جہیز کی شرعی حیثیت
از: احمد
اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے ، جس میں سب کے حقوق اور سب کی ذمہ داریاں متعین اور مقرر کی گئی ہیں ، ہر معاملہ میں میانہ روی اور مناسب توازن مذہب اسلام کی خاص پہچان اور شعار ہے ،تمام شعبہائے زندگی میں قرآنی تعلیمات و سنت نبوی قدم بقدم ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔
حقیقی کامرانی
حقیقی کامیابی و کامرانی کا راز انہیں تعلیمات ربانی و اطاعت نبوی میں مضمر ہے ، چنانچہ رب کریم کا ارشاد ہے : یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول ؛
’’ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو‘‘ اسی مفہوم کو نبی کریم ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے : من اطاعنی فقد اطاع اللہ ومن یعصینی فقد عصی اللہ ؛ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۔رسول کی اطاعت در اصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہوتی ہے ، کیونکہ رسول کی شان تو ’’ وما ینطق عن الھوٰی ان ھو الا وحیٌ یوحیٰ ‘‘ (رسول اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے وہ وہی کرتے اور کہتے ہیں جس کا ان کو ان کا پروردگار حکم دیتا ہے ) کی ہوتی ہے ۔
آج اسی حکم خداوندی اور فرمان نبوی کے خلاف ورزی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دیگر برائیوں کی طرح جہیز ایک ایسی برائی اور بیماری بن چکی ہے جس میں ہر خاص و عام کسی نہ کسی حد تک ضرور ملوث ہے ۔ دین و شریعت کو بالائے طاق رکھ کے جہیز کے نام پر جو خرافات مچائے جارہے ہیں وہ ناقابل بیاں ہیں ۔اسی رسم جہیز کی وجہ سے معاشرے کی معصوم اور غریب بچیاں اپنے گھروں میں پڑی رہ جاتی ہیں ، ان کیلئے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل پاتا کیونکہ ان کے والدین کے پاس اتنا رقم اور پیسہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بچیوں کیلئے سامان جہیز کا انتظام کرسکیں ۔
سامان جہیز کی اصل ذمہ داری کس پر؟
اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر حاکم بنایا ہے : الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضہم علی بعض وبما انفقوا من اموالہم (مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر بعض چیزوں میں فضیلت دی ہے ، اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں )
مردوں کے عورتوں پر فضیلت کے اسباب میں سے ایک سبب اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں ، یعنی مردوں کیلئے یہ فضیلت اور شان کی چیز ہے کہ وہ اپنی ہونے والی زوجہ کیلئے مال خرچ کرے ۔
اسی مفہوم کی ترجمانی آقا ﷺ کی اس حدیث سے ہوتی ہے ’’ یا معشرالشباب من استطاع منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر و احصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاءٌ ‘‘
(اے جوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کرلے ، یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والی اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی ہے ، اور جو استطاعت نہیں رکھتا وہ اپنے اوپر روزے کو لازم کرلے ، یہ اس کیلئے خواہش کو قابو میں کرنے کا ذریعہ ہے ) [مسلم :3398]
قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت اور حدیث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عورت کی تمام ضروریات اور اخراجات مرد کے ذمہ لازم ہے ،
کیونکہ مذکورہ حدیث میں ’’ الباءۃ ‘‘ کا لفظ ہے جس کی تشریح شارحین حدیث نے یہ کی ہے کہ ’’ الباءۃ ‘‘ سے مراد مہر اور نان و نفقہ وغیرہ ہے ۔یعنی جس کے اندر اتنی سکت ہو کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کا مہر اور نان و نفقہ وغیرہ برداشت کرسکتا ہے تو اسے شادی کرلینی چاہئے ورنہ روزہ رکھ کر اپنی قوت شہوانی کو توڑے ۔
لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا
لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا شرعی لحاظ سے حرام اور ناجائز ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور انسانیت کی رو سے بھی ایک گری ہوئی اور نیچ حرکت ہے جس کا ایک شریف النفس اور با اخلاق آدمی کبھی مرتکب نہیں ہوسکتا ہے۔یہ تو انتہائی حد درجہ کی غلیظ اور قبیح حرکت ہوگی کی ایک آدمی اپنے لخت جگر ، دل کے ٹکڑے کو بذریعہ نکاح آپ کی تسکین اور شادمانی کا سامان فراہم کرنے کیلئے آپ کے سپرد کرے اور آپ اس سے روپئے پیسے کا مطالبہ کریں ۔اگر لڑکی کا باپ حق پرورش کے عوض لڑکے والوں سے کچھ مطالبہ کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں معاملہ الٹا نظر آتا ہے ۔
رسم جہیز کا اصل ذمہ دار کون؟
جہیز کو بڑھاوا اور فروغ دینے میں بہت حدتک ہمارا معاشرہ اور سماج خود ذمہ دار ہے۔سامان جہیز نہ لے جانے پر صرف لڑکا ہی نہیں بلکہ اس کے ماں باپ ، اس کی بہن اور محلے کی دیگر عورتیں اس صنف نازک پر جو کرب آمیز جملوں اور فقروں کا بارش کرتی ہیں ، اس کی تکلیف کو ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جاسکتا ۔کچھ لمحے کیلئے اس معصوم کو اپنا وجود اس روئے زمین پر بوجھ اور بے کار معلوم ہونے لگتا ہے ۔ذرا سوچئے اس معصوم لڑکی پر کیا گزرتی ہوگی ؟ کیا اس کا اس معاشرے میں پیدا ہونا گناہ ہے ؟ کیا اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی ہے ۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس پر زیادہ تر طعن و تشنیع ان کی طرف سے کی جاتی ہے جو خود ایک عورت اور لڑکی ہوتی ہیں ۔
جہیز کو بڑھاوا دینے میں وہ لوگ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں جو جہیز کو کو جائز سمجھتے ہیں اور حضور ﷺ کے حضرت فاطمہ کے شادی میں دئے ہوئے ضروری سامان سے جہیز پر استدلال کرتے ہیں، کہ وہ چیزیں اس زمانے کی ضروریات کے اعتبار سےتھیں، لہٰذا موجودہ وقت میں آج کی ضروریات کے اعتبار سے سامان جہیز لڑکی والوں پر ضروری ہے ۔لیکن جہیز کے جواز کے قائلین کا حضور ﷺ کے دئے ہوئے سامان سے جہیز پر استدلال کرنا بالکل لغو ہے ۔کیونکہ سیرت کی کتابوں میں یہ مذکور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا زرہ بیچ کر مہر اور کچھ ضروری چیزوں کا انتظام کیا تھا ۔
بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ چیزیں حضور نے ہی دی تھی،تب بھی اس سے جہیز کا جائز ہونا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی علیہ السلام کے ماتحتی اور کفالت میں تھے اس لئے حضور نے جو کچھ دیا ایک سرپرست کی حیثیت سے دیا تھا ، اسے جہیز نہیں کہا جاسکتا ۔کیونکہ اس سے پہلے حضور نے دوسری صاحبزادیوں کا نکاح کیا جس میں کہیں جہیز (ضروری سامان وغیرہ) کا ذکر نہیں ملتا ، حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی عربوں میں دیگر برائیوں کے باوجود جہیز کی برائی نہیں تھی ۔
جہیز کا سد باب کیسے ہو ؟
جہیز کو ختم کرنے کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم رشتوں کا انتخاب شریعت کے مطابق کریں ۔ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے :عورت سے چار چیزوں اس کے مال اس کے حسب نسب اس کے حسن و جمال اور اس کے دین کی وجہ سے نکاح کیا جاتاہے ،تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں (یہ عربوں کا ایک مہاورہ تھا جو کسی کو بد دعا دینے کیلئے مستعمل تھا ) تم دین دار عورت کے ساتھ نکاح کرکے کامیابی حاصل کرو ،(اگر دین داری کو ترجیح نہیں دوگے تو تمہارے لئے بربادی ہے )
اگر ہم رشتوں کے انتخاب میں دین داری اور پرہزگاری کو ترجیح دینے لگے خواہ لڑکی کا رشتہ ہو یا لڑکے کا، تو یقین جانئے ایسے رشتے پر جس میں تقوٰی و پرہیزگاری کو بنیاد بنایا گیا ہو خدا کی بے پناہ رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی ۔مگر افسوس کہ آج ہمارے معاشرے میں دینداری و پرہیزگاری کا نمبر سب سے اخیر میں آتا ہے ۔لڑکے والوں کو چاہئے کہ لڑکی والوں سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کریں اور نہ ہی کچھ ملنے کی توقع رکھیں ۔اور اگر لڑکی والوں کو کچھ دینا ہی ہے تو شادی کے موقع پر نہ دیکر بعد میں تھوڑا تھوڑا کرکے دیں ، اس میں نام و نمود اور ریاکاری کا شائبہ بھی نہ ہوگا اور نہ ہی لڑکی والوں پر کوئی بار آئے گا ،کیونکہ جہیز دینے میں زیادہ تر دو چیزیں پیش نظر ہوتی ہیں یا تو ریاکاری اور دکھلاوا مقصود ہوتا ہے یا معاشرے کے طعن و تشنیع سے بچنا ،مذکورہ طریقہ اختیار کرنے سے یہ دونوں چیزیں ختم ہوں گی ۔ہر باپ کو چاہئے کہ اپنے بیٹوں کا رشتہ کریں نہ کہ ان کا سودا، چند پیسوں کے عوض اپنے ضمیر کو فروخت نہ کریں ۔
تو آئیے آج سے ہم یہ عہد کریں کہ معاشرے سے اس ملعون بیماری کو ختم کریں گے ، اپنے بچے اور بچیوں کے رشتے کے انتخاب میں دینداری و پرہیزگاری کو ترجیح دیں گے ۔ والســـــــــــــــلام
[اس ویب سائٹ(علم کی دنیا) پر ہر طرح کے علمی ،فکری ،دینی،ادبی اور سائنسی تازہ ترین مضامین جو مختلف اہل علم قلم کاروں کے تحریر کردہ ہوتے ہیں شائع کئے جاتے ہیں ، جس سے ملک و بیرون ملک کی ایک بڑی تعداد مستفید ہوتی ہے ،
آپ بھی استفادہ کی خاطر اس ویب سائٹ سے جڑے رہیں ، جڑے رہنے کیلئے گھنٹی والے لال بٹن کو کلک کرکے سبسکرائب کرلیں تاکہ جیسے ہی کوئی مضمون اپڈیٹ ہو آپ کو فوراً اطلاع مل سکے۔ منتظمین علم کی دنیا ڈاٹ اِن ]