یا عیسائی یا یہودی یا پارسی بننا چاہے یا الحاد وزندقے کو گلے لگائے تو یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ سماج کو اس پر روک ٹوک کرنے یا اسلامی ریاست کو اس سے باز پرس کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔(دیکھیں حسن ترابی سوڈانی کا انٹرویو، جریدۃ المحرر، عدد۲۶۳،اپریل ۱۹۹۴)
اس قسم کے دعوے جن کا ماحصل یہ ہے کہ حق کسی کے پاس نہیں ہے، یہ دعوے اصلِ ایمان کی نفی کردینے کے لیے کافی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایمان کی جڑیں یقین واعتقاد کی زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔ تو اب جو شخص سرے سے کسی یقینی اور قطعی شے کا قائل ہی نہیں ہے وہ کسی بھی حال میں مومن نہیں ہو سکتا۔
جو شخص پورے جزم ووثوق کے ساتھ اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ رکھے وہ اللہ کی شریعت کی روشنی میں مومن نہیں ہے۔جو ہر شک وگمان سے اوپراٹھ کر یہ یقین نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، بے نیاز ہے، قادرِ مطلق (Omnipotent)ہے،اس کی بادشاہی میں کوئی دوسرا شریک وسہیم نہیں ہے، وہی تنہا خالق ومالک ہے، وہی اکیلا آمر وحاکم ہے؛ جو آدمی ان عقائد کو حق تسلیم نہ کرے وہ دینِ اسلام کی رو سے کافر اور ملحد ہے۔
اسی طرح جو شخص تردد وتذبذب کے تنگ نائے سے نکل کر یہ یقین نہ کرے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، یہ ہر تحریف وتصریف سے پاک، بے آمیز اور جوں کا توں ہمارے پاس موجود ہے اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے آخری سچے نبی تھے اور آپﷺ کی وفات کے ساتھ ہی وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے؛ جو شخص ان باتوں کا اعتقاد نہ رکھے وہ مومن نہیں ہے۔
اسی طرح دیگر قطعی عقائد وایمانیات کے حوالے سے بھی کہا جاسکتا ہے۔ارشادِ باری ہے:{فَذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ فَأَنَّی تُصْرَفُونَ}(یونس،۳۲)’’تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے۔ پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ آخر تم کدھر پھرائے جارہے ہو؟‘‘
ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں۔ یا تو حق ہے اور حق نہیں ہے تو اس کے سوا ہر شے کفروضلال اور فساد وبطلان ہے۔ حق ایک ہی ہوتا ہے۔ اس میں تعدد وتنوع نہیں ہوا کرتا۔ گمراہی کے انیک (Various)رنگ روپ ہیں۔ حق آجانے کے بعد پیچھے گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ جاتا ہے؟فماذا بعد الحق إلا الضلال۔
اگر اس دنیا میں کوئی حقیقتِ مطلقہ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ جو ہمیں اپنی کتاب میں بار بار حق کی پیروی کرنے اور اس سے چمٹ جانے کا حکم دیا ہے کیا یہ سب فضول(Nonsense) اور بے معنی ہے؟ اگر حق نہیں ہے تو پھر قرآن کی ان سیکڑوں آیات کا کیا مطلب ہوا جن میں حق کی نشاندہی کی گئی ہے؟ ارشادِ باری ہے:{وَأَنَّ ہَـذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِیْلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ}(انعام،۱۵۳)’’یہی میرا سیدھا راستہ ہے،لہذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندہ کردیں گے۔ یہ ہے وہ ہدایت (Guidance)جو تمہارے رب نے تمھیں کی ہے، شاید کہ تم کج روی(Deviation) سے بچو۔‘‘
جس صراطِ مستقیم پر چلنے کا حکم ہمیں یہاں دیا گیا ہے وہ کہاں ہے؟ اگر یہاں حقیقت نہیں ہے تو پھر اس آیت کا نزول عبث کاری کے سوا کیا ہے؟اگر یہاں ہر ایک کی رائے اور فہم حق کا عنصر اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر وہ گمراہ کر دینے والی راہیں کہاں گئیں جن کی طرف جانے سے ہمیں روکا جارہا ہے؟ انسان اپنی بندگی کے عہد کو اسی وقت پورا کر سکتا ہے جب وہ اللہ کی رہنمائی کو قبول کرکے اس کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی بسر کرے۔ اسے قبول نہ کرنے کے دو زبردست نقصانات ہیں۔ ایک یہ کہ ہر دوسرے راستے کی پیروی لازماً انسان کو اس راہ سے ہٹا دیتی ہے جو اللہ کے قرب اور اس کی رضا تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس راہ سے ہٹتے ہی بے شمار پگڈنڈیاں سامنے آجاتی ہیں جن میں بھٹک کر پوری نوعِ انسانی پراگندہ ہو جاتی ہے اور اس پراگندگی کے ساتھ ہی اس کے بلوغ وارتقاء کا خواب بھی پریشاں ہوکر رہ جاتا ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ نے اپنے زمانے کے شقی القلب فلاسفہ وحکماء پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’یہ مسلک ابتداء میں لفاظی ہے اور انتہاء میں زندقہ اور الحاد ہے۔ اگر اسے مان لیا جائے تو شریعت کے اوامر ونواہی، فرائض وواجبات، حرمتیں اور وعیدیں وغیرہ سبھی کو کالعدم ماننا پڑے گا۔ پھر بس انسان باقی رہے گا اور اسے اختیار ہوگا کہ جس کام کو چاہے فرض کہے، جسے چاہے حرام مانے۔ اگر یہ صورتِ حال ہوجائے تو پھر تمام عقائد یکساں ہیں، تمام اعمال وافعال برابر ہیں اور اس سے بڑھ کر کفر اور زندقہ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘[وہذا المذہب أولہ سفسطۃ وآخرہ زندقۃ لأنہ یرفع الأمر والنہی والإیجاب والتحریم والوعید فی ہذہ الأحکام ویبقی الإنسان إن شاء أن یوجب وإن شاء أن یحرم وتستوی الاعتقادات والأفعال وہذا کفر وزندقۃ](مجموع الفتاوی:۱۹/۱۴۴-۱۴۵)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(جاری)