احترامِ آدمیت
ذکی الرحمٰن غازی مدنی جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
بہ حیثیتِ انسان،اسلام نے ہر فردِ بشر کی حرمت وعزت کا اعتراف کیا ہے،قطعِ نظر اس سے کہ وہ کس فکر کا حامل اور کس عقیدے کا پیرو کار ہے۔ارشادِ باری ہے
:{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا}(بنی اسرائیل، ۷۰)
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے اور اسے مناسب انداز میں کارِ خلافت کی انجام دہی کے لیے انتخاب واختیار کی آزادی بخشی ہے:{وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً}(بقرہ،۳۰)
’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘
اللہ کے فیصلے پر جب فرشتوں نے یہ اندیشہ ظاہرکیا کہ انسان زمین میں خوں ریزی کرے گا اور فساد مچائے گا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے نوعِ انسانی کو خلیفہ بنائے جانے کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ تعمیر وتسخیر اور خلافتِ ارضی کے فرائض کی بہ حسن وخوبی انجام دہی میں یہ خاکی نہاد انسان فرشتوں سے زیادہ علم اور قابلیت رکھتا ہے۔انسان کے علم کی عظمت دراصل یہ ہے کہ وہ ناموں کے ذریعے سے اشیاء کے علم کو اپنے ذہن کی گرفت میں لے آتا ہے۔ انسان کی تمام معلومات دراصل اسمائے اشیاء پر مشتمل ہیں اور یہی اس کا طرۂ امتیاز اور مایۂ نازہے۔
اللہ تعالیٰ نے عقیدے اور ایمان کی آزادی ہر انسان کو دی ہے:
{لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ}(بقرہ،۲۵۶)
’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔‘‘مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی اعتقادی اور اخلاقی وعملی نظام کسی پر زبردستی نہیں ٹھونسا جاسکتا۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جاسکے۔
انسانی جان کے احترام ہی کی غرض سے مثلے کو حرام کیا گیا۔ کسی کو ناحق تکلیف دینے،بلکہ محض ڈرانے سے بھی روکا گیا۔
انسان کی حرمتوں، خاص چیزوں، حقوق اور پراپرٹی وغیرہ کو اولین تحفظ بخشا گیا۔تمام انسانوں کو کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر قرار دیا گیا جن میں امتیاز اورتفاضل اگر ہو سکتا ہے تو صرف عملِ صالح اور تقوی کی بنا پر۔ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہو سکتی ہے تو صرف اخلاقی فضیلت۔
یعنی وہ دوسروں سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا،برائیوں سے بچنے والا اور نیکی وپاکیزگی کی راہ پر چلنے والا بنے۔ {یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ}(حجرات،۱۳)’’
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
ہر انسان کو اپنے عمل کا جواب دہ اور اپنی ذمے داری کا مکلف قرار دیا گیاہے۔ایک کے عمل کی ذمے داری دوسرے کے سرنہیں ڈالی جاسکتی۔
{ٍ وَلاَ تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْْہَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی }(انعام،۱۶۴)
’’ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمے دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔‘‘
{أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی٭ وَأَن لَّیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی }(نجم،۳۸-۳۹)’’
کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔‘‘اس آیت کریمہ سے تین اہم اصول برآمد ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا اپنے عمل کا پھل پائے گا۔
دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پاسکتا الّایہ کہ اس عمل میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی وعمل کے بغیر کچھ بھی نہیں پاسکتاہے۔(تفہیم القرآن, در تفسیر آیت)
اسلامی شریعت کی روشنی میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ ہر شخص انسان ہونے کے ناطے محترم اور معزز ہے۔ اسلامی شریعت کی نگاہ میں انسان کا احترام اس کی موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے،قطعِ نظر اس سے کہ وہ مسلمان تھا یا غیر مسلم۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اپنی سندوں سے حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ؒکا آنکھوں دیکھا حال نقل کیا ہے کہ جنگِ قادسیہ کے موقعے پر حضرت سہلؓ بن حنیف اور حضرت قیسؓ بن سعد ایک کھلے میدان میں تشریف فرما تھے۔ اچانک کچھ لوگ ایک میت لے کر وہاں سے گزرے۔جنازہ دیکھ کر یہ دونوں صحابی اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔ ان سے کہا گیا کہ یہ علاقائی لوگ یعنی اہلِ ذمہ ہیں، مسلمان نہیں ہیں۔
اس پر دونوں نے بہ یک زبان فرمایا: ’’اللہ کے نبیﷺ کے پاس بھی اسی طرح ایک جنازے کا گزر ہوا تھاتو آپ ہماری طرح اٹھ گئے تھے۔ آپﷺ سے بھی کسی نے کہا کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے، مگر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اس میں انسانی جان نہ تھی؟‘‘ [کان سہل بن حنیف وقیس بن سعد قاعدین بالقادسیۃ فمروا علیہما بجنازۃ فقاما فقیل لہما إنہا من أہل الاأرض أع من أہل الذمۃ فقالا إن النبیﷺ مرت بہ جنازۃ فقال فقیل لہ إنہا جنازۃ یہودی فقال ألیست نفسا](صحیح بخاریؒ:۱۲۵۰۔ صحیح مسلمؒ:۹۶۱)
انسانی جان کے احترام کے پیشِ نظر ہی اسلام نے دینی بنیادوں پر جبر واکراہ کی قطعی ممانعت کی ہے۔ حتی کہ اولاد پر بھی جبر واکراہ کرنے سے روکا ہے۔امام طبریؒ اور امام سیوطیؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ابو الحصین انصاریؓ صحابی کے دو بیٹے عہدِ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور مدینہ چھوڑ کر شام میں جا بسے تھے۔ ہجرت کے بعد یہ دونوں مدینے آئے اور یہاں رہنے لگے۔ باپ نے انہیں اسلام قبول کرانا چاہا اور ان کے انکار پر جبر واکراہ کرنے لگے۔
بعد ازاں اللہ کے رسولﷺ کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تاکہ حکمِ نبوی صادر ہوجائے اور وہ زبردستی بچوں کو مسلمان بنا لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے میری نسل کا کوئی فرد جہنم میں کیسے جاسکتا ہے؟ اسی پر سورۂ بقرہ کی آیت ’’لا إکراہ فی الدین‘‘ نازل ہوئی اور صاف فرمادیا گیا کہ دین کے معاملے میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے۔ بالآخر انہیں بچوں کو ان کے مذہب پر آزاد چھوڑناپڑا۔‘‘ [أن أبا الحصین الانصاری کان لہ ابنان قد تنصرا قبل الہجرۃ ولحقا بالشام ثم عادا إلی المدینۃ فلزمہما وأراد إجبارہما علی الإسلام فأبیا ثم احتکم إلی رسول اللہﷺ لیکرہہما علی الإسلام وکان حجۃ والدہما قولہ یا رسول اللہ أیدخل بعضی النار وأنا انظر،فأنزل اللہ تعالی لا اکراہ فی الدین فخلی سبیلہما] (تفسیر الطبریؒ:۳/۲۰-۲۲۔ الدر المنثور، سیوطیؒ:۱/ ۵۸۲- ۵۸۵۔ بعض روایتوں میں ان صحابی کا نام ابو الحصینؓ کی جگہ صرف حصینؓ ملتا ہے۔)