دینِ حق کی نعمت
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اس کے بعد اس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ پیغمبروں کی وساطت سے پوری نوعِ انسانی کو دی۔ سچ یہ ہے کہ اگر اس کائناتِ رنگ وبو سے دین اور آسمانی ہدایت کو محو کر دیا جائے تو یہ دلفریب اور دلکش دنیا نہ صرف یہ کہ بے لطف اور بے رونق ہوجائے گی، بلکہ درندوں کا جنگل، وحشی جانوروں کا اکھاڑہ اور شیطانوں کی بستی بن جائے گی۔ لہٰذا اس بات کو تسلیم کر لینے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ دنیا میں اخلاق وروحانیت، تہذیب وتمدن اور مادی ترقیات اور عمدہ اخلاقیات کی بنیاد دینِ حق ہی نے قائم کی ہے اور دین کی عمر نسلِ انسانی کی عمر سے ایک دن بھی کم نہیں، اور یہ کہ دین کوئی وہمی اور خیالی چیز نہیں ہے، بلکہ ایک واضح انسانی حقیقت اور فطری ضرورت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور چیز بنی نوعِ انساں کے لیے حقیقی یا ضروری نہیں ہو سکتی۔
آثارِ قدیمہ، علم الانسان اور جغرافیائی تحقیقات نے اب علمی و تجرباتی سطح پر بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ اب تک انسانوں کی کوئی مستقل جماعتی، قومی یا تہذیبی زندگی ایسی نہیں گزری جو دین کی کسی نہ کسی شکل سے یکسر عاری رہی ہو۔ یہ تاریخی فینومینا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دین کا تعلق ضرور بالضرور انسان کی کسی بہت بنیادی ضرورت سے ہے جس کے بغیر اس کی دنیوی زندگی اگر خطرے میں نہیں پڑے گی تو کم از کم سنگین بحران اور عدم توازن کا شکار ضرور ہوجائے گی۔
دین کی یہی مرکزیت، اور انسانی زندگی سے اس کا یہی گہرا تعلق شاید اس چیز کا سبب ہے کہ اس کا اظہار مختلف عقیدوں، مخصوص اعمال، رسومات، فنونِ لطیفہ کے مظاہر، مخصوص پابندیوں، مخصوص قوانین، اخلاقی ضابطوں، مخصوص رویوں، حرکات وسکنات اور بے شمار دیگر صورتوں میں ہوتا رہا ہے۔ نفسِ دین ایک ایسی صداقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور صداقت علمی، عقلی اور وجدانی سطح پر تصور میں نہیں لائی جا سکتی ہے۔
جدید دور میں مغربی مادی تہذیب -جسے مولانا مناظر احسن گیلانی نے دجالی تہذیب کا معنی خیز نام دیا تھا- اس کے زیرِ اثر آج پوری دنیا میں دین داری اور دین پسندی کا گراف خطرناک حد تک نیچے گرگیا ہے۔معاصر تہذیب کی خواہ تعریف کیجئے یا تنقیص، مگراس بات سے بالکلیہ انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تہذیب انسان کے ماضی قریب تک کے افکار واعمال کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ مختلف اور انوکھی ہے، بلکہ ایک طرح سے غیر معمولی (Abnormal)ہے۔ اس تہذیب کے اندھے پرستار یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ غیر معمولی ہونا تاریکیوں سے نکل کر عقل کی روشنی میں آجانے کی علامت ہے۔ مگر مشرق ومغرب کے اہلِ نظر کا خیال ہے کہ یہ ایک مہلک مرض کا آخری اسٹیج ہے۔
انسانی فطرت کے روایتی تصور اور جدید مادی تصور میں سرے سے کوئی قدرِ مشترک نہیں پائی جاتی۔ جدید تصور میں انسان کو ایک چالاک جانور سمجھا جاتا ہے جو زمین کی دولت سمیٹنے کے لیے پیدا ہوا ہے چاہے اس سے ذاتی لطف اندوزی مقصود ہو یا سماج اور ملک کی خدمت گزاری۔ تاآنکہ اسی کارِ عبث میں لگے لگے ایک دن اس کے شرارۂ حیات کی حرارت ختم ہوجاتی ہے اور وہ قبر کی تاریکیوں میں دفن ہوجاتا ہے۔ جب کہ روایتی مذہبی تصور کے مطابق انسان کا مقصدِ وجود یہ ہے کہ وہ روشنی کی علامت بن کر رہے،’’النور‘‘ کا پرتو، نہ کہ بے ثبات اور ناپائیدار وجود کی مانند ایک بے مقصد حیوان بن کر۔
انسان اپنی فطرت سے ایک ادھوری مخلوق ہے۔ اسے کمال کی تلاش رہتی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو واقعتا پالے۔ مسلمانوں کے لیے یہ تکمیل اسوۂ محمدیﷺ پر عمل سے ممکن ہے۔ اس کے مقابلے میں عیسائیوں کے یہاں اتباعِ مسیح کا نظریہ ہے۔ اس کے متبادلات دوسرے مذاہب میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن کسی جگہ بھی انسان کی صرف شخصی صلاحیتوں کو کافی وشافی نہیں سمجھا گیا۔ ہندو مت میں بھی اسی لیے جاہل اور عارف کے درمیان تمیز کی گئی ہے۔
ماضی میں یورپ اور ایشیا کا متدین سماج زندیقوں، ملحدوں،خدا کو نہ ماننے والوں اور مبتدعوں کو مار ڈالنا زیادہ مناسب سمجھتا تھا بہ نسبت اس کے کہ ان کے اندھے پن اور دہریت کی چھوت دوسروں کو لگ جائے۔ یہ سخت گیری اور خوں ریزی آج ہمیں کتنی ہی نفرت انگیز کیوں نہ معلوم ہو، مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بہرحال غلط ہے کہ قدیم متدین سماج انسانی ہمدردی سے یکسر خالی تھا۔ ہاں فرق دین داری کی اہمیت اور ضرورت کو ماننے اور نہ ماننے کا ضرور ہے۔ دراصل انھیں ایسے لوگوں کی جاں بخشی میں کوئی بھلائی دکھائی نہیں دیتی تھی جو خداپرستی اور دین وایمان کے سرچشمۂ خیر میں ہی زہر گھولنے لگ جائیں۔
ویسے بھی دورِ جدید میں انسانوں کی جتنی بڑی تعداد سیاسی آراء وافکار اور لادینی نظریات اور نظامات کے نام پر اب تک موت کے گھاٹ اتاری جاچکی ہے -اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہی ہے- اس کے بعد کسی کا اپنے آپ کو راست باز سمجھنے اور زندقے والحاد کے استیصال کے لیے ہونے والی مذہبی جنگوں اور مذہبی تشدد پر نظرِ حقارت ڈالنے کا کیا موقع اور کیا منھ رہ جاتا ہے؟
اس وقت ہم تاریخ کے ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کو بت بناکر پوجا جارہا ہے۔ لوگ ماضی اور ماضی کی ہر شے کی تضحیک اور استہزاء کرنا اپنا فرض سمجھ رہے ہیں، پھر چاہے وہ ان کا مقصد ِ وجود اور اعلی سماجی اور انسانی اقدار کیوں نہ ہو۔ اس دور میں ایک ایسے حساس موضوع کے بارے میں حیران کن لاعلمی اور اس سے بڑھ کر سردمہری اور بے توجہی، ان پڑھ اور پڑھے لکھے، سب لوگوں میں عام ہے جو ابھی چند نسلوں پہلے تک اس دنیا کا اہم ترین موضوع سمجھا جاتا تھا، یعنی دین یا انسان کا اپنے مبدأو منتہا کی جستجو اور فکر۔ اس سے اندازہ کر لیجئے کہ آج کا ماڈرن انسان کیسی محدود زندگی گزار رہا ہے۔
اس پر مستزاد یہ ہے کہ لوگ اپنے زورِ جہالت کے بل پر دین کے بارے میں لگی بندھی، قطعی اور ادعائی رائے زنی کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے اور اندرون میں دینی ایقان واذعان سے خالی ہونے کے باوصف دینی مفکر ومدبر ہونے کا میک اپ نہیں اتارتے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ گہرا دینی شعور اور علم ہرایمان والے کے لیے لازم ہے اور انسان اپنے معبودِ حقیقی سے اس وقت تک کما حقہ محبت نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ پورا عالمِ دین نہ ہوجائے۔ مگر پچھلے وقتوں کے سیدھے سادے ایمان والے جو تھوڑی معلومات، مگر پختہ ایمان رکھتے تھے، وہ آج کی دنیا میں شاید نہیں جی سکتے جہاں ہر لمحہ ان پر بے اعتقادی، مادہ پرستی، دنیا داری، آخرت فراموشی، منافقت اور کفروالحاد کے دلائل کی برسات ہورہی ہے۔ آج سیلابِ زمانہ کے سامنے اپنے عقیدے اور ایمان پر جمے رہنے کے لیے عقائد کا نظری علم اور ان کے پختہ دلائل سے آگہی غالباً فرضِ عین کے درجے میں پہنچ گئی ہے۔
آج ہماری زندگی میں کفر وایمان کے درمیان حدِ فاصل دھندلا گئی ہے۔ایمان یا کفر، دونوں کو ان کے منطقی نتائج تک پہنچانے اور ان کے مطابق اپنی عملی زندگی میں بدلائو لانے کا حوصلہ کسی میں (جی ہاں کسی میں بھی) نہیں رہ گیا ہے، نہ وہ لوگ جو دین کی کاملیت کا تصور بھول گئے ہیں، اور نہ وہ لوگ جو بہ حیثیت نظامِ زندگی کی نعرے بازی کرتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سماج میں اعتقادی اضمحلال اور ایمانی بے شعوری کا دور دورہ ہے۔
لوگ بس زمانے کی رو میں بہے جارہے ہیں۔ موروثی مسلمانیت کی وجہ سے انھیں یہ تو خیال ہے کہ اس زندگی کے بعد کچھ ہونے والا ہے، کچھ آنے والا ہے، مگر اس میں شک ہے کہ اس ’’کچھ‘‘ کا حقیقی علم کسی کے پاس ہے بھی یا نہیں۔
اس دور میں سب سے بڑے مجرم اور گناہ گار اگر ہیں تو مسلمان ہیں جو اپنے پاس آخری دین حق رکھتے ہیں اور اس امانت کو اپنے قول وعمل سے پوری انسانیت تک پہنچانے کے پابند بھی بنائے گئے ہیں، مگر انھیں دیکھو تو دنیا طلبی اور آخرت فراموشی کے ہر محاذ پر سب سے پیش پیش ہیں۔
حضرت عیسیٰ نے اپنے حواریوں سے کہا تھا کہ تم زمین کا نمک ہو، اگر نمک اپنی تاثیر چھوڑ دے تو سارا کھانا بدمزہ ہوجاتا ہے۔ شاید آج آخری دین کے حواریوں نے اپنی شناخت کھو دی ہے یا کھونے کی ٹھان لی ہے۔ کھانا تیزی سے سڑنا شروع ہوچکا ہے اور اسے سڑانے میں سب سے بڑا ہاتھ خود انہی بد نصیب نمک والوں کا ہے۔ اللہ رجوع الی الحق کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین