امارت شرعیہ۔ سازشوں کے نرغے میں!
تحریر:۔سرفرازاحمد قاسمی،حیدرآباد
پٹنہ شہر کے پھلواری شریف محلے میں امارت شرعیہ نامی ایک ادارہ قائم ہےپٹنہ شہر کے پھلواری شریف محلے میں امارت شرعیہ نامی ایک ادارہ قائم ہے،جو اپنی سوسالہ قدیم اور روشن تاریخ رکھتاہے،اس ادارے کا قیام 1921میں حضرت مولانا ابوالمحاسن، محمد سجادؒ کے ہاتھوں عمل میں آیا،وہی اسکے بانی ہیں، یہ ادارہ ایک عظیم مقصد کے تحت قائم کیاگیا،اس ادارے کے قیام کامقصد کیاتھا؟اسے کیوں قائم کیاگیا؟اسکو سمجھنے کےلئے آپ یہ اقتباس پڑھیں ” 1857 میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہی مسلمانوں کے اقتدار کاخاتمہ ہوگیاتو علمائے کرام نے اس نازک گھڑی میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی طرف توجہ فرمائی،بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی تحریک خلافت اورتحریک جنگ آزادی نے پورے ملک میں ایک عام بیداری کی لہر پیداکردی،1919میں امارت شرعیہ کے بانی حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نے جواسوقت جمعیة علمائے ہند کے ناظم اعلی تھے، امارت شرعیہ فی الہند کی تجویز پیش کی،بعض اسباب کی بنا پر کل ہند امارت شرعیہ کا قیام عمل میں نہیں آسکا،تو بالآخر حضرت مولانا ابوالمحاسنؒ نے صوبائی سطح پر اسکے قیام کی کوشش شروع کردی اور پوری قوت سے اس دینی فریضہ کی طرف علماء کومتوجہ کیا اوراجتماعی نظام کے قیام کی دعوت دی،اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس نیک کاوشوں کو قبول فرمایا اور مولانا ابوالکلام آزادؒ،مولانا سید محمد علی مونگیریؒ،مولانا سیدشاہ بدرالدین قادریؒ صاحبان کی حمایت وتائید سے 19 شوال،مطابق 26 جون 1921کو امارت شرعیہ بہار کا قیام درج ذیل مقاصد کے تحت عمل میں آیا۔
1 منہاج نبوت پر نظام شرعی کاقیام تاکہ مسلمانوں کےلئے صحیح شرعی زندگی حاصل ہوسکے۔
2 اس نظام شرعی کے ذریعے جس حدتک ممکن ہو اسلامی احکام کو بروئے کار لانا اوراسکے اجراء وتنفیذ کے مواقع پیداکرنا۔مثلاً عبادات کے ساتھ مسلمانوں کے عائلی قوانین،نکاح،طلاق،میراث،خلع، اوقاف وغیرہ احکام کو انکی اصلی شرعی صورت میں قائم کرنا۔
3 ایسی استطاعت پیداکرنے کی مستقل جدوجہد جسکے ذریعے قوانین خداوندی کونافذ اوراسلام کے نظام عدل کو قائم وجاری کیاجاسکے۔
4 امت مسلمہ کے جملہ اسلامی حقوق ومفادات کا تحفظ اورانکی نگہداشت۔
5 مسلمانوں کوبلااختلاف مسلک محض کلمہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بنیاد پر مجتمع کرنا،تاکہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام اورحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سنت پر عمل کریں،اوراپنی اجتماعی قوت”کلمة اللہ “کو بلند کرنے پر خرچ کریں۔
6 مسلمانوں کو تعلیم،معاش اورترقی کے میدان میں اسلامی نظام تعلیم اوراسلامی نظام تجارت کی روشنی میں رہنمائی دینا۔
7 عام انسانی خدمت کےلئے رفاہی اورفلاحی ادارے قائم کرنا۔
8 مسلمانوں کے حقوق،شریعت کے احکام اوراسلام کے وقار کو پوری طرح قائم اور محفوظ رکھتے ہوئے مقاصد شرع اسلام کی تکمیل کی خاطر،اسلامی تعلیم کی روشنی میں ہندوستان میں بسنے والے تمام مذہبی فرقوں کے ساتھ صلح وآشتی کا برتاؤ کرنا،ملک میں امن پسند قوتوں کو فروغ دینا اورتعلیم اسلامی”لاضرر وضرار فی الاسلام” کی روشنی میں ملک کے مختلف مذہبی فرقوں میں ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کا جذبہ پیدا کرنا اورہر ایسے طریق کار و تحریک کی ہمت شکنی کرنا جسکا مقصد ہندوستان میں بسنے والے مختلف طبقات میں سے کسی ایک کی جان ومال، عزت وآبرو،تصورات ومعتقدات پر کسی دوسرے کی طرف سے حملہ ہو اورایسی تمام تحریکات کو قوت پہونچانا جنکا مقصد ملک میں بسنے والی مختلف مذہبی اکائیوں کے درمیان ایک دوسرے کی جان ومال،عزت وآبرو کا احترام کرنا ہو اورفرقہ وارانہ تعصب ومنافرت کو دور کرناہو”
(تعارف وخدمات امارت شرعیہ)
یہ ہے اس عظیم ادارے کا دستور اوراسکے قیام کا مقصد جسے آپ نے اوپر ملاحضہ کیا،اب اس عظیم ادارے اوراسکی دیکھ ریکھ، اسکے نظام کو چلانے کےلئے اوراسکے جملہ امور کی نگرانی کےلئے اسکا ایک امیر شریعت منتخب کیاجاتاہے،جسکے ماتحت تین قسم کی کمیٹی کام کرتی ہے۔
1 ارباب حل وعقد، یہ کمیٹی علماء ومشائخ،اصحاب علم ودانش،سماجی اورفلاحی کام کرنے والے اہل الرائے وبااثر افراد اورمنتخب نقباء امارت شرعیہ پر مشتمل ہوتی ہے،یہ مجلس امارت شرعیہ کی ترقی،اسکے استحکام اور مسلمانوں میں سمع وطاعت کا جذبہ پیدا کرنے اورملت اسلامیہ کی فلاح وتقویت پر کام کرتی ہے، جنکے موجودہ ارکان کی تعداد 800 سے زائد ہے،یہی کمیٹی امیرشریعت کاانتخاب بھی کرتی ہے۔
2 مجلس شوری، یہ بھی امارت شرعیہ کی نمائندہ کمیٹی ہے،جسکے ارکان مجلسِ ارباب حل وعقد ہی سے منتخب کئے جاتےہیں،اس مجلس میں نائب امیر شریعت،چیف قاضی امارت،مفتی امارت شرعیہ،ناظم امارت شرعیہ، ناظم بیت المال،اورنمائندہ مبلغین بحیثیت عہدہ مجلسِ شوری کے رکن ہوتےہیں،جنکی تعداد اسوقت 101 ہے، اس مجلس کا سال میں کم ازکم ایک اجلاس ضرور ہوتاہے،جس میں ملی مسائل کے ساتھ ساتھ جملہ شعبہ جات امارت شرعیہ کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے، اور پورے سال کے آمدوصرف کا حساب وکتاب بھی پیش کیاجاتاہے،نیز آئندہ مالی سال کے اخراجات کابجٹ برائے منظوری پیش کیاجاتاہے،مزید پورے سال کے پروگرام بھی طے کئے جاتے ہیں،یہ کمیٹی ادارے کی ہیئت حاکمہ کہلاتی ہے۔
3 مجلس عاملہ،یہ 31 ارکان پر مشتمل کمیٹی ہوتی ہے جو مجلس شوری کے فیصلوں کے نفاذ،امارت شرعیہ کی ترقی واستحکام اورعملی منصوبوں پر غورکرتی ہے،نائب امیر شریعت،چیف قاضی،ناظم امارت،ناظم بیت المال بحیثیت عہدہ اسکے رکن ہوتےہیں،عام حالات میں مجلس عاملہ کے دواجلاس ہوتے ہیں،البتہ حسب ضرورت ناظم امارت شرعیہ،امیر شریعت کے مشورے سے عاملہ کا اجلاس طلب کرتےہیں۔
(سوانح حضرت امیر شریعت ص183)
امارت شرعیہ میں جوشعبے اسوقت کام کررہےہیں ان میں دارالقضاء وتربیت قضاء،دارالافتاء،شعبہ دعوت وتبلیغ،شعبہ تنظیم،تحفظ مسلمین،شعبہ تعلیم،بیت المال،امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ،مولانا محمد سجاد ہاسپٹل،دارالاشاعت،وغیرہ یہ وہاں کے اہم شعبے ہیں،اسوقت وہاں 500 سے زائد ملازمین کام کررہے ہیں،امارت شرعیہ میں اب تک 7 امیر شریعت منتخب ہوئے اور 7 نائب امیر شریعت نامزد کئےگئے، یہ ہے اس ادارے کی مختصر تفصیل، امارت شرعیہ اسوقت عملی طور پر تین ریاستوں کے مسلمانوں کی رہبری ورہنمائی کرتاہے،بہار،اڈیشہ اور جھارکھنڈ ان تینوں ریاستوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے،اور عملی طور پر اسکا دائرہ کار بھی یہی تینوں ریاستیں ہیں،اس ادارے نے اپنے زمانہ قیام سے اب تک مختلف نشیب وفراز اورحالات کو دیکھا اوربڑی حکمت کے ساتھ اسے برداشت کیا،جسکی وجہ سے آج بھی یہ ادارہ متحد ہے، لیکن دشمنوں کی نظریں اب بھی ان پرٹکی ہوئی ہیں،کیسے اس ادارے کا وقار ختم کیاجائے، اوراسکی تقسیم کی جائے، گذشتہ 5/6ماہ سے ملت کا یہ عظیم سرمایہ افراتفری کاشکار ہے،اسے توڑنے اور اسکی عظمت کو پامال کرنے کی ایک بے ہودہ کوشش کی جارہی ہے،اسی سال 3 اپریل کو امیر شریعت سابع کا انتقال ہوگیا، اسکے بعد اب یہ ادارہ ایک آزمائشی مرحلے سے گذررہاہے،یہ کہانی تب شروع ہوئی جب امیرشریعت مولانا ولی رحمانی صاحبؒ کے انتقال سے تین چاردن قبل ،نائب امیرشریعت کی نامزدگی کی خبر پراسرار طریقے سے سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی،حالانکہ یہ خبر اتنی اہم تھی کہ امارت شرعیہ سے جاری کیاجاتا،باضابطہ لیٹرشائع کیاجاتا اوراسکی اطلاع لوگوں کو دی جاتی، 30مارچ کو جب یہ خبر عام ہوئی کہ دارالعلوم وقف کے ایک استاذ کو نائب امیر شریعت کے طور پر نامزد کردیاگیا،تو میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے امارت کا لیٹر ہیڈ مل جائے، لیکن میں اسکے حصول میں ناکام رہا،حالانکہ اتنے بڑے ادارے کا ذمہ دار کسی کو بنایاجائے اور ادارے کی جانب سے کوئی آفیشل بیان جاری نہ ہو ایساکیونکر ممکن ہوا؟ یہ خبر جس دن عام ہوئی اسکے چاردن بعد یعنی 3اپریل کو امیر شریعت مولانا ولی رحمانی صاحبؒ اس دارفانی سے کوچ کرگئے، یہ واضح رہے امیر شریعت نے 18 مارچ کو کووڈ ویکسن لی تھی، جسکے بعد سے مسلسل انکی طبیعت بگڑتی گئی،یہاں تک کہ انھیں آئی سی یومیں داخل کیاگیا،جب وہ آئی سی یو میں تھے اسی درمیان یعنی مارچ 30 مارچ کو نائب امیرشریعت کی نامزدگی کی خبر عام ہوئی، ممکن ہے امیر شریعت نے آئی سی یو میں نائب امیر شریعت کونامزد کردیا ہو،لیکن سوال یہ ہے کہ جس وقت امیر شریعت نے نائب کو نامزد فرمایا اسوقت کوئی نہ کوئی تو انکے پاس موجود رہاہوگا،جب یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ کم ازکم دوگواہ تو اسوقت حضرت امیرشریعت کے پاس ضرور رہےہونگے،پھر وہ گواہان کہاں ہیں؟دوسری بات امیر شریعتؒ نے امارت شرعیہ کا نائب نامزد فرمایاتو یہ ضروری تھاکہ اسکےلئے امارت شرعیہ کا لیٹر ہیڈ استعمال کیاجاتا یا پھر اسے کتاب الاحکام میں جگہ دی جاتی،کیایہ کتاب الاحکام میں موجود ہے؟اگر موجودہ ہے تو پھر اسے عام کرناچاہئے تھاکہ شکوک وشبہات دورہوں، اسی افراتفری کے عالم میں جب نائب امیرشریعت نے غیر شرعی اور غیردستوری طریقے پر،امیر شریعت کے انتخاب کا اعلان کردیا تو لوگوں میں بے چینی فطری تھی کہ ایک شرعی ادارے میں غیرشرعی الیکشن کرانے کامطلب کیاہے؟ یہ آواز جب زوردار طریقے سے اٹھنے لگی تولوگوں کے شبہات میں اضافہ ہونے لگا،چنانچہ سوشل میڈیا پر نائب کی نامزدگی کے ثبوت کامطالبہ ہونے لگا،ایسے میں ثبوت کےطور پر امیر شریعت کا ایک قدیم لیٹر ہیڈ جاری کیاگیا،اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ امیر شریعت مرحوم کا قدیم لیٹر کیوں جاری کیاگیا؟ کیاانکا نیا لیٹرہیڈ ختم ہوگیاتھا؟ یا انکے پاس امارت شرعیہ کا کتاب الاحکام اورآفیشل لیٹر ہیڈ نہیں تھا؟ کیا اتنا اہم کام امیر شریعت اس طرح کی غیر ذمہ داری سے کرسکتے تھے، بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ امیرشریعت جلدبازی میں کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے،بلکہ کسی کام کی انجام دہی سے پہلے وہ بہت غوروفکر اور ہفتوں بلکہ مہینوں مشورہ کرتے تھے تب جاکر کسی نتیجے پر پہونچتے تھے، چنانچہ جب یہ قدیم لیٹر ہیڈ ایک گروپ نے جاری کیاتو لوگوں کے شکوک وشبہات مزید گہرے ہوگئے کہ یہ نامزدگی جعلی اورفرضی ہے مزید یہ سوالات بھی قائم کئےگئے۔
1. تقرر نامہ پر مولانا ولی رحمانی صاحبؒ کا اصل دستخط نہیں ہے۔
2. لیٹرپیڈ امارت کا ہونا چاہیے جو نہیں ہے۔
3. امیرشریعت کےذاتی لیٹرہیڈ پر خانقاہ کا تقرر کہلاۓ گا نہ کہ امارت کا۔
4. لیٹرپیڈ کافی قدیم ہےجو حضرت کے استعمال میں نہیں تھا۔ اس لیٹر پیڈ پر مولانا ولی رحمانی صاحب امیر شریعت کا(عہدہ)درج نہیں ہے۔
5. نئے لیٹرپیڈپہ مولا نا ولی رحمانیؒ امیرشریعت ہیں بلکہ دیگر تنظیموں کاعہدہ بھی اس پرچھپاہواہے وہ لیٹرپیڈ ہوناچاہئے۔
6. بہ فرض محال اگر اس پہ مولانا ولی رحمانیؒ کا دستخط ہے تو دوسرے اراکین کے دستخط کی ضرورت کیوں پڑی؟
7. تقررنامہ کی تاریخ اور اعلان کی تاریخ میں بڑا وقفہ ہے, آخر اتنی تأخیر سے اعلان کیوں کیاگیا؟
8۔یہ نامزدگی امارت کے کتاب الاحکام میں کیوں درج نہیں؟
9 اس لیٹر ہیڈ پرجوتحریرہے یہ تحریر بھی امیر شریعت کی نہیں ہے،کیونکہ امیرشریعت مرحوم کی تحریر میں جوسلاست اورروانی ہوتی تھی اس سے یہ تحریر خالی ہے۔
نوٹ: اصل میں جعلی اور فرضی حیثیت کو چھپانا تھا اس لیے دیگر اراکین امارت سے دستخط کرایا گیا”
یہ وہ سوالات ہیں جوسوشل میڈیاپر اب بھی گشت کررہےہیں،کیا یہ سوالات قابل توجہ نہیں ہیں؟انکا جواب کون دےگا؟
امیرشریعت مرحوم کے انتقال اورانکی تدفین کی بعد جس تیز رفتاری کے ساتھ ڈرامائی انداز میں نائب امیر شریعت کا استقبال امارت شرعیہ میں کیاگیا یہ تو پھر غنیمت تھا، لیکن ہوا یہ کہ امارت کی سیٹ سنبھالتے ہی نائب صاحب نے اپنی اصلیت دکھاناشروع کردی،اپنے اختیارات کاغلط استعمال شروع کردیا، ایک مخصوص فرد کو امیر شریعت بنانے کےلئے انھوں نے لابنگ شروع کردی، اسکےلئے مختلف اضلاع کادورہ بھی کیا،لوگوں کی ذہن سازی کی، کئی ایک ارباب حل وعقد کے اراکین کو ورغلایا اورگمراہ کیا،ان سے ایک مخصوص فردکی حمایت میں دستخط کروائے،جون کے آخری ایام میں انھوں نے یعنی دستور میں دیئے گئے اپنے تین ماہ کی مدت اختیارات سے 10دن قبل انھوں نے شوری کی ایک آن لائن میٹنگ بلائی،اور ان اراکین میں جو انکے حمایتی تھے انکو میٹنگ کے درمیان باقی رکھاگیا اور جو اراکین غیرحمایتی تھے انکا کنکشن کٹ کردیاگیا،جس پر اراکین نے احتجاج بھی درج کرایا،اس میٹنگ میں شرکاء نے ان سے کہاکہ”جب تک امیر شریعت کا انتخاب نہیں ہوجاتا تب تک آپ کام کرتے رہیں،اور جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوجائے آپ اراکین شوری کی آف لائن میٹنگ بلائیں تاکہ نئے امیر شریعت کے انتخاب کے معاملے میں غورفکر کیاجاسکے، لیکن انھوں نے اسی میٹنگ میں ایک 11رکنی سب کمیٹی تشکیل دے دی جس میں اپنے چنندہ لوگوں کو شامل کیاگیا،حیرت کی بات یہ ہے کہ انکے نزدیک اس سب کمیٹی میں امارت شرعیہ کا صدرمفتی بھی شامل ہونے کے قابل نہ رہا جنھیں نظر کردیاگیا،جب کہ اوپر آپ نے تین کمیٹی کانام پڑھا ان میں سے ہرکمیٹی میں صدرمفتی شامل رہیں گے دستور کے مطابق،پھر نائب امیر نے انھیں نظر انداز کیوں کیا؟پھر اس سب کمیٹی کی آڑ میں انھوں نے غیردستوری اورغیر شرعی طریقے سے امیر شریعت کے انتخاب کااعلان جاری کردیا، حالانکہ ان سے کہاگیاتھاکہ حالات معمول پرآنے تک آپ کام کرتے رہیں،پھر انھوں نے امیر شریعت کے انتخاب کےلئے جلدبازی سے کام کیوں لیا؟ جب انھوں نے 10اگست کاغیردستوری اورغیر شرعی اعلان کرہی دیاتو پھر ان سے مختلف وفود نے ملاقاتیں کیں اوران سے کہاکہ امیر شریعت کا انتخاب دستور کے مطابق شفاف طریقے سے ہوناچاہئے،سارے وفود کو انھوں نے جھوٹی یقین دہائی کرائی کہ” آپ اطمینان رکھیں سب کچھ دستور کے مطابق ہوگا اورشفاف طریقے سے ہوگا انشاءاللہ”لیکن یہ اسکے خلاف کرتے رہے،امارت کی آفس سے جھوٹی خبریں،فرضی تحریریں اخبارات کو بھیجی گئی، دوسرے لوگوں کی پگڑی اچھالی گئی اور یہ تماشا دیکھتے رہے،لوگوں نے بار بار ان سے کہاکہ امیرشریعت کے انتخاب کےلئے جوآپ نے نئے طریقہ کا اعلان کیاہے یہ بالکل مناسب نہیں ہے،اسے واپس لیجئے،ابھی کوئی جلدبازی نہیں ہے آپ کام کرتے رہئے،لیکن یہ مصر ہوگئے کہ نہیں سب کچھ دستور اورشریعت کے مطابق ہورہاہے،یہ معاملہ جب بڑھاتو مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ایک بیان اخبارکوجاری کیاجس میں اس مجوزہ اورمقررکردہ طریقہ انتخاب کوغیر دستوری اورغیر شرعی بتلایاگیا،مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب کےخلاف امارت کےلیٹر ہیڈ کاغیرضروری استعمال کرتےہوئے آفس سکریٹری کے ذریعے انکے خلاف بیان جاری کروایا۔
اسکے بعد پھر امارت شرعیہ کے صدرمفتی نے بھی مدلل انداز میں غیردستوری اورغیرشرعی ہونے کافتوی دیا،جسکے بعد ہلچل مچ گئی،پھراسکے بعد گیارہ رکنی کمیٹی کے کئی لوگوں نے اس کمیٹی سے استعفیٰ دیدیا،لیکن نائب صاحب ٹس سے مس ہونے کانام نہیں لےرہےتھے،جولائی کے اخیر میں اراکین شوری پر مشتمل ایک معزز وفد نے ان سے امارت شرعیہ جاکر آفس میں ملاقات کی ،میمورنڈم دیا، حالات سے آگاہ کیا اورالیکشن کی تاریخ واپس لینے کا مطالبہ کیا،بڑی جدوجہد کے بعد انھوں نے الیکشن کی تاریخ منسوخ کرنے کااعلان تو امارت کے لیٹر ہیڈ پر کیامگر بغیر دستخط کے،اللہ اللہ کرکے الیکشن کی تاریخ منسوخ تو ہوگئی لیکن اسی درمیان ایک گروپ نامنیشن کےلئے امارت شرعیہ آدھمکا،آخر یہ لوگ کون تھے جوالیکشن کی تاریخ ملتوی ہونےکے باوجود نامنیشن کرانے کےلئےامارت کی آفس میں حاضر ہوئے؟