پہلی قسم
انبیاء اور رسولوں کے واقعات
(پہلا واقعہ)
آدم علیہ السلام کا انکار اور بھول
عربی تحریر: الدکتور عمر سلیمان عبد اللہ الأشقر (کلیۃ الشریعۃ .الجامعۃ الاردنیۃ عمان)
مترجم: انعام الحق قاسمی
ابتدائیہ:
موجودہ زمانہ کے ماہرینِ آثار قدیمہ تباہ شدہ مکانات اور پچھلی امتوں کی باقیات پر تحقیق و ریسرچ کرکے اپنے باپ داداؤں کی زندگی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے حالات و واقعات کے بارے میں پتہ لگاتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود انہیں کم ہی معلومات حاصل ہوپاتی ہیں کیوں کہ علم الآثار ایسا مخلوط علم ہے جو نہ حقیقت کو واضح کرتا ہے، نہ حقیقت سے وابستہ تاریکی دور کرتا ہے اور نہ ہی ماضی بعید کی گہرائیوں کی درست حقیقتِ حال بیان کرتاہے ۔
جہاں تک اس وحیِ خداوندی کی بات ہے جو پچھلے لوگوں کے حالات و واقعات بیان کرتی ہے تو وہ انتہائی قیمتی خزانہ ہے اس لیے کہ وہ بالکل صاف اور واضح طور پر حقیقت سے رو شناس کراتی ہے چوں کہ وہ اُس باخبر وسیع علم والی ذات کی طرف سے نازل کردہ علم ہے جس سے زمین و آسمان میں کوئی راز پوشیدہ نہیں ہے۔
اِس علم الآثار کی بعض معلومات تک رسائی واسطہ وحی کے بغیر ناممکن ہے،اِسی قبیل سے وہ واقعہ ہے جسے نبی پاک ﷺ نے بذریعہ وحی درج ذیل حدیث میں بیان کیا ہے ، چنانچہ آپ نے ہمیں بابا آدم کے چند واقعات ،کچھ فطری چیزیں اور ان کے ایسے امتیازی اوصاف سے رو شناس کرایا ہے جو بطور وراثت ہمارے اندر منتقل ہوئی ہیں ،جس طرح آپ نے اُن چند احکامات کی اطلاع دی ہے جسے اللہ نے آدم علیہ السلام اور ان کے بعد ان کی ذریت کے لیے مشروع کیا تھا۔
پہلی حدیث:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ نے آدم کو پیدا کرکے ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو ان کی پشت سے ان کی اولاد کی وہ تمام روحیں باہر نکل آئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے ،پھر ہر انسان کی آنکھوں کے بیچ نور کی ایک ایک چمک رکھ دی پھر انہیں آدمؑ کے سامنے پیش کیا ؛ تو آدمؑ نے کہا : اےمیرے پروردگار ! یہ کون لوگ ہیں ؟اللہ تعالیٰ نے کہا:یہ سب تمہاری اولاد ہیں ،پھر انہوں نے ان میں سے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے دونوں آنکھوں کے درمیاں کی چمک انہیں بہت اچھی لگی ، انہوں نے کہا:میرے رب! یہ کون ہے ؟اللہ نے فرمایا: تمہاری اولاد کی آخری امتوں کا ایک فرد ہے جس کا نام داؤد ہے ،پھر پوچھا: میرے رب! اس کی عمر کتنی طے کر رکھی ہے ؟
اللہ نے جواب دیا: ساٹھ سال، آدم نے درخواست کی : میرے پروردگار ! میری عمر میں سے چالیس سال لے کر اس کی عمر میں اضافہ کردیجیے۔
پھر جب آدم کی عمر پوری ہوگئی تو ملک الموت(موت کا فرشتہ) آپ کے پاس آیا تو آپ نے کہا :کیا میری عمر کے چالیس سال ابھی باقی نہیں ہیں ؟ ملک الموت نے کہا: کیا آپ نے اسے اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دے دیا تھا ؟
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم انکار کرگئے ،چنانچہ ان کی اولاد بھی انکاری بن گئی ، آدم بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھولنے لگی ،اور آدم سے غلطی ہوئی تو ان کی اولاد سے بھی غلطی ہونے لگی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے،اور یہ حدیث کئی سندوں سے بواسطہ ابوہریرہ نبی علیہ السلام سے آئی ہے ،رواہ الترمذی :3076
دوسری حدیث:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے آدم کو پیدا کرکے ان میں روح پھونک دی تو آدم کو چھینک آئی ،انہوں نے الحمد للہ کہنا چاہاچنانچہ اللہ کی اجازت سے الحمد للہ کہا،تو ان کے رب نے ان سے کہا : یرحمک اللہ یا آدم!( اے آدم! اللہ تجھ پر رحم کرے )ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کی جماعت کے پاس جاکر”السلام علیکم ”کہو(آدم نے السلام علیکم کہا) تو فرشتوں نے جواب میں “وعلیک السلام ورحمۃ اللہ ” کہا ،پھر وہ اپنے رب کے پاس لوٹ کر آئےتو رب نے ان سے کہا:یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں سلام و دعا کا طریقہ ہے ،
پھر اللہ نے اپنے دونوں ہاتھ کی مٹھی بند کرکے آدم سے کہا : ان میں سے جسے چاہو پسند کرلو، آدم نے کہا : میں نے اپنے رب کے دائیں ہاتھ کو پسند کیا جبکہ میرے رب کے دونوں ہی ہاتھ دائیں اور بابرکت ہیں ،پھر اللہ نے مٹھی کھولی تو اس میں آدم اور ان کی ذریت تھی ، آدم نے کہا:اے میرے پروردگار! یہ کون لوگ ہیں ؟رب نے جواب دیا:یہ سب تمہاری اولاد ہیں ،اور ہر انسان کی عمر اس کے ہاتھوں کے درمیان لکھی ہوئی تھی اور ان میں ایک شخص سب سے زیادہ روشن چہرہ والا تھا ،پوچھا: میرے رب ! یہ کون ہے ؟ کہا : یہ تمہارا بیٹا داؤد ہے ،میں نے اس کی عمر چالیس سال طے کی ہے ،کہا:میرے رب! اس کی عمر بڑھا دیجیے ، رب نے کہا: میں نے اس کی یہی عمر لکھ دی ہے ، کہا: اے میرے رب ! میں اپنی عمر میں سے ساٹھ سال دیے دیتا ہوں ، رب نے کہا: تم جانو وہ جانے ۔
نبی علیہ السلام کہتے ہیں : پھر آدم علیہ السلام جب تک اللہ کو منظور ہوا جنت میں رہے ،پھر جنت سے (زمین پر)اتار دیے گئے اور آدم اپنی زندگی کے دن گنا کرتے تھے ،پھر موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا تو آدم نے اس سے کہا:آپ تو جلدی آگئے حالانکہ میری عمر ایک ہزار سال لکھی گئی ہے ، فرشتہ نے کہا :ہاں کیوں نہیں (آپ کی بات درست ہے )لیکن آپ نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داؤد کو دے دیا ہے ، تو آدم انکار کرگئے جس کے نتیجہ میں ان کی اولاد بھی انکار کرنے لگی اور آدم بھول گئے نتیجتاً ان کی اولاد بھی بھولنے لگی، نبی علیہ السلام فرماتے ہیں : اسی دن سے ( آپسی معاملات) لکھ لینے اور اس پر گواہ بنالینے کا حکم دیا گیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے ، حدیث نمبر:3368
حدیث کی تشریح
اللہ نے آدم کو متناسب الاعضاء اور باکمال پیدا کیا ، ایسا نہیں جیسا کہ بعض ناواقف اور علم سے نا آشنا لوگوں کا خیال ہے کہ انسانوں نے جانور یا نباتات سے بتدریج ترقی کرکے موجودہ شکل اختیار کی ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو ابتدائے آفرینش ہی سے ایسا دانا اور گفتگو کرنے والا بنایا ہے جو ہر وہ بات سمجھتے تھے جو ان سی کہی جاتی اور مناسب الفاظ سے جواب دیتے تھے ۔(۱)
آدم میں روح پھونکے جانے کے بعد ان کو چھینک آئی تو انہوں نے “الحمد للہ ” کہا ، تو اللہ نے ان کی چھینک کے جواب میں کہا ” یرحمک اللہ یا آدم” (اللہ تجھ پر رحم کرے ) اور پھر اللہ نے آدم سے کہاکہ بیٹھے ہوئے فرشتوں کی جماعت کے پاس جاکر انہیں سلام کرو، چنانچہ آدم نے ان سے سلام کیا تو فرشتوں نے ان کے سلام کا جواب اس سے بہتر طریقہ سے دیا (کہ جواب میں سلامتی کے ساتھ اللہ کی رحمت کو بھی شامل کرلیا ) اور آدم کو ان کے رب نے بتادیا کہ یہی ان کا اور ان کی اولاد کا آپس میں سلام و دعا کا طریقہ ہے ۔آدم پیدل چلتے ،سنتے،بات کرتے ،اور چھینکتے تھے ، عقل سے کام لیتے اور دوسروں کی بات سمجھتے تھے ۔
اور اس حدیث میں اللہ نے اپنے بندہ آدم کا بڑا خیال ملحوظ رکھا ہے ،چنانچہ جب آدم نے چھینکنے کے بعد ” الحمد للہ ” کہا تو اللہ نے ان سے کہا : اے آدم! اللہ تم پر رحم کرے ،اور جس بندہ پر اس کا رب رحمتیں برسائے تو وہ اپنے رب کی حفاظت و نگرانی اور اعزاز پالیتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ جب انسان سیدھے راستے سے بھٹکنے کے بعد پھر سیدھے راستے کی طرف لوٹ آئے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے ،اور اللہ جل شانہ ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرماتا ہے اور ہمیں ایمان و یقین کی قوت سے نوازتا ہے اور ہم سے ہمارے دشمنوں کو دور کرکےاپنی مہربانی سے ہماری مدد کرتا ہے ۔
اور اللہ نے آدم اور ان کی ذریت کے لیے جس وقت آدم جنت میں تھے یہ حکم دیاکہ جب چھینک آئے تو ” الحمدللہ ” کہیں اور جب کوئی چھینکنے والا ” الحمد للہ ” کہے تو اس کے جواب میں ” یرحمک اللہ ” وغیرہ سے دعاء دی جائے ،اور السلام علیکم آدم کی اولاد و ذریت کا آپس میں سلام و دعا کا طریقہ ہے ۔
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا کہ ہمارے پروردگار نے آدم کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو ان کی ذریت کی وہ تمام روحیں باہر نکل آئیں جنہیں قیامت تک پیدا کیا جائے گا ،پھر پروردگار نے انہیں اپنے داہنے ہاتھ کی مٹھی میں بند کرلیا اور آدم کو اپنے ہاتھ کی دونوں مٹھیوں میں سے کسی ایک مٹھی کو اختیار کرنے کے لیے کہا تو آدم نے داہنے ہاتھ کی مٹھی اختیار کی حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دونوں ہی ہاتھ دائیں اور بابرکت ہیں ،پھر جب مٹھی کھولی تو اس میں آدم اور ان کی ذریت موجود تھی ۔
آدم نے اپنی اُن تمام اولاد کو جنہیں ان کے بعد پیدا کیا جائے گا اس حال میں دیکھا کہ اللہ نے ان میں سے ہر ایک کی آنکھوں کے بیچ ایک ایک روشنی رکھ دی ہے ،جیسا کہ ہر ایک کی عمر اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا دیکھا ، اور ایک خوبصورت روشنی والے شخص کو دیکھا تو اس کے بارے میں دریافت کیا تو اللہ نے انہیں بتایا کہ وہ تمہاری اولاد میں سے ایک ہے جو آخر میں آنے والی امتوں میں سے ایک امت میں ہوگا جس کا نام داؤد ہے ، اور ان کی عمر ایک روایت کے مطابق ساٹھ سال ہے اور دوسری روایت کے مطابق چالیس سال ہے لیکن پہلی روایت زیادہ صحیح ہے ، آدمؑ کو داؤد کی عمر کم لگی اس لیے اپنے رب سے ان کی عمر میں اضافہ کی درخواست کی تو پروردگار نے انہیں بتایا کہ یہی عمر ان کے لیے لکھی جاچکی ہے پھر بھی آدمؑ نے داؤد کو اپنی عمر میں سے اتنا سال دے دیا جس سے ان کی عمر مکمل سو سال ہوجائے ۔
اور حدیث سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ اللہ نے آدم کو ان کی طے شدہ اور لکھی ہوئی عمر کا علم دے رکھا تھا کہ وہ ایک ہزار سال زندہ رہیں گے ، پھر جب ان کی عمر کا ۹۶۰/ سال پورا ہوگیا (اور چالیس سال باقی رہ گئے) تو موت کا فرشتہ ان کے پاس روح نکالنے آیا تو انہوں نے اپنی معینہ مدت (ایک ہزار سال) پورا ہونے سے پہلے پہلے ان کی روح قبض کیے جانے کی وجہ سے ملک الموت پر اعتراض و نکیر کی ۔
اور حدیث سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آدمؑ بذات خود اپنی زندگی کے سال شمار کیا کرتے تھے ، ملک الموت نے ان کو یاد دلایا کہ آپ نے اپنی زندگی کے باقی ماندہ (چالیس)سال اپنے بیٹے داؤد کو دے دیا تھا ، پھر بھی آدمؑ انکار کرگئےاور مُکر گئے حالانکہ ان کا انکار کرنا بھول کی وجہ سے تھا ،۔
اور اولاد آدم نے میراث میں اپنے باپ آدم کی صفات پائی جس کے نتیجے میں آدم کی طرح اولاد آدم بھی انکاری بن گئی اور آدمؑ کی طرح وہ بھی بھولنے لگی ، اسی وجہ سے اللہ نے لکھنے اور گواہ بنانے کا حکم دیا تاکہ کتابت و شہود کے ذریعے منکرین کے انکار اور بھولنے والوں کے بھول کا مقابلہ کیا جاسکے ۔
عبرت و فوائد
(۱) اللہ نے آدمؑ کو ابتدائے آفرینش ہی سے متناسب الاعضاء اور ہر اعتبار سے کامل و مکمل بنایا ہے ، ایسا نہیں جیسا کہ بعض گمراہوں کا خیال ہے کہ آدم اوّلاً ناقص پیدا کیے گئے پھر انتہائی طویل عرصے میں ترقی کرکے موجودہ شکل اختیار کی ہے ، جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمؑ کی کامل پیدائش کے بارے میں بتایا ہے کہ آسمان میں ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی لیکن آدمؑ کے بعد انسانوں کے قد گھٹتے رہے تہاں تک کہ ان کا قد و قامت موجودہ قد و قامت پر آکر ٹھہر گیا ، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤمنین کو جنت میں آدمؑ کی اس کامل صورت پر داخل فرمائیں گے جس پر آدمؑ کو پیدا کیا گیا تھا ۔
رسول خدا ﷺ نے فرمایا :اللہ نے آدم کو پیدا کیا تو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا ، پھر اللہ نے آدمؑ سے کہا : جاؤ ان فرشتوں کو سلام کرو اور دھیان سے سننا کہ کن الفاظ میں وہ تمہیں جواب دیتے ہیں ، کیوں کہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا ، آدمؑ نے کہا: ” السلام علیکم “فرشتوں نے جواب دیا : ” السلام علیک ورحمت اللہ ” فرشتوں نے ” ورحمت اللہ ” کا اضافہ کردیا ، جو بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدمؑ کی صورت پر داخل ہوگا، اور آدم کے بعد انسانوں کے قد اب تک مسلسل گھٹتے رہے ۔(بخاری:3326، مسلم:7163)
اور جو میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ آدم کو روح پھونکنے کے وقت ہی سے کامل و مکمل پیدا کیا گیا تھا ، اس بات کے درست ہونے کے لیے مذکورہ حدیث کا یہ جملہ دلالت کرتا ہے ” اللہ نے آدم کو ان کی کامل صورت پر پیدا کیا تھا ” اور آدم ایک ہیئت سے دوسری ہیئت یا ایک صورت سے دوسری صورت اور ایک تخلیق سے دوسری تخلیق کی طرف ترقی کرکے نہیں آئے ہیں، برخلاف ان کی اولاد کے کہ اللہ نے انہیں رحمِ مادر میں پہلے نطفہ پھر بستہ خون پھر گوشت کے ٹکڑے کی شکل میں بناتا ہے پھر روح پھونک کر ایک دوسری مخلوق بناکر کھڑا کردیتا ہے ۔
(۲) مذکورہ حدیث سے آدم کے ساتھ پیش آمدہ واقعات کا علم ہوتا ہے :جیسے ان کا چھینک کر ” الحمد للہ ” کہنا اور اللہ کا ان کے جواب میں “یرحمک اللہ ” کہنا اور آدم کا فرشتوں کو سلام کرنا اور فرشتوں کا ان کے سلام کا جواب دینا اور اللہ تعالیٰ کا ان کی پشت پر ہاتھ پھیرنا ……… الی آخر الحدیث۔
(۳) چھینکنے والے کا الحمد للہ کہنا ، اس کا جواب دینا اور سلام کرنا ان عالَمی شرائع میں سے ہیں جن میں تمام شریعتیں مشترک ہیں کسی ایک امت کے ساتھ خاص نہیں ہیں اور یہ سب امور بابا آدم کی میراث کا حصہ ہیں ۔
(۴) تقدیر کا اثبات: اللہ تعالیٰ کو ازل ہی سے تمام بندوں کی عمروں کا علم ہے اور اسے اپنے پاس لکھ رکھا ہے اور آدم کو ان کے بعد آنے والی تمام ذریات اس طرح دکھادیا کہ ہر انسان کی عمر اس کےآنکھوں کے درمیان لکھی ہوئی تھی ۔
(۵) اس حدیث میں اللہ کے لیے دو ہاتھوں کا اثبات ہے اور وہ انہیں جب چاہے جس طرح چاہے بند کرلیتا ہے لیکن اس کی کیفیت مجہول ہے اور وہ اپنی شایانِ شان صفات سے متصف ہے ، اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ ہر بات سننے،سب کچھ دیکھنے والا ہے ۔
(۶) اللہ کے نبی داؤد کے آنکھوں کے درمیان رکھے ہوئے نور کی قوت سے ان کی فضیلت اور ان کے ایمان کی عظمت پتہ چلتی ہے ۔
(۷) آدمؑ گنتی اور حساب پر قادر تھے ، چنانچہ وہ اپنی عمر کے سالوں کو شمار کیے ہوئے تھے اور انہیں اپنی کذشتہ اور باقی ماندہ عمر کی مقدار معلوم تھی اور جب ملک الموت نے ان کی روح معینہ مدت پورا ہونے سے پہلے قبض کرنا چاہا تو اس سے جھگڑ پڑے ۔
(۸) اس میں آدمؑ کے عمر کی مقدار کا بیان ہے کہ وہ ایک ہزار سال زندہ رہے ، اس حدیث میں تورات میں ذکر کردہ مقدار کی تصحیح ہے چونکہ تورات میں سِفر التکوین کے اصحاح خامس(فصل خامس) میں آدم کی عمر ۹۳۰/سال ذکر کی گئی ہے حالانکہ درست وہی ہے جو حدیث میں مذکور ہے ، اور اس حدیث میں داؤدؑ کی عمر کا بیان ہے ۔
(۹) آدم اور اولادِ آدم کی فطرت میں سے ہے انکا ر اور بھول ۔
(۱۰)اس حدیث میں عقود اور معاملات کی تفصیلات لکھ لینے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے تاکہ انسان کے انکار اور بھول کاسامنا کیا جاسکے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حواشی:
(۱)( کہا جاتا ہے کہ چارلس ڈاروِن((Charles Darwin:1809-1882 نے ۱۸۵۹ء میں اپنا نظریۂ ارتقاء (Theory of Evolution )پیش کیا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان پہلے بندر یا کوئی اور جانور تھا پھر آہستہ آہستہ تبدیلی ہوتی گئی اور ترقی یافتہ موجودہ شکل اختیار کرگیا،حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اسلامی نقطہ نظر سے بالکل باطل اور بے بنیاد ہے ،تعجب ہوتا ہے نظریہ ارتقاء کے قائلین پر کہ جو آیات قرآنیہ اس نظریہ کے بطلان پر واضح دلیل بن سکتی ہیں انہیں آیات سے توڑ مروڑ کر اس نظریہ کو ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں ،ہمارا ایمان و عقیدہ ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے آدم کوپیدا کیا پھر اسی سے پوری دنیا آباد ہوئی ،ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور ہم سب موجودہ شکل ہی پر پیدا کیے گئے ہیں ،کسی جانور سے تبدیل شدہ شکل و صورت نہیں ہے، البتہ آدم ؑ کے علاوہ تمام انسانوں کی پیدائش رحم مادر میں مختلف مراحل سے گزر کر ہوتی ہے ۔
بعض غیر محققین نے اس نظریہ ارتقاء کا اول بانی ایک مسلم مفکر علامہ جاحظ (869ء-776ء)کو قرار دیا ہے ،جب کہ علامہ جاحظ کی تصنیف ” کتاب الحیوان” کی عبارت کا مطلب کچھ اور ہے ، انہوں نے اس عبارت میں جانوروں کی اپنے وجود و بقاء کے لیے جد و جہد اور ماحولیاتی عوامل کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلی کا ذکر کیا ہے ، انسان کا سفر ترقی یعنی بندر سے انسان ہونے کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔(مترجم))