اسلامی لباس
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
لباس اللہ کی ایک عظیم الشان نعمت ہے۔ ارشادِ باری ہے:{یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْرٌ ذَلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُون}(اعراف،۲۶)’’اے اولادِ آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں۔‘‘
مومن کا لباس خوبصورت اور صاف ستھرا ہونا چاہیے، خاص طور سے جب وہ دیگر لوگوں سے ملے یا نماز ادا کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{ یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ} (اعراف، ۳۱) ’’اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتاہے۔‘‘
شرعی لحاظ سے انسان کا اپنے لباس اور خارجی ہیئت میں خوبصورت دکھنا جائز ہے کیونکہ یہ ایک لحاظ سے مباحات کے دائرے میں رہتے ہوئے منعمِ حقیقی کی نعمتوں اور عنایتوں کا اظہار اور اعتراف ہے۔ارشادِ باری ہے: {قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ہِیْ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُون} (اعراف،۳۲)’’ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالاتھا اور کس نے اس کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟ کہو: یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے مخصوص ہوں گی۔ اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں۔‘‘
لباس سے گوناگوں ضروریات پوری ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسانی جبلت میں حیااور شرم و لحاظ کا مادہ رکھا ہے۔ انسان بہ تقاضائے فطرت جسم کے کچھ حصوں کو دوسروں کی نگاہوں سے چھپائے رکھنا چاہتا ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل لباس سے ہوتی ہے۔ ارشادِ باری ہے:{یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ}(اعراف،۲۶)’’اے اولادِ آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے۔‘‘
سال بھر میں کئی موسم آتے ہیں۔ کبھی شدت کی گرمی ہوتی ہے اور کبھی بے پناہ سردی اورکبھی موسلادھار بارش۔ ایسے میں انسان کا لباس اس کے جسم کو موسم کی سختیوں کامقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔سردی اور گرمی کا تعلق موسمی تغیرات سے ہے، لباس اس میں بھی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ نیز بہت سے کیڑے مکوڑے، جراثیم اور جسمِ انسانی کو نقصان پہنچانے والی دیگر اشیاء ہیں جن سے لباس جسمِ انسانی کوبچاتا ہے۔ارشادِ باری ہے:{ وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُم بَأْسَکُمْ کَذَلِکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُون} (نحل،۸۱) ’’اور اسی نے تمھیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمھیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں۔ اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم فرماں بردار بنو۔‘‘
لباس سے انسان کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وسعت اور فراخی کی جو نعمت بخشی ہے، اس کا اظہار بھی آدمی کے لباس اور پوشاک سے ہوتا ہے۔ باری تعالیٰ کی صفات میں جمال بھی شامل ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’یقینا اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔‘‘ [إن اللّٰہ جمیل یحب الجمال](صحیح مسلمؒ:۹۱۔سنن ابو داؤدؒ:۴۰۹۱۔سنن ترمذیؒ:۱۹۹۸۔سنن ابن ماجہؒ:۴۱۷۳۔مسند احمدؒ:۳۶۴۴)
اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے کسی خاص طرز یا نوع کا لباس متعین نہیں کیا ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے علاقے کا جو لباس شریعت کے موافق ہو اسے اختیار کرے۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور اس نے زندگی کے معاملات میں وہی احکام وہدایات دی ہیں جو فطرتِ سلیمہ کے مطابق ہیں اور جن کی تائید عقلِ عام اور منطقِ سلیم سے ہوتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے کسی خاص طرز اور شکل کے لباس کو لازم قرار دینے کے بجائے ہر اس لباس کو جائز مانا ہے جو لباس کا مطلوبہ کردار ادا کرے اور جس میں کسی قسم کی افراط وتفریط نہ پائی جائے۔
اللہ کے رسولﷺ نے وہ پوشاکیں پہنیں جو اس زمانے میں رائج اور موجود تھیں۔ آپﷺ نے امت کو نہ کسی خاص لباس کا حکم دیااور نہ کسی خاص لباس سے منع فرمایا۔ البتہ لباس کے سلسلے میں بعض چیزوں سے آپﷺ نے روکا ہے۔ لباس ایک دنیاوی معاملہ ہے اور دنیاوی معاملات کے حوالے سے شریعت کا حکم ہے کہ وہ سب اصلاً مباحات میں داخل ہیں، ان میں ثبوتِ حرمت کے لیے دلیل چاہیے۔جب کہ عبادات میں اس کے برعکس ہر چیز توقیفی یعنی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتانے سے پتہ چلتی ہے۔ عبادات کے میدان میں کوئی بات پیش کی جائے تو اس کے ساتھ اللہ او اس کے رسولﷺ کی دلیل ہونی چاہیے۔اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا ہے: ’’کھائو اور صدقہ کرو اور لباس پہنو،بغیر فضول خرچی کیے اور بغیر گھمنڈ کے۔‘‘[کلوا وتصدّقوا والبسوا فی غیر إسراف ولا مخیلۃ](سنن نسائیؒ:۲۵۵۹)
کسی لباس کے حرام ہونے کی چندوجوہات ہوسکتی ہیں:
۱-وہ سترپوش نہ ہو۔لباس کے سلسلے میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ایسا کپڑا منتخب کرے جس سے اس کے قابلِ سترپوشی جسمانی حصے چھپ جائیں۔ ارشادِ باری ہے{یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ}(اعراف،۲۶)’’اے اولادِ آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے تاکہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے۔‘‘
شریعت نے مردوں اور عورتوں کے لیے جسم کے وہ حصے بتادیے ہیں جنھیں لباس سے چھپانا فرض ہے۔ مرد کے لیے سترِ عورت ناف سے گھٹنے تک ہے اور عورت کے لیے اجنبی مردوں کے سامنے سترِ عورت اس کا پورا جسم ہے، سوائے چہرے اورہتھیلیوں تک ہاتھ کے۔ لباس کا بے حد کسا ہوا ہونا بھی جائز نہیں، اس قدر کہ جسمانی ساخت اور اعضاء کا نشیب وفراز صاف ابھر آئے۔ اسی طرح لباس اتنا مہین اور باریک نہ ہو کہ اندر کا جسم باہر جھلکے۔ اس قدر شفاف لباس کہ اندر کا سب کچھ دکھائی دے، اسے پہننے والوں کو اللہ کے رسولﷺ نے جہنم کی دھمکی سنائی ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’جہنمیوں میں ایک جماعت ان عورتوں کی ہوگی جو کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں۔‘‘[صنفان من أہل النار ۔۔۔نساء کاسیات عاریات](صحیح مسلمؒ:۲۱۲۸)
۲-صنفِ مخالف سے مشابہت رکھنے والا لباس نہ ہو۔ہر سماج میں کچھ کپڑے مردوں کے لیے اور کچھ عورتوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔اس عرف وعادت کی پابندی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی مرد زنانہ کپڑے پہنتا ہے اور عورت مردانہ لباس پہنتی ہے تو یہ حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ اسی کے اندر طریقۂ گفتگو، چال ڈھال اور حرکت وعمل کی مشابہت بھی آجاتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ایسے مرد پر لعنت فرمائی ہے جو نسوانی لباس پہنے اور ایسی عورت پر لعنت کی ہے جو مردانہ لباس پہنے۔[لعن رسول اللّٰہﷺ الرجل یلبس لبسۃ المرأۃ والمرأۃ تلبس لبسۃ الرجل](سنن ابو داؤدؒ:۴۰۹۸)
اسی طرح آپﷺ نے ان مردوں پر لعنت بھیجی ہے جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔[لعن المتشبہین من الرجال بالنساء ولعن المتشبہات من النساء بالرجال](صحیح بخاریؒ:۵۵۴۶) ملعون ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے محروم کر دیا گیا۔ اسلام فطرت کی رکھوالی کرتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ مرد کی اپنی فطرت اور خاص بیرونی مظہر ہو، اسی طرح عورت کی اپنی فطرت اور خارجی ہیئت ہو۔عقل اور فطرت کا بھی یہی تقاضا ہے۔
۳-وہ لباس ریشم یا سونے کے تاروں سے نہ بنا ہو۔ اسلام نے ریشم اور سونا مردوں کے لیے حرام کیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ریشم اور سونے کے بارے میں فرمایا ہے: ’’یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔ عورتوں کے لیے حلال ہیں۔‘‘[إن ہذین حرام علی ذکور أمتی حل لإناثہم](سنن ابن ماجہؒ:۳۵۹۵۔ سنن ابوداؤدؒ:۴۰۵۷)مردوں پر ریشم حرام ہے، یعنی وہ قدرتی ریشم جو ریشم کا کیڑا بناتا ہے۔کچھ مصنوعی کپڑے ہوتے ہیں جو ریشم جیسے نظر آتے ہیں،مگر ان میں قدرتی ریشم نہیں ہوتا۔ ان کا استعمال مباح ہے۔
۴-غیر مسلم ملتوں اور قوموں کا مخصوص مذہبی لباس نہ ہو۔ اگر کوئی مسلمان ایسا لباس پہنتا ہے تو یہ حرام ہے۔ مثال کے طور پر عیسائی پادری اور پوپ کا لباس پہننا، یا گلے میں صلیب ڈالنا۔ اسی طرح کوئی ایسا کپڑا پہننا بھی حرام ہے جس میں کسی خاص مذہب کی دینی علامت کا عکس چھپا ہو۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انھی میں سے ہے۔‘‘ [من تشبہ بقوم فہو منہم](سنن ابو داؤدؒ:۴۰۳۱)
اس حرام مشابہت میں کپڑے بھی آتے ہیں جن میں کسی خاص مذہب اور دھرم کی علامات ونشانات کڑھے ہوتے ہیں۔ غیر مسلم ادیان ومذاہب کا لباس اگر کوئی شخص زیب تن کرتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا ایمان کمزور ہے اور وہ احساسِ کہتری کا شکار ہے اور اسے دینِ حق کی قدر وقیمت کا احساس نہیں۔ حرام مشابہت میں وہ لباس داخل نہیں جو شہر کے تمام لوگ (مسلم وغیر مسلم) پہنتے ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے زمانے میں وہی لباس پہنا جو اس وقت مشرکین پہنتے تھے۔ البتہ کسی شہر کا عام لباس کسی وجہ سے شریعت کو ناپسند ہو تو اس وجہ سے وہ لباس نہیں پہنا جائے گا۔
۵-وہ لباس جسے پہن کر انسان کے اندر تکبر اور خودسری پیدا ہوجائے وہ حرام ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہے۔‘‘ [لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر](صحیح مسلمؒ:۹۱)
اسلام نے گھسٹتے ہوئے لباس کو پہننے سے یا ٹخنوں سے نیچے ازار یا پاجامہ رکھنے سے منع کیا ہے جب کہ اس کی وجہ کبر اورغرور ہو۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’جو مارے تکبر کے اپنا لباس گھسیٹے تو اللہ محشر کے دن اس کی طرف نگاہ نہیں کرے گا۔‘‘[من جر ثوبہ خیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ] (صحیح بخاریؒ:۳۴۶۵۔ صحیح مسلمؒ:۲۰۸۵)
اس لیے تشہیری لباس سے بھی اسلام نے روکا ہے۔ تشہیری لباس کا مطلب وہ پوشاک ہے جسے کوئی پہنے تو لوگوں کو عجیب اور نامانوس معلوم ہو، اس کے بارے میں باتیں کی جائیں اور اسے پہننے والا مشہور ہوجائے۔ ایسا کبھی لباس کے عجیب وغریب ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی اس لیے کہ لوگ لباس کی شکل اور رنگ کو ناپسند کرتے ہیں، اور کبھی اس لیے ہوتا ہے کہ اسے پہننے والے کے اندرانانیت اور رعونت پیدا ہوجاتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:’’جس نے دنیا میں لباسِ شہرت پہنا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے جامۂ ذلت پہنائے گا۔‘‘[من لبس ثوب شہرۃ فی الدنیا ألبسہ اللّٰہ ثوب مذلۃ یوم القیامۃ](مسند احمدؒ:۵۶۶۴۔ سنن ابن ماجہؒ:۳۶۰۷)
۶-وہ لباس فضول خرچی کے دائرے میں نہ آتا ہو۔ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’کھائو اور صدقہ کرو اور لباس پہنو،بغیر فضول خرچی کے اور بغیر گھمنڈ کیے۔‘‘[کلوا وتصدّقوا والبسوا فی غیر إسراف ولا مخیلۃ](سنن نسائیؒ:۲۵۵۹)
مگر یہ چیز مختلف افراد کے تئیں متنوع ہوسکتی ہے۔اللہ کا جو بندہ صاحبِ ثروت ہے وہ اپنی آمدنی اور معاشی حالت کے مطابق مناسب لباس خرید سکتا ہے اور اس کے مقابلے میں جس کی آمدنی کم ہے اور معاشی حالت بہتر نہیں ہے وہ اپنے حساب سے موافقِ حال لباس خرید سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی لباس کوئی غریب خریدے تو فضول خرچی میں آئے گا کیونکہ اسے خریدنے کی وجہ سے اس کی آمدنی پربے جا بار پڑ رہا ہے اور دوسروں کے لازم حقوق کی ادائیگی میں خلل واقع ہوتا ہے،مگر وہی لباس کوئی صاحبِ ثروت خریدے تو وہ فضول خرچی میں داخل نہیں ہوگا۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