آندھرا پردیش میں اقلیتوں کےلئے سب پلان کی منظوری،ایک اچھی مثال!

آندھرا پردیش میں اقلیتوں کےلئے سب پلان کی منظوری،ایک اچھی مثال!

مولاناسرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد 

(     جنرل سیکرٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک ) 
           ملک میں اس وقت مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کی جوحالت ہے،اس سےہرذی شعورواقفیت رکھتاہے اور آپ بھی  بخوبی واقف ہیں،جسکا تفصیلی تذکرہ رنگاناتھ مشراکمیشن،سچرکمیٹی وغیرہ کی رپورٹ  میں موجود ہے،
آزادی کے بعد سے مسلسل یہاں کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ایک منظم پلان کے تحت محروم رکھاگیا،جسکا نتجہ یہ ہواکہ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت انتہائی پسماندگی کا شکارہوگئی اوردن بہ دن انکی حالت ناگفتہ بہی ہوتی جارہی ہے،ملک میں کانگریس سے لیکر اب تک جتنی پارٹیوں نے اقتدار کا مزہ چکھا،ساری پارٹیوں نے مسلمانوں سے دھوکہ کیاکسی نے بھی ایمانداری کاثبوت  نہیں دیا،ان سے ووٹ تو لیا لیکن انکی فلاح وبہبود اورپسماندگی کو دور کرنے کےلیے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایاگیا،جب جب مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند ہوئی،حکومت نے مسلمانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کےلئے ایک کمیشن بنائی،کمیٹی تشکیل دی لیکن جب اسی کمیٹی نے حقائق کااظہار کرتے ہوئے حکومت کو رپورٹ پیش کی تو بجائے اس پرعمل آوری کے  اس رپورٹ کوٹھنڈے بستے اورکچرے دان میں ڈال دیاگیا،سچر کمیٹی،رنگاناتھ مشرا کمیشن اوراس جیسی دیگر کمیٹیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ اگر حکومت سنجیدگی کے ساتھ ہرطبقے کے لوگوں کے ساتھ انصاف کرتی،مساوی ترقیات کے لئے کام کرتی تو آج بھارت کانقشہ ہی کچھ اور ہوتا،  لیکن اکثر حکومتوں نے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا،اپنے اپنے مفاد کےلئے مسلمانوں کاووٹ حاصل کیا اورپھر مسلمان ہی کوچارے کے طور پراستعمال کیا،حکومت اگر سنجیدہ ہوتی تو آج  اتنی بری حالت مسلمانوں کی نہ ہوتی، اب تو یہ ساری  سیاسی پارٹیوں کامعمول بن گیاہے کہ "وعدہ کرو اوربھول جاؤ”اس صف میں چھوٹی بڑی تقریباً تمام پارٹیاں شامل ہیں،لیکن کچھ پارٹیاں اب بھی ملک میں ایسی ہیں جو لوگوں سے کئے گئے اپنے وعدے کوعملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں، اور  حصول اقتدار کے بعد وہ اس پر سنجیدگی سے غور بھی کرتی ہیں،2014 کے بعد سے ہندوستان کی سیاست نے ایک  نیارخ     اپنالیا ہے،  شدت پسندی، نفرت وتعصب،عدم مساوات کی بڑھتی خلیج،اورایک خاص طبقے کو ٹارگیٹ   کرنے کا سلسلہ شروع کیاگیا جواب بھی عروج پر ہے، ہوا،  2014 ہی میں جنوبی ہند کی ایک اہم ریاست "آندھر پردیش”کی تقسیم عمل میں آئی،اور”تلنگانہ اسٹیٹ”کی شکل میں ملک   کی انتسیویں ریاست کا وجود ہوا،دونوں تیلگو ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں برسرِ اقتدار ہیں، تلنگانہ میں ٹی آرایس اورآندھرا پردیش میں وائی ایس آرکانگریس  پارٹی کی حکومت ہے،ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد  ہے،تلنگانہ میں 12 فیصد اور آندھرا پردیش میں تقریباً  10فیصد مسلم آبادی ہے، آندھرا پردیش کے چیف منسٹر وائی ایس جگن موہن ریڈی ہیں،جومتحدہ ریاست کے چیف منسٹر ڈاکٹر  راج شیکھر ریڈی کے صاحبزادے ہیں،راج شیکھر ریڈی کا شمار، ریاست کے مقبول ترین چیف منسٹروں میں ہوتاہے،   انھوں نے ہرطبقہ کی فلاح و بہبود کےلئے یکساں کام کیا،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحادکی برقراری     اوراسکے فروغ میں اہم کردار ادا کیا،یہی وجہ ہے کہ ریاست میں آج بھی لوگوں کی زبان پر انکاذکر خیر کثرت سے ہوتا ہے،حیدرآباد کے کئی معمر لوگوں کے مطابق راج شیکھر ریڈی جیسا ہمدرد اور غریب پرور سی ایم،ہم لوگوں نے ریاست میں نہیں دیکھا،2004 میں  جب وہ  پہلی بار متحدہ ریاست کے چیف منسٹر بنے تو اس وقت انھوں نے ریاست کے مسلمانوں کی حالت دیکھتے ہوئے ریزرویشن دینے کا وعدہ کیاتھا جسے انھوں نے پورا کیا اورآج بھی تلنگانہ میں چارفیصد ریزرویشن  جاری ہے جو انھی کا کارنامہ ہے، 2004 سے 2009 تک وہ ریاست   کے حکمراں اورچیف منسٹر رہے، 2009 میں ہی ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں وہ جاں بحق ہوگئے تھے، انکے انتقال کے بعد ریاست میں کانگریس پارٹی بری  طرح   خلفشار اورگروپ بندی کاشکارہوگئی،اسکے بعدسے مزید کمزور ہوتی چلی گئی، پھر ایسا کوئی قائد ریاست میں پیدا نہیں ہوا جوکانگریس کی نیاپارلگاسکے،نتیجتاًریاست میں کانگریس کو اقتدار گنوانا پڑا اورپھر ریاست کی تقسیم بھی عمل میں آئی، راج شیکھر ریڈی ایک زمینی سطح کے سیاست داں تھے،ریاست میں کانگریس کو اقتدار تک لانے میں انھوں  نے اہم  کردار اداکیاتھا،ریاست آندھرا پردیش میں انہی کے بیٹے جگن موہن ریڈی برسراقتدار ہیں،جگن موہن ریڈی نے اپنا سیاسی سفر 2004 میں شروع کیا،2009 میں وہ کانگریس  کے ٹکٹ پرضلع کڈپہ سے بحیثیت رکن پارلیمان منتخب ہوئے، 30 مئی 2019 کو وہ آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ بنے،اورانکی پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی،اسی درمیان انھوں نے اقلیتوں کےلئے سب پلان کاوعدہ کیاتھا،جسے انھوں نے اب پورا کردیاہے،اخباری رپورٹ کے مطابق "گذشتہ ہفتے آندھرا پردیش کی کابینہ نے سب پلان کی منظوری دیدی، وزیراعلیٰ جگن موہن ریڈی نے اپنے کابینی اجلاس میں ایس سی،ایس ٹی،اور بی سی طبقہ کے طرز پر اقلیتوں کےلئے بھی سب پلان کو منظوری دیکر،انکی ترقی کی راہیں ہموار کی ہیں،اس سب پلان کی منظوری کے بعد اب ریاست کی اقلیتوں کو تمام اسکیمات اور اورترقیاتی منصوبوں میں آبادی کے اعتبار سے حصہ ملے گا،کابینہ میں منظور ذیلی منصوبے کے تحت ان تمام اسکیمات اورترقیاتی کاموں میں، جن میں طبقہ واری اساس پر تقسیم کی گنجائش ہے،ان میں آبادی کے اعتبار سے ترقیاتی امور کے علاوہ بجٹ پر اقلیتوں کا حق ہوگا،عہدے داروں کے مطابق حکومت کی جانب سے اگر ایک لاکھ کروڑ،فلاح وبہبود کی اسکیموں کےلئے مختص کئے جاتے ہیں تو اقلیتی ذیلی منصوبے کے تحت اقلیتوں کےلئے زائد از 10ہزار کروڑ خرچ کیاجانا لازمی ہوجائےگا،حکومت کے اس فیصلے  کے بعد اقلیتوں میں جشن کا ماحول پیدا ہوگیا اور آندھرا پردیش کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جانب سے حکومت سے اظہارِ تشکر کیاجارہا ہے،ذرائع کے مطابق   کابینہ کے فیصلے سے ریاست کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،اقلیتوں کےلئے مختص ذیلی منصوبے کو 17محکمہ جات میں قابل عمل بنانے کو منظوری دی گئی،کابینی ذرائع کے مطابق آندھرا پردیش میں محکمہ بہبود، محکمہ تعلیم،محمکہ بلدی نظم ونسق،محکمہ عمارات وشوارع،محمکہ صحت کے علاوہ دیگر محکمہ جات میں اقلیتی ذیلی منصوبے کو قابل عمل بنایا جائےگا،  وائی ایس آر کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں عوام سے وعدہ کیاتھاکہ "اگر وائی ایس آر سی پی کو اقتدار حاصل ہوتاہے تو وہ اقلیتوں کےلئے آبادی کے اعتبار سے سب پلان کو منظوری دے گی،اور انکی مجموعی ترقی کےلئے اقدامات کئے جائیں گے،اقلیتوں کےلئے سب پلان کی تیاری سے قبل سچر کمیٹی،رنگا ناتھ مشرا کمیشن میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی صورتحال کا باریکی اورگہرائی سے جائزہ لیاگیا،اسکے علاوہ ذیلی منصوبے کی تخصیص کےلئے حکومت نے اقلیتوں کا سماجی اور معاشی سروے کرواتے ہوئے انکی زمینی صورتحال کا جائزہ لیا اوراسکی بنیاد پر ہی اس بات کا فیصلہ کیاگیا کہ اقلیتوں کی مجموعی ترقی کےلئے انھیں خصوصی سب پلان منظور کیاجائے تاکہ حکومت سے مختص رقومات کو اقلیتوں پر بھی لازمی خرچ کیا جاسکے،بتایا جاتاہے کہ حکومت آندھرا پردیش نے اس منصوبے کی تیاری کےلئے عہدے داروں کو ہدایت دی تھی اور ہدایات کے مطابق مختلف عہدے  داروں نے مسلسل جائزہ لیتے ہوئے اسے تیار کیا ہے،اس منصوبہ کی تیاری میں سابق پرنسپل سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود ڈاکٹر محمد الیاس رضوی کا کلیدی کردار رہا،آندھرا پردیش میں اقلیتوں کےلئے ایس سی،ایس ٹی،اوربی سی طبقات کے طرز پر ذیلی منصوبہ کو کابینہ کی منظوری کے بعد اسے اسمبلی میں پیش کرکے قانونی شکل دی جائےگی،حکمراں پارٹی کو یقین ہے کہ اس منصوبہ کی تخصیص کے سلسلے میں اپوزیشن کی جانب سے بھی کوئی مخالفت نہیں کی جائےگی اور نہ اس میں قانونی رکاوٹ پیدا ہوگی،ذیلی منصوبہ کی کابینہ میں منظوری کے بعد ریاست کے سرکردہ اقلیتی قائدین بالخصوص مسلمانوں نے کہا کہ چیف منسٹر جگن موہن ریڈی نے اپنے والد ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کی یاد تازہ کردی،جنھوں نے متحدہ آندھرا پردیش میں اقتدار ملنے کے بعد اپنا وعدہ پوراکرکے مسلمانوں کو 4فیصد تحفظات فراہم کرنے کی راہ ہموار کی تھی،عہدے داروں نے بتایاکہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی معاشی وسماجی حالت کو نظر میں رکھتے ہوئے انکے لئے ذیلی منصوبہ کی منظوری آئین کے دائرہ میں ہے،حکومت کا یہ فیصلہ ریاست کے تمام طبقات کی مساوی ترقی کو یقینی بنانے کی سمت اہم پیش رفت ہے”
یہ ہے ایک اخباری رپورٹ،حکومت کا یہ اقدام بلاشبہ قابل ستائش ہے اسکی سراہنا کی جانی چاہئے،یہ ملک سب کا ہے اور مساوی ترقیات کے ذریعے ہی ملک مضبوط ہوسکتاہے،کسی ایک طبقے کو نظرانداز کرکے،اسکے حقوق غصب کرکے،نفرت وتعصب کے ذریعے نہ ملک محفوظ رہ سکتاہے اور نہ ہی اسکی ترقی کاخواب دیکھاجاسکتاہے، ملک بھر میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل ساری عوام اور مسلمانوں سے خوش کن اور مخصوص وعدے تو کرتی ہیں اوراسکے ذریعے ووٹ حاصل کرلیا جاتاہے لیکن جب ان وعدوں کو پورا کرنے کےلئے یاددہانی کروائی جاتی ہے اورانھیں توجہ دلائی جاتی ہے تو ایسے موقع پر یاتو ٹال مٹول سے کام لیاجاتا ہے یاپھر انھیں یکسر فراموش کردیاجاتا ہے،سیاسی پارٹیوں کا یہ رویہ افسوسناک ہے، انھیں  یہ روش ترک کرنے کی ضرورت ہے،اور اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کےلئے لائحہ عمل طےکرنے اوراسکو یقینی بناناچاہئے،ورنہ عوام کو ایسی تمام پارٹیوں کو سبق سکھانے کےلئے تیار رہنا چاہئے، جوپارٹیاں بے شمار وعدے کرتی ہیں،ہتھیلی میں جنت دکھاتی ہے،اقلیتوں سے انصاف کرنے کا تیقن دیتی ہے، لیکن جیت حاصل کرنے اوراقتدار ملنے کے بعد یہ وعدے   غائب ہوجاتے ہیں،ایسوں کوسبق سکھانے ضرورت ہے۔
جگن موہن ریڈی نے اپنے اس اقدام کے ذریعے سیاسی حوصلے اورعزم کا مظاہرہ کیاہے،جو بہرحال خوش آئند ہے اور دوسری پارٹیوں کےلئے ایک مثال بھی، وعدوں کی تکميل کےلئے چیف منسٹر آندھرا پردیش نے ایک سنجیدہ  کوشش کا آغاز کیاہے اورایک اچھی پیش رفت کرتے ہوئے دوسری ریاستوں کےلئے مثال قائم کی ہے،خود ہماری ریاست،تلنگانہ میں  کے سی آر نے مسلمانوں   سے درجنوں وعدے کئے لیکن سات سال گذرجانے کے بعد اب تک ان وعدوں کو پورا نہیں کیاگیا جس سے لوگوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے،جسکا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑے گا ورنہ کے سی آر وعدوں کی تکميل کےلئے قدم بڑھائیں اوراسکےلئے اقدام کریں، ضرورت  ہے کہ حکمراں پارٹیاں سیاسی مصلحت کاشکار ہوئے بغیر اپنے کئےگئے وعدوں کی تکمیل کےلئے سنجیدگی اورعزم وحوصلے کامظاہرہ کریں،متحدہ ریاست میں راج شیکھر ریڈی نے وزیراعلیٰ کی سیٹ سنبھالنے کے بعد جب حسب وعدہ مسلمانوں کو چار فیصد تحفظات فراہم کرنے کا اعلامیہ جاری کیاتھا تو اسوقت بھی قانونی رسہ کشی شروع ہوگئی تھی،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متحدہ ریاست میں اقلیتوں اورخاص طور سے مسلمانوں    کو چارفیصد تحفظات سے تعلیمی اوردوسرے شعبہ جات میں کافی فائدہ ہوا اور لوگوں نے استفادہ کیا، لہذا ضرورت ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور حکمراں جماعتیں مسلمانوں اوردیگر اقلیتوں کی ترقی کےلئے اسی طرح کے جرات مندانہ فیصلے اوراقدامات کرے،اسکے بغیر اقلیتوں اورپسماندہ طبقات کی ترقی ممکن نہیں،تمام سیاسی  جماعتوں   اورچیف منسٹروں کو ایسی جرات وہمت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اگر وہ انکے تئیں سنجیدہ اورمخلص ہیں؟نہیں تو اس وقت ایک نیاماڈل ملک میں چل رہاہے”مودی ماڈل”   اور”پھیکو ماڈل” یااسے آپ  "جملہ”ماڈل بھی کہہ سکتے ہیں، حکمراں   طبقے کے دلوں میں اگر چور نہیں ہے تو انھیں جگن ماڈل اپنانا چاہئے  ورنہ تو ایک دوسرا راستہ بھی ہے آپ جسے چاہیں اپنا لیں، ہاتھ کنگن کو آرسی کیاہے۔
اپنی راۓ یہاں لکھیں