رانی کیتکی کی کہانی
(انشاءاللہ خان انشاء)
تحریر: احمد
اٹھارہویں صدی کے مشہور استاذ شاعر انشاءاللہ خاں انشاء مرشدآباد میں ۱۷۵۴ء میں پیدا ہوے۔ آپ کے والد محترم میرماشاءاللہ خاں جو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حاذق طبیب بھی تھے۔ آپ کے آباء و اجداد عراق کے رہنے والے تھے۔ جس وقت مغلیہ سلطنت ہندوستان میں اپنے عروج پر تھی انشاءاللہ کے اجداد عراق سے ہجرت کر کے ہندوستان آگئے اور یہی اپنی پوری زندگی بسر کی۔ جس دہلی اجڑنے لگی تو انشاءاللہ کے والد میر ماشاءاللہ خاں نے پھر ہجرت کی اور دہلی سے مرشدآباد انتقال کر گئے۔ یہیں انشاءاللہ خاں پیدا ہوئے اور تعلیم و تربیت پائی۔
انشاء نے ۱۷۸۶ء میں دہلی کا رخ کیا لیکن دہلی انہیں راس نہ آئی اور آخر کار وہاں سے رامپور چلے گئے، سلیمان شکوہ اور پھر بعد میں سعادت علی خان کے دربار سے وابستہ ہو گئے اور ایک لمبے عرصے تک یہاں قیام کیا۔ چونکہ انشاء فطرۃً ظریف اور زندہ دل شخصیت کے مالک تھے اپنے مذاق اور شوخی ہی کی وجہ سے سعادت علی خان کے دربار سے ۱۸۱۰ء میں نکالے گئے۔ انشاء نے اپنی زندگی کے آخری ایام تنگ حالی اور غربت میں بسر کی، ۶۳ سال کی عمر پاکر ۱۸۱۷ء میں انشاء اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
انشاء جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے نثرنگار بھی۔ آپ نے نثر میں تین کتابیں تحریر کی جن میں دو یعنی دریائے لطافت اور رانی کیتکی کی کہانی کو بےانتہاء قبولیت ملی۔ تیسری تصنیف سلک گوہر بھی اپنے آپ میں ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ یہ کتاب غیر منقوط ہے۔
دریائے لطافت
دریائے لطافت اردو گرامر کی پہلی کتاب ہے۔ اس میں اردو صرف، نحو، عروض، قافیہ،علم معانی، علم بیان جیسے موضوعات پر بسط و تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کو مولوی عبدالحق نے مرتب کیا ہے۔
رانی کیتکی کی کہانی
یہ انشاء کی دوسری تصنیف ہے، یہ ایک طبع زاد داستان ہے۔ اس کا شمار مختصر ترین داستانوں میں ہوتا ہے۔ اس میں رانی کیتکی اور کنور اودےبھان کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کی زبان کے متعلق محققین کی الگ الگ رائے ہے۔ ہندی زبان کے محققین اس کی زبان ہندی مانتے ہیں اور اس کی سن تصنیف ۱۸۰۳ء بتاتے ہیں۔ جبکہ مشہور محقق عابد پیشاوری اس کی زبان اردو مانتے ہیں اور اسے خالص اردو تصنیف قرار دیتے ہیں۔ در اصل اس کی زبان ہندوستانی زبان ہے اس وجہ سے ہندی والوں نے اسے ہندی تصنیف قرار دیا لیکن اسلوب کے لحاظ سے یہ خالص اردو معلوم ہوتی ہے۔
ڈاکٹر گیان چند جین نے بھی اسے اردو تصنیف قرار دیا ہے۔ اس کی زبان کی بنیاد کھڑی بولی پر قائم ہے جو در اصل ہندی اور اردو کے اختلاف کی وجہ ہے، کیونکہ ہندی اور اردو دونوں ہی زبانیں کھڑی سے نکلے ہیں۔ اس اعتبار سے اسے ہندوستانی زبان کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
انشاء اللہ خاں کی دیگر تصنیفات حسب ذیل ہیں:
