واقعہ افک

*واقعۂ اِفک*

محمد سلمان قاسمی بلرامپوری

واقعہ افک،، یہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے، جس میں عفیفۂ کائنات سیدہ طاہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاکدامنی پر،ازلی بدبخت عبداللہ ابن بی بن سلول کی جانب سے یہ طوفان بد تمیز برپا کیا گیا ، تاکہ پیغمبر اسلام کو بدنام کیا جاسکے اور جانثاروں کے درمیان نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ساخت کو خراب کیا جاسکے،
اور پروردۂ نبوت کے درمیان بے حیائی کو فروغ دیا جاسکے،
یہ مکار اپنی چال چل رہا تھا،
اور رب تعالیٰ اسکے مکر و فریب، تہمت اور افک میں تکوینی طور پر خیر کا ارادہ کررہا تھا،
*لا تحسبوہ شر لکم بل ھو خیر لکم* ( نور ١١)
ترجمہ! تم اسکو برا نہ سمجھو اپنے حق میں بلکہ بہتر ہے تمہارے حق میں
واقعہ یوں ہے کہ سن 6 ہجری میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی کہ مریسیع کے لوگ مدینہ پر حملے کی تیاری کررہے ہیں،
تو آپ نے لشکر ترتیب دی،
اور حسبِ معمول ازواج مطھرات کے درمیان قرعہ ڈالا
تو قرعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام پڑا،
چنانچہ اس سفر میں پیغمبر کی ہمسفر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہوئیں،
اور اس جنگ میں منافقین بھی کافی تعداد میں نکلے تھے، انکا یہ اندازہ تھا کہ جنگ نہیں ہوگی، اور غنیمت میں حصہ لگیگا،
رئیس النافقین ابن ابی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں خار کھائے بیٹھا تھا،
کیونکہ اسکی سرداری، اور مغنیہ باندیوں کی کمائی کی حرام آمدنی بند ہوگئی تھی،
اور موقعہ کی تلاش میں تھا کہ مسلمانوں کو کب نقصان میں مبتلاء کردے،
واپسی میں یہ قافلہ مدینہ سے چند میل دور رکا، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا طہارت کے لیے قافلے سے ذرا دور چلی گئیں،
اور اس وقت آپکی عمر مبارک 13 یا 14 سال تھی،
اور راستے میں وہ ہار کہیں گم ہوگیا،
جو حضرت اسماء سے انہوں نے عاریتاً لی تھیں،
اسی کو ڈھونڈنے میں وقت کا خیال نہ رہا، اور قافلہ چل نکلا ،
اور آپ جس کجاوے میں بیٹھی تھیں، صحابہ کرام کو احساس ہوا کہ شاید آپ اس میں ہیں اسلئے اسکو اونٹ پر باندھ دیا،
جب جائے پڑاو پر پہونچی، تو قافلہ کو نہ پاکر، گھبرائیں ضرور،
مگر ہمت سے کام لیا،
اور وہیں چادر سے لپٹ کر سورہیں،
صفوان ابن معطل رضی اللہ عنہ جو قافلے کی گری پڑی و چھوٹی چیز کے اٹھانے پر معمور تھے،
جب یہاں پہونچ کر دیکھا کہ کوئی سو رہا تو دور سے دیکھکر سمجھ گئے کہ ام المومنین ہیں،
تو انا لللہ وانا الیہ راجعون پڑھا،
واضح رہے صفوان ابن معطل رضی اللہ عنہ نے پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تھا اسلئے پہچاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی
خیر اونٹنی کو بٹھا کر آپکو سوار کیا، اور خود اونٹ کی مہار پکڑ کر نیازمندانہ آگے چلے،
دوپہر کو یہ دونوں حضرات لشکر کو جالئے،قافلہ ایک جگہ ٹہرا تھا لشکر والوں کو ابھی یہ پتہ ہی نہ تھا، کہ ام المومنین پیچھے چھوٹ گئیں ہیں ، بہتان لگانے والا سرغنہ، عبد اللہ ابن ابی تھا،، جس نے یہ بہتان کو پھیلا دیا، اور ہمیشہ کے لیے لعنت کے زندان میں گرفتار ہوگیا
*لکل امرئٍ منھم ما اکتسب من الاثم والذی تولیٰ کبرہ منھم لہ عذاب عظیم*
ترجمہ! ہر آدمی کے لئے ان میں سے وہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا اور جس نے اٹھایا ہے اسکا بڑا بوجھ اسکے واسطے بڑا عذاب ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کے بارے میں ابھی کچھ علم نہ تھا اور آپ مدینہ پہونچ کر ایک مہینہ تک بیمار رہیں،
آپ صل اللہ علیہ وسلم گھر میں آتے، اور تیمارداروں سے طبیعت وغیرہ دریافت کرلیتے،
مگر امی جان کو آقا صل اللہ علیہ وسلم کی پہلی جیسی توجہ میں کچھ فقدان نظر آرہا تھا، اور آپ رضی اللہ عنہا کو اس پیچھے ہونے والے واقعہ کا علم بھی نہیں تھا
آپ رضی اللہ عنہا پھر اسکے بعد اپنے گھر چلی آئیں،،
ایک دن حضرت مسطح کی والدہ محترمہ امِ مسطح کے ساتھ آپ حاجت کے لئے باہر گئیں، ام مسطح اپنی لمبی چادر سے الجھ کر گر گئیں، گرتے ہی کہا،، مسطح غارت ہو،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ڈانٹا کہ آپ اپنے بیٹے اور ایک بدری صحابی پر لعنت کررہی ہیں،
تو ام مسطح نے کہا،،، کہ بیٹی تجھے پتہ نہیں کہ مسطح تجھے صفوان کے ساتھ بدنام کرتا ہے
تو آپ کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک گئی، اور واپس آکر اپنی بستر پر پڑرہیں
اور بد ذات شری منافقین تو ٹھہرے بد عاقبت درکِ اسفل کے باشندے! انہوں آپ رضی اللہ عنہا کے تعلق سے طوفان بد تمیز پیدا کیا آپ کی شان میں بد گوئی کرنے میں کوئی حربہ نہیں چھوڑا اور سیدھے سادھے مسلمانوں کو بدظن کرنے میں کوئی موقعہ نہیں چھوڑا،
مدینہ منورہ میں مہینہ بھر جانثاروں میں بے چینی رہی،
آپ صل اللہ علیہ وسلم نے بر سر منبر فرمایا میں اپنے اہل خانہ میں بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں پاتا،
عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپکے پاک دامنی کی گواہی دے رہے ہیں،
اور یہ آیت کریمہ موافقات عمر رضی اللہ عنہ کی گواہ ہے
*الخبیثٰت للخبیثین و الخبیثون للخبیثٰت والطیبٰت لطیبین والطیبون لطیبٰت اولئک مبرءون مما یقولون لھم مغفرۃ و رزق کریم*
ترجمہ! خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں، اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں، اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لائق ہیں، یہ لوگ اس سے بری ہیں جو تہمت لگانے والے کہتے ہیں ان کے لیے مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے،
خادمہ خانۂ پیمبر صلعم حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، آپ رضی اللہ عنہا میں اسکے علاوہ اور کچھ نہیں پاتی، کہ سنا آنٹا چھوڑ کر سوگئیں اور بکری نے آکر آٹا کھا لیا،
حضرت ابو ایوب انصاری نے ان افواہوں کو اپنی بیوی کو بتایا، ایوب کی ماں تم بتاؤ اگر تم عائشہ کی جگہ پر ہوتی، تو ایسا فعل کرتی؟ ، وہ بولیں خدا کی قسم ہر گز نہیں
پھر ابو ایوب نے کہا کہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) تم سے بدرجہا بہتر ہے، اور میں اگر صفوان( رضی اللہ عنہ) کی جگہ پر ہوتا تو ایسا خیال کبھی نہیں کرسکتا تھا، صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے،
اس واقعہ سے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دلی تکلیف ہوئی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ کندن کو کیمیاء بنانے کا تھا اور اس واقعہ کے ضمن میں مسلمانوں کے لیے کئی پیش آئند مسائل اور انکی عقدہ کشائی موجود ہے
مذکورہ واقعہ سے درج ذیل مسائل سے ہمیں آگاہی ملتی ہے
اور اسکے اور بھی کئی سارے تفسیری فوائد ہیں، قرآنی آیات معانی کا بحرِ عمیق ہےہر غواص اپنے قسمت کی موتی چن کر لا تا ہے، _____
*وہیں تک دیکھ سکتا ہے جسکی نظر جہاں تک ہے*
(١) سفر میں زیورات کا استعمال عورتوں کو کم کرنا چاہییے، اس میں گم ہوجانے کا بھی خطرہ ہے، اور چوری واسنیچنگ کا بھی خطرہ ہے،
(٢) غیر محرم کے مدد کے لئے اس میں رہنمائی موجود ہے،
(٣)عاریت وادھار کی چیز امانت ہے اسے اپنے سامان سے زیادہ حفاظت کرنی چاہئیے
(٤)صبر کا پھل امید سے کہیں بہتر ہوتا ہے، جیسے امی جان کو یہ گمان تھا کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی خبر دیدی جائیگی، مگر آیتوں کی شکل میں برات،کا اعلان رب کے کلام سےہوگا یہ امید نہیں تھی __
*ہر مدعی کے واسطے دار رسن کہاں*

(٥) سفر گروپ میں کریں تو بہتر ہے،
(٦)قابل تذکرہ سفر میں اگر ایک بیوی ہو تو اسکو ساتھ لینا چاہئے، ایک سے زائد پر قرعہ ڈالکر لے جانا یہ سنت ہے
(٧)بے تحقیق، اڑی خبر کو کسی کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہئیے،
(٨)عورت اگر کبھی ڈپریشن میں آجائے تو اسے سسرال سے میکہ آجانا چاہیے تاکہ والدین کی نگرانی میں اسے اسےکچھ ریلیف مل سکے،
(٩) بیوی کے بارے میں یا عام مسلمان کے بارے میں کچھ غلط سنتے ہی فورا نہیں برسنا چاہیے، حکمت عملی اور صبر سے کام لینا چاہیے
اور معاملہ محقق ہونے کے بعد ردِ عمل دینا چاہئیے ،
(١٠)غلط الزام لگانے والے اگر غلطیوں کی معافی نہیں مانگتے اور توبہ نہیں کرتے، تو انکے لئے دنیا و آخرت میں رسوائی کا سامان ہے،
*إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ*
ترجمہ! بلا شبہ جو لگ بیخبر مومن عورتوں کو تہمت لگاتے ہیں دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کردی گئی ہے اور انکے لئے بڑا عذاب ہے
(١١) اگر کسی کو تہمت کی سزا مل گئی، یا اس نے اپنے ملزم سے معافی مانگ لی تو اب اسے لعنت ملامت نہیں کرنی چاہیئے،،
(١٢)کسی عزیز کی کفالت کو اسکے کسی جرم و گناہ کے بنا پر بند نہیں کرنا چاہیے،
*ولا لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ -وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ*
اور جو لوگ تم میں سے بڑے درجے والے اور وسعت والے ہیں وہ رشتہ داروں مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو مال نہ دینے کی قسم نہ کھا لیں اور معاف کریں اور در گزر کریں کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،،،،
اس سلسلے میں جامعہ بنوریہ کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں
،،، کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنا حکم میں “قسم” ہے ؛ لہذا اگر کسی نے حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کیا تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو استعمال کرے، اور اس کے استعمال کے بعدقسم کا کفارہ دے دے۔قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلائے یا دس مسکینوں کو لباس کا جوڑا دے، دس صدقہ فطر نکالنا بھی قسم کے کفارے میں کافی ہوگا، اور اگر اتنی بھی مالی استطاعت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھ لے،،،
(١٣)اس واقعہ سے آپ صل اللہ علیہ وسلم کا عالم الغیب ہونے کی یقینی طورپر نفی ہورہی ہے،اگر بالفرض آقا صل اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب مان لیا جائے، تو آقا صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی لازم آئیگی، کہ نعوذ باللہ آپ کو سب پتہ تھا، لیکن ایک مہینہ تک آپ اپنے گھر والے اور صحابہ کرام کے ساتھ استہزاء کررہے تھے، اور آپ کے وحیِ الی کا انتظار کرنا بس صرف ٹمپرییری تھا، العیاذ باللہ،
اور تاریخ اسلام کے کئی ایسے واقعات جیسے بئر معونہ میں ستر قراء کرام کو شہید کردیا گیا تھا، آپکی غیب دانی ماننے کی صورت میں یہ اعتراض ہوگا، کہ آپ نے اپنے ساتھیوں کو جان بوجھکر موت کے منہ دھکیل دیا نعوذ باللہ من ذالک

*مصطفے ہر گز نگفت تا نگفتے جبرئیل*
*و جبرائیلش ہم نہ گفت تا نہ گفتے کردگار*
اللہ رب العزت ہمیں صحیح عقائد و ایمان کے ساتھ، نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی محبت دلوں میں جاگزیں فرمائے آمین______
*صدیق اکبر کی تو ہے بیٹی رسولِ انور ﷺہیں تیرے شوہر*

*اے امی عائشہ تیرے مقدر کا تاقیامت نہیں کوئی ہمسر*

*تیرے دہن کا چبایا ہوا پسند نبی ﷺنے سواک کیا*

*لگے جو پیالے پہ ہونٹ تیرے اسی جگہ سے نبی ﷺنے پیا*

*ہے پیار اتنا نبی ﷺکو تجھ سے حمیرا تجھ کو کہا ہے اکثر*

*صدیق اکبر کی تو ہے بیٹی*
*رسولِ انور ہیں تیرے شوہر*

*تو جس مکاں میں کبھی مکیں تھی خدا نے جنت بنا دیا ہے*

*بنا کے جنت خدا نے اس میں حبیب ﷺاپنا سُلا دیا ہے*

*سلام لاتے ہیں شام و صبح ہزاروں نوری ترے ہی در پر*

*اے امی عائشہ تیرے مقدر کا تاقیامت نہیں کوئی ہمسر*

*معلمہ بن کے نبی کی رحلت کے بعد کی تو نے رہنمائی*

*تری بدولت جہاں میں اب تک ہے دینِ احمد ﷺ کی روشنائی*

*پڑی مسائل میں جب بھی مشکل صحابہ دیکھے ہیں تیرے در پر*

*صدیق اکبر کی تو ہے بیٹی رسولِ انورﷺ ہیں تیرے شوہر*

*جنابِ مریم کی بے گناہی پہ ایک بچے نے دی گواہی*

*مگر تو کتنی عظیم عائشہ خدا نے دی خود تری صفائی*

*اسی کو طاہر ملے گی جنت رہے گا تیرا جو بیٹا بن کر*

*اے امی عائشہ تیرے مقدر کا تاقیامت نہیں کوئی ہمسر*
(طاہر)

محمد سلمان قاسمی بلرامپوری
٢٠ اکتوبر ٢٠٢٣

اپنی راۓ یہاں لکھیں