(ایمانیات سیریز: 4)
توحیدِ ربوبیت
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
عقیدۂ توحید دین کی اصل ہے۔ توحیدِ باری تعالیٰ کی تین بڑی شکلیں یا قسمیں ہیں اور تینوں مطلوب ہیں۔
۱- توحیدِ ربوبیت
۲-توحیدِ الوہیت
۳-توحیدِ اسماء وصفات
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان کا مطلب ہے کہ ہم یہ اقرار اور تصدیق کریں کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا پروردگار، مالک، خالق اور رازق ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے، نفع ونقصان اسی سے پہنچتا ہے، کائنات میں اسی کا سکّہ چل رہا ہے، اسی کے ہاتھ میں خیر اور بھلائی ہے، وہ ہر شے پر مکمل اختیار اور قدرت رکھتا ہے، ان اوصاف اور صلاحیتوں میں کوئی اس کا ہمسر وشریک نہیں۔
آسان لفظوں میں اللہ کے کاموں کو اسی کے ساتھ خاص کردینا توحیدِ ربوبیت ہے۔
اس سلسلے میں ہر مسلمان کو چند باتوں کا عقیدہ رکھنا ہوگا۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات اور اس کائنات کے علاوہ جملہ کائناتوں اور دنیاؤں کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسی حقیقت کو یوں بیان کیا گیا ہے: {اللَّہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ وَکِیْلٌ}(زمر،۶۲)’’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔‘‘
انسان کے تخلیقی عمل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شے کے اوصاف بدل دیتا ہے، مختلف عناصر کو جمع کرکے انھیں خاص ترکیب سے جوڑ دیتا ہے، کسی مادے کو گھٹا اور بڑھا دیتا ہے۔ مگراس کا تخلیقی عمل حقیقی نہیں ہوتا، وہ عدم سے کسی شے کو وجود میں نہیں لاتا اور نہ موت کے بعد کسی مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہے۔
مسلمان کو یہ عقیدہ بھی رکھنا چاہیے کہ جملہ مخلوقات کا رازق اللہ تعالیٰ ہے، اس کے علاوہ کوئی ہستی رزق رساں نہیں ہے:{وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ إِلاَّ عَلَی اللّہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا }(ہود،۶)’’زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہوکہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے۔‘‘
مسلمان کا عقیدہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا مالکِ حقیقی اور مختارِ کُل ہے، اس کے علاوہ حقیقت میں کوئی مالک ومختار نہیں ہے:{لِلّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا فِیْہِنَّ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر}(مائدہ،۱۲۰)’’زمین اور آسمانوں اور تمام موجودات کی پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
مسلمان کو صمیمِ قلب سے یہ بھی ماننا چاہیے کہ اللہ ہی نظامِ دنیا چلا رہا ہے، اس کے علاوہ کوئی مدبرِ کائنات نہیں ہے:{یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء ِ إِلَی الْأَرْضِ}(سجدہ،۵) ’’وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے۔‘‘
انسان اپنے معاملات اور زندگی کو منظم ومرتب کرتا ہے،مگر یہ نظم وانصرام مقید اور محدود ہوتا ہے اور صرف ان چیزوں سے متعلق ہوتا ہے جن کا وہ مجازی مالک ہے، یاجن کی وہ استطاعت رکھتا ہے یا جو اس کے دائرۂ اثر میں آتی ہیں۔ اس کے باوجود انسان کی تدبیر کبھی سود مند ثابت ہوتی ہے اور کبھی ناکامی کا منھ دیکھتی ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا انتظام وانصرام ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے، اس کے دائرۂ تدبیر سے کوئی شے باہر نہیں، اس کا حکم ہر ایک پر جاری ہے، اسے نہ کوئی پلٹ سکتا ہے اور نہ کوئی اس کے خلاف چل سکتا ہے: {أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَکَ اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْن}(اعراف،۵۴) ’’خبردار رہو، اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں کا مالک وپروردگار۔‘‘
یہاں ہم مسلمانوں کو یہ نکتہ بھی جان لینا چاہیے کہ جس عرب مشرک سماج میں اللہ کے نبیﷺ مبعوث ہوئے تھے، وہاں لوگ اللہ کی ربوبیت کا اقرار واعتراف کرتے تھے۔ عہدِ جاہلیت میں کفار ومشرکین مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا حقیقی خالق ومالک اور مدبر ومنتظم ہے: {وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ} (لقمان، ۲۵) ’’اگر تم ان سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔‘‘
مگر صرف یہ اقرار کر لینے کی وجہ سے انھیں مسلمان نہیں مان لیا گیا۔جو شخص اللہ رب العالمین کے بارے میں اقرار کرتا ہے کہ وہی حقیقی خالق ومالک اور ولیِ نعمت ہے تو اس کے ساتھ اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ تنہا اسی کی عبادت کرے اور اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے کے لیے عبادت کی کسی شکل کو انجام نہ دے۔ یہ وہ کام تھا جو مشرکینِ عرب نہیں کرتے تھے۔
آخر یہ بات کس قدر ناقابلِ فہم اور غیر عقلی ہے کہ انسان یہ اقرار تو کرے کہ ہر شے اللہ نے بنائی ہے، کائنات وہی چلا رہا ہے، زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے،مگر جہاں عبادت کرنی ہو تو وہ کسی نہ کسی شکل میں غیروں کی عبادت کرے؟یہ تو ظلم کی بدترین صورت اور انتہاء درجے کی گستاخی،حماقت اور گناہ ہے۔اسی لیے حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:{یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} (لقمان، ۱۳) ’’بیٹا، اللہ کے ساتھ کسی کو شرک نہ کرنا،حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
اللہ کے نبیﷺ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:’’یہ کہ تم اللہ کا ساجھی اور ہمسربنائو حالانکہ تمہیں صرف اسی نے پیدا کیا ہے۔‘‘[أی الذنب أعظم عنداللّٰہ قال أن تجعل للّٰہ ندا وہو خلقک](صحیح بخاریؒ:۴۲۰۷۔ صحیح مسلمؒ:۸۶)
اللہ کی ربوبیت پر ایمان رکھنے سے انسان کو اطمینانِ قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ جب بندہ پورے یقین کے ساتھ جان لیتا ہے کہ دنیا کی کوئی مخلوق اللہ کی قدرت اور قبضے سے باہر نہیں ہے کیونکہ اللہ ہی سب کا مالک ومختار ہے اور وہ اپنی حکمت کے مطابق دنیا میں تصرف فرمارہا ہے،اسی نے سب کو پیدا کیا ہے ،اس کے علاوہ ہر شے مخلوق اور محتاج ہے، زمامِ اقتدار پوری کی پوری اس کے ہاتھ میں ہے، اس کے سوا کوئی خالق نہیں، اس کے سوا کوئی رازق نہیں، اس کے سوا کوئی مدبرِ کائنات نہیں، ایک ذرہ بھی اس کی اجازت کے بغیر اپنی جگہ نہیں چھوڑتا؛ جب بندے کو ان حقائق پر شرحِ صدر ہوجاتا ہے تو نتیجے میں اس کے اندر اللہ سے تعلق کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، اب وہ اسی سے مانگتا ہے اور اسی کی بارگاہ میں دستِ سوال دراز کرتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر معاملے میں مکمل طور سے اسی پر اعتماد کرتا ہے۔ زندگی کے مشکل ترین حالات میں بھی پورے اطمینان، مستقل مزاجی اور عزم وحوصلے کے ساتھ جادۂ حق پر ڈٹا رہتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے زندگی کی کسی ضرورت کی حصول یابی کے لیے اپنی استطاعت بھر کوشش کر دی اور اللہ کی بارگاہ میں اپنی مراد پوری ہونے کی دعا بھی کر دی تو اس نے اپنے ذمے کا کام پورا کر دیا۔
چنانچہ اس کا دل پُرسکون ہوتا ہے اور وہ نگاہ پھیر کر دوسرے لوگوں کی نعمتوں اور آسائشوںکو نہیں دیکھتا۔ وہ اچھی طرح سمجھ لیتا ہے کہ کسی کو دینا اور نہ دینا اللہ کا اختیار اور حق ہے۔ امرِ دنیا اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نعمتیں بخش دیتا ہے۔
اللہ کی ربوبیت پر ایمان کا نقد فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اوہام وخرافات کے چنگل سے نکل جاتا ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل عربوں اور دیگر قوموں کے اندر اساطیر وخرافات کا دور دورہ تھا۔ جزیرۃ العرب ہی کیا،روئے ارض کا کوئی علاقہ اور خطہ توہمات اور بد اعتقادیوں کے اثر سے محفوظ نہیں تھا۔ اسی لیے تو عربوں نے پہلے پہل قرآن کی تاثیر کامشاہدہ کیا اور اس کے دلائل کاجواب نہیں دے سکے تو اسے ایک قسم کی طلسماتی یا جادوئی کتاب کہنے لگے۔دراصل اسلام جو روشنی اور ہدایت لے کر آیا ہے اس کے دائرے میں آجانے کے بعد انسان کا ذہن ہر قسم کی خرافاتوں اور اساطیرو توہمات سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اسلامی شریعت میں ایسے قاعدے اور احکام ملتے ہیں جو عقل وروح کی پاکیزگی اور بالیدگی کے ضامن ہیں۔دینِ حق ابنائے آدم کو بارگاہِ رب میں سجدہ ریز کراکر دوسری ہزارجگہوں پر جبیں سائی کی لعنت سے نجات دے دیتا ہے۔
اسلام نے ہر قسم کی جادوگری، شعبدے بازی، مستقبل بینی اورسحر و کہانت کو حرام قرار دیا ہے اور ان کاموں کو شرک وضلالت کے کام بتایا ہے۔قرآن کا اعلان ہے کہ ساحرکبھی کامیاب نہیں ہوتا،نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔{ وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْْثُ أَتَی} (طہ،۶۹)’’اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے آئے۔‘‘
ازروئے اسلام کسی جادوگر کے پاس جانا، اس سے کوئی بات پوچھنا، کسی بیماری کا علاج کرانا،کسی مشکل کا حل نکلوانا حرام ہے۔ دعوائے مسلمانیت کے باوجود اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس نے گویا محمدﷺ کے لائے دین کے ساتھ کفر کیا۔اس حرمت کی وجہ بالکل واضح ہے۔ اسلامی عقیدے کی رو سے نفع ونقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے اور غیب کے بارے میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا۔اس لیے اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کسی عرّاف یا کاہن کے پاس جائے، اس سے کچھ پوچھے اور اس کی بتائی بات کو سچ جانے تو اس نے گویا محمد(ﷺ) پر نازل ہونے والے دین کا انکار کر دیا۔[من أتی عرافا فسألہ فصدّقہ فقد کفر بما أنزل علی محمدﷺ](مستدرک حاکمؒ:۱۵)
اسلامی زاویۂ نگاہ سے جملہ مخلوقات(انسان، جنات، شجر وحجر، کوہ ودمن، کواکب ونجوم وغیرہ) چاہے وہ جتنی بڑی ہوں،وہ درحقیقت اپنے خالق ومالک کی عظمت ووحدانیت کی نشانیاں اور دلیلیں ہیں۔ کوئی انسان ایسی خرقِ عادت قوت وطاقت نہیں رکھتا کہ وہ کائنات پر مابعد الطبیعی طریقے سے اثر ڈال سکے۔ تخلیق وتدبیر اور قدرت واختیار تمام تر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم اس کی بنائی مخلوقات کی بناوٹ اور ترکیب میں جوشخص بھی غور کرے گا وہ لامحالہ اس نتیجے تک پہنچے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی خالق ومالک اور رب ہے، وہی قادرِ مطلق ہے، وہی نظمِ کائنات چلا رہا ہے،اس لیے ہر قسم کی عبادت اسی کے ساتھ مخصوص ہونی چاہیے۔ صرف وہی خالق ہے، باقی سب مخلوقات ہیں: {وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ}(فصلت،۳۷)’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو، بلکہ اُس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے، اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔‘‘
اسلام کے مطابق غیب اور مستقبل کا حال صرف اللہ جانتا ہے۔کوئی جادوگر یا قیافہ شناس یا کاہن یا نجومی اگر آنے والے واقعات کے یقینی علم کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔ {وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوَ}(انعام،۵۹)’’اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘
نوعِ انسانی کے افضل ترین فرد حضرت محمد مصطفیﷺ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ آپﷺ اپنی ذات کے لیے بھی نفع وضرر کا اختیار نہیں رکھتے تھے اور نہ غیب یا مستقبل کو جانتے تھے۔ جب ان کا یہ حال ہے تو ان سے فروتر انسانوں کے بارے میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا:{ قُل لاَّ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعاً وَلاَ ضَرّاً إِلاَّ مَا شَاء اللّہُ وَلَوْ کُنتُ أَعْلَمُ الْغَیْْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوء ُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِیْرٌ وَبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُون}(اعراف،۱۸۸)’’اے محمدؐ، ان سے کہو کہ اپنی ذات کے لیے میں کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں، ان لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں۔‘‘
اسی طرح اسلامی شریعت نے مختلف چیزوں، رنگوں یا موسموں سے برا شگون لینے یا انھیں بدفالی کا سبب سمجھنے سے روکا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کا ماننے والا مستقبل کے بارے میں پُر امید ہوکر زندگی گزارے اور مثبت انداز میں آنے والے واقعات کا سامنا کرے۔
عہدِ جاہلیت میں اور آج بھی بہت سے لوگ مختلف چیزوں کو نحس سمجھتے ہیں اور ان سے بدفالی لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ اگر سفر پر نکلتے ہوئے کسی خاص پرندے(مثلاً الّویا کوّے) کو دیکھ لیں یا کسی جانور کی آواز (مثلاً کتے کا بھونکنا یا گدھے کا رینکنا) سن لیتے ہیں، یا کوئی شخص انھیں ٹوک دیتا ہے تو بہت برا مان جاتے ہیں اوراپنا سفر ملتوی کردیتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس طرزِ عمل کو شرک سے تعبیر کیا ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایاہے: ’’پرندوں سے برا شگون لینا شرک ہے۔‘‘[الطیرۃ شرک](سنن ابو داؤدؒ:۳۹۱۲۔ سنن ابن ماجہؒ:۳۵۳۸)
یہ ایک مشرکانہ طرزِ عمل ہے جو ہرگز کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس دنیا اور پوری کائنات کو چلا رہا ہے اور تنہا اسی کو غیب کا مطلق علم حاصل ہے۔ اس صفت میں اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں۔اس کے مقابلے میں اسلام نے حکم دیا ہے کہ انسان ہمیشہ نیک فال نکالے،خیر کی امید رکھے، اللہ کے بارے میں حسنِ ظن سے کام لے اور اپنی گفتگو میں وہی الفاظ استعمال کرے جو رجائیت پر مبنی اور مناسب ہوں۔ اللہ کے نبیﷺ کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ آپﷺ خوش امیدی اور اچھی بات پسند فرماتے تھے۔[لا عدویٰ ولا طیرۃ ویعجبنی الفأل،الکلمۃ الطیبۃ](صحیح بخاریؒ:۵۷۷۶۔ صحیح مسلمؒ:۲۲۲۴)
اللہ کی ربوبیت پر ایمان کے بارے میں جو باتیں اوپرگزریں ان کا لبِ لباب یہ ہے کہ اس ایمان کی بہ دولت انسان کے اندر پختہ عزمی اور بہادری کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ وہ اللہ کے بھروسے پر آگے بڑھنے کی سوچنے لگتا ہے اور ہر قسم کی پریشانیوں اور مشکلوں کا سامنا کرنے پر خود کو تیار اور رضامند پاتا ہے کیونکہ وہ اچھی طرح یہ حقیقت جان چکا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق ومالک اور منتظم ومتصرف ہے، اس لیے وہ اسی پر اعتماد کرتا ہے اور رکاوٹوں سے پار پانے کے لیے تنہا اسی کا سہارا تھامتا ہے۔
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ کی ربوبیت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے انسان کے اندر یہ جذبہ بیدار ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے، اس سے شدید محبت رکھے، اسی پر توکل کرے اور اسی کی طرف وقتِ ضرورت رجوع ہو۔{وَلِلّہِ غَیْْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِلَیْْہِ یُرْجَعُ الأَمْرُ کُلُّہُ فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْْہ}(ہود،۱۲۳) ’’آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ پس تم اس کی بندگی کرو اور اسی پر بھروسا رکھو۔‘‘
ربوبیت پر ایمان کا ایک فائدہ یہ ہے کہ انسان اس کی بہ دولت ہزار سجدوں اور ذلتوں سے نجات پاتا ہے۔ وہ موہومہ نحوستوں اور بے حقیقت خرافات وتوہمات کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔جو شخص حقیقت میں اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنی زندگی کا ہر معاملہ اس کے حوالے کرکے نچنت اور بے فکرہوجاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی رب العالمین ہے، وہی معبودِ حقیقی ہے، باقی سب جھوٹے خدا ہیں، اس لیے وہ کسی مخلوق سے نہیں ڈرتا اور نہ اپنے دل کو کسی مخلوق سے وابستہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ خرافات واوہام کی غلامی سے نکل کر بندۂ آزاد ہوجاتا ہے:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین