بسم الله الرحمن الرحيم
زکاۃ سے متعلق نئےمسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی
موبائل: 9451924242
1- سونے، چاندی کا نصاب
تمام علماء کا اتفاق ہے کہ چاندی کانصاب دوسودرہم ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’لیس فیما دون خمس اواق من الورق صدقۃ‘‘(صحیح بخاری: 1447. صحیح مسلم:979)
’’پانچ اوقیہ (ایک اوقیہ چالیس درہم) سے کم چاندی میں صدقہ نہیں ہے‘‘۔
اور حضرت ابوبکرؓ نے حضرت انسؓ کولکھا :
’’وفی الرقۃ اذا بلغت مأتی درہم ربع العشر‘‘(صحیح بخاری:1454)
’’اور جب چاندی کی مقدار دوسودرہم تک پہنچ جائے تو اس میں سے چالیسواں ہے‘‘۔
اسی طرح سے سونے کے معاملے میں بھی تقریباً اتفاق ہے کہ اس کا نصاب بیس دینار ہے، کیونکہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :
’’ان النبیﷺ کان یاخذ من کل عشرین دینارا فصاعداً نصف دینار‘‘ (ابن ماجہ: 1791)
’’نبی ﷺ بیس دینار یااس سے زیادہ میں آدھادینار لیاکرتے تھے‘‘۔
2- کرنسی کا نصاب
کرنسی کے نصاب کے لئے سونے یا چاندی کو معیار بنانے کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، عام طورپر متحدہ ہندوستان کے علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کے لیے چاندی کو معیار بنایاجائے گا، لہٰذا جس کے پاس360ء 612گرام چاندی کی قیمت کے بقدر کاغذی نوٹ ہو تو وہ صاحب نصاب سمجھاجائے گا اور اس پر زکاۃ واجب ہوگی، کیونکہ چاندی کو معیار بنانے میں فقیروں اور مسکینوں کازیادہ فائدہ ہے کہ اس کے سبب دولت مندوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور زیادہ سے زیادہ زکات حاصل ہوگی اور اما م ابوحنیفہ کے نزدیک زکاۃ کے معاملے میں ترجیح اسی کو دی جاتی ہے جس میں فقیروں کا زیادہ فائدہ ہو، فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی اور سعودیہ کے علماء کی کمیٹی نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اس کے برخلاف بعض عرب اور متحدہ ہندوستان کے کچھ علماء کی رائے یہ ہے کہ سونے کو معیار بنایاجائے گا، کیونکہ چاندی کومعیار بنانے کی وجہ سے بہت معمولی مقدار کی کرنسی میں زکاۃ واجب ہوجائے گی، جیسے کہ موجودہ دور میں اگر کسی کے پاس سال بھرتک تقریباً چالیس ہزار روپیہ محفوظ رہا یا وہ فٹ پاتھ پر اتنے روپیہ کا سامان لے کر بیچنے لگے تو اس پرزکاۃ واجب ہوجائے گی اور اسے زکاۃ لینا حرام ہوگا، حالانکہ ا س مقدار کی رقم کی وجہ سے کوئی بھی عرف اور سماج میں مالدار نہیں سمجھاجاتا اور نہ ہی اتنے روپیہ کی تجارت سے اس کے لئے ایک چھوٹے سے پریوار کا خرچ نکالنا آسان ہوگا اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی مایہ ناز کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں:
’’وانما قدرالنصاب بخمس اواق من الفضۃ لانھا مقدار یکفی اقل اھل بیت سنۃ کاملۃ اذا کانت الاسعار موافقۃ فی اكثر الاقطار(حجة الله البالغة)
چاندی کا نصاب دو سو درہم اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسی مقدار ہے جو نرخ موافق ہونے کی صورت میں اکثر ممالک میں ایک چھوٹے خاندان کے لئے پورے سال تک کافی ہوتی ہے ۔
علاوہ ازیں سونے کے نصاب کو اونٹ، بکری وغیرہ کے نصاب سے موازنہ کیاجائے تو بہت کم فرق نظر آئے گا، اس کے برخلاف اگر موجودہ دور میں چاندی کے نصاب کے ذریعے موازنہ کیاجائے تو پھرکوئی نسبت نہیں ہوگی۔
3- سنگ مرمر میں زکاۃ
زمین سے برآمد ہونے والے معدنیات کو فقہاء حنفیہ نے تین زمروں میں تقسیم کیا ہے، ایک وہ جو جامد ہوں اور انہیں عام طور پر پگھلایا اور مختلف سانچوں میں ڈھالا جاتا ہو جیسے: سونا، چاندی، لوہا، پیتل وغیر ہ، دوسرے وہ جو جامد ہوں لیکن انہیں پگھلا یا نہ جاسکتا ہو، جیسے سرمہ، چونا یا مختلف قسم کے پتھر، تیسرے وہ جو جامد نہ ہوں بلکہ سیال ہوں، جیسے پٹرول وغیر ہ۔
پہلی قسم کے دستیاب ہونے پر اس کا پانچواں حصہ حکومت کو دینا ہوتا ہے، گویا اس کی حیثیت زکاۃ کی نہیں بلکہ مال غنیمت کی ہے اور اس کے مصارف بھی وہی ہیں جو مال غنیمت کے ہیں اور اس پر سال گزرنا بھی شرط نہیں۔
اور بقیہ دونوں قسموں پر کچھ نہیں ہے اور ان کا شمار اموالِ زکاۃ میں نہیں ہے الا یہ کہ ان کی تجارت کی جائے۔ لہذا سنگ مرمر میں کوئی زکاۃ نہیں ہے الا یہ کہ تجارت مقصود ہو تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی اور اس کا نصاب وہی ہے جو مال تجارت کا ہے ۔
4- ہیرے، جواہرات کی زکوٰۃ
زکوٰۃ ایک عبادت ہے اور عبادت میں قیاس ورائے کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے، بلکہ شریعت کی طرف سے جس کیفیت کے ساتھ ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح سے ادا کرنا ضروری ہے، زکاۃ کے معاملے میں شریعت نے ان اموال کی تحدید و تعیین کردی ہے جن کی زکوٰۃ نکالی جائے گی، جن میں ہیرے جواہرات شامل نہیں ہیں، اس لیے ان کی مالیت جو بھی ہو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر یہ کہ ان کی تجارت مقصود ہو تو مال تجارت ہونے کی حیثیت سے زکاۃ فرض ہوگی، چنانچہ علامہ حصکفی لکھتے ہیں:
’’لازکاۃ فی اللآلی والجواہر وان ساوت الوفاً اتفاقا الا ان تکون للتجارۃ‘‘ (الدر المختار 194/3)
’’بہ اتفاق موتی اور جواہرات میں زکات نہیں ہے گرچہ وہ ہزاروں درہم کے برابر ہوں مگر یہ کہ وہ تجارت کے لئے ہوں‘‘۔
5- سمندر سے برآمد ہونے والی موتی، مرجان اور عنبرکی زکاۃ
ابوعبید کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں سمندر سے موتی وغیرہ نکالی جاتی تھیں لیکن کسی حدیث میں مذکور نہیں ہے کہ آپؐ نے اس میں سے زکوٰ ۃ وصول کی ہو، نیز خلفاء راشدین سے بھی ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اس میں زکاۃ لی ہو، (کتاب الاموال:346)
اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے عنبر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
’’لیس العنبربرکاز وانما ھوشییٔ دسرہ البحر، لیس فیہ شییٔ‘‘۔ (کتاب الاموال:346)
’’عنبر کوئی دفینہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسی چیز ہے جسے سمندر نے اگل دیا ہے، اس میں کچھ بھی واجب نہیں‘‘۔
اور حضرت جابربن عبداللہؓ فرماتے ہیں:
’’لیس العنبربغنیمۃ، ھو لمن اخذہ‘‘ (کتاب الاموال: 346.المغنی 245/4)
’’عنبر مال غنیمت نہیں ہے (کہ اس میں سے پانچواں حصہ وصول کیا جائے) بلکہ وہ اس کا ہے جو اسے لے لے‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ اسی کے قائل ہیں، ان کے نزدیک سمندر سے برآمد ہونے والی موتی مرجان اور عنبر وغیرہ میں زکاۃ نہیں ہے اورامام مالکؒ، شافعیؒ اور ثوریؒ وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور امام احمدؒ سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے۔ (المغنی 245/4)
6-مچھلی میں زکاۃ
مچھلی کا کاروبار ایک نفع بخش تجارت ہے اور اس کے لیے زراعتی زمین کو پوکھرے میں تبدیل کر دیاجاتا ہے، کیونکہ کاشت کاری میں مشقت زیادہ ہے اور منفعت کم ہے، اس کے برخلاف مچھلی پالنے میں خرچ کم اور فائدہ زیادہ ہے، تالاب میں پانی بھرنے کے لیے قدرتی نہروں اور نالیوں سے مدد لی جاتی ہے اور کبھی ٹیوب ویل کے ذریعے، کیا مچھلی کی اس تجارت کو کاشتکاری کے حکم میں رکھ کر اس پر زکاۃ عائد کی جائے گی ؟
زمین کی پیداوار میں زکاۃ کے سلسلے میں قرآن حکیم میں کہا گیا ہے:
’’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْامِنْ طَیِّبٰتِ مَاکَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ‘‘(سورہ البقرہ-:267)
اے ایمان والو!جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اللہ کے راستے میں)خرچ کیا کرو
اور ظاہر ہے کہ مچھلی زمین سے نکلنے والی چیزوں میں شامل نہیں ہے، اس لیے اس میں زکات واجب نہیں ہوگی، گرچہ کاشت کاری کی زمین کھود کر پوکھرا بنا یا گیا ہو اوربارش اور قدرتی نہروں کے ذریعہ اس میں پانی بھرا گیا ہو، البتہ چونکہ وہ مال تجارت ہے اس لیے اگر اس کی قیمت نصاب کے بقدر ہو تو پھر سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (1)
(1) واما السمک فلاشییٔ فیہ بحال فی قول اھل العلم کافۃ…ولانہ لانص ولااجماع علی الوجوب فیہ ولایصح قیاسہ علی ما فیہ الزکاۃ فلا وجہ لایجابھا فیہ۔ (المغنی 245/4)
7-مکھانہ اور سنگھاڑا
مکھانہ اور سنگھاڑا کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں اور محض پانی میں اس کی کاشت نہیں ہوسکتی ہے، اس لیے وہ زمین کی پیداوار میں شامل ہے اور اس میں زکاۃ واجب ہے۔
8-مرغی اور انڈے میں زکاۃ
مرغی اورانڈے میں زکوٰۃ نہیں ہے خواہ اس کی تعداداورمقدار کچھ بھی ہو، کیونکہ شریعت میں اموالِ زکوٰۃ کی تحدید کر دی گئی ہے جس میں انڈا اورمرغی شامل نہیں، البتہ اگر مقصود تجارت ہے تو پھر ان سے ہونے والی آمدنی پر زکوٰۃ ہے بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے۔ (دیکھئے :الہدایہ108/1)
9- ریشم میں زکوٰۃ
ریشم کے کیڑوں کی غذا کے لیے شہتوت کے درخت لگائے جاتے ہیں اور ان درختوں سے اس کے سوا کوئی خاص فائدہ وابستہ نہیں ہوتا، اس لیے اس میں عشر نہیں ہے لیکن کیا ان کیڑوں سے حاصل ہونے والے ریشم میں عشر ہے کیونکہ وہ زمین کی پیداوار سے غذا حاصل کرتے ہیں، علامہ مرغینانی کہتے ہیں کہ اس میں عشر نہیں ہے، کیونکہ شہد کی مکھی پھولوں اور پھلوں سے رس حاصل کرتی ہے اور ان دونوں میں عشر ہے، تو یہی حکم اس کا بھی ہوگا جو ان دونوں سے پیدا ہو، بخلاف ریشم کے کیڑے کے کہ وہ پتے کھاتا ہے اور پتے میں عشر نہیں ہے(1)
مگر ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد اس پر پے کہ اس دور میں شہتوت کے درخت اس مقصد سے نہیں لگائے جاتے تھے لیکن موجودہ دور میں ان درختوں کی کاشت کا مقصدہے ان کے پتوں کے ذریعے کیڑوں کو غذا فراہم کرنا، تو جس طرح سے بالقصد اگر گھاس وغیرہ اگائے جائیں تو اس میں عشر ہے، اسی طرح سے ان درختوں سے مقصد پتا حاصل کرنا ہے اس لئے پتا عشری ہے اور کیڑا اس سے غذا حاصل کرتا ہے، لہٰذا اس کی پیداوار یعنی ریشم میں بھی عشر ہے جیسے کہ شہد میں ہے، چنانچہ صاحب کفایہ لکھتے ہیں:
امام ابوحنیفہ کے نذدیک ضابطہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے باغ میں لگایا جائے اور اس کا مقصد زمین سے آمدنی حاصل کرنا ہو تو اس میں عشر ہے ۔(2)
علامہ شامی لکھتے ہیں:
مصنف کا مقصد محض بانس نہیں بلکہ اس سے مراد یہ تمام چیزیں ہیں جن کے ذریعے عام طور پر زمین سے آمدنی حاصل کرنا مقصود نہ ہو اور یہ کہ مسئلے کا مدار مقصد پر ہے، اس لیے اگر بانس اور گھاس وغیرہ سے مقصود آمدنی ہو تو عشر واجب ہوجائے گا.(3)
اور شہد کے بارے میں عمر و بن شعیب کے حوالے سے منقول ہے کہ:
’’عن النبیﷺ انہ اخذ من العسل العشر‘‘ (ابن ماجہ:1824)
’’نبی ﷺ نے شہد میں سے عشر لیا‘‘۔
اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک صاحب کو لکھا :
’’ان اد إلیک ما کان یودی الی رسول اللہﷺ من عشور نحلہ‘‘ (ارواء الغلیل 284/3)
’’رسول اللہؐ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شہد کا جو حصہ عشر کے طور پر دیتا تھا وہ تمہیں بھی دے‘‘۔
(1)’’لان النحل یتناول من الانوار والثمار وفیھا العشر فکذا فیما یتولد منھا بخلاف دود القز لانہ یتناول الاوراق ولا عشر فیھا‘‘ (الہدایہ 108/1)
(2)’’الاصل عند ابی حنیفۃ ان کل ما یستنبت فی الجنان ویقصد بہ استغلال الاراضی ففیہ العشر‘‘(الکفایہ مع الفتح 186/2)
(3)’’لیس المراد بذالک ذاتہ بل لکونہ من جنس مالا یقصد بہ استغلال الارض غالبا وان المدار علی القصد حتی لوقصد بہ وجب العشر‘‘ (رد المحتار 267/3)
10- لکڑی میں زکوٰۃ
ایسے درخت کی لکڑیوں میں زکوٰۃ نہیں ہے جن سے مقصود پھل حاصل کرنا ہوتا ہے،کیونکہ پھلوں سے عشر لیا جاتا ہے الا یہ کہ ان لکڑیوں کی تجارت کی جائے لیکن لکڑی حاصل کرنے کے لیے جو درخت لگایاجاتا ہے، جیسے کہ بانس، ساگون یا جلاون کی لکڑی تو اس میں پیداوار کی زکوٰۃ واجب ہے، کیونکہ وہ بھی زمین کی پیداوار میں شامل ہے، علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:
’’اما الحطب والقصب والحشیش فلاتستنبت فی الجنان عادۃ بل تنقی عنھا حتی لواتخذھا مقصبۃ اومشجرۃ او منبتا للحشیش یجب فیھا العشر‘‘ (الہدایہ 108/1)
’’جلاون، بانس، نرکل اور گھاس پھوس میں زکوٰۃ نہیں، کیونکہ عام طور پر ان کی کاشت نہیں کی جاتی ہے بلکہ اگر خود سے اگ آتے ہیں تو کاٹ کر باغ کو صاف کر دیاجاتا ہے، البتہ اگر کوئی شخص بانس، جلاون کی لکڑی یا گھاس کی کاشت کرے تو اس میں عشر واجب ہے‘‘۔
11- فکس ڈپوزٹ اور اِنشورنس
فکس ڈپوزٹ یا انشورنس حرام ہے، کیونکہ اس مقصد سے جو رقم جمع کرائی جاتی ہے وہ قرض کے حکم میں ہے اور قرض سے زائد رقم حاصل کرنا سود ہے، جو شریعت کی نگاہ میں سخت ترین حرام ہے، البتہ اگر جمع کردہ اصل رقم نصاب کے بقدر ہے تو اس پر ہر سال کی زکاۃ فرض ہے، امام محمد لکھتے ہیں:
’’عن علی ابن ابی طالب قال اذا کان ذالک دین علی الناس فقبضہ فزکاہ لما مضی قال محمد وبہ ناخذ وھو قول ابی حنیفۃ‘‘ (کتاب الآثار/108)
’’حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ اگر کسی کا لوگوں پر قرض ہو اوروہ اس پر قبضہ کرلے تو گذشتہ کی زکاۃ ادا کرے گا۔اماممحمد کہتے ہیں ہم اسی کے قائل ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے ۔
اور ان سے منقول ایک روایت میں ہے کہ:
’’عن الحسن: سئل علی عن الرجل یکون لہ الدین علی الرجل قال یزکیہ صاحب المال فان توی علیہ وخشی ان لایقضی قال یمھل فاذا خرج ادی زکاۃ مالہ‘‘ (مصنف ابن أبی شیبۃ 162/3)
