درد دہلی (خواجہ میر درد)

*دردِؔ دہلی*
(خواجہ مِیر دردؔ 1712 تا 1785)
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری ✍🏻

1707 عیسوی اورنگ زیب عالمگیرؒکے وفات کے بعد دلی وہ دلی تھی جس نے حادثات کے اتنے چہرے دیکھے کہ مدتوں حواس باختہ رہی۔عروس البلاد کہلانے والی جب اس شہر پر اس عہد میں مصائب ٹوٹے تو اسکی شان و شوکت شرافت و نجابت سب ملیامیٹ ہوگئی۔۔
اربابِ فضل و کمال امراء و شرفاء اودھ اور دکن کی جانب کوچ کرنے لگے۔۔۔
مصحفیؔ سوداؔ میرؔ دہلی کو خیر آباد کہہ گئے ۔۔۔
لیکن اس پر آشوب ماحول میں ایک درویش جسکے پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی۔۔اور اپنے خانقاہ میں جوں کا توں جما بیٹھا رہا۔۔
دنیاوی عز و جاہ کی طرف بھی التفات نہیں کیا۔۔اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ تا دمِ آخر مرجعِ صغیر و کبیر رہا
اس درویشِ خدا کا نام ہے۔۔۔خواجہ میر دردؔؒ۔۔۔
خواجہ صاحب کی پیدائش 1712 عیسوی کو ہوئی۔۔والد کا نام خواجہ ناصر عندلیبؔ ہے۔۔
متواضع، خلیق اور صاحب بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ بزرگ زادے تھے
سلسلہ نسب خواجہ بہاءالدین نقشبندیؒ سے ملتا ہے۔۔
ایامِ شباب میں کچھ دن فوج میں رہے۔۔اور آخرمیں خاندانی خانقاہ کے ہوکر رہ گئے۔۔۔..
اٹھارویں صدی کے شعراء میں دردؔ کا نام بے حد اہم ہے انکی صوفیانہ اور شاعرانہ عظمت ہی کے سبب انکی شاعری اور شخصیت دونوں میں اس پورے عہد کی عکاسی ملتی ہے۔۔
مجازی اور عشقِ حقیقی کے تمام رازہائے سر بستہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ منکشف کئے ہیں۔۔
ابتذال اور عریانی کو منہ نہیں لگایا ہے ۔۔
آپ کبھی کسی دنیاوی محبوب کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر نہیں ہوئے ،اسکے باوجود آپکے مجازی اشعار اتنے کامیاب اور معیاری ہیں کہ بڑے سے بڑا رندِ لا ابالی بھی آپکے اشعار پر سر دھنتا ہے۔۔
محبوب کے سراپا کو ایسے کھینچا کہ وہ ہو بہو سامنے نظر آتا ہے۔۔چاہے۔۔وہ لباس ،رفتار و گفتار، کردار، لب ،دہن، آنکھیں، ابرو،مژگان،زلفیں، مہندی،مسکراہٹ، تلون مزاجی،شوخیِ تند خوئی،فسوں سازی،خودداری، ہو ہر اک داخلی اور خارجی خوبی کو اپنےاشعار میں پیش کیا ہے۔۔
آپکی شاعری میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے ثباتیِ عالم ،کم مائیگی، صبر و توکل،خودی ،استغناء ،اخلاقی بصیرت،حال و قال، بسط و قبض،تلوین و تمکین،صحو و سکر،سوز و درد،تشبیہ و تنزیہہ، معنی آفرینی، عشقیہ پہلو،سادہ بیانی، لطیف کیفیات، تاثراتی ذہن،گداختگی وسپردگی،صوفیانہ فکر،جذبے کی جھلک،تجربے کی گرمی،عشقِ فطری،دل پزیر افکار،تیزیِ گفتار۔۔۔الغرض انسانی وجود کے حقیقی رابطوں کو تلاش کرنے والی شاعری ہے۔۔
تصوف اور عرفان کی پیچیدہ مسائل کو بڑی خوبصورتی اور صفائی سے پیش کیا ہے اردو کلام میں باطنی دلکشی اور دل آویزی کے عناصر شامل کئے ہیں۔۔
جمیل جالبی فرماتے ہیں،،،،دردؔ مفکر شعراء میں سے ہیں انکے شعری تجربے،تخلیقی انفرادیت،اور روحانی بصیرت، کا وسیلہ ہے،،،،
محمد حسین آزادلکھتے ہیں،،،،دردؔ تلواروں کی آبداری نشتروں میں بھر دیتے ہیں،،،،
رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں،،،،دردؔ اردو شاعری کے تاج کا سب سے بڑا ہِیرا ہے،،،،
عظمت اللہ خان گویا ہیں ،،،،دردؔ صوفیانہ شاعری کے باوا آدم ہیں،،،،
ایک انگریز مبصر لکھتا ہے،،زمانہ قدیم کا سب سے بڑا شاعر میر دردؔ ہی ہے کیونکہ فنِ شاعری کا کمال کم گوئی ہے نہ کہ پر گوئی،،،
مرزا محمد رفیع سودا نے انکے شعری عظمت کا اعتراف کیا ہے؀
*سوداؔ بدل کے قافیہ تو اور کہہ غزل*
*اے بے ادب تو دردؔ سے دو بدو نہ ہو*۔۔
خواجہ صاحب نے فارسی اور اردو دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔۔آپکی کاوشیں کتابی شکل میں اسرار الصلاۃ،نالہِ درد ، آہِ سرد، دردِ محفل، شمعِ محفل، واردات، ، دیوانِ ریختہ اور دیوانِ فارسی ہیں۔۔
نالہِ درد میں دردؔ رقم طراز ہیں،،،فقیر نے کبھی شعر آورد سے موزوں نہیں کیا اور نہ ان میں مستغرق ہوا کبھی کسی کی مدح نہیں کی نہ ہجو لکھی،اور نہ کسی کی فرمائش میں شعر لکھے،،،،
آئیئے دردؔ کے کچھ دردِ دل سے آشنائی کرلیتے ہیں۔۔۔۔
مشہور زمانہ شعر جو زبان زد خلائق ہے۔۔؀
*تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ۔۔جائیؤ*
*دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں*
عاشق کنجِ عاقبت کا طالب نہیں ہوتا بلکہ وہ طالب معشوق ہوتا ہے جہاں ملے وہاں راضی ہوتا ہے
*اینما تولوا فثم وجہ اللہ* کی جھلک محسوس کریئے۔۔؀
*چلئے اس جا پہ کہ ہم تم ہوں اکیلے*
*گوشہ نہ ملیگا کوئی میدان ملیگا*
قاعدہ ہے اگر کوئی شخص کسی سلسلے میں بیعت ہو تو اس سلسلے کے چھوٹے بڑے منازلِ عرفان اسکی دستگیری کرتے ہیں ،اسی طرح زلفِ بتاں زنجیر کی صورت ہوتی ہے اس لئے اسکو بھی سلسلے سے تعبیر کرتے ہیں ۔چونکہ دلِ عاشق مدت سے اس سلسلے میں ہے یعنی اس سلسلے میں مرید ہے پس زلفوں کے لئے لازم ہے ہر کڑی منزل میں اسکی دستگیری کرے ؀
*زلفِ بتاں سے کہنا وقتِ۔۔۔۔۔۔ دستگیری*
*اس سلسلے میں کی ہے دل نے کبھی سے بیعت*
دردؔ نے آنسوؤں کو لڑکوں سے تعبیر کیا ہے کہ یہ بے صبر واقع ہوتے ہیں اور افشائے راز کرنے میں آنسو لڑکوں کے مانند ہوتے ہیں ؀
*اے آنسوؤں نہ آوے کچھ دل کی بات منہ پر*
*لڑکے ہو تم کہیں مت افشائے راز کرنا*
محبوب کےماضی کی بیداد گری بھول جا اور اسکو یاد کرکے کُڑھنا فضول ہے۔۔اب یہ کیا بیان کرتے پھر رہے ہو اس نے دھوکہ دیا، وہ میرا تھا ہی نہیں، ارے بابو سنو کسی خاکی پر اپنی زندگی خاک مت کرو۔۔بلکہ جان اس پر فدا کرو جس نے زندگی دی ہے یہی تو دردؔ کہنا چاہ رہے ہیں ؀
*بھول جا خوش رہ عبث وہ سابقے مت یاد کر*
*دردؔ یہ مذکور کیا ہے آشنا تھا یا نہ تھا*
ہمارے لا ابالی پن پر طنز کرتے رہتے ہو کبھی بےبی پِنک (Baby pink)کے گلابی ہونٹوں سے جام پیا ہے۔۔۔ ؀
*کبھی خوش بھی کیا ہے دل کسی رِندِ شرابی کا*
*بھڑادے منہ سے منہ ساقی ہمارا اور گلابی کا*
جیسے کہربا گھانس کے تنکے اور پتے کو مثل مقناطیس اپنے جانب کھینچتا ہے۔۔ٹھیک ویسے ہے جذبِ عشق مجھے چھوڑ نہیں رہا ہے؀
*اے دردؔ چھوڑتا ہی نہیں مجھ کو دردِ عشق*
*کچھ کہربا سے بس چلے برگِ کاہ کا*
وحدۃ الوجود کا یہ نمونہ بھی دیکھئے؀
*وحدت نے ہر طرف تیرے جلوے دکھا دیئے*
*پردے تعینات کے جو تھے اٹھا دیئے*
خاقانیؔ میرؔ اور دردؔ کے ایک ہی موضوع پر خامہ دیکھئے تینوں کا الگ الگ انداز۔۔ملاحظہ کریں
خاقانی کے کرب کو پہلے محسوس کرینگے کیونکہ زمانے کے اعتبارسے یہ مقدم ہیں ۔الفضل للاولیٰ؀
*ہمسایہ شنید نالہ ام گفت*
*خاقانی را دگر شب آمد*
میر کی سشتہ اور دُھلی ہوئی زبان دیکھو ؀
*جو اس شور سے مِیؔر روتا رہیگا*
*تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہیگا*
اب دردؔ کے درد کو محسوس کرئیے ؀
*رکھتا ہوں ایسے طالع بیدار میں کہ رات*
*ہمسایہ میرے نالوں کی دولت نہ سو سکا*۔۔۔
فیض احمد فیض کا یہ نظم ؀
بس نام رہیگا اللہ کا ۔۔۔۔۔۔
جو غائب بھی ہے حاظر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی بھی۔۔
اب درد کا خامہ دیکھئے ؀
*ہے جلوہ گاہ تیرا کیاغیب کیا شہادت*
*یاں ہے شہود تیرا واں ہے حضور تیرا*
اب اجازت دیں انشاءاللہ نئے مضمون کے ساتھ حاضری ہوگی۔کیوں کہ میں ہی ناداں دردؔ کے چند کلیوں پر قناعت کررہا ہوں ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے۔۔
خدا حافظ ۔۔
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری۔۔ مقیم حال عثمان آباد مہاراشٹر انڈیا
8795492282۔۔۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں