(پہلی قسط)
دین کی نئی تفہیم وتعبیر
شیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: ذکی الرحمن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
نئے دور میں جو نئے نئے فتنے ظاہر ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ دعوت بھی ہے کہ دین کا از سرِ نو مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ اس مشن کے علم بردار درپردہ قدیم باطنی فرقوں کے نہج پر چل رہے ہیں، مگر خود کو ماڈرنسٹ یا پوسٹ ماڈرنسٹ بتاتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ نصِ شرعی کو نئے حالات کے تناظرمیں اور جدید تغیرات کی روشنی میں پڑھنا چاہیے اور ان سے وہی مفہوم ومعنی اخذ کرنا چاہیے جو معاصر زندگی کے تقاضوں اور ترقیوں کا ساتھ نبھا سکے اور اس سے ہم آہنگ ہو۔
اس دعوت کے علم بردار چاہتے ہیں کہ قرآن وسنت کی تمام نصوص کا نئے سرے سے مطالعہ کیا جائے۔کسی بھی عقیدے، حکمِ شرعی یا دینی مسلّمہ حقیقت کو اس مطالعے کی زد سے باہر نہ رکھا جائے، حتی کہ عقیدۂ توحید کو بھی نئے سرے سے سمجھنا ہوگا اور اس کی بھی مناسبِ زمانہ تاویل کرنا ہوگی۔
اس فکر ودعوت کے ایک نمائندے ڈاکٹر محمد ارکون (Muhammad Arkoun) نے عقیدۂ توحید سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:’’میں یہ نہیں کہتا کہ اب ہمیں سابقہ تصورِ توحید سے پھر جانا چاہیے، ایسا ناممکن ہے کیونکہ اسلام کی عبقریت کا اظہار سب سے زیادہ منزہ ومطلق توحید ہی سے ہوتا ہے، میں بس اس کی تاویل کے اعادے کی بات کر رہا ہوں، یعنی عقیدۂ توحید کی تاویل کی جانی چاہیے ایسی شکل میں جو عہدِ وسطیٰ کے تصورِ توحید سے مختلف اور مخالف ہو۔ یہاں وہ سب سے بڑی ریس کا موقع ہے جو پورے اسلامی سرمائے کے مراجعے اور نئے مطالعے کے لیے ہونی چاہیے تاکہ نئے سرے سے اسلامی الٰہیات کی تشکیل وتاسیس کا کام انجام پائے۔‘‘[أنا لا أقول بالتراجع عن ہذا التصور ففی التوحید المنزہ المطلق تتجلی عبقریۃ الإسلام وإنما أقول بإعادۃ تأویلہ، أی تأویلہ بشکل مخالف لما ساد فی العصور الوسطیٰ وہنا یکمن الرہان الأکبر لمراجعۃ التراث الإسلامی کلہ ولتأسیس لاہوت جدید فی الإسلام] (قضایا فی نقد العقل الدینی:ص۲۸۱)
اس دعوے کے ساتھ دین کے عقائد وتصورات کا جو مطالعہ کیا گیا ہے اور اس کا جو ثمرہ اور نتیجہ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے الفاظ کی کھل کر معنوی تحریف کی گئی، صحیح اور صریح حدیثوں کا انکار ہوا، شریعت کے قطعی اور یقینی احکام وہدایات کو ردّ کیا گیا اور چودہ سو سال سے علمائے امت نے بڑی جاں کاہی اور محنت ومشقت کے بعد جن اصولوں کو مطالعۂ دین میں برتا اور برقرار رکھا ہے، انھیں درکنار کر دیا گیا۔
اس دعوت اور رجحان کی خطرناکی دو پہلوئوں سے دوچند ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ اس الحادی دعوت کو لے کر اٹھنے والے چند ایسے اشقیاء وروسیاہ ہیں جو بہ ظاہرخود کو مسلمان ہی کہتے ہیں، بلکہ ان میں اکثریت ان کی ہے جو خود کو اسلامی مفکر کہلاکر بڑے مگن ہوتے ہیں۔ اس کا سلبی اثر یہ ہے کہ سادہ لوح عوام، بالخصوص نوجوان طبقہ جس کا جدید سیکولر تعلیم گاہوں کے ماحول میں پڑھتے پڑھتے ایک خاص ذہن بن جاتا ہے اور جو دین کے نام پر پیش کیے جانے والے ہر بگاڑ اور انحراف پر سب سے پہلے لبیک کہتا ہے؛ یہ لوگ اس دعوت کو جوق در جوق قبول کرتے جارہے ہیں۔
دین کی تفہیمِ نو کا منصوبہ دشمنانِ دین کا تیار کیا ہوا منصوبہ ہے اور یوں انھوں نے قصرِ اسلام کو اندر سے ڈھانے کا پورا سامان بہم کر دیا ہے اور ایسے ابن الوقت اور مادہ پرست افراد کو اس کارِ بد کے لیے باتنخواہ ملازم رکھ لیا ہے جو نصوصِ شرعیہ کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، ان کی معنوی تحریف کرتے ہیں، انھیں ان کے اصل لغوی اور شرعی مدلولات سے معریٰ کر دیتے ہیں اور اپنا دل پسند مفہوم ان کے اندر سمونا چاہتے ہیں۔یہ لوگ اپنے افکار وآراء کو دینی نظریات کہہ کر پیش کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کے فہمِ دین سے مأخوذ اجتہادات ہیں۔
ایسے آستین کے سانپوں سے ہمارے نبیِ اکرمﷺ نے بہت پہلے ہوشیار اورخبردار کیا تھا۔ حضرت حذیفہؓ بن الیمان بتاتے ہیں کہ لوگ اللہ کے رسولﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں شر(Evil) کے بارے میں دریافت کرتا تھا، اس ڈر سے کہ اس میں ملوث نہ ہوجائوں۔ایک روز میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ، ہم جاہلیت اور برائی میں تھے، تو اللہ تعالیٰ ہمارے پاس یہ خیر لایا، کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہے؟ آپﷺ نے اثبات میں جواب دیا تو میں نے پوچھا: ’’تو کیا اس شر کے بعد خیر ہوگا؟‘‘آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ہاں، مگر اس میں آمیزش ہوگی۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’یہ آمیزش کیا ہوگی؟‘‘ فرمایا: ’’کچھ ایسے لوگ اٹھیں گے جو میرا طریقہ چھوڑ کر رہنمائی کریں گے، ان کے کاموں میں اچھے کام بھی ہوں گے اور برے بھی۔‘‘ میں نے کہا: ’’کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا:’’ہاں، جہنم کے دروازوں پر کھڑے پکارنے والے لوگ ہوں گے، جو ان کی بات سنے گا تو اسے جہنم میں جھونک دیں گے۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’ان کا وصف بتادیں۔‘‘ توفرمایا: ’’وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔‘‘[کان الناس یسألون رسول اللّٰہﷺ عن الخیر وکنت أسألہ عن الشر مخافۃ أن یدرکنی فقلت یا رسول اللّٰہ إنا کنا فی جاہلیۃ وشر فجائنا اللّٰہ بہذا الخیر فہل بعد ہذا الخیر من شر قال نعم قلت وہل بعد ذلک الشر من خیر قال نعم وفیہ دخن قلت وما دخنہ قال قوم یہدون بغیر ہدیی تعرف منہم وتنکر قلت فہل بعد ذلک الخیر من شر قال نعم دعاۃ علی أبواب جہنم من أجابہم إلیہا قذفوہ فیہا قلت یا رسول اللّٰہ صفہم لنا قال ہم من جلدتنا ویتکلمون بألسنتنا](صحیح بخاریؒ:۷۰۸۴۔ صحیح مسلمؒ:۱۸۴۷)
حدیث میں آمیزش کے لیے ’’دخن‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’یہ کینہ ہے۔ ایک قول ہے کہ میل ہے اور ایک قول کے مطابق قلبی فسادہے۔ تینوں معنی قریبی ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے اشارہ کیا ہے کہ اس شر کے بعد جو خیر آئے گا وہ بے آمیز اور خالص نہیں ہوگا، اس کے اندر کدورت شامل ہوگی۔‘‘[وہو الحقد وقیل الدغل وقیل فساد فی القلب ومعنی الثلاثۃ متقارب یشیر إلی أن الخیر الذی یجیٔ بعد الشر لا یکون خیرا خالصا بل فیہ کدر](فتح الباری: ۱۳/۳۶)
یہ نام نہاد جدید مفکرین اور دانشوران بھی انہی قرآنی آیات اور نبوی احادیث کو بہ طورِ دلیل پیش کرتے ہیں جنھیں ہم بھی حجت مانتے ہیں،۔یہ لوگ نصوصِ شرعیہ کا برملا انکار نہیں کر پاتے، البتہ یہ لوگ ان کے جو معانی بیان کرتے ہیں اور جس انداز میں ان کی تفسیر وتشریح کرتے ہیں وہ پوری طرح سے اسلافِ امت کے فہمِ دین کے مخالف ومغایر ہے۔
اس فتنے کی خطرناکی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں یہ بہ تدریج پیر پسار رہا ہے۔ مغربی تہذیب کا دلدادہ مسلم حکمراں طبقہ ایسے مفکرین اور دانشوروں کے لیے سرکاری نوکریوں اور دیگر مراعات کی شکل میں سوغاتوں اور فتوحات کا دروازہ کھولے ہوئے ہے۔ مختلف عرب ملکوں سے ایسے افراد اٹھ رہے ہیں جو دجالی طاقتوں کے آلۂ کار بن کر دینِ حق کی بنیاد کھوکھلی کرنے میں لگے ہیں۔ میڈیا اور ذرائعِ ابلاغ میں انھیں زیادہ سے زیادہ کوریج دیا جارہا ہے۔ سرکاری پشت پناہی میں ان کے افکار وخیالات کو خوشنما بناکر پیش کیاجاتا ہے۔ٹی وی پروگراموں میں ایسے ہی لوگوں کو اسلام کی نمائندگی کرنے اور جدید مسائل پر اسلام کا موقف رکھنے کے لیے بلایا جاتا ہے اور ان کی ہر بات پر صدآفریں کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو عصری حسیت کا بگل بجاتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو ماڈرنسٹ کہلاتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو لبرل ازم کے علم بردار ہیں۔ وہ بھی ہیں جو خود کو ماڈریٹ مسلم یا لبرل مسلم کا لقب دیتے ہیں۔الغرض جس قدر مغربی فلسفے ہیں اسی قدر ان کے مسلم خوشہ چیں ومعتقدین ہیں۔قدرِ مشترک بس یہ ہے کہ یہ لوگ نصوصِ شریعت کا مطالعہ اپنے خاص فلسفیانہ تناظر اور فکری فریم ورک کے اندر کرتے ہیں اور ہر ممکن جتن کرکے شریعت کو اپنے پسندیدہ مغربی فلسفے کے تابع اور اس سے ہم آہنگ بنانا چاہتے ہیں۔
اس قسم کے لوگوں سے شاید ہی کوئی مسلم ملک خالی ہو۔ جب سے ایمان کی قدر وقیمت کا احساس دلوں سے کم ہوا ہے، تب سے چند دنیاوی فائدوں اور مادی فتوحات کی ہوس میں ضمیر فروشی اور بددیانتی کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ مصر میں اس طبقے کی نمائندگی ڈاکٹر نصر ابوزید، ڈاکٹر حسن حنفی، انجینئر محمد العشماوی اور ڈاکٹر جمال البناء نے کی۔ سوڈان میں محمود محمد طہ اور حسن ترابی نے اس میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ شام میں محمد شحرور اور طیب تیزینی اس کام کے لیے آگے آئے۔ تیونس میں عبدالمجید الشرفی اور محمد الشرفی نے تحریفِ دین کا محاذ سنبھالا۔ مغربِ اقصیٰ میں اس سلسلۃ الشر کی کڑی محمد عابد الجابری ہیں۔ لیبیا میں صادق نیہوم نے دین دشمنی کا پرچم اٹھایا۔ فرانس میں محمد ارکون پیش پیش رہے ہیں جو اصلاً جزائری تھے، پھر فرانس کی شہریت لی۔امریکہ کی گود میں بیٹھ کر محمد رشاد خلیفہ اور صبحی منصور وغیرہ نے بڑھ چڑھ کر اس کارِ بد میں حصہ لیا۔ ہندوپاک میں سرسید اور غلام پرویز اس میدان کے سرخیل رہے ہیں اور اب ۔۔۔۔۔۔ مکتبۂ فکر اور ادارہ ۔۔۔۔۔۔۔ کے وابستگان وملازمین اپنی دنیا بنانے کے لیے اپنی اور دوسرے مسلمانوں کی آخرت برباد کرنے پر تلے ہیں۔ ان نمایاں اشخاص کے علاوہ عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں چھٹ مٹ قلم کار اور صحافی اور نام نہاد دانشور ہیں جو انہی لوگوں کے نہج اور طریقے پر چل رہے ہیں اور انہی کے سُر میں سُر ملا کر سرکاری آسامیوں اور حکومتی مناصب اور نوکریوں پر نگاہ گاڑے ہوئے ہیں۔
دین کی تفہیمِ نو کا یہ دعویٰ ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوا ہے۔ تاریخ میں اس ملحدانہ فکر کی جڑیں مل جاتی ہیں۔ ماضی میں بھی اس ملت کے اندر کچھ ایسے لوگ اٹھے تھے جنھوں نے باطل تاویلات اور فاسد توجیہات کے نام پر دین کی نصوص کو ان کے اصل معانی سے پھیرا۔تاہم یہ دعویٰ اس لحاظ سے نیا بھی ہے کہ اب اس کی تائید وتصویب کے لیے بنیادیں فراہم کی جارہی ہیں۔ اس منحرف طرزِ فکر کے لیے دلائل جٹائے جارہے ہیں۔ تفہیمِ نو کے نام پر قرآن وسنت سے نئے نئے افکار ومفاہیم نکالے جارہے ہیں جو مکمل طور سے ان لوگوں اور ان کے آقائوں کی خواہش ورغبت اور مرضی ومنشا کے مطابق ہیں۔
ہر مغربی بگاڑ کو شریعت کا چوکھٹا فراہم کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور ہر غیر فطری عمل کو جائز کرنے کے لیے بہانے تراشے جارہے ہیں۔ اس فاسد فکری رجحان نے ایک نعرہ لگایا ہے اور جدید دور میں ہمارے نزدیک یہ سب سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچانے والا نعرہ ہے۔نعرہ یہ ہے کہ اسلام کو ماڈرنائز(نیا کرنا) اور اپ ٹو ڈیٹ(مطابقِ حال)(Modernisation & Contemporarisation of Islam)کرنا چاہیے۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پوری امتِ مسلمہ چودہ سو سال سے قرآن وسنت کے جس معنی ومفہوم پر اجماع کر چکی ہے اور اس کے مطابق اپنی زندگی میں عمل پیرا ہے، اسے بدل کر ان لوگوں کا بتایا ہوا دینی ورژن اختیار کر لیا جائے۔
ایک صاحب کے بہ قول “یہ لوگ اپنے فہمِ دین کو اصل فہمِ قرآن بتاتے ہیں۔ان کے سامنے جب کسی مسئلے پر اسلام کی طویل روایت میں گزرے ائمہ کے حوالہ جات اور اجماعِ امت کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث سے دلیل ہونی چاہیے۔ گویا ان لوگوں کے نزدیک اسلافِ امت یا ائمۂ دین قرآن وحدیث سے نہیں، بلکہ پوری عمر وید(Veda) اور بائبل (Bible)پڑھ کر دین سمجھا کرتے تھے اور اب نئے دور میں چند ابن الوقتوں اور مفاد پرستوں نے پہلی بار قرآن پڑھا ہے۔
ائمۂ دین کے حوالے پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ حضرات ہمارے نزدیک قرآن وسنت کا متبادل ہیں،بلکہ یہ ہوتا ہے کہ قرآن وسنت کا ایک فہم وہ ہے جو ان ائمہ سے منقول ہے اور ایک طویل روایت میں اسے مستند سمجھا گیا ہے۔ جب کہ دوسرا فہم وہ ہے جو یہ چند لوگ آج پیش کر رہے ہیں۔ تو یہاں مقابلہ ائمہ اور قرآن کا نہیں ہے، یا اجماعِ امت اور قرآن کا نہیں ہے،بلکہ ان ائمۂ دین کے فہمِ قرآن اور جدید مغرب پرستوں کے فہمِ قرآن کے مابین ہے۔ ایک روایت کے فہم کو ٹھکرا کر اپنے فہمِ قرآن کو قرآن بناکر پیش کرنے کے یہ مغالطے ان لوگوں نے بار بار دیے ہیں۔ ہر نیا متجدد یہی دعویٰ کرتا آیا ہے۔وہ ہمیشہ اپنے فہمِ دین کو اصل قرآن بتاتے ہوئے اس کے خلاف چلے آرہے امت کے علمی وعملی تعامل کو مخالف باور کراتا ہے۔”
ڈاکٹر محمد ارکون سے پوچھا گیا کہ غیر واضح یا احتمال رکھنے والی آیات کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جائے۔ سوال کرنے والے نے سورۂ نساء کی آیت کا حوالہ دے کر یہ سوال پوچھا تھا۔ ارشادِ باری ہے:{یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ}(نسائ،۱۱) ’’تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔‘‘
یہ ایک محکم آیت ہے اور عہدِ نبوی سے آج تک اس آیت میں مذکور تقسیمِ میراث کے طریقے کے مطابق عمل ہوتا آیا ہے۔ مگر ڈاکٹر محمد ارکون اس آیت کو متشابہ اور غیر واضح باور کراتے ہیں۔ انھوں نے سوال کا جواب دیا کہ ’’اس حالت میں ہمارے پاس کرنے کے لیے بس یہ ایک آپشن ہے کہ قرآنی تفسیروتعبیر کے مسئلے پر دوبارہ غور کریں۔ ہم اب اس فیصلے پر قائم نہیں رہ سکتے کہ عورت کو مساوی(Equel) حصہ نہ دیا جائے۔ اگر نصِ شرعی کی مطابقت بیرونی وعملی دنیا سے نہ ہوپائے تو ایسے میں اسے بدلنے کا کام کیا جائے گا۔‘‘[فی مثل ہذہ الحالۃ لا یمکن فعل أی شییٔ إلا إعادۃ طرح مسألۃ التفسیر والتعبیرالقرآنی، لا یمکننا أن نستمر فی قبول ألا یکون للمرأۃ قسمۃ عادلۃ فعندما یستحیل تکیّف النصِّ مع العالم الحالی ینبغی العمل علی تغییرہ](فرانسیسی میگزین[La Nouvel Observateur]کو دیے گئے ایک انٹرویو بہ تاریخ سولہ فروری ۱۹۸۶ء سے مأخوذ)
ڈاکٹر محمد شحرور رقم طراز ہیں: ’’سامانِ زندگی اور شہوتوں اور رغبتوں کے بارے میں محمدؐ رسول اللہ کی طرف جو نصوص بھی وحی کی گئی تھیں اب ان کی پابندی اور پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔جب کبھی ہم ان نصوص کے اندر ایسا کوئی حکم پائیں جو ہماری عملی زندگی سے میل نہیں کھاتا ہے اور خوشحالی، ترقی اور آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے تو ہمارا کام یہ ہے کہ اس حکم سے چہرہ پھیر لیں۔‘‘[لا ضرورۃ للتقیّد بالنصوص الشرعیۃ التی أوحیت إلی محمد رسول اللّٰہ فی کل ما یتعلق بالمتاع والشہوات ففی کل مرۃ نری فی ہذہ النصوص تشریعا لا یتناسب مع الواقع ویعرقل مسیرۃ النمو والتقدم والرفاہیۃ فما علینا إلا أن نمیل عنہ](الکتاب والقرآن:ص۴۴۵)
ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس فکر وخیال کے لوگوں کے ظہور (Rising)کے بنیادی اسباب گنائے جائیں تو ان میں نئے حالات کا ساتھ نبھانے کی اندھی خواہش، مغربی طرزِ زندگی سے شیفتگی اور وفاداری، مغربی فلسفیانہ مکاتبِ فکر سے مرعوبیت وتاثر، وہاں کی یونی ورسٹیوں میں حصولِ علم اور قیام پذیری، دشمنانِ دین کی جانب سے مادی فتوحات ونوازشات کی پیشکش، دنیا طلبی کا دبائو اور ہوس، شریعتِ اسلامیہ سے ناواقفیت اور جہالت اور خودنمائی ونام ونمودکی بھوک کو سرِ فہرست رکھا جاسکتا ہے۔ انہی اسباب کے چلتے یہ تحریف کار اور تخریب پسند مکتبۂ فکر ظاہر ہوا ہے اور اپنے زہریلے جراثیم جسدِ ملت میں پھیلا رہا ہے۔
ان میں بھی سب سے بنیادی سبب مغرب پرستی اور یورپین اقوام کے طرزِ حیات پر مر مٹنے کا جذبہ ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ جو باتیں مغربی حلقوں میں محض مفروضات اور نظریات کی حد تک بولی جاتی ہیں، انھیں یہ مشرقی دریوزہ گر ایسے مسلّمہ حقائق کے طور پر قبول کر لیتے ہیں جنھیں ٹس سے مس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ان غلاموں کا بس ایک کام رہ جاتا ہے کہ قرآن وسنت کی ہر مخالف نص کا انکار کر دیں یا اس کی ایسی تاویل کر ڈالیں کہ وہ مخالفت پر باقی نہ رہے۔ چارلس ڈارون کا نظریۂ ارتقاء خود مغربی سائنس دانوں کے یہاں حقیقت کا درجہ نہیں رکھتا ہے، مگر محمد شحرور اس حوالے سے لکھتے ہیں:’’اصل الأنواع (Origin of Species) کا نظریہ جو عظیم سائنسداں چارلس ڈارون کی نسبت سے مشہور ہے، اسے ہم تاویل کا بہترین نمونہ قرار دے سکتے ہیں، یعنی اس کی روشنی میں تخلیقِ انسانی سے بحث کرنے والی قرآنی آیات کی تاویل کی جائے گی۔‘‘[تعتبر نظریۃ أصل الأنواع للعالم الکبیر تشارلز دارون نموذجا ممتازا للتأویل أی تأویل آیات خلق البشر] (الکتاب والقرآن: ص۱۹۵)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(جاری)