تاریخ میں بزدلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں

تاریخ میں بزدلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں

صابر حسین ندوی

انسان اگر بزدل ہوجائے، وہ حالات سے گھبرانے لگے، دشمنوں سے ہیبت کھانے لگے، اس کے پیروں میں رعشہ طاری ہوجائے، وہ فیصلہ کرتے وقت اور حق و باطل کی معرکہ آرائی میں مداہنت دکھلانے لگے، خواہ یہ انفرادی ہو یا پھر قوم وملت اور قبیلہ کی جانب سے ہو ان کیلئے تاریخ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایسے لوگ اور ایسی قومیں مٹ جاتی ہیں، انہیں ہر کوئی اکھاڑ پھینکتا ہے۔ کوئی بھی سر اٹھتا ہے اور ان کے پرخچے اڑا دیتا ہے  اور ان کی داستان تک مٹ جاتی ہے۔اس دنیا میں اب تک نہ جانے کتنی قومیں پیدا ہوئیں، نہ جانے کتنے انسان تخلیق کئے گئے؛ لیکن ان میں اب تک اگر کسی کو یاد رکھا گیا ہے اور کتابوں میں جنہیں پڑھا جاتا ہے، جن کی کہانیاں سنائی جاتی ہے، بچے، بڑے اور بوڑھے جن کے قصے پڑھ پڑھ کر چٹخارے لیتے ہیں، حوصلہ اور بلند ہمتی کا گُن گان کرتے  ہیں وہ سب کے سب بہادر لوگ اور بہادر قومیں تھیں۔ آپ صرف اسلامی تاریخ کا ہی جایزہ لیں؛ تب بھی بات واضح ہوجائے گی، تاریخ میں جب تک مسلمانوں میں سرفروش اور جاں نثار پیدا ہوتے رہے، جذبہ جہاد، شوق شہادت اور تلوار کی چمک تلے جاگنے اور سونے والے پیدا ہوتے رہے تب تک مسلمانوں کو عروج حاصل رہا۔ اب وہ بات نہیں، نہ ان میں کوئی قومی اعتبار سے جذبہ پایا جاتا ہے اور ناہی انفرادی ایسی طاقتیں اٹھتی ہیں۔

ذرا افغانستان کو ہی دیکھ لیجیے! پڑوسی طلباء نے اس صدی میں یہ ثابت کردیا ہے کہ بہادری کے بغیر کچھ نہیں، ایمان و توکل اور شجاعت ہی انسان کو زندہ رکھتی ہے۔ آج اگر سنکدر، دارا، سیزر کو یاد رکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ اسلام تو قطعاً پسند نہیں کرتا کہ کوئی مسلمان بزدل ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اس سے پناہ مانگی ہے، مگر افسوس ہم پناہ نہیں مانگتے؛ بلکہ اسی بزدلی کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔  نتیجتاً  نہ تاریخ بنا پارہے ہیں ناہی تاریخ کی حفاظت کر پارہے ہیں۔ اس موضوع پر مشہور مفکر اور مبلغ جناب اوریا مقبول جان صاحب کی ایک تحریر بعنوان – خلعت پہن کے بھی نہ رذالت کی بُو گئی- پڑھنے کے لائق ہے، بے حد بصیرت انگیز تحریر ہے، آپ بھی پڑھیے!
تاریخ کا پہلا سبق ہے کہ اس نے کبھی بزدل انسانوں اور بزدل اقوام کو یاد نہیں رکھا۔ بزدلوں کو نہ انہیں اپنے وقت میں عزت و تکریم میسر ہوئی اور نہ ہی آنے والے دنوں میں کسی نے ان کو اچھے ناموں سے یاد کیا۔ بزدل شخص اپنے اردگرد سونے چاندی کے پہاڑ بھی بلند کر لے، پھر بھی جگہ جگہ اپنی عافیت، خیریت اور زندگی کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ تاریخ ایسی اقوام کے تذکرے سے بھری ہوئی ہے جو معاشی طور پر مستحکم اور خوشحال تھیں مگر چند افراد کے گروہ، جو سروں میں بے خوفی کا سودا لئے ہوئے تھے، آئے اور ان کو محکوم بنا لیا۔ دُور کیوں جاتے ہو، اپنے برصغیر پاک و ہند کی مثال لیتے ہیں۔ جس زمانے میں ہندوستان پر یورپ کی اقوام بھوکے بھیڑیوں کی طرح چڑھ دوڑی تھیں، اس وقت دُنیا اسے سونے کی چڑیا کہتی تھی۔ مشہور برطانوی معاشی مؤرخ اینگس میڈیسن (Angus Maddison) لکھتا ہے کہ ’’مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہدِ حکومت یعنی 1700 عیسوی میں دُنیا بھر کی معیشت میں ہندوستان کا حصہ 27 فیصد تھا اور اس کا خزانہ سالانہ دس کروڑ پائونڈ مالیت کے ٹیکس وصول کرتا تھا‘‘۔ صرف پینسٹھ سال بعد 1765ء میں شاہ عالم ثانی کی بزدلی نے اسے اس مقام پر لا پہنچایا کہ مرہٹوں نے پورے ہندوستان پر عملاً اپنی حکومت قائم کر لی اور دِلّی میں یہ محاورہ زبان زدِ عام ہو گیا ’’سلطنتِ شاہ عالم۔ از دِلّی تا پالم‘‘۔ شاہ عالم کی حکومت، دِلّی سے پالم تک ہے۔ پالم وہ جگہ ہے جہاں ان دنوں دِلّی ایئر پورٹ ہے۔ ایک نوجوان جو روہیل کھنڈ کے حاکم ضابطہ خان کا بیٹا تھا، مرہٹے اسے پورے خاندان سمیت پکڑ کر لائے اور بادشاہ کے حوالے کر دیا۔ شاہ عالم نے اسے خصی کروا کر زنانہ کپڑے پہننے کا حکم دیا۔ ایک دن اس ’’بہادر‘‘ نے بادشاہ کو سپاہ کی موجودگی میں سرِدربار پکڑا اور خنجر سے اس کی آنکھیں نکال دیں۔ تیمور کی اولاد کے اس بزدل بادشاہ کا اقبالؒ نے نوحہ لکھا تھا:

مگر یہ راز آخری کُھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

غلام قادر روہیلہ نے جب شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکالیں تو اس کے بعد اس نے مغل شاہزادیوں کو دربار میں رقص کا حکم دیا۔ رقص سے لُطف اندوز ہونے کے بعد وہ ایک سمت کو جا کر مسند پر لیٹ گیا اور اپنا خنجر نکال کر سینے پر رکھ لیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ محسوس ہو کہ وہ سو رہا ہے۔ بہت دیر تک ایسے ہی لیٹا رہا اور پھر اُٹھا اور دربار سے مخاطب ہو کر بولا، اے آلِ تیمور، میرا اس درباری مسند پر سو جانا تو ایک بناوٹ تھی۔ میرا مقصد یہ تھا کہ شاید کوئی تیمور کی بیٹی مجھے غافل سمجھ کر میرے ہی خنجر سے مجھے مار ڈالے۔ اے آلِ تیمور تمہیں اپنے مقدر سے شکایت نہیں کرنی چاہئے۔ تمہاری بزدلی نے تمہیں یہ دن دکھائے ہیں۔ بزدلی اتنا بڑا عیب ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اسے اہم ترین رذائل، یعنی بدترین خصلتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سید الانبیاء ﷺکی تلوار جسے آپ نے میدانِ احد میں حضرت ابودجانہ کو لڑنے کیلئے دیا تھا، اس پر یہ شعر کندہ تھا    ”فی الْجُبْنِ عَار، وفی الاقبالِ مَکْرُمَۃٌ وَاْلمزء بالجبنِ، لَا یَنجُوْ مِنَ الْقَدَرْ”  ترجمہ: ’’بزدلی عیب و شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے۔ آدمی جتنی بھی بزدلی چاہے کر لے، تقدیر سے نہیں بچ سکتا‘‘۔ رسول اکرم ﷺنے فرمایا، ’’انسان میں سب سے بُری خصلتیں یہ ہیں کہ وہ ہر وقت مال کی حرص میں گُھلتا رہے اور بزدلی کی وجہ سے ہر وقت اُکھڑا اور گھبرایا ہوا رہے (سنن ابو دائود: کتاب الجہاد)۔

اس حدیث مبارکہ میں مال کی محبت اور بزدلی کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مال کی محبت بزدلی کی نشوونما کرتی ہے۔ یہی مال کی محبت ہے، جس کی مذمت قرآن پاک کی لاتعداد آیات میں آئی ہے، مثلاً ’’بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا اور غیبت کرنے والا ہو، جو مال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے۔ (سورۃالھمزہ:2,1)
تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ مال و دولت کی محبت اور حرص میں جکڑی ہوئی بزدل اقوام کیساتھ ایسا بدترین اور ذِلّت آمیز سلوک ہوا کہ ان پر دُنیا کے اُجڈ، گنوار اور خونخوار قبائل چڑھ دوڑے اور انہیں ذِلّت و رُسوائی کے ساتھ محکوم بنا لیا۔ چین جو اپنی تجارت، صنعت و حرفت اور نظامِ حکومت کی وجہ سے ایک بہت بڑی معاشی قوت تھا، مگر بزدلی کا عالم یہ تھا کہ حملہ آوروں سے میدانِ جنگ میں لڑنے کی بجائے ان سے بچنے کیلئے انہوں نے بہت بڑی فصیل یعنی ’’دیوارِ چین‘‘ بنا رکھی تھی۔ اپنے وقت کی اس معاشی طاقت چین کو منگولیا سے اُٹھنے والی منگول قوت نے چنگیز خان کی سربراہی میں دو بار تاخت و تاراج کیا اور آخر 1260ء میں قبلائی خان نے وہاں اپنی مستقل حکومت قائم کر لی۔ قدیم روم کی بادشاہت جو تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی جب انکے ہاں دولت کی حرص، عیش و عشرت کی طلب اور بزدلی نے گھر کر لیا، تو شمالی افریقہ کے بربر قبائل کے ایک بہادر اور قابل جرنیل ہینی بال، نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یہ ایسا جرنیل تھا جس نے اپنی بہادری کو دولت کی حرص سے پاک رکھا۔ لُوٹ مار تو دُور کی بات ہے اِس نے کبھی مفتوحہ علاقوں سے تاوان یا خراج بھی وصول نہیں کیا۔ رومن جو ’’ایلپس‘‘ پہاڑ سے خوفزدہ ہو کر ایک زمانے میں اس کی عبادت کیا کرتے تھے، اس بہادر شخص نے سینتیس ہزار پیادہ، آٹھ ہزار گھڑ سوار اور آٹھ سو بڑی بڑی باربردار گاڑیوں کے علاوہ چالیس کے قریب ہاتھیوں سمیت عین برف باری کی شدت میں پندرہ ہزار سات سو اکیسی فٹ بلند چوٹی ’’مائونٹ بلانک‘‘ کو عبور کر لیا۔ تاریخ آج تک اس کی بہادری کی یہ گتھی نہیں سُلجھا سکی۔ پاکستان کے باسیوں کو تو قدیم تاریخ پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ انکے سامنے حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے۔

اکیسویں صدی نے بہادری اور بزدلی کے دو کردار پیدا کئے۔ ایک کو مال و دولت، معاشی ترقی و خوشحالی سے بہت محبت تھی، جسے پرویز مشرف کہتے ہیں اور دوسرے کو دُنیا کی دولت اور جاہ کی حرص و ہوس سے نفرت تھی ،جسے مُلا محمد عمرؒ کہتے ہیں۔ ایک کے دل میں صرف اللہ کا خوف تھا اور دوسرے کے دل میں عالمی طاقتوں یعنی انسانوں کا خوف تھا۔ اللہ انسانوں کے خوف کے بارے میں بتاتا ہے ’’پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو ایک گروہ انسانوں سے ڈرنے لگا جیسے اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی زیادہ (النسائ77)۔ اللہ کی بجائے انسانوں سے ڈرنے کو اقبالؒ نے شرک کے طور پر بیان کیا ہے: ہر کہ رمزِ مصطفیٰ فہمیدہ است شرک را در خوف مضمر دیدہ است ترجمہ: ’’جس نے رسول اکرمؐ کی رمز پہچان لی اسے کسی دوسرے انسان کا خوف بھی شرک محسوس ہوتا ہے‘‘۔ بزدلی ایک بدترین خصلت اور بہت ہی بُرا عیب ہے جس کے بارے میں ہادیٔ برحق ؐ نے فرمایا، ’’جو شخص اس حال میں مرے کہ اس نے جہاد (قتال) کیا ہو اور نہ اس کے دل میں اس کی آرزو ہی پیدا ہوئی ہو تو وہ گویا نفاق کی ایک خصلت پر مرا (صحیح مسلم ، کتاب الامارہ)۔ ہم آج بھی بزدلی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور مال و دولت کی حرص میں ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، یورپی یونین اور عالمی سرمایہ داروں کے سامنے بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ انکے مطالبات من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم بھوک میں مر جانے کا خوف ہے، جسکی وجہ سے ہم نے ذِلّت میں جینا اور ذِلّت کی موت مرنا پسند کر لیا ہے۔ ہمارے حکمران جو ایٹمی قوت اور طاقتِ مرکز میں بیٹھتے ہیں مگر بقول انیس ’’گیدڑ کو خلعتِ شاہانہ بھی پہنا دی جائے تو وہ ہمیشہ ڈرتا ہی رہے گا‘‘:

آخر شغال تھا نہ دبکنے کی خو گئی
خلعت پہن کے بھی نہ رذالت کی بُو گئی

اپنی راۓ یہاں لکھیں