دعا کی ابتداء درود سے یا حمد سے ؟
انعام الحق قاسمی
دعا
’’ دعا ‘‘ ا للہ کے سامنے محض اپنی حاجات پیش کرکے تکمیل کی درخواست کرنے کا نام نہیں بلکہ دعا تو ایک عبادت ہے (ترمذی:2969) جسے نہ کرنے پر اللہ رب العزت ناراض ہوجاتا ہے (ترمذی) اور قرآن پاک میں اللہ جل شانہ اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے : مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا (المؤمن:60)
آدابِ دعا کا لحاظ
پس جب دعا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر اہم عبادت ہے تو ضروری ہے کہ اسے خوب اہتمام کے ساتھ آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا جائے ، چونکہ سنن و آداب کا لحاظ کئے بغیر کوئی بھی عبادت درجہ کمال کو نہیں پہونچتی ہے ، انتہائی خلوص کے ساتھ کی گئی عبادت جس میں ذرہ برابر بھی شرعی خلاف ورزی شامل ہو وہ عبادت یا تو ادا ہی نہیں ہوتی یا ادائیگی تو ہوجاتی ہے لیکن اپنے کمال تک پہونچنے سے رہ جاتی ہے ۔
آج ہم اس مختصر تحریر میں صرف دعا کی ابتدا کے بارے میں گفتگو کریں گے کہ دعا کا آغا درود شریف سے کیا جانا چاہئے یا اللہ کی حمد وثنا سے ۔
وضاحت
واضح رہے کہ ہماری گفتگو کا دارو مدار اَولیٰ اور خلاف اولیٰ پر ہے ،جواز یا عدم جواز پر نہیں کہ اس میں شدت اختیار کی جائے اور خلاف ورزی کی صورت میں لعن طعن کیا جائے ۔
ہمارا معمول
ہمارے دیار میں جہاں تک ہمارا مشاہدہ ہے جب بھی کوئی دعا شروع کرتا ہے تو اس کے ابتدائیہ الفاظ ’’ اللھم صلِّ علی محمد ﷺ ‘‘ یا اسی جیسے دوسرے درود شریف ہوتے ہیں اور بسا اوقات دینی پرگراموں اور جلسوں کے اختتام پردعا کرانے والے حضرات دعا شروع کرتے وقت سامعین حضرات سے درود شریف پڑھنے کی درخواست کرتے ہیں ،
ایسے ہی مساجد کے ائمہ حضرات بھی اپنی دعا کا آغاز درود شریف ہی سے کرتے ہیں، جس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ دعا کی شروعات درود شریف سے کرنا چاہیے بلکہ اصل صورت مسئلہ جو احادیث نبویہ سے نمایاں ہے اس کے برعکس ہے، وہ یہ ہے کہ دعا کی ابتدا اللہ کی حمد و ثنا سے کرنی چاہیے پھر نبی علیہ السلام پر درود بھیجنا چاہئے اس کے بعد اپنی ضروریات اللہ کے سامنے رکھنا چاہئے پھر اختتامِ دعا ’’ درود اور حمد و ثنا ‘‘ پر ہو ۔
حدیث میں ہے : بہترین دعا’’ الحمد للہ ‘‘ ہے(ترمذی :3383) کیوں نہ ہم اپنی دعا کا آغاز اسی افضل دعا سے کریں ۔
شریعت اتباع کا نام ہے
قارئین کرام ! درود شریف کی فضیلت قطعی الثبوت ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ، نبی علیہ السلام پر درود بھیجنا ہمارے لئے باعث شرف و افتخار ہے لیکن شریعت نے ہر ایک عبادت کا ایک محل متعین کیا ہے اب اگر کوئی شخص درود شریف کی فضیلت کے پیش نظر پوری نماز میں صرف درود ہی پڑھے تو کیا ایسے شخص کی نماز ہوسکتی ہے اور درود شریف کی فضیلت حاصل کرسکتا ہے ؟ بالکل نہیں ، کیوں ؟ اس نے بے محل درود پڑھا تھا اس لئے فضلیت سے محروم ۔ چونکہ شریعت اصل میں اتباع کا نام ہے ،من مانی ذرہ برابر بھی نہیں چلے گی۔
نبی علیہ السلام کا فرمان
ایسے ہی نبی ﷺ نے دعا کے شروع میں اللہ کی حمد وثنا کرنے کا حکم دیا ہے اور درود شریف کو دوسرے نمبر پر رکھا ہے لیکن ہم میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ درود شریف کو مقدم رکھتا ہے جو کہ قابل اصلاح ہے بظاہر دعا کی ترتیب میں یہ خلاف ورزی چھوٹی بات معلوم ہوتی ہے لیکن ہمارے نبی ﷺ نے اس پر بڑی توجہ دی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تنبیہ کی ہے ۔
مستدلات(احادیث نبویہ)
ذیل میں ہم چند احادیث درج کئے دیتے ہیں ، امید کہ مسئلہ واضح ہوجائے گا ۔
پہلی حدیث
فضالہ بن عبید رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ ( مسجد میں ) تشریف فرما تھے، اس وقت ایک شخص مسجد میں آیا، اس نے نماز پڑھی، اور یہ دعا کی: اے اللہ! میری مغفرت کر دے اور مجھ پر رحم فرما، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نمازی! تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھ کر بیٹھے تو اللہ کے شایان شان اس کی حمد بیان کر اور پھر مجھ پر صلاۃ ( درود ) بھیج، پھر اللہ سے دعا کر“، کہتے ہیں: اس کے بعد پھر ایک اور شخص نے نماز پڑھی، اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نمازی! دعا کر، تیری دعا قبول کی جائے گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے (الترمذی: 3476)
دوسری حدیث
عبد اللہ بن مسعود رضى الله عنہ فرماتے ہیں : میں نماز پڑھ رہا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما ( بھی ) آپ کے ساتھ تھے، جب میں ( قعدہ اخیرہ میں ) بیٹھا تو پہلے میں نے اللہ کی تعریف کی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا، پھر اپنے لیے دعا کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مانگو، تمہیں دیا جائے گا، مانگ تمہیں دیا جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، (الترمذی : 593)
تیسری حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں ادا کرے، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ ( درود ) و سلام بھیجے،
پھر کہے: «لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين»
”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ حلیم ( بردبار ) ہے، کریم ( بزرگی والا ) ہے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین ( سارے جہانوں کا پالنہار ) ہے، میں تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور تیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتا ہوں، اور ہر نیکی میں سے حصہ پانے کا اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں، اے ارحم الراحمین! تو میرا کوئی گناہ باقی نہ چھوڑ مگر تو اسے بخش دے اور نہ کوئی غم چھوڑ، مگر تو اسے دور فرما دے اور نہ کوئی ایسی ضرورت چھوڑ جس میں تیری خوشنودی ہو مگر تو اسے پوری فرما دے“
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ( الترمذی : 479، ابن ماجہ: 1384)
چوتھی حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے سنا، اس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کی اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے جلد بازی سے کام لیا ، پھر اسے بلایا اور اس سے یا کسی اور سے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے ۔(ابوداؤد : 1481)
ان احادیث کو پیش کرنے کے بعد مزید کلام کرنے کی ضروت نہیں ۔