محبت حبیب کی

محبت حبیبﷺ کی

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

اللہ کے رسولﷺ سے محبت ومودت رکھنا ایسا محبوب وقابلِ رشک کام ہے کہ ہرزمانے اورہر خطے کے اہلِ ایمان اس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اس کے حصول کی خاطر انتہائی جد وجہد وجانفشانیوں سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسا کیوں نہ ہو، جبکہ آپﷺ کی ذات والا صفات کو رب ذو الجلال نے اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: {وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ} (قلم، ۴) اور حقیقت بات ہے کہ آپ اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔ ‘‘ اور تمام جہان والوں کے لیے آپﷺکورحمت بنا کر بھیجا گیاہے۔

آپﷺ ہی کی توصیف میں اللہ بتاتا ہے کہ آپﷺ مومنوں کے مصالح ومنافع کے حریص اور امت کے لیے شفیق ورحیم ہیں۔ {لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْم} (توبہ، ۱۲۸) اللہ رب العزت نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ خود اور اس کے ملائکہ بھی آپﷺ پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور یہی امرِ خداوندی تمام مومنین کے لیے بھی ہے۔ {إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْماً} (احزاب، ۵۶)

اس نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم آپﷺ کی تعظیم وتوقیر میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھیں۔ {الَّذِیْنَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الأُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُونَہُ مَکْتُوباً عِندَہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیْلِ یَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبَآئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْ فَالَّذِیْنَ آمَنُواْ بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِیَ أُنزِلَ مَعَہُ أُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون} (اعراف، ۱۵۷) ’’ (پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبر، نبیِ اُمّی کی پیروی اختیار کریں جس کاذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اورنصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ ناز ل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم آپﷺ کے ساتھ اپنے تعامل میں ادب واحترام کو ملحوظ رکھیں اور کسی ایسی حرکت کا ارتکاب نہ کریں جو آپﷺ کے مقام ومرتبہ اور تعظیم واحترام کے خلاف ہو۔ {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ٭یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ} (حجرات، ۱-۲) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز میں بات کیا کروجس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ ‘‘

{لا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَیْْنَکُمْ کَدُعَاء بَعْضِکُم بَعْضاً قَدْ یَعْلَمُ اللَّہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُونَ مِنکُمْ لِوَاذاً فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ} (نور، ۶۳) ’’مسلمانو، اپنے درمیان رسولؐ کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سابلانا نہ سمجھ بیٹھو۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے سٹک جاتے ہیں۔ رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ میں گرفتار نہ ہوجائیں یاا ن پر دردناک عذاب نہ آجائے۔ ‘‘

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’رسولﷺ کے بلانے کو عام انسان کا سا بلانا مت سمجھو، بلکہ تمہیں ان کے بلانے کااحترام وتقدس رکھناچاہیے‘‘ ۔ لغوی امام مبردؒ کہتے ہیں کہ ’’اس کے معنی ہیں کہ تم ان کا احترام کرو اور ان کی تعظیم میں مبالغہ کرو۔ ‘‘ (تفسیر ابن کثیر: ۴/۳۷۶، تفسیر سورہ حجرات)

روایات میں آتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے ارشاد فرمایا کہ میں آج کے بعد آپﷺ سے سرگوشیوں ہی میں باتیں کروں گا۔ ان آیات کے زیرِ اثر حضرت عمرؓکا تعامل بھی اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سرگوشی کرنے جیسا ہوگیا تھا۔ حضرت عمروؓبن العاص فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اس دنیا میں اللہ کے رسولﷺ سے زیادہ کوئی محبوب اور لائقِ احترام نہ تھا، میں آپﷺ کے حضور مارے احترام کے پلکیں نہیں جھپکاتا تھا اور اگر مجھ سے کہا جائے کہ اللہ کے رسولﷺکا حلیہ بیان کرو تو میں نہیں کر سکوں گا کیونکہ میں نے کبھی آپﷺ کو جی بھر کر غور سے دیکھاہی نہیں۔ ‘‘ (صحیح مسلمؒ)

سنن ترمذیؒ میں حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ بسا اوقات اپنے مہاجرین وانصار صحابہؓ کے پاس تشریف لاتے تھے۔ کبھی کبھی یہ لوگ جماعت کی شکل میں بیٹھے ہوتے تھے۔ ان میں سے کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اللہ کے رسولﷺ کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھ لے۔ یہ تو صرف حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ تھے جو آپﷺ کی طرف نظریں اٹھاتے اور آپﷺ کے تبسم کے جواب میں مسکراتے تھے۔ دیگر صحابہ کرامؓ کے نگاہیں نیچی رکھنے کا سبب یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺپر نبوت کا جلال وہیبت القا کیا ہوا تھا۔ (سنن ترمذیؒ)

ابوابراہیم تجیبیؒ کہتے ہیں کہ: ’’ہر مومن پر واجب ہے کہ جب بھی اس کے سامنے آپﷺ کا تذکرہ کیا جائے یاوہ خود ہی آپﷺ کا ذکر کرے تو اسے اپنے اوپر خشیت ومسکنت طاری کرلینی چاہیے اور وقار ومتانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جو آپﷺ کے احترام وتعظیم کے خلاف ہوتی ہے، اور خود کو ایسا خیال کرے جیسے کہ وہ بنفسِ نفیس حضورِ اکرم ﷺکی خدمت میں کھڑا ہے۔ ‘‘ (وجوب محبۃ النبیﷺ: ص۳۸)

خلیفۃ المسلمین ابوجعفر منصورؒ اور امام دار الہجرۃ حضرت مالک بن انسؒ کے مابین ایک مباحثہ ہوا تھا۔ دراصل امام مالکؒ نے وقت کے حکمراں کو مسجد ِ نبوی میں آواز بلند کرنے پر برملا ٹوکا تھا۔ امام مالکؒ نے فرمایا تھا کہ اے امیر المومنین! اس مسجد میں آوازیں بلند نہ کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو ادب واحترام کی تعلیم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی آوازیں نبیﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو۔ {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ} (حجرات، ۲) ’’اے لوگوجوایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آوازسے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر ہی نہ ہو۔ ‘‘

“اور کچھ لوگوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں: {إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّونَ أَصْوَاتَہُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّہِ أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَی لَہُم مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ عَظِیْم} (حجرات، ۳) ’’جو لوگ رسولؐ ِ خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کے لیے جانچ لیا ہے، اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجرِ عظیم۔ ‘‘

“اوربہت سے لوگوں کوسرزنش وملامت کی تھی کہ وہ کمروں کے پیچھے سے آپﷺ کو زور سے آوازیں دیتے ہیں: {إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُونَکَ مِن وَرَاء الْحُجُرَاتِ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُون} (حجرات، ۴) ’’اے نبیؐ !جو لوگ تمہیں حجروں کے باہر سے پُکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ ‘‘ اللہ کے رسول ﷺکی حرمت وتقدس حالتِ وفات میں بھی وہی ہے جیسی کہ حالتِ حیات میں تھی۔ ‘‘ ابوجعفر منصور نے یہ سن کر چپی سادھ لی۔ (البدایۃ النھایۃ، ابن کثیرؒ: ۲/۴۱۷)

حضرت مصعب بن عبداللہؒ کہتے ہیں: ’’امام مالکؒ کا حال یہ تھا کہ جب کبھی ان کے سامنے اللہ کے رسولﷺ کا تذکرہ کیا جاتا تورنگ پیلا پڑجاتا اور اس طرح رونے لگتے کہ دیگر ہم نشیں پریشان ہوجاتے کہ آخر کیاہوا۔ ایک مرتبہ آپؒ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: اگر تم نے میری طرح دیکھا ہوتا تو میری حالت پر اظہارِ تعجب نہ کرتے۔ میں نے سید القراء حضرت محمدؒ بن المنکدر کو دیکھا ہے کہ جب ان سے کسی حدیث کے بارے میں پوچھا جاتا تو روپڑتے تھے، اور اتنا روتے کہ ہمیں رحم آنے لگتا تھا۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ اپنی دعاوگریہ اور دائمی تبسم کے لیے مشہور حضرت جعفر بن محمدؒ کا حال یہ تھا کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسولﷺ کا تذکرہ کیا جاتا، تو چہرا فق ہوجاتا اور میرا مشاہدہ تھا کہ وہ کوئی بھی حدیث بیان کرنے سے پہلے طہارت یاوضو کیا کرتے تھے۔ ‘‘ (سیرۃ الإمام مالک بن انس، ابوزہرہ ؒ: ص۲۶۹)

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں