حجاب کا مسئلہ اور بھگوائیوں کی بوکھلاہٹ

حجاب کا مسئلہ اور بھگوائیوں کی بوکھلاہٹ

محمد صابر حسین ندوی

ابھی The Hindu ، Times now اور Indian express میں یہ عنوان لگایا گیا ہے کہ حجاب مسئلہ پر تین روزہ بندش لگا دی گئی ہے۔مکمل خبر پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ بندش اوباشوں کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔بھگوا دھاری، زعفرانیت کے مارے لوگوں کی بے جا اور بے مطلب ہنگامہ آرائی، عوام کے درمیان شور شرابہ، سڑکوں اور چوراہوں پر احتجاج کرتے ہوئے ہندوازم کے نعرے لگاتے ہوئے بدامنی پھیلانے کی کوشش کرنے کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی ہے. شموگہ اور متعدد جگہوں پر دفعہ 144 لگادی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ لوگ ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، چار سے زائد لوگوں پر کاروائی ہوسکتی ہے۔ چپے چپے پر پولس ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا صوبہ سنگین موڑ پر کھڑا ہے، کسی وقت بھی کچھ بھی ہوسکتا۔بالخصوص آج کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں بھگوائیوں نے مسلم خواتین کو ٹارگٹ بنانے کی کوشش کی اور جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے بھیڑیوں اور درندوں کی طرح لپکے۔ لیکن تن تنہا پردہ پوش لڑکی نے نعرہ تکبیر کے ساتھ فضا میں غلغلہ مچا دیا۔یہ مسلم. بچی مسکان نامی B, com کی طالبہ ہے، Ndtv انگلش پر انہیں انٹرویو کیلئے بھی بلایا گیا تھا۔چھ منٹ کی گفتگو سے کہیں نہیں لگتا کہ اس بچی کا حوصلہ ٹوٹا ہے، اسے کوئی خوف و ہراس لاحق ہوا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کالج کے اسٹاف اور اکثر دوست بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن باہر سے اندر داخل ہوجانے والے اوباش زور زبردستی کر رہے ہیں۔  صرف یہی نہیں بلکہ بعض جگہوں پر متحدہ احتجاج کیا گیا جس کے نتیجے میں بات کچھ حد سے تجاوز کرنے لگی۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک کو دو دھاروں میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ایک طرف نقاب تو دوسری طرف بھگوا لا کر یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دونوں مد مقابل ہیں۔بات اس قدر آگے بڑھی کہ وزیر اعلیٰ نے امن بنائے رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے تین دن کیلئے اسکول و کالجز بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ تو وہیں ہائی کورٹ اس معاملہ پر شنوائی کرتے ہوئے ججز نے کہا ہے کہ ہم جب اس معاملہ کی شنوائی کر رہے ہیں تو اس دوران تشدد کا ماحول بنانا اور کشیدگی پیدا کرنا مناسب نہیں ہے۔یہ کارروائی معطل کردی گئی لیکن کل اس پر مزید گفتگو ہوگی۔
غور کرنے کی بات ہے کہ قانون کے دائرے میں معاملہ آجانے، ججز کی بنچ بیٹھ جانے کے باوجود یہ کون لوگ ہیں جو آئین اور عدالتی کارروائی کی بھی قدر نہیں کرتے۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ اس معاملہ کو عمداً کھینچا جارہا ہے۔ روزانہ ایک نیا شوشہ چھوڑ کر ورغلانے کی کوشش ہورہی ہے تاکہ اقلیت کو سوچنے پر مجبور کیا جائے اور ہندواحیائیت کا کام چلتا رہے۔آخر کیا حالت ہوگئی ہے کہ لوگوں نے آپس میں خود ہی زندگی حرام کرلی۔ سیاست دانوں نے ایسا بیج ڈالا کہ اس نے سماج میں تفرقہ ہی پیدا کردیا، تعلیمی اداروں کو زہریلا بنا دیا۔ علم کا حصول تو پہلے بھی مشکل تھا مگر اب اسے سماجی دشواریوں سے بھر دیا گیا۔افسوس ہوتا ہے کہ جس بھگوا کیلئے یہ نوجوان شور مچا رہے ہیں جب یہی آئندہ اسکول و کالج کی زندگی سے نکل کر عملی دنیا میں قدم رکھیں گے تو نوکری اور روزگار کیلئے دھکے کھائیں گے۔ جن کیلئے بھگوا اوڑھ کر کلاس بند کر رہے ہیں، تعلیمی ماحول خراب کر رہے ہیں، یہی لوگ نوکری مانگنے پر ڈنڈوں کی سوغات پائیں گے۔ انہیں سیاست کی بھٹی میں جھونک کر خاک کردیا جائے گا۔ مفاد پرست سیاسی سفید پوش انہیں سولی پر چڑھا دیں گے۔ یہ کوئی پیچیدہ بات نہیں بلکہ اظہر من الشمس ہے۔
کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے کہ بہار میں طلباء کے ساتھ بربریت کی گئی، جو نوکری کیلئے سرکار سے دہائی مانگ رہے تھے، مگر عوض میں انہیں پولس کے ڈنڈے دئے گئے، یہ نوجوان بھی کبھی بھگوائیوں کیلئے کام تھے۔ سوشلستان پر ایکٹو ہو کر سپورٹ کرتے تھے، واقعی یہ نوجوان بربادی کے دہانے پر ہے اور اپنی نادانی میں ملک کو میتھولوجی میں دھکیل رہا ہے۔ جہاں منوسمرتی کا قانون ہوگا، چھوا چھوت، ذات پات اور سماج کی تفریق ان کے ہاتھ آئے گی۔ ترقی و تعمیر میں وہ پچھڑ جائیں گے اور خالی ہاتھ ماتم کرتے رہ جائیں گے۔ کاش! وہ سمجھیں کہ یہ سب سیاستدانوں کے مہرے ہیں، جنہیں وہ وقت بہ وقت آگے بڑھاتے ہیں۔ اپنی سیاست چمکانے اور عوام میں تشویش پیدا کر کے ان کا سپورٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ صرف حکومت اور عیش و تنعم کی زندگی چاہتے ہیں؛ لیکن تمہیں ایک ڈھیلا تک نہیں دینا چاہتے، وہ اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیجیں گے اور تمہیں بھگوا بنا کر اپنا غلام بنائے رکھیں گے۔
اپنی راۓ یہاں لکھیں