دین میں بگاڑ
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
دین میں بگاڑ کی وجہ ہمیشہ ایک رہی ہے اور وہ ہے اس میں سے کچھ حذف کر دینا یااس میں کچھ اضافہ کر دینا۔ یہ حذف واضافہ ابتداء میں وقتی محرکات کے تحت وجود میں آتا ہے، اس کے بعد رفتہ رفتہ مرورِ ایام کے ساتھ لوگ اسے دین کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں اور دین کے بگڑے ہوئے ورژن کو اسی طرح ماننے لگتے ہیں جس طرح کہ اصل دین کو ماننا چاہیے۔
اس حذف واضافے کے محرکات عام طور پر دو ہوتے رہے ہیں۔ ایک دین جن حقائق وعقائد کو بس مان لینے کی تلقین کر رہا ہے،خارجی طور پر ان کو مشخص اور متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسے ہم انگلش میں “ایکسٹرنلائزیشن آف ریلیجیس فیکٹس” (Externalisation of Religious Facts)کا نام دے سکتے ہیں۔
دوسرے دین کی ابدی تعلیمات کو خاص اپنے زمانے کی عقلی سطح اور اصطلاحی زبان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسے ہم “راشنالائیزیشن” (Rationalization)یا “کنٹیمپوریرائیزیشن آف اٹیرنل کریڈس” (Contemporarisation of Eternal Creeds )کا نام دے سکتے ہیں۔
امت میں پہلی غلطی کی مثال یونانی فکر وفلسفہ سے متاثر اشراقی صوفیہ کے یہاں ملتی ہے اور دوسری غلطی کی مثال عقل پرست معتزلہ کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔
ادیان وفرق کے حوالے سے میرا پہلے بھی ایقان تھا اور اب اس میں مزید پختگی ہی آگئی ہے کہ حالیہ صدیوں میں اس ملت میں علمی وفکری سطح پر افتراق وانتشار کی جڑ حد سے زیادہ تعقل پسندی کا رویہ بنا ہے۔
شروعات میں کچھ لوگ قرآن فہمی یا دین کی عقلی تعبیر کے نام پر تعقل، تفکر اور تدبر پر بہت زیادہ زوردیتے ہیں، اور صحیح بات ہے کہ خود قرآن میں یہی بات بار بار ارشاد فرمائی گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ لوگ کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو قرآن کی روح یا دین کے مجموعی رخ سے معارض اور متصادم ہوتی ہو۔
البتہ بگاڑ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ وہ قرآن فہمی اور عقلی مطالعہ دین کی آڑ میں عقلیت کو جتنی دور تک لے جاتے ہیں، دین میں عقلیت اتنی دور تک نہیں جاسکتی یا اسے نہیں جانا چاہیے۔ دیگر قوائے انسانی کی طرح عقل کے اپنے حدود ہیں اور جب وہ ان حدود سے تجاوز کرتی ہے تو دشواریاں پیش آتی ہیں ، انحرافات پیدا ہوتے ہیں اور گمراہیاں پھیلتی ہیں۔
مجرد عقل تو اس دنیا میں ہے نہیں، یہاں جو بھی عقل ہے وہ میری، تیری یا اس کی عقل ہے۔ اگر ہم ہر مسئلے کی کسوٹی عقل کو بنائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کی عقل؟ عرب کے ان بادیہ نشینوں کی عقل جن پر سب سے پہلے قرآن نازل ہوا تھا؟ یا جدید دور کے انسانوں کی عقل؟ یا آج کے زمانے میں امریکہ اور کنیڈا میں بیٹھے ہوئے گرین کارڈ ہولڈر مسلم مفکرین ودانشوران کی عقل؟
اور ایک دور اور ایک ملک میں بھی حضرت عمر اور حضرت علی کی عقل یا ابو طالب اور ابولہب کی عقل؟ شیعوں کی عقل یا معتزلہ وجہمیہ کی عقل؟ سید مودودی اور احمد دیدات کی عقل یا سلمان رشدی، غامدی اور سرسید کی عقل؟
قرآن مجید کی بات تو الگ ہے، محدثینِ کرام نے بھی اسی لیے حدیث کے معاملے میں روایت کو درایت پر ترجیح دی ہے اور درایت کے نام پر عقل کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا ہے۔
مختلف فرقوں اور مکاتبِ فکر کے بانیوں نے یہیں ٹھوکر کھائی ہے کہ ابتداءً وہ عقل کی کارفرمائی پر زور دیتے ہیں اور پھر پھدک کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ اس بارے میں اہلِ سنت والجماعت کا متوازن اور مبنی بر انصاف مسلک یہ ہےکہ دین کا اصل کام عقیدہ مہیا کرنا ہے، ثبوت فراہم کرنا نہیں ہے۔
قرآن کریم میں دو قسم کی آیات ہیں،محکمات اور متشابہات۔ محکمات وہ ہیں جن تک عقل کی رسائی ہے اور متشابہات ماورائے عقل ہیں۔ انھیں بس مان لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں اور ہم تک صادق وامین رسولﷺ کے ذریعے پہنچا ہے۔ احادیث میں بھی نصوص کی یہ تقسیم موجود ہے۔ ہمیں اس پر شدید اصرار ہے کہ قرآن مجید یا احکامِ الٰہی میں تدبر اور تعقل انھیں مان لینے کے بعد ہونا چاہیے، ان کے ماننے کی شرط کے طور پر نہیں۔
اس نکتے کی خاطر خواہ تفہیم اور اس کی روشنی میں صحیح طرزِ عمل کی یافت نہ ہونے کی وجہ سے امت میں پہلے بھی بڑے گمراہ فرقے بنے ہیں اور آج بھی بن رہے ہیں۔
اللہ ہم سب کو اپنے دین پر قائم و دائم رکھے اور فکری رہزنوں سے بچائے۔ آمین یا رب العالمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین