ہندوستان کی تہذیب و ثقافت پر اسلام اور مسلمانوں کے اثرات

ہندوستان کی تہذیب و ثقافت پر اسلام اور مسلمانوں کے اثرات

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی 

جس طرح دو افراد باہم ساتھ رہنے کی وجہ سے شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک دوسرے کی خصوصیات اور صفات کا اثر قبول کرتے ہیں، اسی طرح جب دو قوموں اور دو مختلف افکار و نظریات اور تہذیبوں کا باہم اختلاط اور ٹکراؤ ہوتا ہے تو اثر پذیری اور اثر اندازی کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مسلمان بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں ، وہ یہاں اپنے ساتھ تہذیب و تمدن کی ایک بیش بہا دولت لے کر آئے ، ایسی دولت جس سے یہاں کی قومیں نا آشنا تھیں لیکن وہ خود بھی یہاں کے رسوم و رواج سے اپنا دامن بچا نہ سکے، اور اسلام قبول کرنے کے بعد نو مسلم قومیں بھی خود کو ان سے
بے تعلق نہ رکھ سکیں ۔
البتہ نظریات اور عقائد کی تاریخ میں اسلام اس اعتبار سے بھی ممتاز اور نمایاں ہے کہ اس نے دوسروں کو متأثر تو ضرور کیا ہے لیکن وہ خود کسی سے متأثر نہ ہوا۔ اس کا سرچشمہ صاف و شفاف ، محفوظ اور آمیزش سے پاک ہے۔ اس میں نہ تو کسی طرح کی ملاوٹ ہو سکی اور نہ آئندہ ہو سکتی ہے۔ کتاب و سنت کی تعلیمات و ہدایات بالکل خالص، محفوظ اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں ، ان میں نہ کوئی پیچیدگی ہے اور نہ پوشیدگی ۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہندوستانی زندگی کا ہر شعبہ اسلام اور مسلمانوں سے متأثر ہوا۔ قصر سلطانی ہو یا غریب کی جھونپڑی ، عامی ہو یا عالم ، عدالت ہو یا معاشرت ، خوشی کا موقع ہو یا غم کی حالت، عبادت و ریاضت ہو یا تہذیب و ثقافت، زندگی کا کون سا گوشہ ہے جہاں اس آفتاب عالم تاب کی کرنیں نہ پہنچی ہوں ۔ چنانچہ اس ہمہ گیر اثر اندازی کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر تارا چند کہتے ہیں:
ہندوستانی زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کے اثرات پڑے لیکن یہ اثرات رسم و رواج ، گھریلو زندگی، موسیقی، پوشاک و لباس ، کھانے پکانے کے طریقوں ، شادی بیاہ کے مراسم ، تیوہاروں ، میلوں اور مرہٹہ راجپوت اور سکھ والیان ریاست کے درباروں کے آداب میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔ (ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک جھلک ،/413 ، بیسویں جھلک، مرتبہ سید صباح الدین عبد الرحمان ، شائع کردہ معارف پریس اعظم گڑھ۔ )
نیز وہ لکھتے ہیں اس طرح ہندو مذہب ، ہندو آرٹ ، ہندو ادب، اور ہندو سائنس نے اسلامی اثرات قبول کرنے شروع کئے۔ (حوالہ مذکور / 412)
ہندوستانی زندگی اور تہذیب و تمدن پر اسلامی اثرات کی تحدید اور تعیین مشکل بلکہ ناممکن ہے، اس لیے انتخاب کے طور پر بعض بنیادی اثرات و احسانات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

 عقیدہ توحید

اسلام کی جس خصوصیت نے دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ عقیدہ توحید ہے۔ جسے اس طرح واضح اور صاف انداز میں پیش کیا گیا کہ شرک کے در آنے کے تمام روزن بند ہو گئے ۔ اللہ کی وحدانیت پر ٹھوس علمی اور عقلی دلائل فراہم کیے گئے ، قرآن حکیم کی ایک ہی دلیل اس قدر اثر انگیز اور پہاڑ کی طرح مستحکم ثابت ہوئی کہ عقل و خرد اور مشاہدہ کے لیے اس کی تردید محال ہو گئی ، سادہ الفاظ میں کہا گیا۔
لَوْ كَانَ فِيهِمَا الهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَنَا (الانبياء : 22)
زمین و آسمان میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتا تو دونوں درہم برہم ہو جاتے ۔
یہ سادہ اور مختصر دلیل ، دل و دماغ کی بساط پر آسمان کی طرح چھا گئی۔ پوری دنیا اس سے متأثر ہوئی ۔ شرک قابل نفرت چیز بن گئی، مشرک قومیں بھی شرک سے بیزاری کا اعلان کرنے لگیں اور شرکیہ عقائد کی تاویل و توجیہ کی جانے لگی۔ہندوستان جو شرک و بت پرستی کا گڑھ ہے، جہاں ہر کنکر شنکر بنا ہوا ہے، اور ہر خوشنما اور تعجب خیز ۔ ہر حیرت انگیز اور ہولناک چیز پرستش کے لائق ، یہاں تک کہ عضو تناسل اور کیڑے مکوڑے بھی معبودوں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ چھپن کروڑ دیوتا اور چھتیس کروڑ بھگوتی کی بھیڑ اور اوتار واد کی بھول بھلیوں میں اللہ واحد کا تصور گم ہو چکا تھا۔ ایسے ماحول میں اللہ واحد کی صدا کسی عجوبے سے کم نہیں تھی ، اور یقینی طور پر اہل مکہ کی طرح اہل ہند نے بھی کہا ہوگا:
ا جعل الآلهة إلها واحداً إن هذا لشي عجاب (ص: 5) ”
کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ صرف ایک معبود رہنے دیا ہے، واقعی یہ بڑی عجیب بات ہے۔”
لیکن آہستہ آہستہ تاریکی چھٹنے لگی۔ دنیا کی دیگر قوموں کی طرح یہاں کے لوگ بھی اس عقیدہ سے متاثر ہوئے ۔ عمومی طور پر ہندی قوم مشرکانہ عقائد اور بت پرستی کی تاویل اور توجیہ کر کے اسے توحید سے قریب تر ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگی ، اور اللہ کی عبادت کا تصور پیدا ہوا، اور ان میں بعض ایسی جماعتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے شرک و بت پرستی سے براءت کا اعلان کیا اور ایک معبود کی پرستش پر زور دیا۔ اس سلسلے میں سکھ مت ، کبیر پنتھ اور آریہ سماج خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ چنانچہ مشہور تاریخ داں پروفیسر کے ایم پانیکر کا بیان ہے: اور یہ بات تو واضح ہے کہ اس عہد میں ہندو مذہب پر اسلام کا گہرا اثر پڑا، ہندوستان میں خدا پرستی کا تصور اسلام ہی کی بدولت پیدا ہوا اور اس زمانہ کے تمام ہندو پیشواؤں نے اپنے دیوتاؤں کا نام چاہے جو کچھ بھی رکھا ہو، خدا پرستی ہی کی تعلیم دی ، یعنی خدا ایک ہے وہی عبادت کے لائق ہے اور اس کے ذریعہ ہم کو نجات مل سکتی ہے، بھگتی عقائد میں بھی خالص توحید پرستی ہے، اس کے پیرو مختلف دیوتاؤں کی پرستش ضرور کرتے ہیں لیکن ان کا عقید وہ ہے کہ شیو ہوں یا کرشن یا دیوی ہوں وہ سب ایک ہیں اور ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ ( ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک جھلک / 350)
:عقیدہ توحید کی وجہ سے پوری دنیا کو اور خصوصاً ہندوستان کو دو اہم فائدے حاصل ہوئے

 کائنات کی تسخیر 

شرک و بت پرستی کی وجہ سے انسان اوہام و خرافات کا شکار ہو کر دنیا کی ہر چیز سے خوف کھانے لگتا ہے۔ اس میں بزدلی اور کم ہمتی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہر طاقتور اور خوشنما چیز کو معبود اور لائق عبادت مان لینے کے بعد اس کی تسخیر ناممکن اور محال ہے کہ یہ تو معبود کو زیر کرنے کی خواہش ہے جو
مذہبی اعتبار سے نا قابل معافی جرم ہے۔ لیکن عقیدہ توحید نے یہ پیغام دیا کہ خالق و مالک صرف ایک ہی ہستی ہے اسی سے ڈرنا اور لو لگانا چاہیے، اس کے علاوہ دنیا کی تمام چیزیں مخلوق ہیں اور انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ اس عقیدہ کی وجہ سے انسان ہر خوف و خطر سے آزاد ہو گیا ، اسے چاند اور سورج پر کمندیں ڈالنے کا حوصلہ ملا ، اور نت نئے انکشافات کی جرأت و ہمت پیدا ہوئی۔

 جمہوریت

طلوع اسلام سے پہلے دنیا کی دیگر قوموں کی طرح بھارت باشی بھی سخت قسم کے مذہبی استبداد اور بادشاہت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ مذہب پر برہمن کی اجارہ داری تھی، اور بادشاہ ، خدا بنے بیٹھے تھے، ان کے خلاف کچھ کہنا معبود سے بغاوت کے مترادف تھا ، سوچ اور خیال پر پہرے لگے ہوئے تھے۔ دل و دماغ جسم اور مال ہر ایک پر بادشاہ اور برہمن کا قبضہ تھا۔
اور عقیدہ توحید نے بادشاہوں کے جلال و جبروت اور عظمت و خدائی کے طلسم کو توڑ دیا۔ انسانیت کے مقام کو اونچا کیا اور نوع انسانی کو بادشاہ کے ظلم و جور، اور چیرہ دستیوں اور پاپائیت اور برہمیت کے شکنجے سے آزادی دلائی، ملوکیت کا دور دورہ ختم ہوا اور جمہوریت و انسانی مساوات کا بول بالا ہوا۔ اسلام کی اس خصوصیت اور نوع انسانی پر اس عظیم احسان کا تذکرہ کرتے ہوئے سروجنی نائیڈو کہتی ہیں
یہ پہلا مذہب تھا جس نے جمہوریت کی تبلیغ کی اور اس پر عمل کیا، مسجد میں اذان کے ساتھ عبادت کرنے والے جمع ہو جاتے ہیں اور دن میں پانچ بار اللہ اکبر کے اعلان پر ایک ساتھ جھکتے ہیں۔ اسلامی جمہوریت پر عمل کرتے ہیں، میں نے بار بار محسوس کیا کہ اسلام اتحاد عمل سے ایک انسان کو دوسرے انسان کا بھائی بنا دیتا ہے ۔” (تہذیب و تمدن پر اسلام کے اثرات و احسانات / 28، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی)
حقیقت یہ ہے کہ عقیدہ توحید ہی کی وجہ سے دنیا جمہوریت سے آشنا ہوئی، اس کی وجہ سے احترام انسانیت اور مساوات کا درس ملا، توحید نے یہ سبق سکھایا کہ سب انسان اللہ کے بندے ہیں،اس کے سامنے سب برابر ہیں ، اور ہر ایک کے حقوق یکساں ہیں، اللہ کی حاکمیت اور اقتدار میں کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔

 عبادت و بندگی

ہندو مذہب میں انسان کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے، ان چار ذاتوں میں سے عبادت و بندگی صرف برہمن کا فریضہ ہے، نیز کوئی بھی مذہبی کام برہمن کے واسطے کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ چھتری کا کام یہ ہے کہ وہ رعایا کی حفاظت کرے، اور ویش کی ذمہ داری ہے کہ وہ مویشی کی سیوا کرے، اور شودر کا کام یہ ہے کہ وہ ان تینوں ذاتوں کی خدمت کرے، اسی میں اس کی مکتی اور نجات ہے۔ اس کے لیے عبادت، مجاہدہ، اور سنیاسی بننا پاپ ہے۔(دیکھئے :منوسمرتی باب 2 ص 97، ستیارتھ پرکاش، باب 5، ص 132)
چنانچہ رامائن کا مشہور واقعہ ہے کہ رام راجیہ میں کسی برہمن کا جوانی ہی میں انتقال ہو گیا، جبکہ اس سے پہلے برہمن جوانی میں نہیں مرتا تھا، جو اس کی دلیل تھی کہ راجیہ میں کوئی بڑا پاپ ہو رہا ہے۔ اس لیے اس کے متعلقین لاش کو ایوان سلطنت لائے اور اس پاپ کا پتہ لگانے کا مطالبہ کیا، رام جی پتہ لگانے نکلے، دوران سفر انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص کسی درخت کے سایہ میں گیان دھیان اور تپسیا میں مشغول ہے۔ رام جی نے پوچھا تم کون ہو اور تمہارا تعلق کسی ذات سے ہے؟ اس نے کہا رام میرا نام شمبھوک ہے اور شودر ذات سے ہوں، یہ سنتے ہی رام جی نے میان سے تلوار نکالی اور اس کے جسم کو سر کے بوجھ سے یہ کہہ کر ہلکا کر دیا کہ دنیا میں سب سے بڑا پاپ یہی ہے کہ ایک شودر گیان و دھیان میں مشغول ہے۔ اور سرتن سے جدا ہوتے ہی مردہ برہمن جی اٹھا اور دیوتاؤں نے رام پر پھول نچھاور کئے۔
لیکن آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ معاملہ الٹ چکا ہے۔ پست اور نچلی ذات کے لوگوں نے الگ سے اپنی عبادت گاہ بنالی ہے بلکہ برہمنوں کے مندر میں بھی داخل ہونے کی جرأت کر لیتے ہیں۔ اور ان میں بھی سادھو سنت پائے جاتے ہیں۔ خود سنت کبیر کا تعلق نچلی ذات سے تھا، اسی طرح مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیے کچھ حد تک برہمن کی اجارہ داری بھی ختم ہو چکی ہے، اور اللہ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہ رہی۔ یہ تبدیلی اسلام ہی کے زیر اثر پیدا ہوئی جس نے یہ پیغام دیا کہ تمام انسان اللہ کے بندے ہیں اور بندگی ہر ایک کا فریضہ زندگی ہے اور اس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ عبادت اور بندگی کے لیے برہمن ، یا کسی بھی طبقہ کو واسطہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام کے اس احسان کا تذکرہ کرتے ہوئے ، ڈاکٹر این. سی .مہتا لکھتے ہیں:
جب مغلوں نے ہند میں قدم رکھا اس دور میں مختلف قسم کی مذہبی تحریکات نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان تمام تحریکوں میں کم و بیش یہی غایت تھی کہ عوام الناس کا درجہ بلند کیا جائے۔ ان تحریکوں کے ذریعہ نچلے طبقے کے لوگ بھی محسوس کرنے لگے کہ جذبہ صادق کی بدولت ہم بھی اعلیٰ سے اعلیٰ شرفاء کے ہم سر ہو سکتے ہیں، بھگتی کا مذہب جس کے معنی عشق الہی کے ہیں۔ اسلام ہی کے سبب ہر دل عزیز ہوا۔”
(ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک جھلک / 321)

علمی آزادی اور وسعت

ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں سائنس اور پیشہ ورانہ علوم کی کوئی ترغیب اور حوصلہ افزائی نہیں ملتی ہے بلکہ یہ مذھب بھی ان مذاہب میں شامل ہے جو اس طرح کے علوم وفنون سے خائف تھے۔ اور جو ان کے عقیدہ کا منطقی نتیجہ ہے کیونکہ جو مذہب کائنات کے ہر ذرے کو لائق پرستش اور قابل بندگی سمجھتا ہو اس سے یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ اس سلسلے میں علم و تحقیق کی حوصلہ افزائی کرے گا ۔ کچھ روایات اور بعض حکایات کو مذہبی علم کی حیثیت دے دی گئی تھی اور اس پر بھی برہمن کی اجارہ داری تھی ، عورت اور شودر کے لیے اس کی تعلیم نا قابل معافی جرم تھا۔
:چنانچہ منوسمرتی میں ہے
عورتوں کے لیے مذہبی تعلیم کی ممانعت ہے۔ باب: 9 فقرہ : 18)
جو کوئی شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا اور جو کوئی اسے مذہبی مراسم ادا کرنا سکھلائے گا وہ اس شودر کے ساتھ ہی جہنم میں جائے گا .(باب :4 فقرہ:81)
اگر کوئی شودر بالارادہ وید کے الفاظ سن لے تو اس کے کان میں پگھلی ہوئی رانگ یا لاکھ ڈال دی جائے اور اگر وہ وید کی عبارت پڑھے تو اس کی زبان ہی کاٹ لی جائے اور اگر وہ یاد کرے تو اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں۔ ( گوتم 11:4،6)
یہ اسلام اور مسلمانوں ہی کی دین ہے کہ آج ہر شخص کو علم حاصل کرنے کی اجازت ہے خواہ مذہبی علوم ہوں یا دنیاوی ، مرد ہو یا عورت ، ذات اور نسل کے اعتبار سے پست اور رذیل سمجھا جاتا ہو یا اعلیٰ اور شریف، ہر شخص اس آب حیات سے سیراب ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ سنہرا موقع بھی آیا جب پست سمجھے جانے والے طبقہ کے ایک فرد کو یہ مقام ملا کہ وہ   ہندوستانی قانون کومدون اور مرتب کر سکے

ہندوستانی علوم

لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے مذہبی علوم کے علاوہ دوسری علمی سرگرمیاں نہیں تھیں، کہ یہ نا انصافی اور ناواقفیت کی بات ہوگی ۔ کیونکہ بعض ایسے علوم وفنون ہیں جن میں اہل ہند کی اولیت تسلیم شدہ ہے۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں یہ علوم وفنون رائج تھے: فلسفہ، حکمت، اقلیدس، ہیئت ، طب ، شاعری، موسیقی ، اور برائے نام جغرافیہ۔
البتہ یہ علوم بھی بعض طبقات تک محدود تھے۔ نیز دنیا کی دیگر قوموں نے ان علوم میں جو ترقی کی تھی یہاں کے لوگ اس سے ناواقف تھے، جیسا کہ تمدن ہند کا مصنف موسیو لیبان لکھتا ہے :
ہم نے تمدن عرب میں جتنے باب علوم وفنون پر لکھے ہیں ان کی توقع اس کتاب میں نہیں ہو سکتی ہے، چونکہ عربوں نے یونان اور روم کے قدیم علمی ذخیرے کو خود بہت ترقی دی اور اس کے بعد اس کو یورپ کے دارالعلوموں تک پہنچایا۔ اس لیے ہمیں ان کے زمانہ حکومت کی علمی ترقیوں میں ایک خاص دلچسپی تھی ، ہندوستانی علوم کی یہ حالت نہیں ہے۔ برخلاف اس کے، ان کے علوم کے متعلق جو قدیم رائے تھی اس میں بہت کچھ ترمیم ہوگئی ہے اور ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ ان کے علمی خیالات ان اقوام سے لئے گئے جن کے ساتھ ان کا تعلق پیدا ہوا اور خود ہندوؤں نے اس میں کچھ اضافہ نہیں کیا۔ جو کچھ ہم ہندوؤں کی دماغی حالت کے متعلق لکھ چکے ہیں اس سے بہ آسانی سمجھ میں آجائے گا کہ انھوں نے کیوں ان علوم میں جو انھیں باہر سے حاصل ہوئے ، ترقی نہیں کی ۔ ہندو دماغ جو فلسفہ میں نکتہ رس اور فنون میں تیز فہم ہے اس خاصیت سے بالکل عاری ہے جس کا نام مادہ تحقیق ہے اور جس کے اوپر علوم کا دارو مدار ہے۔۔۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندی علوم جن کی ابتداء پانچویں صدی عیسوی میں آریہ بھٹ کی ریاضیات سے ہوئی اور پھر ساتویں صدی میں برہم گپت نے اس پر اضافہ کیا اس زمانہ سے لے کر آج تک انہی مسائل سے بحث کرتے رہے جو ہند میں ان دو ذریعوں سے آئے، اس وقت ہمارے پاس ہندو علوم کی مشہور تصانیف موجود ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ خود ہندوؤں نے ان علوم میں زیادہ ترقی نہیں کی ۔ کسی زمانہ میں خیال کیا جاتا تھا کہ ہندوؤں کا علم ہیئت بہت کچھ کامل ہے اور قدیم ہے، لیکن اب یہ خیالات قائم نہیں رہے، ان پر بحث کرنا بے فائدہ ہوگا۔۔۔ اوپر جو کچھ بیان کیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں نے ان علوم میں کسی قسم کی جدت پیدا نہیں کی ، جب ان کی ذاتی تحقیقات کچھ نہیں ہیں تو پھر ان علوم سے بحث کرنا اور محض ایسے مسائل کا ذکر کرنا جو عربوں اور یونانیوں کی تحقیقات سے لیے گئے ہیں محض لا حاصل ہے۔(ہندوؤں کی علمی وتعلیمی ترقی میں مسلمان حکمرانوں کی کوششیں / 18-20، سید سلیمان ندوی، مطبوعہ خدابخش لائبریری،پٹنہ)
غرضیکہ ہندوستانی علوم بڑے گنے چنے تھے، اور وہ بھی مخصوص ہاتھوں میں مقید تھے۔
مسلمانوں نے آکر علوم وفنون کو وسعت دی اور قدیم علوم میں بیش بہا اضافے کئے۔ اور مخصوص ہاتھوں سے نکال کر تمام طبقات تک عام کر کے علمی آزادی بخشی ۔ علوم کے سلسلہ میں اہل ہند کو مسلمانوں کے ہاتھوں خاص کر ایک بیش بہا تحفہ ملا، جس سے یہاں کے لوگ تہی دامن تھے، اور وہ ہے علم تاریخ ، جس سے یہاں کے باشندے نا آشنا تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں: تاریخ وہ فن ہے جس کی طرف قدیم ہندو دماغ نے کبھی توجہ ہی نہیں کی، لیبان تو کہتا ہے کہ اس کے لیے ہندوؤں کا دماغ ناموزوں معلوم ہوتا ہے۔ آریہ ورت انسانیت کا
نہایت قدیم گہوارہ ہے، اگر یہاں انسانوں کے پچھلے تاریخی کاموں کو محفوظ رکھنے کی لیاقت ہوتی تو بہت سے قدیم عقیدے آج ہمارے لئے پیچیدہ نہ ہوتے ۔ ہندوستان کی پرانی داستان سننے کے لیے ہم کو یونان اور چین کے سیاحوں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ خود ہمارے گھروں میں اپنی دنیا کی پچھلی زندگی سے واقفیت حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ویدوں کے کہنہ اوراق، منو شاستر کی قانونی دفعات، مہا بھارت کے رنگین صفحات، رامائن کی پر درد کہانیاں اور اپنشد کی پیاری پیاری باتیں، ان میں سے
کوئی چیز قدیم ہندوستان کی تاریخ کا ہم کو پتہ نہیں دیتی ہے۔ آغاز عالم سے زمانہ اسلام تک ہندوستان میں جو سیاسی انقلابات ہوئے ، ملک کے صوبہ صوبہ پر جو حکمراں فرمانروائی کر رہے تھے، بڑے بڑے جو عالم، فاضل اور پنڈت پیدا ہوئے ان کے تاریخی حالات کا پتہ لگانا چاہو، صحیح تاریخ ولادت اور سوانح حیات چاہو تو قیاس کے سوا کوئی روشنی تمہاری رہنمائی نہ کر سکے گی، پرانوں سے رشیوں اور منیوں کے کچھ کچھ حالات معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ تاریخ نہیں ہے۔“ (حوالہ سابق )
لیکن جب مسلمانوں نے اس سرزمین پر قدم رکھا تو اس کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا،
تاریخ دانی اور تاریخ نگاری کا موسم بہار آگیا، مسلمانوں کو چھوڑیئے ، خود ہندوؤں میں اس فن کی تعلیم اور ترقی کے لیے ایک جوش پیدا ہو گیا ، اور ان میں باکمال اور ممتاز تاریخ داں پیدا ہوئے۔
تاریخ کے علاوہ فلسفہ، حکمت، اقلیدس، طب اور موسیقی وغیرہ کو بھی مسلمانوں نے وسعت دی اور اس میں قابل قدر اضافے کیے۔ واضح رہے کہ اہل ہند پہلے دوسروں کے علوم اور تہذیب و تمدن کے سلسلہ میں غیر روادار واقع ہوئے تھے، وہ اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہ تھے، چنانچہ جب مسلمان یہاں آئے تو سو دو سو برس تک وہ ان کی زبان سے کنارہ کش رہے، اور برہمنوں نے ان کی زبان سیکھنے کو ناروا ٹھہرایا، اشلوک تراشا گیا کہ مسلمانوں کی زبان سیکھنا اور جینیوں کے مندر میں جانا مست ہاتھی کے آگے پڑنے سے زیادہ خطر ناک ہے۔(ہندوؤں کی علمی اور تعلیمی ترقی میں مسلمان حکمرانوں کی کوششیں /22، بحوالہ ستیارتھ پرکاش سمولاس، 11)
لیکن رفتہ رفتہ وہ تنگ خیالی کے خول سے باہر نکلے اور دوسروں کے علوم سیکھنے کی طرف راغب ہوئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی حکومت کے قیام کے اول دن سے وہ انگریزی تعلیم کا آغاز کر دیتے ہیں، اور ساٹھ ستر برس کے اندر اندر تمام ہندوستان میں ایک غیر قومی زبان کے حصول کے لیے جگہ جگہ اسکول اور کالج کھل جاتے ہیں، اگر مسلمانوں کی وجہ سے ان کی ذہنیت تبدیل نہ ہوئی ہوتی تو اس زبان کے تعلق سے بھی نفرت ختم کرنے میں سو دو سو برس لگ جاتے اور اس کے نتیجے میں یہ قوم علمی ترقی میں جس قدر پیچھے ہوتی اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(حوالہ مذکور)

مساوات اور احترام انسانیت

اسلام کی آمد سے پہلے پوری دنیا میں رنگ و نسل اور علاقائیت کی کشمکش برپا تھی، یہود و نصاری میں سے ہر ایک خود کو خدا کا محبوب اور لاڈلا اور دنیا کی دیگر قوموں کو اپنا محکوم اور غلام سمجھتا تھا، کوئی اس خیال پر نازاں اور فرحاں تھا کہ اس کی رگوں میں الہی خون گردش کر رہا ہے، رومی قیصر کو خدا کا درجہ حاصل تھا اور چینی اپنے شہنشاہ کو آسمان زادہ مانتے تھے۔
ہندوستانی اس معاملہ میں بھی دنیا کی دیگر قوموں سے دو قدم آگے تھے، یہاں مذہبی اعتبار سے انسان کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا تھا۔ چنانچہ منو شاستر میں ہے
قادر مطلق نے دنیا کی بہبودی کے لیے اپنے منہ سے اور اپنے بازوؤں اور اپنی رانوں سے اور اپنے پیروں سے برہمن، چھتری، ویش اور شودر کو پیدا کیا۔ اور اس دنیا کی حفاظت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے لئے الگ الگ فرائض قرار دیئے۔ برہمنوں کے لیے وید کی تعلیم اور خود اپنے لیے اور دوسروں کے لیے دیوتاؤں کے چڑھا دے دینا اور دان دینا ، لینا کا فرض قرار دیا۔ چھتری کو اس نے حکم دیا کہ وہ خلقت کی حفاظت کرے، دان دے، چڑھاوے چڑھائے وید پڑھے اور خواہشات نفسانی میں نہ پڑے، ویش کو اس نے حکم دیا کہ مویشی کی سیوا کرے، دان دے، چڑھاوے چڑھائے، وید پڑھے، تجارت، لین دین اور زراعت کرے، اور شودر کا ایک ہی فریضہ ہے کہ وہ ان تینوں کی خدمت کرے۔ ( دیکھئے انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر / 63)
اس نظام میں برہمن کو ایسا مقام بخشا گیا کہ وہ ایک طرح سے روئے زمین کا خدا قرار پایا، چنانچہ منو شاستر میں کہا گیا ہے کہ برہمن دنیا کی تمام مخلوقات کا بادشاہ اور تمام کائنات کا مالک و مختار ہے۔ اسے یہ حق ہے کہ بوقت ضرورت زبردستی شودر کا مال لے لے، اور جس برہمن کو رگ وید یاد ہے وہ ہر طرح کے گناہ سے پاک ہے گرچہ وہ تینوں عالم کا ناس کر دے، یا کسی کا بھی کھانا کیوں نہ کھائے، اور برہمن کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی، بلکہ اس کے بدلے اس کا سر مونڈا جائے گا۔ چھتری اور ویش کا درجہ گرچہ شودر سے بلند ہے لیکن برہمن کے مقابلہ میں ان کی بھی کوئی حیثیت نہیں کہ بقول منو ” دس سال کی عمر کا برہمن اور سو سال کی عمر کا چھتری گویا آپس میں باپ بیٹے کا رشتہ رکھتے ہیں لیکن ان دونوں میں باپ برہمن ہے “
ان میں سب زیادہ پست حیثیت شودر کی ہے وہ کتے اور کوے سے بھی ذلیل تر ہے اس کے لیے مال و دولت جمع کرنا منع ہے کہ اس سے برہمنوں کو تکلیف ہوگی۔ وہ کسی برہمن کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتا ہے۔ اگر کسی نے اس کی جرأت کر لی تو اس کی سزا میں اس کے سرین کو کاٹ دیا جائے یا اسے ملک بدر کر دیا جائے، اگر وہ کسی برہمن کو گالی دے دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے ، اگر وہ یہ کہہ دے کہ کسی برہمن کو تعلیم دے سکتا ہے تو اسے کھولتا ہوا تیل پلایا جائے ، کتے ، بلی، مینڈک ، چھپکلی ، الو اور شودر کو مارنے کا کفارہ برابر ہے۔ یہ تمام دفعات منو شاستر میں موجود ہیں۔ نیز اس میں یہ بھی ہے کہ پیشہ وروں جیسے پارچہ باف ، قصاب، مہتر وغیرہ کو شہر میں قیام کی اجازت نہیں ہے، سورج نکلنے کے بعد وہ شہر آئیں اور دن ڈوبنے سے پہلے یہاں سے باہر نکل جائیں۔(دیکھئے: انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر / 63-66)
ایسے ماحول اور معاشرے میں مسلمان یہ صدائے دلنواز اور حیات آفریں پیغام لے کر آئے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدم (الاسراء: 70)
یقینا ہم نے تمام انسانوں کو عزت بخشی ہے۔“ یعنی بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے ہر انسان معزز اور مکرم ہے، یہاں نہ تو کوئی پیر سے پیدا ہے اور نہ کوئی منہ سے، نہ کوئی سورج کی اولاد ہے اور نہ چاند کی(برہمنوں کے بعض طبقے خود کو سورج اور چاند کی طرف منسوب کر کے سوریہ ونشی اور چندر ونشی کہلاتے ہیں۔) نہ کوئی آسمان زادہ ہے اور نہ کسی کی رگوں میں خدائی خون گردش کر رہا ہے، بلکہ عزت و احترام تمام انسانوں کا ایک پیدائشی حق ہے۔ نسلی اعتبار سے نہ کوئی شریف ہے نہ ذلیل ، نہ برتر ہے نہ کمتر، اس لیے کہ سارے انسان ایک ہی ہستی کی
اولاد ہیں، سارے جہان کے خالق اور مالک کا ارشاد ہے:
يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيراً وَنِسَاءً (النسا: 1)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک ذات سے پیدا کیا، اور اس سے اس کا
جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پیدا کئے۔
اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ تمام انسانوں کی اصل اور جڑ ایک ہے۔ رنگ ونسل، قبائل اور ممالک ایک ہی درخت کی مختلف شاخوں کی طرح ہیں ، ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک ہی ماں باپ کی مختلف اولاد اور بیٹے اور بیٹیاں۔ قبیلہ اور وطن کا اختلاف محض تعارف کا ذریعہ ہے کسی امتیاز اور تفوق کا سبب نہیں ، ارشاد ربانی ہے:
يَا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ انْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ الْقَاكُمْ. (الحجرات: 13)
“اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور گروہ اور قبیلہ اس لئے بنایا
تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سےزیادہ متقی ہے۔
اللہ کے آخری پیغامبر نے اپنے آخری اور وداعی حج کے موقعہ پر فرمایا:
يا أيُّها النّاسُ، ألا إنَّ ربَّكم واحدٌ، وإنَّ أباكم واحدٌ، ألا لا فَضْلَ لِعَربيٍّ على أعجَميٍّ، ولا لعَجَميٍّ على عرَبيٍّ، ولا أحمَرَ على أسوَدَ، ولا أسوَدَ على أحمَرَ إلّا بالتَّقْوى…).
( تخريج شرح الطحاوية (٥١٠) • رجاله ثقات، وإسناده صحيح • أخرجه أحمد (٢٣٤٨٩) باختلاف يسير، وأبو نعيم في ((حلية الأولياء)) (٣/١٠٠) مختصراً، ومسدد كما في ((إتحاف الخيرة المهرة)) للبوصيري (٣/٢٢٦) واللفظ له من حديث أبي نضرة رضي الله عنه).

اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، اور تم ایک ہی باپ کی اولاد ہو، سب کے باپ آدم ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں، اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے، کسی عربی کو غیر عربی پر اور کسی غیر عربی کو عربی پر کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقوی کے اعتبار سے ۔
انسانی تکریم اور مساوات کا یہ روح پرور اور حیات بخش فرمان محض زبانی جمع خرچ نہ تھا جیسا کہ مہذب کہلانے والی قوموں کے دستور میں اس طرح کے الفاظ تو ملتے ہیں لیکن حقیقت کی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، بلکہ مسلمانوں نے عملی طور پر زندگی کے تمام شعبوں میں اسے جاری و ساری کیا۔ جس کا اس گئی گزری حالت میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
نماز کے وقت تمام مسلمان بغیر کسی تفریق کے ایک ہی صف میں دست بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں، کوئی شخص اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی محسوس نہیں کرتا ہے کہ اس کے پہلو میں ایک ایسا شخص کیوں کھڑا ہے جو رنگ ونسل اور مال و جائیداد میں اس سے کمتر ہے۔
اورکسی بادشاہ، مالدار، سردار یا مذہبی پیشوا کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے۔
روزہ رکھنے میں بھی امیر ، غریب اور نسل کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ہر شخص کو بھوکا رہنا ہے اور یہ فریضہ ادا کرتا ہے، بلکہ حج تو ایک ایسا فریضہ ہے جس میں لباس کی تفریق بھی ختم کر دی جاتی ہے، ہر شخص ایک ہی لباس پہنے ہوئے ایک ہی صدا لگا رہا ہے۔
اسی طرح دیوانی اور فوجداری کے قانون میں بھی کوئی تفریق نہیں ہے، قاتل کو قتل کیا جائے گا خواہ اس کا تعلق کسی بھی خاندان اور نسل سے ہو اور مقتول گرچہ حد درجہ پست سمجھا جاتا ہو۔ چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، یا اس کا تعلق کسی بڑے خاندان سے ہو، غرض یہ کہ قانون کی نگاہ میں سب یکساں ہیں۔
مساوات ، انسان دوستی اور احترام انسانیت کی ان تعلیمات اور عملی طور پر مسلمانوں کی زندگیوں میں اس کے مشاہدہ نے یہاں کی قوموں میں ایک انقلاب برپا کر دیا، سعید اور پاکیزہ روحوں نے اپنے سینے کو قبول حق کے لیے کھول دیا اور جن کے اندر سے قبول حق کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی وہ بھی اس طبقاتی نظام میں اصلاح اور تبدیلی کرنے پر مجبور ہوئے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ایسی ذات اور پیشہ سے وابستہ افراد جو کبھی شہر میں قیام نہیں کر سکتے تھے آج مسند اقتدار پر فائز ہیں، اسلام کی اس اثر انگیزی کا اعتراف کرتے ہوئے جواہر لال نہرو لکھتے ہیں:
ہندوستان کی تاریخ میں شمال مغربی ہند کے فاتحین اور اسلام کی آمد کی بڑی اہمیت
ہے اس نے ہندو معاشرے کے فساد کو ظاہر کر دیا، اس نے طبقاتی نظام، چھوا، چھوت
اور ہندوستان کی دنیا سے علیحدگی کو بھی نمایاں کر دیا ، اسلامی اخوت اور مساوات نے جس پر مسلمانوں کا ایمان اور عمل تھا ہندوؤں کے ذہنوں پر بڑا گہرا اثر ڈالا، اور اس سے خاص طور پر وہ محروم لوگ زیادہ متاثر ہوئے جن پر ہندوستانی معاشرہ نے برابری
اور انسانی حقوق سے استفادہ کا دروازہ بند کر رکھا تھا ۔(تہذیب و تمدن پر اسلام کے اثرات / 45-46)
اور ڈاکٹر تارا چند کا بیان ہے کہ
” مسلمانوں کے اثر سے نہ صرف ہندوستان کی اقتصادی زندگی بلکہ یہاں کی معاشرت
اور سیاست میں بھی کافی انقلابات پیدا ہوئے ، اسلام کی معاشرتی زندگی جمہوریت پر مبنی ہے، اور مسلمانوں میں خاندان و نسل کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے، اس سے ہندو بھی متاثر ہوئے اور انھوں نے بھی معاشرتی بندشوں کو توڑ کر معاشرتی مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ (ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک جھلک /33)
اسلامی تعلیمات ہی کے زیر اثر ہندوؤں کے اندر سے بہت سی اصلاحی تحریکیں اٹھیں ، جیسے کبیر پنتھ، سکھ مت اور لنگایت وغیرہ، جنھوں نے پیدائش کی بنیاد پر شرافت کے فرضی خیال کو رد کر دیا، اور آریہ سماج وغیرہ اس غیر معقول طبقاتی نظام کی تاویل اور توجیہ کرکے اسے عقل سے قریب تر کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ڈاکٹر تارا چند کہتے ہیں :
ایک اور مکتب فکر سنتوں کا بھی تھا جس نے عوام کی زبان استعمال کی ، یہ لوگ احترام انسانیت پر بہت زور دیتے تھے ان کی تعلیمات پر اسلام کا اثر واضح طور پر موجود تھا.(تہذیب و تمدن پر اسلام کے اثرات / 30)

عورت کے حقوق کی بازیابی

ہندوستانی تہذیب میں عورت ایک دیوی کی حیثیت سے دکھائی دیتی ہے، وہ شکتی کا روپ اور قوت کا مظہر اور پرستش کے لائق ہے، لیکن اس کی یہ حیثیت صرف بتکدے تک محدود ہے، عام انسانی زندگی میں وہ شودر کے برابر اور پیر کی جوتی سمجھی جاتی ہے۔ شادی سے پہلے وہ باپ، بھائی وغیرہ کی محکوم ہوتی ہے اور بیاہ کے بعد شوہر کی نوکرانی ۔ وراثت میں اس کا کوئی حق نہیں ہے، شوہر کے مرنے کے بعد سب سے بڑے لڑکے کے ماتحت زندگی گزارنی ہوگی غرضیکہ وہ کسی حال میں خود مختار نہیں ہو سکتی ہے، اسے ہمیشہ ماتحت رہ کر زندگی گزارنی ہے(منو سمرتی .باب :147/5)
تعلیم کا دروازہ اس کے لئے بند ہے اور عبادت و ریاضت اور قربانی اس کے لیے پاپ ہے۔ چنانچہ منو شاستر میں ہے :
عورت کے لیے قربانی اور برت کرنا گناہ ہے ، صرف شوہر کی خدمت کرنی چاہئے، عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کے مرنے کے بعد دوسرے شوہر کا نام بھی نہ لیوے، کم خوراکی کے ساتھ اپنی زندگی کے دن پورے کرے۔” (منو سمرتی باب 157/5)
چونکہ اس کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے اس لیے خاوند کی موت کے بعد چتا میں اس کے ساتھ جل کر اپنی زندگی ختم کر دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ روحانی اعتبار سے ناقابل اعتبار بلکہ تقریبا بے روح ہے، موت کے بعد مردوں کی نیکیوں کے بغیر اس کی نجات نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کے برخلاف اسلام کا پیغام ہے کہ عورت بھی مرد کی طرح قابل احترام اور معزز و مکرم ہے۔ عزت و سربلندی کا معیار مرد ہونا نہیں ہے، بلکہ نیکی اور خدا ترسی ہے، جو شخص اس معیار پر پورا اترے گا وہ اللہ کی نگاہ میں قابل قدر ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔ ارشاد ربانی ہے:
ومن يعمل من الصالحات من ذكر أو أنثى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِك يدخلون الجنة ولا يُظْلَمُونَ نَقيراً.( النساء 123)
جو شخص نیک کام کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مؤمن ہو سو یہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔
دوسری جگہ کہا گیا ہے:
فاستجاب لهم ربهم إنى لا أضيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ انثی بَعْضُكُمْ مِّن بَعْضٍ۔(آل عمران :195)
ان کے رب نے ان کی درخواست منظور کر لی۔ اس وجہ سے کہ کسی کام کرنے والے کے کام کو ضائع نہیں کرتا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، تم آپس میں ایک دوسرے کے جزو ہو۔
دعوتی، تبلیغی اور احتساب جیسے نازک کام میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی شریک رکھا گیا ہے:
والْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بَعْضُهُمُ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ.(التوبة: 71)
مسلمان مرد اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے (دینی) رفیق ہیں، نیک باتوں کا
حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں۔”
جب اچھے صفات اور دین کے اہم شعبوں کا بیان ہوتا ہے تو قرآن مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی تذکرہ کرتا ہے، محض مردوں کے ذکر پر اکتفا نہیں کرتا کہ اس پر عورتوں کو قیاس کر لیا جائے بلکہ صراحتا عورتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے گرچہ اس کی وجہ سے بات طویل ہی کیوں نہ ہو جائے ،اس لئے کہ عورتوں کو ان صفات میں مردوں پر قیاس کرنے کے لئے لوگ عام طور پر آمادہ نہیں ہوتے۔ وہ دین و دنیا کے تمام شعبوں میں مردوں کے ساتھ شریک ہے۔ دونوں کے حقوق برابر ہیں۔ عقائد و عبادات، معاملات، اخلاقیات اور ضابطہ فوجداری میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے، اپنی زندگی کے کسی بھی معاملہ میں فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں، اپنے باپ، بھائی اور شوہر وغیرہ کے ترکہ کی حقدار ہے اور مالکانہ حقوق رکھتی ہے، اسے تجارت اور دیگر معاشی ذرائع استعمال کرنے کی اجازت ہے، اور اپنی کمائی کی مالک ہے، ارشاد باری ہے:
للرجالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكَسَبُوا وَلِلنسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اکتسبنَ وإسئلوا الله من فضله(النساء: 32)
مردوں کے لیے اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کے لیے اپنی کمائی کا حصہ ہے اور تم
دونوں اللہ سے اس کے فضل کی درخواست کیا کرو۔”
ہر طرح کی تعلیم کی اسے مکمل آزادی حاصل ہے، مذہبی معاملات اور معاشرہ کی تعمیر میں پوری طرح حصہ لے سکتی ہے۔ غرضیکہ تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں دونوں شریک ہیں۔ اسلامی قانون میں کہیں بھی مرد کو برتر اور عورت کو کمتر اور ذلیل سمجھ کر قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔ بعض معاملات میں اگر کہیں کچھ فرق ہے تو اس میں بھی عورت ہی کی رعایت ہے، جس فرق کا تقاضا خود اس کی فطرت کرتی ہے۔
اسلام کی ان اثر انگیز اور فطرت سے ہم آہنگ تعلیمات سے باشندگان ہند بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اور اس کی وجہ سے یہاں دور رس تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ عورتوں کے مستقل وجود اور حیثیت کو تسلیم کیا گیا، جس کی وجہ سے عورتوں میں بھی تعلیم کا رواج ہوا۔ اور زندگی کی سرگرمیوں میں وہ حصہ لینے لگیں، اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے ان میں بیداری پیدا ہوئی ، اور نکاح بیوگان کا کچھ رواج ہوا۔

ستی کا خاتمہ

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ہندو دھرم میں عورت کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے باپ ، بھائی اور شوہر کے اختیار میں رہتی ہے، اور اسی لیے شوہر کی وفات کے بعد اسے جینے کا حق نہیں رہ جاتا۔ اگر وہ زندہ رہنا چاہتی ہے تو اس کی زندگی ہزار موت سے بدتر ہوتی ہے، سماج اور سوسائٹی میں وہ نحوست کی علامت سمجھی جاتی ہے، خوشی کی محفل میں اسے شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ ہر چہار جانب سے طعن و تشنیع کی بارش ہوتی رہتی ہے، اس کی زندگی اس درجہ اندوہناک ہوتی ہے کہ اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ جل کر راکھ ہو جائے ۔ مذہبی اعتبار سے اسے شاہکار سمجھا گیا کہ اس کے ذریعہ عورت کی بے نفسی اور ایثار کا اظہار ہوتا ہے، یہ اس کی محبت اور وفاداری کی آتشیں آزمائش ہے۔ ماحول اور معاشرہ کے خوف، مستقبل کی تاریک اور اندوہناک زندگی کے تصور سے اور مذہبی روایات کی وجہ سے عورت مجبوراً شوہر
کی چتا میں کودنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔
چونکہ مسلمان اسلامی قانون کے رو سے مذہبی آزادی کے قائل تھے، اس لئے انھوں نے قانونی طور پر اس رسم بد پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ تاہم اس سلسلہ میں ذہنی تبدیلی کی کوشش کامیاب ہوئی، یہاں تک کہ انگریزوں نے جب اس وحشیانہ رسم کو قانونا جرم قرار دیا تو ہندوؤں کی طرف سے اس کی مخالفت میں کسی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ کسی مذہبی چیز پر دست اندازی پر کسی مخالفت کا سامنا نہ کرنا مسلمانوں ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ مشہور فرانسیسی سیاح ڈاکٹر برنیر (Bernier) جس نے شاہجہاں کے عہد میں ہندوستان کی سیاحت کی تھی ، اس سلسلہ میں مسلمانوں کے طرز عمل کے متعلق لکھتا ہے:
آج کل پہلے کی بہ نسبت ستی کی تعداد کم ہوگئی ہے، کیونکہ مسلمان جو اس ملک کے فرمانروا ہیں اس وحشیانہ رسم کو نیست و نابود کرنے میں حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر چہ اس کے امتناع کے واسطہ کوئی قانون مقرر کیا ہوا نہیں ہے، کیونکہ ان کی پالیسی کا یہ ایک جز ہے کہ ہندوؤں کی خصوصیات میں جن کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے دست اندازی کرنا مناسب نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے مذہبی رسوم کو بجا لانے میں ان کو آزادی دیتے ہیں تاہم ستی کی رسم کو بعض ایچ پیچ کے طریقوں سے روکتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی عورت بغیر اجازت اپنے صوبے کے حاکم کے ستی نہیں ہو سکتی ہے۔ اور صوبے دار ہرگز اجازت نہیں دیتا جب تک کہ قطعی طور پر اس کو یقین نہیں ہو جاتا کہ وہ اپنے ارادے سے ہرگز باز نہیں آئے گی، صوبے دار بیوہ کو بحث ومباحثہ سے سمجھاتا اور بہت سے وعدہ وعید کرتا اور اگر اس کی فہمائش اور تدبیریں کار گر نہیں ہوتیں تو کبھی ایسا بھی کرتا کہ اپنے محل سرا میں بھیج دیتا تا کہ بیگمات بھی اس کو اپنے طور پر سمجھائیں۔ (تہذیب و تمدن پر اسلام کے اثرات واحسانات / 77-78)

 رواداری اور ملکی وحدت و سالمیت

ہندو قوم ایک غیر روادار قوم ہے، وہ دوسری قوم سے شدید نفرت رکھتی ہے، اسے ملیچھ اور ناپاک تصور کرتی ہے جس کی وجہ سے اس کے سایہ تک سے گریز کرتی ہے، اقتدار اور قوت میں ہوتے ہوئے وہ کسی دوسری قوم کو برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ چنانچہ ایک مشہور اوتار پرشو رام بھی ہیں جو ہر وقت پھرسا لئے پھرتے تھے، اس لیے وہ ان کے نام کا ایک حصہ بن گیا۔ جہاں کسی سے ناراض ہوئے اس کا سرتن سے جدا کر دیا۔ ہندو روایت کے مطابق انھوں نے اٹھارہ بار روئے زمین سے چھتریوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی اور آریہ قوم نے یہاں کے اصل باشندوں اور ہندوؤں نے بدھشٹوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
ایسی قوم کے متعلق یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر روادار اور وسیع الخیال ہو جائے گی کہ وہ دوسری قوموں کے ساتھ مل جل کر کام کرے گی۔ اس کے ساتھ شاگردی اور استاذی کا رشتہ استوار کرے گی، بلکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کے برتن میں کھانا کھائے گی۔ ہندوؤں میں یہ تبدیلی بھی مسلمانوں کی بدولت آئی ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ ہندی قوم مختلف طبقات میں بٹی ہوئی ہے، جسے مذہب کی پشت پناہی حاصل ہے اور یہ ایک فطری اور لازمی بات ہے کہ جن قوموں میں یہ تصور ہو ان میں وحدت اور یکجہتی کو باقی رکھنا بڑا دشوار بلکہ تقریبا ناممکن ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ ان میں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ قبیلہ اور خاندان میں بٹ جاتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان جب اس ملک میں داخل ہوئے اس وقت ہندو معاشرہ میں ذات برادری کی تقسیم اپنی آخری سرحد کو چھو رہی تھی، چھتری اور ویش ذیلی ذاتوں میں بٹ کر اپنی حیثیت کھو چکے تھے۔ راجپوتوں اور برہمنوں میں بھی بے شمار ذاتیں پیدا ہو چکی تھیں، ہر ذات اپنے کو دوسرے سے بلند تر خیال کرتی اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے کی روادار نہ تھی ، ہندوستان مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا، ملکی وحدت اور اکھنڈ بھارت کا کوئی تصور نہ تھا، کیونکہ یہ قبائلی اور طبقاتی روح کے خلاف ہے، اس لیے کوئی کسی کا ماتحت بننے کے لیے آمادہ نہ تھا۔ ہر چھوٹی بڑی ریاست کا راجا اپنے اقتدار کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ (دیکھئے ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک جھلک / 313)
ملکی وحدت اور سالمیت کا تصور اسلام کا عطیہ ہے جس کے اثر سے ہمارا ملک اس وقت
متحد ہے، لیکن پھر آہستہ آہستہ طبقاتی اور قبائلی و لسانی روح بیدار ہورہی ہے، اور ہندوستانی سیاست کے سہارے وہ اپنے بال و پر نکال رہی ہے، جس کی وجہ سے دوبارہ ملکی سالمیت خطرہ سے دوچار ہے۔

صنعت و حرفت ، لباس و پوشاک، غذا اور فن تعمیر

مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہی یہاں کپڑے وغیرہ کی صنعت قائم تھی ، البتہ مسلمانوں نے خصوصی دلچسپی لے کر اسے نمایاں ترقی دی، چنانچہ آج بھی صنعت و حرفت سے زیادہ تر تعلق مسلمانوں ہی کا ہے۔ اسی طرح چمڑے کی رنگائی اور شکر بنانے کی صنعت کی ترقی میں مسلمانوں نے نمایاں کردار ادا کیا، اور کاغذ کی صنعت تو انہی کی رہین منت ہے۔ ان سے پہلے یہاں کاغذ سازی کا کام نہیں ہوتا تھا۔
سب سے اہم چیز یہ ہے کہ مسلمانوں نے کپڑے کے استعمال کا طریقہ سکھلایا، مسلمانوں سے پہلے یہاں عام طور پر مرد و عورت دو چادر استعمال کرتے تھے، جس میں سے ایک کپڑا کمر سے باندھتے تھے اور دوسرا اوپر ڈال لیتے تھے ۔(دیکھئے: ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک جھلک /8)
مسلمانوں نے قمیص، شیروانی ، پاجامہ اور شلوار ، غرارہ اور دوپٹے کو رواج دیا جس سے ستر پوشی بھی ہوتی ہے اور خوبصورتی میں اضافہ بھی۔
اسی طرح لذیذ کھانوں کی ایجاد کا سہرا بھی مسلمانوں کے سر ہے۔ فن تعمیر کے سلسلہ میں مسلمانوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہر شخص سر کی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
سر جادو ناتھ سرکار نے ایک لکچر میں مسلمانوں کے اثرات و احسانات کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
1- بیرونی دنیا سے تعلقات کی بحالی اور بحری فوج اور بحری تجارت کا احیاء۔
2-ہندوستان کے بڑے حصے بالخصوص بندھیاچل کے شمال میں اندرونی امن وامان۔
3-ایک ہی طرح کا نظم و نسق قائم ہونے کی وجہ سے انتظامی یکسانیت۔
4-تمام قوموں کے اعلیٰ طبقوں میں طرز معاشرت اور لباس کی یکسانیت۔
5-انڈو اسلامی آرٹ، فن تعمیر کا نیا طرز اور اعلیٰ قسم کی صنعتوں کا فروغ ( مثلا شال سازی، ململ سازی، قالین سازی)
6-ایک عام لنگوافرینکا ( ملکی زبان ) جسے اردو، ہندوستانی یا ریختہ کہتے تھے۔
7-بادشاہان دہلی کے ماتحت امن و امان اور اقتصادی بہبودی کی وجہ سے صوبہ جاتی ادبیات کا آغاز۔
8-توحید کا احیاء اور تصوف کی ترقی۔
9-تاریخی کتب کی تصنیف کا آغاز ۔
10-فنون جنگ اور عام تہذیب و تمدن میں ترقی ۔(دیکھئے آب کوثر / 468، مطبوعہ تاج کمپنی، دہلی)
★★
شائع شدہ: ماہنامہ زندگی نو دہلی۔جون 2004ء

اپنی راۓ یہاں لکھیں