امتحان زندگی

امتحانِ زندگی

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

اسلام کی نگاہ میں یہ دنیا کی زندگی ہمیں آزمائش اور امتحان کے لیے دی گئی ہے۔ گویا یہ دنیا ایک درسگاہ ہے جہاں ہمیں امتحان دینے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

مگر یہ تعلیمی ادارہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں داخل ہونے والے کو سیکھنے اور پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ تیاری کرنے کے بعد امتحان دے۔ یہاں ایک ساتھ پڑھائی اور امتحان دونوں چل رہے ہیں اور مسلسل چل رہے ہیں۔ یہ پوری زندگی امتحان کا دورانیہ ہے۔

یہ سب عجیب تو ہے، مگر اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ یہاں ایک پیٹرن پر سب کا امتحان نہیں ہو رہا ہے۔ بےشمار امتحانی طریقے ہیں۔ کسی کو اس کی ذہانت و فطانت سے آزمایا جارہاہے اور کسی کو اس کی بے شعوری اور کم عقلی سے۔ کوئی دولت کی ریل پیل کا پرچہ دے رہا ہے تو کوئی فقر و افلاس کے سوالات حل کر رہا ہے۔ کوئی صحت اور فرصت کے بارے میں جواب دہ ہے تو کوئی عوارض و امراض کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ کوئی شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور کوئی گمنامی کی پستیوں میں دفن ہے۔ یہ سب امتحانات ہیں، عجیب و غریب، بے مثال و بے نظیر۔

مگر ان امتحانوں کا رزلٹ حتمی اور یقینی ہے۔ وہ فائنل ہوگا جس پر نظرثانی کی درخواست نہیں ڈالی جا سکے گی۔ موت اس امتحان ہال کا ایگزٹ گیٹ ہے۔ ہم نے یہ دروازہ پار کر لیا تو گویا امتحان دے چکے۔ اب جن لوگوں نے سوالات کے صحیح جواب دیے ہوں گے ان کے لیے خوشی ہی خوشی ہے، اور جنھوں نے غلط جواب دیے ہوں گے ان کے لیے رنج ہی رنج ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا۔ “اس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزما کر دیکھے کہ کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، وہ زبردست ہے اور معاف کرنے والا ہے۔ “

دوسری جگہ فرمایا گیا ہے: فمن زحزح عن النار و أدخل الجنۃ فقد فاز، وما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور۔ “تو جو شخص آگ میں جاتے جاتے اس سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہی کامیاب ہوا، ورنہ یہ پست زندگی (جو تمھیں ملی ہوئی ہے) صرف دھوکے کا سامان ہے۔ “

زندگی کے امتحان میں سب سے بڑی پرابلم یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے پاس کتنا وقت بچا ہے، ہمارا ٹائم کب ختم ہو جائے گا اور کب نگراں لوگ آکر ہم سے کاپی اور پرچہ چھین لیں گے۔ اس امتحانی عرصے کے ابہام اور سرّیت نے بے شمار لوگوں کو بے فکر اور نچنت بنایا ہوا ہے۔

لوگ چونکہ پرچہ پورا نہیں کرتے یا ڈھنگ سے نہیں کرتے، اس لیے جاتے ہوئے چیختے چلاتے ہیں کہ ہمیں صرف آدھا گھنٹہ اور دے دیا جائے، ہم توبہ کریں گے، عقل کے ناخن لیں گے، تندہی سے پرچہ پورا کریں گے۔ مگر ایک بار ٹائم آؤٹ کے بعد پھر ان کی درخواست منظور نہیں ہوتی۔

قرآن کہتا ہے: فآخذناہم بغتۃ وھم لا یشعرون۔ “ہم نے اچانک انھیں پکڑ لیا، ان کا حال تو یہ تھا کہ شعور سے بھی خالی تھے۔ “

دوسری جگہ ہے: فاذا جاء اجلھم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔ “جب ان کی مہلت کا اختتام ہوگا تو نہ وہ ایک ساعت پہلے ہوگا اور نہ ایک ساعت کی تاخیر سے۔ “

اس میں ہمارے لیے کچھ اسباق پنہاں ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر خدائی نگرانی اور نگہ بانی کا شعور پیدا کرنا چاہیے تاکہ ہمارا ہر قول و فعل اللہ کی مرضی کے مطابق انجام پائے۔

دوسری بات یہ کہ جب ہم سے غلطی یا گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کریں اور لقائے رب سے پہلے پہلے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کر لیں۔

تیسری بات یہ کہ ہمیں اپنے نفس کو کنٹرول کرنا ہوگا اور سفلی جذبات اور گندے خیالات کو ذہن سے جھٹک کر ان کی تعمیل وتکمیل سے رکنا ہوگا۔ یہ کام بڑی محنت چاہتا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کی عادت ڈالنا ہوگی۔

سب سے اہم اور آخری بات یہ ہے کہ جو لوگ اس زندگی کے امتحان سے غافل ہیں یا اس کا مذاق اڑاتے ہیں ان کی صحبت اور میل جول سے دور ہوجائیں۔ صحبت اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہے، ایسا نہ ہو کہ ان کے ساتھ ہم بھی بہ جائیں اور ابدی تباہی کے کھڈ میں جا گریں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

اپنی راۓ یہاں لکھیں