بیوی کے حقوق

بیوی کے حقوق

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

اللہ تعالیٰ نے زوجین میں سے ہر ایک کے حقوق طے کر دیے ہیں۔ انسانوں کو ترغیب دی ہے کہ ازدواجی رشتے کو حتی الوسع باقی رکھا جائے اور ممکنہ حد تک اس کی حفاظت کی جائے۔ گویا ذمے داری دونوں کی ہے۔

زوجین میں سے کسی کو دوسرے سے وہ مطالبہ نہیں کرنا چاہیے جو اس کی استطاعت وقدرت سے باہر ہو۔ ارشادِ باری ہے{وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ} (بقرہ،۲۲۸) ’’عورتوں کے لیے معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔‘‘

اس لیے دونوں کو سیر چشمی،فراخ دلی اور بردباری کا ثبوت دینا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔ اسی سے زندگی کی گاڑی چلتی ہے اور ایک عزت دار خاندان تشکیل پاتا ہے۔

البتہ اسی کے ساتھ دونوں کے حقوق بھی طے کر دیے گئے ہیں۔چنانچہ بیوی کے متعدد حقوق شریعت نے بیان کیے ہیں:

۱-بیوی کا حق ہے کہ اسے اخراجات دیے جائیں اور اس کی رہائش کا نظم کیا جائے۔ شوہر کی ذمے داری ہے کہ بیوی کے کھانے، پینے، لباس اور دیگر امور وضروریات کا خرچ اٹھائے اور اسے مناسب گھر میں رکھے۔ یہ شوہر کے ذمے ہے، چاہے بیوی غریب ہو یا مالدار ہو۔

خرچ کی مقدار کیا ہو، اس سلسلے میں شوہر کی آمدنی دیکھتے ہوئے کوئی مناسب مقدار طے کی جاسکتی ہے جس میں نہ بے حد فضول خرچی ہو اور نہ بے جا کنجوسی کا مظاہرہ کیا جائے۔ارشادِ باری ہے: {لِیُنفِقْ ذُو سَعَۃٍ مِّن سَعَتِہِ وَمَن قُدِرَ عَلَیْْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللَّہُ لَا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْساً إِلَّا مَا آتَاہَا} (طلاق،۷)’’خوش حال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں بناتا۔‘‘

بیوی کا خرچ اٹھانے کو شوہر اپنا احسان نہ سمجھے اور نہ اس وجہ سے بیوی کو ذلیل مانے۔ قرآن میں بیوی پر خرچ کو “بالمعروف” کی صفت سے جوڑا گیاہے، یعنی یہ بھلائی کی شکل ہے، کسی پر احسان یا بھیک نہیں ہے۔ یہ شوہر پر بیوی کا حق ہے اور شوہر کو بھلے طریقے سے یہ حق ادا کرنا ہے۔

بیوی بچوں پر خرچ کرنا شریعت کی نگاہ میں بڑی نیکی ہے جس پر عظیم الشان اجر کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’مسلمان اپنے گھروالوں پر خرچ کرتا ہے اوراس میں اجر کی نیت رکھتا ہے تو یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔‘‘[إذا أنفق المسلم نفقۃ علی أہلہ وہو یحتسبہا کانت لہ صدقۃ](صحیح بخاریؒ:۵۰۳۶۔ صحیح مسلمؒ:۱۰۰۲)

ایک موقع پر ارشاد فرمایا:’’جو خرچ بھی تم رضائے الٰہی کی نیت سے کرو، یہاں تک کہ وہ ایک لقمہ بھی جو بیوی کے منھ میں ڈالتے ہو،تو اس پر بھی تمہیں اجر دیا جائے گا۔‘‘ [إنک لن تنفق نفقۃ تبتغی بہا وجہ اللّٰہ إلا أجرت علیہا حتی اللقمۃ تجعلہا فی فی امرأتک] (صحیح بخاریؒ:۵۶۔ صحیح مسلمؒ:۱۶۲۸)

اگر کوئی قدرت اور وسعت کے باوجود بیوی کا خرچ نہیں اٹھاتا ہے یا اس میں کوتاہی برتتا ہے تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’انسان کے گناہ گار ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ جن لوگوں کی روزی فراہم کرنا اس کی ذمے داری ہو وہ انھیں ضائع کردے۔‘‘[کفا بالمرء إثما أن یضیّع من یقوت](سنن ابو داؤدؒ:۱۶۹۲)

۲-حسنِ معاشرت۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ازدواجی زندگی میں بیوی کے ساتھ اچھے اخلاق اور خوش اسلوبی سے پیش آیا جائے اور ان کوتاہیوں اور فطری کمیوں سے چشم پوشی کی جائے جو ہر ایک کے اندر کم وبیش ہوتی ہیں۔ارشادِ باری ہے:{وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْرا}(نسائ،۱۹)’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘

اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’کامل ایمان اس مومن کا ہے جو اخلاق میں بہتر ہو، اوربہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھروالوں کے ساتھ خوش اخلاق ہوں۔‘‘[أکمل المؤمنین إیمانا أحسنہم خلقا وخیارکم خیارکم لنسائہم خلقا](سنن ترمذیؒ: ۱۱۶۲)

آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:’’کامل ترین ایمان اس کا ہے جو اخلاق میں بہتر ہو اور گھروالوں کے ساتھ نرمی برتے۔‘‘ [إن أکمل المؤمنین إیمانا أحسنہم خلقا وألطفہم بأہلہ] ( سنن ترمذیؒ:۲۶۱۲۔ مسند احمدؒ:۲۴۶۷۷)

آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے لیے اچھا ہو، اور میں اپنے گھروالوں کے لیے اچھا ہوں۔‘‘[خیرکم خیرکم لأہلہ وأنا خیرکم لأہلی](سنن ترمذیؒ:۳۸۹۵)

ایک صحابیؓ نے سوال پوچھا کہ اللہ کے رسولﷺ، بیوی کا حق ہم پر کیا ہے؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خود کھائو تو اسے بھی کھلائو، خود پہنو تو اسے بھی پہنائو، چہرے پر نہ مارو،بد صورت نہ کہو اور ناراضی میں بستر الگ کرو تو گھر ہی میں رات گزارو۔‘‘[یا رسول اللّٰہ ما حق زوجۃ أحدنا علیہ قال أن تطعمہا إذا طعمت وتکسوہا إذا اکتسیت ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تہجر إلا فی البیت] (سنن ابوداؤدؒ:۲۱۴۲)

۳-دل جوئی اوررواداری۔ عورت کی طبیعت مرد کی طبیعت سے مختلف ہے، ایسے میں اس کی فطرت اور طبیعت کی رعایت کی جائے گی اور کوشش ہونی چاہیے کہ زندگی کو اس کے جملہ ابعاد واطراف کے ساتھ دیکھا جائے۔ کوئی شخص غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔ ہمیں مثبت انداز میں صبر وضبط کا دامن پکڑنا چاہیے اور معاملات کے نتائج پر نظر رکھنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے مثبت پہلوئوں پر نگاہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری ہے{وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَیْْنَکُمْ إِنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ}(بقرہ،۲۳۷)’’آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو، تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔‘‘

اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’کوئی مومن کسی مومنہ سے نفرت نہیں کر سکتا، اگر اسے ایک عادت ناپسند ہوگی تو دوسری عادت پسند ہوگی۔‘‘ [لایفرک مؤمن مؤمنۃ إن کرہ منہا خلقا رضی منہا آخر](صحیح مسلمؒ:۱۴۶۹)

اللہ کے نبیﷺ نے عورتوں کی رعایت کرنے اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپﷺ نے عورت کی فطرت کے نفسیاتی اور وجدانی پہلو کو مرد سے مختلف قرار دیا ہے۔ میاں بیوی کی فطرت میں یہ اختلاف فطری ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے خاندان کے اجزائے ترکیبی کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے اور وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس اختلاف کو مستقل جدائی اور طلاق کی وجہ نہیں بننا چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’عورتوں کے بارے میں نصیحت قبول کرو، بے شک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور ایک طریقے پر وہ سیدھی نہیں ہو سکتی، اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اسی حالت میں باقی رکھتے ہوئے فائدہ اٹھائو، اگر تم نے اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی تو اسے توڑ ڈالو گے اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔‘‘ [استوصوا بالنساء خیرا إن المرأۃ خلقت من ضلع لن تستقیم علی طریقۃ فإن استمتعت بہا استمتعت بہا وبہا عوج وإن ذہبت تقیمہا کسرتہا وکسرہا طلاقہا](صحیح بخاریؒ:۳۱۵۳۔ صحیح مسلمؒ:۱۴۶۸)

۴-بیوی کا ایک حق یہ ہے کہ اس کی ازدواجی زندگی سے متعلق کوئی بات باہری لوگوں کو نہ بتائی جائے۔ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ اپنی بیوی کی خاص عادات واوصاف، یاکچھ جھگڑا اور کہاسنی ہوئی ہے تو لوگوں کے درمیان اس کی تشہیر کرے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’روزِ محشر اللہ کے نزدیک بدترین مقام والا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے ملے اور اس کی بیوی اس سے ملے اور پھروہ اس کا رازفاش کر دے۔‘‘[إن من أشر الناس عند اللّٰہ منزلۃ یوم القیامۃ الرجل یفضی إلی امرأتہ وتفضی إلیہ ثم ینشرسرہا](صحیح مسلمؒ: ۱۴۳۷)

۵-بیوی کا ایک حق شوہر پر یہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت وحمایت کرے کیونکہ شادی کے بعد وہ اس کی عزت اور وقار کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ اگر کوئی اپنے اہلِ خانہ اور ان کی عزت کی حفاظت اوردفاع کرتے ہوئے مارا جائے تو آخرت میں اسے شہیدوں میں اٹھایا جائے گا۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جو اپنے گھروالوں کا دفاع کرتے ہوئے قتل ہوجائے وہ شہید ہے۔‘‘ [من قتل دون أہلہ فہو شہید](سنن ترمذیؒ:۱۴۲۱۔ سنن ابوداؤدؒ:۴۷۷۲)

۶-شب گزاری بھی بیوی کا ایک حق ہے۔ بیوی کا حق ہے کہ شوہر وقتاً فوقتاً اس کے ساتھ ازدواجی تعلق بنائے۔ اگر شوہر کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل اور مساوات کے ساتھ وقت بِتائے۔

۷-بیوی پر ظلم وزیادتی کرنا حرام ہے۔ اگر کچھ مسائل پیدا ہوجائیں تو علاج کے لیے اسلام نے کچھ ضابطے متعین کر دیے ہیں۔ مثلاً سب سے پہلے سمجھانے بجھانے کی کوشش کی جائے گی۔ غلطیوں پر متنبہ کرکے پیار اور محبت سے صحیح راہِ عمل بتائی جائے گی۔اس سے بات نہ بنے تو بیوی سے بات کرنا بند کر دیا جائے۔ مگر یہ قطعِ گفتاری تین دن سے زیادہ نہ ہو۔ اس سے بات نہ بنے تو رات میں الگ سونا شروع کر دے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں: ’’اللہ کے رسولﷺ نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، نہ عورت کو اور نہ خادم کو، الّایہ کہ آپﷺ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں۔‘‘ [ما ضرب رسول اللّٰہﷺ شیئا بیدہ قط ولا امرأۃ ولا خادما إلا أن یجاہد فی سبیل اللّٰہ](صحیح مسلمؒ:۲۳۲۸)

۸-بیوی کا حق ہے کہ شوہر اسے دین کی باتیں سکھائے اور اچھی نصیحتیں کرے۔ شوہر اپنے گھر کا قوّام ہے۔ اگر گھر میں کوئی خلافِ شرع حرکت ہوتی ہے تو اس کا ذمے دار وہ بھی ہے۔ اسے بیوی پر روک ٹوک کا حق حاصل ہے۔ اسے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ جنت میں جائے اور انھیں کسی بھی حال میں جہنم کاایندھن نہ بننے دے۔ عورت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ دین کے بارے میں شوہر کی ہدایات سنے اور ان پر عمل کرے اور دینی خطوط پر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کرے۔

ارشادِ باری ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ}(تحریم،۶)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘

اللہ کے رسولﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ’’مرد اپنے گھر والوں کا نگہ بان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ [والرجل راعٍ فی أہلہ وہو مسؤول عن رعیتہ](صحیح بخاریؒ:۲۴۱۶۔ صحیح مسلمؒ:۱۸۲۹)

۹-شادی کے وقت بیوی نے جو جائز شرطیں رکھی تھیں اور شوہر نے انھیں تسلیم کیا تھا، ان کی پابندی کرنا شوہر کی ذمے داری ہے۔ یہ بیوی کا اس پر پختہ حق ہے۔مثال کے طور پر اگر کسی خاص قسم کے مکان کا، یا مخصوص مقدارمیں خرچ کا مطالبہ کیا تھا اور شوہر نے اسے قبول کر لیا تھا تو شادی کے بعد اسے اس شرط کاپاس ولحاظ کرنا چاہیے۔اسلام نے ویسے بھی شرطوں اور معاہدوں کی پابندی کا حکم دیا ہے، اس میں نکاح کے وقت طے کی جانے والی شرطیں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’جن شرطوں کو پورا کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے وہ وہی ہیں جن کے واسطے سے تم نے شادی کی ہے۔‘‘[أحق ما أوفیتم بہ من الشروط ما استحللتم بہ الفروج] (صحیح بخاریؒ:۴۸۵۶۔ صحیح مسلمؒ:۱۴۱۸)

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں