کسانوں کی فتح یا حکومت کا ماسٹر اسٹروک
(مولانا صابر حسین ندوی)
ماسٹر اسٹروک ایک ایسا داؤ جو سب پر بھاری پڑ جائے۔ آپ کرکٹ میچ کھیلتے ہوں گے؛ نہیں تو دیکھتے ضرور ہوں گے! آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک بلے باز میدان میں آتا ہے، مگر وہ دیکھتا ہے کہ مدمقابل گیندباز بہت زیادہ شارپ ہے، اس کی گوگلی، رفتار اور سوینگ کا سامنا نہیں کیا جاسکتا، کھیل سنگین موڑ پر بھی ہے، ہر کسی کی امید اس پر ٹکی ہوئی ہے، اب وہ کیا کرے گا؟ دو کام ہوسکتے ہیں، پہلا یہ کہ وہ جلد بازی دکھائے جو یقیناً نادانی کی بات ہوتی ہے، جلد بازی میں صلاحیت مند کی صلاحیت بھی ماند پڑ جاتی ہے، جوش وجنون انسان کو سوچنے سمجھنے اور منصوبہ بنانے سے قاصر رکھتے ہیں، فوری ری ایکشن کمزوری کی علامت ہوتی ہے، کچی سوچ اور بالی عمر کی نشانی ہوتی ہے، مگر ایک دوسرا کام ہوسکتا ہے جو عالی ہمت، بلند فکر اور مضبوط انسان کو جچتا ہے، وہ بلے باز یا تو اس گیند باز کو پوری طرح ڈفینس، مدافعاتی طور پر کھیلے اور اس کا اوور گزر جانے دے، مزید وہ اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے کسی ایک کمزور گیند کا انتظار کرے اور جوں ہی موقع ملے گینبد میدان سے باہر – – – – یہ ماسٹر اسٹروک پچھلی تمام خالی گیندوں کا کفایہ کردیتے ہیں، اور انسان کا کھیل نکھر کر سامنے آتا ہے۔ یہ صلاحیت ہر کسی میں نہیں ہوتی اور جن میں ہوتی ہے وہی وقت کا عظیم بلے باز کہلاتا ہے۔ سیاست بھی اس سے کم نہیں، موجودہ حکومت نرم گرم ہر رویہ جانتی ہے۔ اس نے یہودیت کے سینے سے دودھ پیا ہے اور عیسائیت کے سایہ میں تربیت پائی ہے، طبقاتی ذہن کے ساتھ یہ اس قدر غلیظ فطرت ہو چکے ہیں کہ ہر ہتھکنڈا بڑی ہنرمندی کے ساتھ آزماتے ہیں، بی جے پی کی پوری تاریخ اس تناظر میں دیکھی جاسکتی ہے، بالخصوص ٢٠١٤ء کے بعد کا دور قابل مطالعہ ہے۔فی الوقت آپ کسانوں کے مسئلے پر ہی دیکھ لیجیے! ایک سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، مرکزی حکومت نے تین بنیادی قوانین پیش کئے تھے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:
(١) پہلے تو دی فارمرز پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیلیسیٹیشن) ٢٠٢٠ء کے قانون کے مطابق کسان اے پی ایم سی یعنی ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹ کمیٹی کے ذریعہ مطلع شدہ منڈیوں کے باہر اپنی پیداوار دوسری ریاستوں کو ٹیکس ادا کئے بغیر فروخت کر سکتے تھے۔
(٢) دوسرا قانون تھا فارمرز اگریمنٹ آن پرائز انشورنس اینڈ فارم سروس ایکٹ ٢٠٢٠ء (ایمپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن)۔ اس کے مطابق کسان کانٹرکٹ فارمنگ یعنی معاہدہ کاشتکاری کر سکتے ہیں اور براہ راست اس کی مارکیٹنگ بھی کر سکتے ہیں۔
(٣) تیسرا قانون تھا سینشیل کموڈیٹیز (امینڈمنٹ) ایکٹ 2020۔ اس میں پیداوار، ذخیرہ کرنا، اناج، دال، کھانے کے تیل اور پیاز کو غیر معمولی حالات میں فروخت کے علاوہ کنٹرول سے باہر کر دیا گیا ہے ۔
ظاہر ہے ان قوانین میں ایک ہی مرکزی بات ہے، وہ یہ کہ کسان محنت کریں گے اور ان کا خون پرائیویٹ سیکٹر والے چوسیں گے۔کسانوں نے یہ بات سمجھ لی تھی، ملک بھر میں امبانی، اڈانی اور دیگر اہل ثروت کی مشتبہ حرکات سے بھی اس کو تقویت مل چکی تھی۔ چنانچہ کسانوں نے احتجاج کر کے حکومت کی ناک میں دم کر دیا ہے۔ سرکار اور کسانوں کے درمیان بیسیوں دور کی بات چیت ہوئی، مصالحتی ٹیبل پر سب ساتھ بیٹھے، چکنی چپڑی باتیں بھی ہوئیں، مگر نیت کی کھوٹ اس قدر واضح ہوچکی تھی کہ کوئی راہ نہ نکلی، حکومت اس بات پر اٹل تھی کہ تینوں مجوزہ زرعی قوانین کو واپس نہ لیا جائے گا۔ امت شاہ اور دیگر سرکاری اہلکار کے ساتھ ساتھ متشددانہ مزاج رکھنے والے یا یوں کہیں کہ سنگھ کی گود میں پلنے والوں نے بہت ہی متکبرانہ باتیں کہی تھیں، بلکہ سرکاری سطح پر اس آندولن کو توڑنے اور ناکام کرنے کیلئے سارے حربے استعمال کیے تھے، مگر بات کچھ اور ہے، ٢٠٢٤ء میں مرکز اور اگلے سال اتر پردیش، پنجاب جیسے اہم صوبوں میں انتخابات ہیں۔یہ مودی جی کی سرکار ہے، انہیں معلوم ہے کہ اگر کسان ناراض رہے تو اترہردیش میں دوبارہ حکومت بنانا مشکل ہے۔ کسانوں کے سب سے مقبول نیتا ٹکیت کا تعلق وہیں سے ہے، جن پر ہر ایک کسان جان چھڑکتا ہے، ان کی ایک آواز پر بھارت بند سے لیکر چکا جام تک کرنے اور کھیتوں میں لگی فصل کا نقصان بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں، مزید ظلم یہ کہ ان دنوں وہ اکھیلیش یادو سے قربت بڑھا رہے تھے، سیاست گرم ہورہی تھی، اندیشے اور خطرات بڑھ رہے تھے، نیز کسانوں کی ایک بڑی سنستھا وہیں ہے۔
سب زیادہ کسان یوپی اور پنجاب ہی میں پائے جاتے ہیں۔ پنجاب کی سیاست میں پہلے ہی بی جے پی دھکے کھارہی تھی، خاص طور پر اکالی دل سے صدیوں پرانا یارانہ اسی وجہ سے ختم ہوا تھا، وہاں کانگریس چونکہ کمزور پڑ رہی ہے اور کپتان امریندر سنگھ کانگریس سے الگ ہو کر ایک الگ جماعت بنا چکے ہیں، اگر دونوں جماعتیں بی جے پی کی جھولی میں آگئیں تو ان کی سرکار بننے سے کوئی نہ روک سکے گا، اسی طرح اس وقت بھی چناؤ پرچار میں جو چیز گلے کی ہڈی بنی ہوئی تھی، بی جے پی کے نمائندگان جن کا جواب دینے سے کتراتے تھے یا پھر ہچکچاتے تھے وہ کسانوں کا ہی مدعا تھا، یہ ہوسکتا تھا کہ پچھلی سردی یا گرمی خصوصاً کچھ وقت پہلے جب عالمی نیوز ایجنسیوں نے اس مسئلے کو کوریج دی تھی اور لگاتار حکومت اور ملک کو نشانہ بنایا جارہا تھا اس وقت سرکار قدم پیچھے لے لیتی؛ مگر یہ نہ تو ان کی تاریخ میں ہے اور ناہی انہوں نے اس کی کوئی گنجائش رکھی ہے، وہ اس سے پہلے سی اے اے وغیرہ میں یہی ڈھٹائی دکھا چکے ہیں، مگر مودی جی اور سنگھ دماغ کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے عین اس وقت قدم پیچھے لئے جب یوپی میں انہیں کئی قدم پیچھے جانے کا خطرہ محسوس ہوا۔ اس قدم سے انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کی کمر توڑ دی ہے۔
آج ہی صبح مودی جی عوام کے سامنے اپنی پوری تجلی کے ساتھ ظاہر ہوئے، اور انھوں نے کہا کہ ‘آج میں پورے ملک کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔اس مہینے کے اواخر میں شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں ہم ان تینوں قوانین کو منسوخ کرنے کا آئینی عمل مکمل کریں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان قوانین کی منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت کسانوں بالخصوص چھوٹے کسانوں کی فلاح اور شعبہ زراعت کے مفاد میں دیہی علاقوں اور غریبوں کے بہتر مستقبل کے لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ یہ قوانین لے کر آئی تھی۔ہم اپنی کوششوں کے باوجود کچھ کسانوں کو ان قوانین کے بارے میں صحیح سے سمجھا نہیں سکے اس بات سے قطع نظر کہ زرعی ماہرین، ماہر اقتصادیات اور ترقی پسند کسانوں نے بھی انھیں ان قوانین کی افادیت کے بارے میں سمجھانے کی پوری کوشش کی۔ یہ قوانین کسانوں کے حالات بہتر کرنے کیلئے متعارف کروائے گئے تھے۔
مودی جی کا یہ بیان سننے کے لائق ہے، نہ کوئی ہچکچاہٹ اور نہ کوئی ماتھے پر بَل، کسانوں نے ایک سال ہی نہیں بلکہ سات سو سے زیادہ جانیں قربان کی ہیں، مگر انہوں نے پر اعتماد ہو کر ان قوانین کی منسوخی کا اعلان یوں کیا ہے جیسے بدمعاش بچے نے غلطی کی ہو اور ماں اسے مار پیٹ کر پھر پچکارنے لگے اور بچہ ماں کی ممتا میں پھل جائے، وہ بھول جائے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے، صرف ایک معافی اور کسانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار یوں کیا گیا گویا وہی مسیحا ہیں، اگر وہ نہ ہوتے تو ان پر مزید ظلم کیا جاتا۔یہ واقعی ایسا ہے کہ ایک قدم پیچھے لیکر لمبی چھلانگ لگائی جائے، اب ٹکیت کے منہ میں زبان نہ رہے گی، سیاست دان بغلیں جھانکتے رہیں اور ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں تب تک ممکن ہے کہ بی جے پی بازی مار لے جائے۔ ویسے یہ کہنا قبل از وقت ہے؛ لیکن یوپی کی صورتحال دیکھ کر اس سے زیادہ سنگھ کا پلان دیکھ کر اور اس سے بھی زیادہ مسلمانوں کا انتشار، سیاسی جماعتوں کی نادانی دیکھ نہیں لگتا کہ کوئی اور حکومت تک پہنچ پایے گا، تاریخ سنگھ کے اس فیصلے کو سنہرے قلم سے لکھے گی۔ جذباتی لوگ اگرچہ اسے فتح اور چیخ و پکار اور جشن سمجھیں گے، مگر یہ حقیقت میں سنگھ کی فتح ہے۔
تاریخ ایک دن میں نہیں بنتی(ایک ناقابل فراموش احتجاج)
جوش وجنون میں کچھ کر گزرنا بڑی بات نہیں، ہوا کا جھونکا آئے اور چلا جائے تو اس سے نسیم صبح کی تازگی محسوس نہیں ہوتی؛ بلکہ بسااوقات اس سے کراہت، بیماری اور خوف طاری ہوجاتی ہے، پانی اگر استقلال، پائیداری کے ساتھ بہتا رہے تو وہ سمندر تک پہنچ کر ایک طاقت بن جاتا ہے۔ اگر وہی روانی کھو کر طغیانی میں بھٹک جائے تو وہ کہیں نالے میں پڑ کر سڑ جاتا ہے۔ قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں؛ کہ وہ تاریخ کا حصہ اسی لئے بن پائیں کیوں کہ انہوں نے پابجولاں ہو کر بھی حق کی پکار نہ چھوڑی، دلجمعی، استقامت کو انہوں نے تعویذ بنا کر پہن لیا۔ انہوں نے سب کچھ برداشت کیا؛ لیکن ہوا کے دوش پر چلنے کے بجائے پیر جما کر باد مخالف کا مقابلہ مناسب جانا۔ یہ حقیقت ہے کہ تاریخ ایک دو لمحے میں نہیں بن جاتی؛ کہ انسان اٹھے اور ایسے کارنامے کر جائے جو اسے تاریخ کی کتابوں میں جاوداں کردے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اسے استثنائی خانے میں ہی رکھنا چاہیے۔ اور مستثنیات کو دلیل نہیں بنایا جاتا۔ سنت اللہ یہ رہی ہے کہ قومیں لگاتار دھکے کھانے کے بعد مہندی کے مثل نکھر کر سرخ بنتی ہیں۔ چنانچہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی بھی تحریک، شخصیت محنت و مشقت کی انتھک کوشش اور خون پسینہ ایک کئے بغیر تاریخ کے اوراق پر درج کر لیا جائے۔
اس سلسلہ میں علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کچھ اصولی باتیں فرمادیے ہیں۔ ان کی بصیرت اور گہری نظر تھی کہ آپ نے انسانی زندگی کا حقیقی سچ سامنے رکھ دیا، کامیابی و ناکامیابی کی پرت کھول کر دنیا کو دکھلا دی۔علامہ کی شاعری کا مطالعہ کرنے والے بار بار جہد مسلسل کی تعبیر پڑھتے ہوں گے، آپ نے کہا ہے کہ یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جب یہ تینوں چیزیں مل جاتی ہیں اور جہاد زندگانی میں پوری طرح رَچ بَس جاتی ہیں تب کہیں جا کر سنہرے صفحات میں ہمیشہ ہمیش کیلئے اسے لکھ دیا جاتا ہے۔اگر کسی کے اندر یقین ہے مگر جہد مسلسل نہیں یا عمل پیہم بھی ہے مگر وہ محبت کے عنصر سے خالی ہے تو وہ اگر فاتح بھی بن جائے تب بھی وہ دلوں کو فتح کرنے والا نہ ہوگا؛ بلکہ تلوار کی جھنکار، تیر اور بالوں کا زور اس میں پایا جائے گا، دل نہ بدلنے کی وجہ سے جب کبھی اس کے نیزوں کی تیزی میں کمی آئے گی، اس کے تلوار کی دھار کند پڑے گی اسی دن مخالفین اس کی صفیں الٹ دیں گے، اس سے بڑی بات یہ کہ اس انقلاب کے خلاف کوئی کھڑا ہوا نظر نہ آئے گا، اس کی ساری کوششیں رائیگاں ہوجائیں گی، وہ کچھ نہ کر پائے گا، وہ جس سرعت کے ساتھ افق پر چھایا تھا اسی رفتار سے کھینچ کر گرا دیا جائے گا۔
کسانی آندولن پر نگاہ رکھنے والوں سے یہ پوشیدہ نہیں کہ انہوں نے اقبال کی اس تعلیم پر پوری طرح عمل کیا ہے، تقریباً اس تحریک کے چھ ماہ بعد ایک موقع ایسا آیا تھا کہ میڈیا نے اسے یکسر نظر انداز کردیا تھا۔ وہ تو ویسے بھی انہیں کوریج دیتے تھے تاکہ ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاسکے، انہیں بدنام کیا جاسکے، خالصتانی، جہادی اور غدار ملک ثابت کیا جاسکے، مگر منصوبہ بند طریقے پر ایک دور ایسا آیا جب میڈیا نہ ان سے بات کرتی تھی اور ناہی انہیں کوئی فوٹیج دیتی تھی، تو وہیں کورونا وائرس کی مار اور لاک ڈاؤن سے پریشان عوام بھی انہیں بھول چکی تھی، لوگ اپنی اپنی پریشانیاں بتلاتے تھے، روزی روٹی کیلئے ترستے تھے،اپنوں کی لاشیں اٹھاتے اور آنسو کی زندگی گزارتے تھے ایسے میں بھلا وہ کیسے انہیں یاد کرتے؟ مگر کیا آپ نے سوچا ہے کہ وہ اس اثنا میں کیا کر رہے تھے؟ وہ نہ تھکے، نہ رکے؛ بلکہ اپنے قدموں پر کھڑے رہے، ڈٹے رہے، فصلیں کاٹنے یا کھیت جوتنے کا وقت ہوتا تو بارڈر پر دوسرے اعزا کو چھوڑ جاتے، گویا وہ سرحد پر ڈیوٹی دے رہے ہیں، باری باری جاتے اور آتے، بہت سے لوگوں نے اینٹ گارے کے گھر بنا لیے، خیمے بنا کر وہیں گویا رہنے لگے۔ اس سے بڑھ کر راکیش ٹکیت اور دوسرے لوگوں نے گاؤں گاؤں کا دورہ شروع کردیا، عوام سے ملنے لگے، سیاست میں گرمجوشی دکھائی، بنگال چناؤ میں بی جے پی کے خلاف ہوا تیار کی اور کہہ سکتے ہیں کہ ان کی بھی محنت اور پلاننگ کی وجہ سے وہاں بی جے پی نے بری طرح شکست کا سامنا کیا۔ پنچایت کا نظام پھر بحال کیا اور گاؤں کے بچھڑے ہویے لوگوں کو جوڑا، جنہیں صرف چناؤ کے وقت یاد کیا جاتا ہے، جن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی؛ لیکن جن کے ووٹ کی بناپر سرکاریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔
بہت سے ویلفیئر سوسائٹیز کو بھی کسان تحریک سے دور کیا گیا، ان پر بیجا کیسز لگا کر انہیں علحدہ کیا گیا، شخصیتوں کو مجروح کیا گیا، سوشل ورکر یوگیندر جی اور دیگر کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی گئی، دیش دروہ کا مقدمہ درج کروا کر اور ان کے نوجوانوں کو اٹھا کر ڈرانے دھمکانے کی کوشش ہوئی؛ مگر وہ پھر بھی ہمت نہ ہارے، پیچھے نہ ہٹے اور کسی بھی مصالحت پر تیار نہ ہوئے، راکیش ٹکیت جانتے تھے یہ طوفان ہے اگر اس کو عبور کر گئے تو یہ سرکش طوفان شانت ہوجائے گا اور بہار و گل کا زمانہ آجائے گا، انہیں معلوم تھا کہ تاریخ کے پنے پلٹے جارہے ہیں، ان کی تحریک کو آزمائش میں مبتلا کیا جارہا ہے، انہوں نے جانیں گنوائیں مگر آنسو پونچھ کر پھر کھڑے ہوگئے، پولس کے ڈنڈے کھائے، دودھ پیتے پچوں کی جدائی جھیلی، دھوپ، سردی، بارش ہر موسم کو برداشت کیا لیکن اپنی مانگ پر ڈٹے رہے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی زبان میٹھی رکھی، محبت فاتح عالم کا ورد نہیں چھورا، تشدد اور نوک جھونک پر خود سرزنش کی، ٹکیت صاحب کے بیانات دیکھیے اور ان کے ہمنواؤں کے بھی بیانات سنیے! نیوز اینکر انہیں ورغلاتا ہے لیکن وہ برف بن جاتے ہیں، زبان سے تیر و نشتر نکلتے تو ہیں لیکن اس انداز میں کہ ہمدردی انہیں حاصل ہوتی ہے، اس پوری تحریک پر پی ایچ کرنی چاہیے، اسے موضوع بحث بنانا چاہتے، یہ آزاد بھارت ہی نہیں بلکہ اب تک کی شاندار تحریک میں سے ایک ہے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
(اقبال)