(۱) دیوان اردو (۲) دیوان ریختی (۳) قصائد مع ایک قصیدہ بے نقط و ترکی اشعار وغیرہ (۴) دیوان فارسی (۵) مثنوی شیر و برنج (۶) مثنوی بے نقط و ترکی اشعار وغیرہ (۷) مثنوی شکار نامہ (۸) مثنوی در ہجو زنبور، کھٹمل،مگس(۹) شکایت زمانہ (۱۰) مثنوہ فیل (۱۱) مثنوی ہر ہجو گیان چند ساہوکار (۱۲) اشعار متفرقہ، رباعیات، قطعات، تاریخ وغیرہ (۱۳) پہیلیاں و چیستانیں، مخمس وغیرہ (۱۴) دیوان اردو بے نقط و رباعیات وغیرہ (۱۵) شرح و ماہ عامل نظم فارسی (۱۶) مرغ نامہ: لطائف و ترکی روزنامچہ۔ یہ تمام تصنیفات ان کی کلیات میں شامل ہیں۔
خلاصہ داستان ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘
سورج اودے بھان کا اکلوتہ بیٹا کنور اودے بھان ایک دن گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل کی طرف شکار کے غرض سے نکلا۔ راستے میں اسے ایک ہرنی نظر آئی کنور اودے بھان نے اس کے تعاقب میں اپنے گھوڑے کو دوڑا دیا۔ ہرنی کا پیچھا کرتے کرتے شام ہو گئی اور کنور اودے اپنے ساتھیوں سے جدا ہو گیا۔ بھوک پیاس سے پریشان کنور اِدھر اُدھر گھومنے لگا، تھوڑی دور پر اسے آم کا ایک باغیچہ نظر آیا جب ہو قریب پہنچا تو دیکھتا ہے کہ لڑکیوں کا ایک جھنڈ وہاں جھولا جھول رہا ہے۔ کنور کو دیکھ کر تمام لڑکیوں نے گھبراہٹ میں چلانا شروع کیا۔ شور سن کر رانی کیتکی بھی جو ان کے ساتھ تھی متوجہ ہوئی۔ پہلی ملاقات میں ہیں دونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے، مگربناوٹی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رانی نے کنور کو چلے جانے کا حکم دیا۔
کنور نے بہت منت و سماجت کی اور وہاں شب باشی کی اجازت طلب کی۔ رانی بے رخی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سہیلیوں سے مخاطب ہو کر گویا ہوئی کہ اسے کہ دو جہاں جی چاہے پڑا رہے اور جو کچھ کھانے پینے کو مانگے اسے دے دیا جائے۔ اجازت پا کر کنور نے ایک طرف اپنا بستر لگا لیا،مگر رانی کے خیال نے اس کی آنکھوں سے نیند کو اچک لیا تھا۔ دوسری طرف رانی کی دل کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہ تھی۔ رانی نے اپنی سہیلی مدن بان سے اس کیفیت کا اظہار کیا۔ مدن بان نے رانی کیتکی کا تعارف کنور اودے سے کرایا۔ معمولی شناسائی کے بعد رانی نے کنور سے کہا اپنے بارے میں کچھ بتاؤ، تم کون ہو کہاں سے آئےہو۔ کنور نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا، اس کے بعد دونوں نے اپنی انگوٹھی کا تبادلہ کیا۔ صبح کیتکی اپنی سہیلیوں کے ساتھ محل لوٹ گئی اور کنور اودے پنے گھر لوٹ آیا۔
کیتکی سے جدا ہو کر کنور کی حالت دیگر گوں ہونے لگی، کھانا پینا ترک کر کے ہمہ وقت اداس و رنجیدہ رہتا۔ کنور کے اس حالت کی خبر جب اس کے باپ سورج بھان کو پہنچی تو اس نے کنور سے سبب دریافت کرنے کی کوشش کی، باربار اصرار کرنے پر وہ اسے لکھ کر بتانے پر راضی ہوا اور سارا حال بیان کر دیا۔احوال سے باخبر ہو کر سورج بھان نے کیتکی کے والدین کو شادی کا پیغام بھیجوایا لیکن کیتکی کے والد نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ہماراور ان کا کوئی جوڑ نہیں وہ ہمارے برابری کے لایق نہیں، صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ سورج بھان کے قاصد کو بھی گرفتار کر لیا۔