پھرچنددنوں کےوقفے کےبعد یہی گروپ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے رات کے تقریبا دس بجے کئی گاڑیوں میں بھر کر امارت پرقبضے کےلئے حاضر ہوا،لیکن ان لوگوں کومین گیٹ پرہی روک لیاگیا اورامارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی،پھلواری شریف کی عوام نے بالآخر وہاں سے ان لوگوں کو کھدیڑ دیا اوریہ لوگ وہاں سے مجبوراً بے نیل ومرام واپس ہوگئے،خبریہ بھی آئی کہ جس گاڑی سے یہ غنڈے لوگوں کاگروپ رات میں امارت پرقبضہ کرنے آیاتھا انھیں گاڑیوں میں سے ایک گاڑی میں صبح شمشاد رحمانی صاحب امارت پہونچے،توکیااس سے یہ سمجھاجاناچاہئے کہ یہ گروپ شمشاد رحمانی صاحب کےاشارے پرکام کررہاہے؟
ایک کام انھوں نے یہ بھی کیاکہ بغیر شوریٰ کی میٹنگ بلائے اوران سے مشورہ کئے انھوں نے اپنی من مانی مرضی سے ارباب حل وعقد میں اپنے پسندیدہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کوشامل کردیا،الزام یہ بھی ہے کہ اپنے ایک بھائی کو جوغالبا ابھی طالب علم ہے انھیں بھی رکنیت دیدی گئی ہے، نیزکئی لوگوں کی رکنیت کوبھی ختم کردیاگیا ہے۔واللہ اعلم
بہار میں لاک ڈاؤن چل رہاتھا،اگست میں جب لاک ڈاؤن ختم ہوگیا تو شوریٰ کے ایک مؤقر وفد نے شمشاد رحمانی صاحب سے ملاقات کےلئے انھیں فون کیا اوروقت مانگا کہ اب لاک ڈاؤن ختم ہوگیاہے ہم لوگ آپ سے ملاقات کرناچاہتے ہیں،کب ملاقات ہوگی؟ شمشاد رحمانی صاحب نے اراکین شوری سے کہاکہ آفس میں اطمینان کے ساتھ بات نہیں ہوسکتی ہے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں،اسلئے بہتر ہے کہ آپ لوگ ہمارے گھر پر آجائیں تاکہ وہاں اطمینان اورسکون سے بات ہوسکے، چنانچہ انکی خواہش اورشدید اصرار پر اراکین شوری کاوفد جس میں پٹنہ شہرکی معزز شخصیات شامل تھیں، انکے گھرپر پہونچے اوران سے ملاقات کی، حالات کی سنگینی سے انھیں واقف کرایا اوران سے کہاگیاکہ اب لاک ڈاؤن ختم ہوچکاہے،آپ کاکیا ارادہ ہے؟ اب آپ جلدازجلد ہفتہ دس دن یاپندرہ دن میں شوری کی آف لائن میٹنگ بلالیں،تاکہ امیرشریعت کے انتخاب کے مسئلے پر غورو فکر کیاجاسکے،انھوں نے اسکے جواب میں صرف اتنا کہاکہ سوچ کرجواب دوں گا،لیکن کوئی جواب نہیں دیا، معزز اراکین انکے جواب کاانتظار کرتے رہے لیکن جب کوئی جواب نہ آیاتو کئی دنوں کے بعد ایک دن پھر اراکین شوری نے مولاناشبلی صاحب کوفون کیاکہ ہم لوگ ملاقات کےلئے آناچاہتے ہیں،کب آئیں؟ شبلی صاحب نے شمشاد رحمانی صاحب سے اراکین کی بات کرائی، اراکین نے اپنا ارادہ ظاہرکیاتو شمشاد صاحب نے کہا کل 3بجے آپ حضرات آفس میں تشریف لائیں،یہ کہہ کر فون کٹ کردیاگیا،دوسرے دن وقت مقررہ پر اراکین کایہ وفد آفس پہونچ گیا دوگھنٹے انتظار کرنے کے بعد شمشاد صاحب کوکئی لوگوں نے فون کیالیکن انھوں نے کسی کافون اٹھایا اور نہ ہی کوئی جواب دیا،شبلی صاحب نے بھی آفس سے فون کیالیکن انھوں نے انکافون بھی رسیو نہیں کیا،امارت کے ملازمین سے معلوم ہواکہ آج نائب صاحب امارت آئے ہی نہیں،خیر وفدنے میمورنڈم مولانا شبلی صاحب کے حوالے کیااورواپس ہوگئے یہ کہہ کرکہ میمورنڈم کاجواب دیجئے گا،دوسرے دن شمشاد رحمانی صاحب نے پریس کوبیان جاری کیاکہ میرافون سیلنٹ میں تھا،میں نہیں دیکھا اورمیں بھول گیاتھا وغیرہ وغیرہ ۔
جب اراکین شوری ناامید ہوگئے کہ نائب امیر صاحب نہ کوئی جواب دیتے ہیں،نہ ملتے ہیں اورنہ بات کرناچاہتے ہیں تو اب کیاکیاجائے؟ چنانچہ اسی پر غور کرنے کےلئے شوری کے معزز اراکین نے میٹنگ بلائی اور اس میں یہ طے ہواکہ چونکہ تین مہینے سے زائد کاعرصہ گذر چکاہے اسلئے انکا اختیار ختم ہوگیا اب نائب امیر،امیرشریعت کا انتخاب نہیں کراسکتے کیونکہ دستور کے مطابق انکے پاس تین مہینے کاہی وقت ہے،چنانچہ شوری نے پہل کی اور دستور میں دیئے گئے اپنے اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے غور وخوض کے بعد 10اکٹوبر کو امیرشریعت کے انتخاب کےلئے تاریخ اورجگہ کا اعلان کردیاہے،یہ خبر عام ہوتے ہی نائب امیر نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ”مینگ بلانے کااختیار مجھے ہے میرے علاوہ کوئی میٹنگ نہیں بلاسکتا،اس طرح کی میٹنگ کا امارت شرعیہ سے کوئی تعلق نہیں”
وغیرہ وغیرہ ۔
سوال یہ ہے کہ کیا نائب امیر شریعت شوری سے اوپر ہیں؟ اور کیاوہ ہرچیز سے مبرا ہیں؟ کیاوہ اپنی من مانی کرنے کےلئے آزاد ہیں؟ انکے اختیارات لامحدود ہیں؟ اتنی ساری چیزیں آخرانھیں کس نے فراہم کردی؟ کیا وہ منتخب شدہ امیر ہیں؟ جبکہ دستور کے مطابق منتخب شدہ امیرشریعت بھی شوری کے مشورہ کے بغیر کوئی اہم فیصلہ نہیں لےسکتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ منتخب شدہ امیرشریعت کودستور کے مطابق جواختیارت حاصل ہیں، کیا وہ سارے اختیارات مثل امیر یعنی نائب امیر کوحاصل ہونگے؟
گذشتہ تقریباً چھ مہینے سے امارت شرعیہ کو کمزور کرنے اور عوامی سطح پر اسکی شبیہ بگاڑنے کی منظم کوششیں عروج پر ہیں، ملازمین کے علاوہ مقتدر علماء کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں،فرضی نام سے تحریریں لکھوائی جارہی ہیں،عزتوں کو سربازار نیلام کیاجارہاہے،سوشل میڈیا پر الزام تراشی کاطوفان بدتمیزی کاسلسلہ جاری ہے ، آخر ایسے عناصر کا مقصد کیاہے؟ ان ساری چیزوں پر غور کرنے کے بعد کیا آپ کو نہیں لگتاکہ ملت اسلامیہ کا یہ عظیم اورقدیم ادارہ سازشوں کے نرغے میں ہے؟ ایک ایسا ادارہ جس نے قوم کی تعمیرمیں اہم اورمثالی کردار اداکیاہے کیاہم انھیں اتنی آسانی سے برباد ہوتاہوا دیکھ سکتےہیں؟ کیاہم انکے تحفظ کےلیے سنجیدہ ہیں اورکوئی لائحہ عمل ہمارے پاس ہے؟ سوچئے گاضرور۔
(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)