’’حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ حضرت علیؓ سے دریافت کیا گیا کہ کسی شخص کا قرض دوسرے پر ہو تو وہ کیا کرے، فرمایا: مال کا مالک اس کی زکاۃ ادا کرے، البتہ اگر اندیشہ ہو کہ مقروض ادا نہیں کرے گا تو رکا رہے اور جب وصول ہوجائے تو اد ا کر ے‘‘۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے منقول ہے کہ:
’’زکوا ما فی ایدیکم وما کان من دین علی ثقۃ فھو بمنزلۃ ما فی ایدیکم‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ 162/3.السنن الکبری للبیہقی 150/4)
’’تمہارے قبضے میں جو مال ہے اس کی زکوٰۃ ادا کرو اور جو قرض قابل اعتماد جگہ پر ہو وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ تمہارے قبضہ میں ہے‘‘۔
فکس ڈپوزٹ یا انشورنس کے لیے جمع کردہ رقم کی وصولی یقینی ہے اس لیے وہ بھی قبضہ میں موجود مال کی طرح ہے اور وصولی سے پہلے ہی ہر سال اس کی زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ لائف انشورنس میں مفروضہ عمر سے پہلے وفات پانے کی صورت میں جمع کردہ رقم کے ساتھ مزید ایک خطیر رقم ملتی ہے جو قمار (جوا) سے حاصل کردہ رقم کی طرح ہے اور اس مدت کے بعد انتقال کی حالت میں کچھ سود کے ساتھ اصل رقم واپس کی جاتی ہے ۔
اور گاڑی اور بیماری وغیرہ کے انشورنس میں حادثہ پیش آنے یا بیمار ہونے کی حالت میں انشورنس کمپنی نقصان کی تلافی یا علاج کا خرچ برداشت کرتی ہے اور جمع کردہ رقم واپس نہیں کرتی ہے اس لئے ان صورتوں میں پالیسی ہولڈر گویا کہ کمپنی کو اپنی رقم کا مالک بنا دیتا ہے اس لئے اس رقم میں زکاۃ نہیں ہے ۔
12- بانڈز اور شیئرز
حکومت یا کمپنیوں کی طرف سے بسا اوقات لوگوں سے قرض دینے کی خواہش کی جاتی ہے اورایک محدود مدت میں فائدے کے ساتھ واپسی کی ضمانت دی جاتی ہے اور ثبوت کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، اسی کو بانڈ کہتے ہیں غرضیکہ قرض کی سند اور وثیقہ کو بانڈز کہا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک سودی معاملہ ہے اور حرام ہے اور اگر اصل رقم نصاب کے بقدر ہے تو وصولی کے بعد تمام سالوں کی زکاۃ فرض ہوگی۔
شیئر کے معاملے میں بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس کے صرف اس رقم پر زکوٰۃ ہے جو کاروبار میں لگی ہوئی ہے اور رقم کا جو حصہ مشنری اور عمارت وغیرہ پر خرچ ہوا ہے اس میں زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ یہ چیزیں ضرورت اصلیہ کی فہرست میں داخل ہیں نیز اگر شیئر کمپنی نے جمع کردہ رقم سے زمین و مکان یا مشین حاصل کرکے اسے کرایہ پر لگاکر فائدہ حاصل کررہی ہے تو اب زکاۃ اسی وقت فرض ہے جب کہ اس سے حاصل ہونے والی ہر ایک کی آمدنی نصاب کے بقدر ہو، ورنہ زکوٰۃ نہیں۔
اس کے برخلاف بعض لوگوں کا رجحان یہ ہے کہ کسی تفصیل کے بغیر شیئرز پر زکوٰۃ ہے، کیونکہ عرف و رواج میں شیئرز خود ایک سامان تجارت کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی حیثیت سے ان کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اس لیے جن لوگوں نے اصل حصے کو باقی رکھ کر اس سے ہونے والی آمدنی سے استفادہ کے ارادے سے شیئرز خریدے ہوں اور کمپنی کی طرف سے لگائی گئی قیمت کے اعتبار سے وہ نصاب تک پہنچتے ہوں تو اس کی زکوٰۃ واجب ہے اور جن لوگوں نے قیمت بڑھنے پر فروخت کرنے کے ارادے سے خریدے ہوں اور مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے اس کی قیمت نصاب تک پہنچ جائے تو اس کی زکاۃ فرض ہے اور یہی رائے زیادہ صحیح ہے اور یہی احتیاط کا تقاضا ہے۔