جب یہ خبر سورج بھان تک پہنچی تو اس نے فوراً جگت پرکاش کے ملک پر چڑھائی کر دی، ایک خونریز جنگ ہوئی قریب تھا کہ جگت پرکاش کو شکست ہو جاتی، تبھی کیتکی اپنے باپ کے معاونت کیلئے اپنے گرو مہندر گر کو بلاتی ہے۔ مہندر گر جادو کی مدد سے سورج بھان، کنور اودےبھان، لکشمی بان اور ان کے لشکر کو ہرن کی شکل مین تبدیل کر دیتا ہے۔ سورج بھان کے لشکر کو بری طرح شکست ہوتی ہے۔
مہندر گر روانہ ہوتے وقت کیتکی کے باپ جگت پرکاش کو ایک بھبھوت دیتا ہے، جس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کو آنکھوں پر لگانے والا لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن وہ سب کو دیکھ سکتا ہے۔ اِدھر کنور اودے کی جدائی میں کیتکی ہمیشہ رنجیدہ و ملول رہتی ہے۔ ایک دن وہ آنکھوں میں بھبھوت لگا کر کنور کو تلاش کرنے جنگل کی طرف نکل جاتی ہے۔ کیتکی کی گمشدگی کی خبر پاکر اس کا باپ بہت پریشان ہوتا ہے۔ کیتکی کے باپ(جگت پرکاش) کی پریشانی کو دیکھ مدن بان کیتکی کو تلاش کرنے نکلتی ہے اور تلاش کر لیتی ہے۔کیتکی کی اس حرکت سے ڈر کر جگت پرکاش مہندر گر اور راجہ اندر کی مدد طلب کرتا ہے تاکہ کنور اودے اور اس کے ماں باپ تلاش کیا جائے۔ مہندر گر دوبارہ جادو کی مدد سے ان کو تلاش کر کے انسانی شکل میں واپس لاتا ہے۔ کنور اودے کی شادی کیتکی سے کر دی جاتی ہے، اس طرح یہ قصہ اختتام کو پہنچتا ہے۔
داستان ’’ رانی کیتکی کی کہانی‘‘ کی چند خصوصیات
انشاء نے اس داستان میں خالص ہندوستانی زبان کا استعمال کیا ہے جیسا کہ ان دعوٰی ہے:
یہ وہ کہانی ہے جس میں ہندی چُھٹ
کسی اور بولی کا نہ میل ہے نہ پُٹ
چند سطریں جو انشاء نے مدح میں تحریر کی مالحظہ فرمائیں:
’’سر جھکا کر ناک رگڑتا ہوں اوس بنانے والے کے سامنے جس نے ہم سب کو بنایا اور بات میں وہ کر دکھایا جس کا بھید کسی نے نہ پایا۔ مٹی کے باسن کو اتنی سکت کہاں، جو اپنے کہار کے کرتب کچھ تاڑ سکے۔اس سر جھکانے کے ساتھ ہی دن رات جیتا ہوں اپنے اس داتا کے بھیجے ہوئے پیارے کو جس کے لیے یوں کہا ہے’’ جو تو نہ ہوتا تو میں کچھ نہ بناتا‘‘
’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ شاید اردو زبان کی پہلی ایسی داستان ہے جس میں مکمل طور پر ہندوستانی زبان کا استعمال کیا گیا ہو، پورے داستان میں شاید ایک آدھ لطظ ہی ایسے جو کسی اور زبان کے ہوں۔ انشاء نے قصے کا انتخاب بھی ایسا ہی کیا ہے جس سے ہندوستانی زبان کے استعمال میں کوئی دقت پیش نہ آئے، اسی وجہ سے قصے کا مرکز ہندوستان ہے اور اس میں ہندوستانی راجاؤں، ریشی مونیوں، مہارانی اور دیوی دیوتاؤ، ذات پات اونچ نیچ کی باتیں (جو ایک عرصے تک ہندوستان میں باقی رہیں) کا ذکر ملتا ہے۔
کرداروں کے نام
رانی کیتکی: کنور اودے بھان کی معشوقہ اور اس قصے کی ہیروئن۔
کنور اودے بھان: سورج بھان کا بیٹا جس کے کیتکی کی شادی ہوتی ہے۔
سورج بھان: کنور اودے کا باپ۔
لکشمی بان: سورج بھان کی بیوی اور کنور اودے کی ماں۔
جگت پرکاش: کیتکی کا باپ۔
رانی کام لتا: جگت پرکاش کی بیوی اور کیتکی کی ماں۔
مدن بان: کیتکی کی سہیلی جس کا کردار ایک باہمت،وفادار سہیلی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
مہندر گر: جگت پرکاش کا گرو جو جادو کی مدد سے کنور اودے اور اس کے لشکر کو ہیرن کی شکل میں تبدیل کر دیتا ہے۔
کیلاس: ایک پہاڑی کا نام جہاں مہندر گر رہتا ہے۔
ماخذ: رانی کیتکی کی کہانی