دعاء مومن کا ہتھیار

دعاء:مومن کا ہتھیار

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
  دعا کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ سے مانگنا اور خیر طلب کرنا۔ دعا عبادت کی روح اور اصل حقیقت ہے۔یہ رب کی پناہ میں جانے اور اس کے بالمقابل اپنے عجز وانکسار کا اظہار و اعتراف ہے۔ارشادِ باری ہے:
{وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ}(غافر،۶۰)
’’تمہارے رب نے کہا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منھ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ 
 اللہ تعالیٰ ’’اکرم الاکرمین‘‘ ہے۔ جب بندہ اس کی چوکھٹ پر گرتا ہے اور ذلت وعاجزی کے ساتھ کچھ مانگتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور بندگی کی اس اداپر اسے اجر کا مستحق قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’بے شک تمہارا رب لحاظ کرنے والا فیاض ہے،جب بندہ اس کی بارگاہ میں دونوں ہاتھ بلند کرکے مانگتا ہے تو اسے ان ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘[إن ربکم حیی کریم یستحیی من عبدہ إذا رفع یدیہ إلیہ أن یردہما صفرا](سنن ابو داؤدؒ:۱۴۸۸)
 اللہ تعالیٰ حدیثِ قدسی میں فرماتا ہے: ’’اے میرے بندو! اگر تمہاری پچھلی اور اگلی نسلیں اور جن وانس سب کے سب شدید ترین گناہ گار بندے ہوجائو تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور جن وانس کسی ایک جگہ جمع ہوکر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کا سوال پورا کر دوں تو اس سے میری مملکت میں صرف اس قدر کمی واقع ہوگی جتنی سمندر میں واقع ہوتی ہے جب اس میں سوئی ڈبوکر باہرنکالی جائے۔‘
[یا عبادی لو أن أوّلکم وآخرکم وإنسکم وجنکم کانوا علی أفجر قلب واحد منکم مانقص من ملکی شیئا یا عبادی لو أن أولکم وآخرکم وإنسکم وجنکم قاموا فی صعید واحد فسألونی فأعطیت کل واحد مسألتہ ما نقص ذلک مما عندی إلا کما ینقص المخیط إذا أدخل البحر](صحیح مسلمؒ:۲۵۷۷)
 دعا کی دو قسم ہیں۔ نمبر ایک عبادت کی دعا، یعنی ہم جو نمازپڑھتے ہیں یا روزے رکھتے ہیں یا ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دیگرکام انجام دیتے ہیں تو یہ بھی دعا کی ایک شکل ہے۔ اس طریقے سے ہم اپنے مالک کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے خاموشی کی زبان میں اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ 
نمبر دو سوال اور طلب کی دعا۔ یہ وہی دعا ہے جسے عرفِ عام میں دعا سمجھا جاتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے خیر کا سوال کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اوراس کا وعدہ برحق ہے کہ اگر صحیح طریقے سے دعا مانگی جائے اور دعا مانگنے والا کسی قسم کے ظلم ومعصیت میں مبتلا نہ ہو تو ضرور وہ دعا قبول ہوتی ہے:{وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}(بقرہ،۱۸۶)’’اور میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تومیں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔‘‘
 اس لیے کسی دعا کرنے والے مخلص بندے کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ہر دعا کا بدلہ تین میں سےکسی ایک شکل میں ضرور ملتا ہے:
  (۱) دعا فورا قبول کر لی جاتی ہے اور فی الفور جو مانگا تھا وہ عطا کردیا جاتا ہے۔ 
 (۲) دعا کو آخرت میں دعا کرنے والے کی مد میں ذخیرہ کردیا جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ بندہ آخرت میں اپنی ذخیرہ شدہ دعائوں پر ملنے والا بے پایاں اجر وثواب دیکھ کر تمنا کرے گا کہ کاش اس کی کوئی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہوتی۔ 
 (۳) اس دعا کی بدولت اس کے اوپر آنے والی مصیبت یا پریشانی ہٹا دی جاتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’جب مسلمان ایسی دعا مانگتا ہے جس میں کوئی گناہ یا قطعِ رحمی نہ ہو تو تین میں سے کسی ایک صورت میں اس کی دعا ضرور قبول کی جاتی ہے؛یا تو فی الفور اس کی دعا کا مصداق سامنے آجاتا ہے، یا اللہ اسے آخرت کے لیے ذخیرہ بنادیتا ہے یا اس دعا کی وجہ سے کوئی آفت دور کر دی جاتی ہے۔‘‘[ما من مسلم یدعو بدعوۃ لیس فیہا إثم ولا قطیعۃ رحم إلا أعطاہ اللّٰہ بہا إحدی ثلاث إما أن تعجل لہ دعوتہ وإما أن یدخرہا لہ فی الآخرۃ وإما أن یصرف عنہ من السوء مثلہا](مسند احمدؒ:۱۱۱۳۳)
 دنیا میں ہونے والی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی دعا کے مقبول ہونے کے چند ظاہری اور چند باطنی اسباب مقرر فرمادیے ہیں۔ قبولیتِ دعا کے ظاہری اسباب یہ ہیں کہ دعا کرنے سے پہلے کوئی نیک عمل انجام دیا جائے، مثال کے طور پر صدقہ کیا جائے پھر دعا مانگی جائے۔ 
قبولیتِ دعا کے دیگر اسباب میں سے یہ ہے کہ دعا سے پہلے وضو کیا جائے، کوئی نماز پڑھی جائے، دعا مانگتے وقت اپنا رخ قبلے کی جانب رکھا جائے، دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جائے، دعا مانگتے ہوئے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی جائے اور اللہ کے رسولﷺ پر درود وسلام بھیجا جائے، اسی طرح دعا کا اختتام بھی اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور رسولِ اکرمﷺ پر درود وسلام سے کیا جائے، دعا مانگنے میں اللہ تعالیٰ کے مناسبِ حال ناموں کا ذکر کیا جائے یعنی رحمت کی دعا کی جائے تو رحمٰن ورحیم کہا جائے اور رزق کی دعا کی جارہی ہے تو رزاق، واسع اور رب العالمین کہا جائے، دعا میں رویا گڑگڑایا جائے اور خاص ان اوقات میں دعا مانگی جائے جن میں دعا مانگنے کی فضیلت آئی ہے۔ 
 اخلاص کے ساتھ دعا مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے، ورنہ نہیں۔ دعا عبادت ہے اور غیر اللہ سے دعا مانگنا اس کی عبادت کرنے جیسا ہے۔ ارشادِ باری ہے:{ہُوَ الْحَیُّ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ فَادْعُوہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ}(غافر،۶۵)’’وہی زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے۔‘‘
 قبولیت کے پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ دعا مانگی جائے۔ تذبذب یا ہچکچاہٹ کا اظہار نہ ہو۔ دل کی گہرائیوں سے دعا کی قبولیت پر یقین رکھتے ہوئے دعا ہونی چاہیے۔ اسی لیے تو دعائوں میں ’’إنشاء اللّٰہ‘‘ نہیں کہا جاتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’جب کوئی دعامانگے تو پکے عزم کے ساتھ سوال کرے، یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے دے دے، کیونکہ اللہ کے لیے کچھ دینا دشوار نہیں ہے۔‘‘[إذا دعا أحدکم فلیعزم المسألۃ ولا یقولن اللّٰہم إن شئت فأعطنی فإنہ لا مستکرہ لہ](صحیح بخاریؒ:۵۹۷۹۔ صحیح مسلمؒ:۲۶۷۹)
 باری تعالیٰ کاادب واحترام کرتے ہوئے اور اپنے عجز ونیاز کے اظہار کے ساتھ پست آواز میں عاجزانہ وغلامانہ وفرمانبردارانہ عرضِ مدعا کرے۔ ارشادِ باری ہے:{ادْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْن} (اعراف، ۵۵)’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتاہے۔‘‘
 الحاح وزاری کے ساتھ دعا مانگے۔ اللہ کے نبیﷺ کے دعا مانگنے کا انداز صحابیِ جلیل حضرت عبدؓاللہ بن مسعود یہ بتاتے ہیں کہ ہر دعا تین بار مانگتے تھے اور ہر سوال تین بار دہراتے تھے۔ [وکان إذا دعا دعا ثلاثا وإذا سأل سأل ثلاثا](صحیح مسلمؒ:۱۷۹۴)
 قبولیتِ دعا کے سلسلے میں جلد بازی نہ کرے۔ اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: ’’تمہاری دعائیں قبول ہوتی رہتی ہیں جب تک کہ جلدبازی نہ کرو۔اورجلدبازی یہ ہے کہ دعا کرنے والا کہے کہ میں نے دعا مانگی تھی مگر قبول نہیں ہوئی۔‘‘[یستجاب لأحدکم ما لم یعجل یقول دعوت فلم یستجب لی](صحیح بخاریؒ:۵۹۸۱۔ صحیح مسلمؒ:۲۷۳۵)
 دونوں ہاتھ اٹھا کر دعامانگی جائے۔ یہ اپنی مسکنت اور ضرورت کے اظہار کا عمدہ طریقہ ہے اور اللہ کی عظمت اور کبریائی وبے نیازی کا اعتراف بھی ہے۔پیچھے حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کے بارگاہِ رب میں اٹھے ہاتھ خالی لوٹانے میں حیا محسوس ہوتی ہے۔
 قبولیتِ دعا کے باطنی اسباب میں یہ ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ دعا مانگی جائے، یکسوئی اور سمجھ کر دعا مانگی جائے، قبولیت کا یقین رکھ کر دعا مانگی جائے، گناہوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرکے دعا مانگی جائے، دعا مانگنے والے کی روزی روٹی حلال کمائی سے ہو اور شب وروز کی زندگی میں حرام کاموں کا ارتکاب نہ کرتا ہو۔ ورنہ حرام خوری اور حرام کاری کی وجہ سے آدمی کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اللہ کے رسولﷺ نے ایک شخص کے بارے میں بتایا جو قبولیتِ دعا کے ظاہری اسباب مہیا کرکے دعا مانگتا ہے،مگر اس کا کھاناپینا حرام کمائی سے تھا، اس لیے دعا قبول نہیں ہوئی۔ [وطعامہ حرام وشرابہ حرام وغذی بالحرام فأنی یستجاب لہ](صحیح مسلمؒ:۱۰۱۵)
 شریعت نے چند ایسے اوقات اور جگہیں بیان کی ہیں جہاں قوی امید ہے کہ مانگی ہوئی دعا بارگاہِ رب میں شرفِ قبول پائے گی۔ وہ اوقات اور حالتیں درج ذیل ہیں: 
 ۱-سجدے کی حالت میں دعا مانگنا۔ سجدہ چاہے نماز کا ہو یا یونہی کیا جائے۔ نفل نمازوں میں سجدے کی حالت میں مسنون دعائوں کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعا مانگ سکتے ہیں۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لیے اس حالت میں خوب دعائیں مانگو۔‘‘[أقرب ما یکون العبد من ربہ وہو ساجد فأکثروا الدعائ](صحیح مسلمؒ:۴۸۲)
 ۲- فرض نمازوں کے بعد دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ حضرت ابوامامہؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا گیا: ’’کونسی دعا سب سے زیادہ سنی جاتی ہے؟‘‘ فرمایا: ’’رات کے آخری پہر میں اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی دعا۔‘‘[أی الدعاء أسمع قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلوات المکتوبات](سنن ترمذیؒ:۳۴۹۹)یہ سلام پھیرنے کے بعد بھی ہو سکتی ہے اور سلام پھیرنے سے پہلے تشہد اوردرود کے بعد بھی۔
 ۳-کسی بھی فرض نماز کی اذان ہوجانے کے بعد سے، اس کی جماعت کھڑی ہوجانے سے پہلے درمیان میں جو وقت ملتا ہے اس میں دعا مانگی جائے۔یہ بھی قبولیتِ دعا کا ایک موقع ہوتا ہے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی۔‘‘ [لا یرد الدعاء بین الأذان والإقامۃ](سنن ابو داؤدؒ:۵۲۱) 
 ۴-رات کے آخری حصے میں دعا مانگی جائے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’رات کے آخری پہر میں رب اپنے بندے کے سب سے زیادہ نزدیک ہوتا ہے، اس لیے اگر تم اس وقت اللہ کا ذکر کرنے والے بن سکو تو ضرور بن جائو۔‘‘[أقرب ما یکون الرب من العبد فی جوفل اللیل الآخر فإن استطعت أن تکون ممکن یذکر اللّٰہ فی تلک الساعۃ فکن](سنن ترمذیؒ:۳۵۷۹۔ سنن نسائیؒ:۵۷۲)
 ۵-جمعہ کے دن دعا کا اہتمام کیا جائے۔ اِس کا افضل وقت جمعے کی اذان سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے جمعے کے دن کا تذکرہ فرمایا تو کہا: ’’اس میں ایک ساعت ایسی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان نماز پڑھے اور اللہ سے دعا مانگے تو اللہ ضرور اس کی مراد پوری کرتا ہے۔‘‘پھر آپﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کرکے اس گھڑی کے مختصر ہونا ظاہر کیا۔‘‘[فیہ ساعۃ لا یوافقہا عبد مسلم وہو قائم یصلی یسأل اللّٰہ تعالیٰ شیئا إلا أعطاہ إیاہ](صحیح بخاریؒ:۸۹۳۔ صحیح مسلمؒ:۸۵۳)
 ۶-روزہ افطار کے وقت دعا مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے۔ 
 ۷-سفر کی حالت میں۔ حضرت ابوہریرہؓ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا تھا:’’تین دعائیں بے شک قبول ہوتی ہیں، مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور اولاد کے سلسلے میں باپ کی بددعا۔‘‘ [ثلاث دعوات مستجابات لا شک فیہن دعوۃ المظلوم ودعوۃ المسافر ودعوۃ الوالد علی ولدہ](سنن ترمذیؒ:۱۹۰۵۔ سنن ابوداؤدؒ:۱۵۳۶)
 ٭بارانِ رحمت برستے وقت مانگی جانے والی دعا بھی قبول ہوتی ہے۔ 
 ٭عرفہ کے دن جو ماہِ ذی الحجہ کا نواں دن ہوتاہے اور عیدالاضحی سے ایک دن پہلے آتا ہے۔ اس دن بھی اللہ کی رحمت جوش مارتی ہے اور ہر مخلصانہ دعا شرفِ قبول پاتی ہے۔رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مؤمنا وللمؤمنین والمؤمنات۔ آمین یا رب العالمین۔ 
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔
اپنی راۓ یہاں لکھیں