جنگِ آزادی اور مسلم لیڈر شپ
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری
مغلِ اعظم جلال الدین محمد اکبر کا پچاس سالہ دورِ حکومت کے اینڈ کے بعد شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر( 1605 تا 1627) ، سریر آرایے سلطنت ہوا،
ہے.،
اب سترہویں صدی کا ابتدائی دور ہے، یورپ کے سمندری لیٹروں (بشکل بزنیس مین) کے جہاز ملکہ برطانیہ ملکہ الزہبیتھ اول سے تجارتی پروانہ لیکر ہند کے ساحلی سمندر پر لنگر انداز ہوا چاہتے ہیں ،
بارگاہِ جہانگیری میں التجا کی، کہ ہمیں ہندوستان میں کاروبار کی اجازت دی جائے، ہمارے کاروبار سے معاشی واقتصادی استواری ہوگی اور لوکل باشندوں کو کام ملیگا، اور بادشاہ کے خزانہ میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوگا،
اب جہانگیر کا اجازت کا دینا یہ ملکی مفاد کے لئے تھا،
اور ویسے اجازت نہ دینے کا کوئی ظاہری جواز بھی نہیں تھا،
اب کسی کو کیا پتہ کہ یہی تاجر کل کے حاکم بن جائینگے،
اب گورے یہاں آئے،، اور یہاں کی خوشحالی کو دیکھا تو انکے اندر چپھا ہوا چور جاگ گیا،
لیکن ابھی وہ بطور تجارت اپنا پاؤں ملک میں پسار رہے تھے،
اب جہانگیر کے بعد شاہجہاں (1628 تا 1658) کا دور آیا،
دورِ شاہجہانی میں بھی انگریز کی توجہ صرف تجارت پر تھی،
شاہجہاں کے بعد اورنگ زیب عالمگیر( 1658 تا 1707)
کا دور آیا، اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ ایک نیک دل بہادر و دلیر بادشاہ تھے، جن سے پورا ہندوستان سکھ، مراٹھا، راجپوت سب کَانپتے تھے،
ان میں آمنے سامنے کے جنگ کی تاب نہ تھی،البتہ وقتا فوقتاً، گورلا اٹیک کرتے، اور پھر چھپ جاتے، پھر اورنگ زیب عالمگیر کی تلوار غاز بنکرگرتی اور انہیں انکے جسم سے آزاد کردیتی،
اب انگریزوں کی کہاں ہمت کہ وہ دو بدو جنگ کرتے، یہ اپنے کاروبار پر بس فوکس کررہے تھے،
1707 عیسوی میں اور نگ زیب کے انتقال کے بعد، مغلیہ سلطنت طوائف الملوکی کا شکار ہوگئی،
1857 کی انقلابی بغاوت تک لگ بھگ چودہ مغلیہ شہزادے آتے رہے لیکن
ذمامِ اقتدارکو عالمگیر کے بعد پھر کوئی بادشاہ نہیں سنبھال سکا،
اور مزید ستم کہ مغلیہ گورنروں نے بھی حکومت کی سرپرستی سے نکل کر خود مختاری کا اعلان کردیا، جس میں نظامِ دکن، نواب اودھ، نواب بنگال شامل ہیں، جس سے ملک کے خزانے پر کافی اثر پڑا،
اب اس لنگر لٹائی میں گورے کہاں پیچھے رہتے، وہ بڑی شد و مد سے آگے بڑھے، علاقائی جاگیرداروں نوابوں اور راجاؤوں کی دشمنیوں سے فائدہ اٹھا کر مکاری، فریب و دھوکہ دہی سےDivide&Rule کی پالیسی اختیار کی،
اب دو بلیو ں کی لڑایی میں بندر کا سیدھا فائدہ ہوا،
دورِ جہانگیری ہی میں انگریزوں نے سورت، بمبئی جیسے بڑے شہروں کو اپنے تجارتی حلقہ اثر میں لے لیا تھا،
اب انگریزوں کی باقاعدہ طور پر پہلی لڑا ئی سراج الدولہ کے دادا بنگال کے نوا ب علی وردی خان مہابت جنگ ( 1740 تا 1756)
سے ہوئی جنہوں نے انگریزوں کا مقابلہ بڑی بے جگری سے کیا، لیکن یہ شکست سے دو چار ہوئے،
اب انکے بعد نواب آف بنگال سراج الدولہ سے 1756 میں جنگ ہوئی لیکن غدار میر جعفر جو کہ فوج کا سپہ سالار تھا، دھوکہ دیا جس میں نواب سراج الدولہ جنگ ہار گئے، بقول شاعر
*منافق دوستوں سے لاکھ بہتر ہے کھلا دشمن*
*کہ غداری نوابوں سے حکومت سے حکومت چھین لیتی ہے*
اب اس غداری کی عوض میں میر جعفر کو بنگال کے مسند پر بٹھا گیا،لیکن انگریزوں نے استعمال کرکے اس غدار کو کیفر کردار تک پہونچا دیا،
1764 بکسر کی لڑائی ایسٹ انڈیا کمپنی، اور اتحادی قوت (بنگال کے نواب میر قاسم، اودھ کے نواب شجاع الدولہ اور شاہ عالم ثانی سے) ہوا،
لیکن حکمت عملی کی کمی اورغداری کی وجہ سے یہ جنگ میں شکست ہوئی،
ا ب بنگال پر انگریز کا پورا تسلط ہوگیا
معاہدہ میں شاہ عالم ثانی کو بنگال کا پورا خراج انگریزوں کے حوالے کرنا پڑا،
اب انگریز بہار و اودھ کے طرف بڑھنے لگے، اور دکن کے امراء کو منصب کا لالچ دیکر ٹیپو کے مقابل کھڑا کردیا،
ٹیپو سلطان سے پہلے انکے والد دو جنگوں میں انگریزوں کے دانت کھٹے کر چکے تھے،
ٹیپو سلطان نے بھی انگریزوں سے چار جنگیں لڑی،
پہلی 1782 میں دوسری 1784 میں اس میں سلطان فاتح رہے،
1792 انگریزوں سے تیسری بار جنگ ہوئی، لیکن. غداری کی وجہ سے انکو شکست کھانی پڑی،
اور سلطان کی آخری لڑائی جس میں انکے سپہ سالار میر صادق نے غداری کی اور انگریزی فوجیوں کے لئے قلعہ کا دروازہ کھول دیا تھا، بہادری دلیری، پامردی و شیر دلی سے لڑتا ہوا، شیر میسور سری رنگا پٹنم قلعہ کے دروازے پر شہید ہوا، اور اپنے خون سے آزادی کا شعلہ پھونک گیا،اور اپنے ایثار کے گِل کاری سے ہند میں بیداری کا جذبہ پیدا کرگیا،
جنرل ہارس نے ٹیپو کی لاش پر کھڑے ہوکر کہا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے،
اپنے شعلہ بار تحریروں سے انگریزوں کی نیندیں حرام کرنے والے، زمیندار، اخبار کے ایڈیٹر ظفر علی خان( 1874 تا 1956)جب سلطان کے مزار پہ پہونچے تو یوں خراج عقیدت پیش کیا___
*ہند کو محرمِ اسرارِ وفا تو نے کیا*
*حقِ وفاداریِ مشرق ادا تو نے کیا*
*ہند میں آج جو یہ جذبۂ بیداری ہے*
*تیرے ہی ایثار کی گِل کاری ہے*
اب آزادی کی روح عوامی سطح پر آیا چاہتی تھی، جس میں سب سے پہلے مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فرزند ارجمند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے انگریزوں کے خلاف فتوی دیا،
فتوی دیکھیے….
،،،، یہاں انگریزوں کا حکم بلا دغدغہ او بے دھڑک جاری ہے،
ہندوستانیوں کو انکے بارے میں کوئی دخل نہیں، وہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کرتے ہیں اور عوام کی شہری آزادی ختم ہوچکی ہے،،،
شاہ صاحب نے ہندوستان کو دار الحرب قرار دیا اسطرح غیر ملکی اقتدار کے خلاف ببانگِ دہل آزادی کا اعلان کیا، ایک دوسرے فتوی میں لکھتے ہیں،
،،،،، جناب کو خوب معلوم ہے پردیسی سمندر پار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے، مجبوراً چند غریب اور بے سروسامان کمرِ ہمت باندھ کر کھڑے ہوگئے، جس وقت ہندوستان ان غیر ملکوں سے خالی ہوجائیگا، اور ہماری کوشش بار آور ہوگئی ، تو حکومت کو عہدے اور منصب انکو ملینگے، جنکو انکو طلب ہوگی، اور ان کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہوجائیگا،،،
(تاریخ جنگ آزادی 1857)
1824 میں شاہ صاحب کو زہر دیکر شہید کردیا گیا،
لیکن اپنے پیچھے شاگردوں اور جانثاروں کی ایک فو ج چھوڑ کر گئے،
اسکے بعد سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے آزادی کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہزاروں میل کا سفر کیا،
1826 میں سید احمد شہیدؒ نے جہاد کے لئے بیعت شروع کیا،
اس جہاد کو تحریکِ شہیدین اور تحریکِ بالا کوٹ بھی کہا جاتا ہے۔۔
اس جہاد کا مقصد۔اول تو مذہبی خرافات سماجی اور اخلاقی گراوٹوں کی اصلاح تھی
دوم۔سیاسی جبر سے نجات انگریزی تسلط سے آزادی اور عدل و رواداری کے طرز پر حکومت کرنا تھا
اگر یہ تحریک کامیاب ہوجاتی تو آج ہندوستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
1831 میں انگریزوں اور انکے اتحادی سکھ ساتھیوں کے ساتھ ملکر بالاکوٹ کی پہاڑیوں پر جہا د کیا،
اس جنگ میں بھی شکست ہوئی، مگر تحریک شہیدین نے ہندی مسلمانوں کے اندر آزادی و بغاوت کے جوالہ کو پھونک دیا،
جو آگے چل کر 1857 کے انقلاب کی تمہید بنی،
1857 یہ جنگ پلاسی کی صد سالہ یادگار ہے جس میں یہ کرانتی شمالی ہند سے اٹھکر پورے ملک میں پھیل گئی، متفقہ طور پر بہادر شاہ ظفر کی معیت میں جنگ لڑی گئی. لکھنؤ، میرٹھ،دلی شاملی، انبالہ، سے اٹھکر پورے ملک میں یہ بغاوت کی چنگاری دو بدو جنگ کی شکل میں دیکھنے کو ملی،
مگر سلطنت کی بے سروسامانی قلعہ سے خفیہ پیغام رسانی، اور غداروں کی وجہ سے بہادر شاہ ظفر کو کراری شکست ملی، مغلیہ شہزادوں کو چن چن کر قتل کیا گیا، خود بہادر شاہ ظفر کے سامنے تھال میں انکے دو بیٹوں کے کٹے ہوئے سر کو لایا گیا،
بہادر شاہ ظفر پر غدر و بغاوت کا مقدمہ دائر کرکے ملک بدر کرکے رنگون بھیج دیا گیا، اودھ کے نواب واجد علی شاہ کو کلکتہ بھیج دیا، بیگم حضرت محل کو نیپال جانا پڑا، غرضیکہ پکڑ دھکڑ، پھانسی لوٹ مار قتل و غارت گری شہر پناہ دلی میں ہونے لگی، غالب نے دلی کا حال یوں بیان کیا ہے___
*چوک جسکو کہیں وہ مقتل ہے*
*گھر نمونہ بنا ہے زِنداں کا*
*شہرِ دلی کا ذرہ ذرہ خاک*
*تشنہ خوں ہے ہر مسلماں کا*
اب مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کے مستقبل کا مسئلہ تھا، مجاہدین کو جیلوں میں ٹھونسا گیا، پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا،
توپوں میں باندھ کر انکے پرخچے اڑائے گئے، اب انکے بچے یتیم، سر پر شفقت کا کوئی ہا تھ نہیں،
اوپر سے عیسائی مشینری اور مبلغین بڑی تعداد میں بچوں کو مفت تعلیم کھانے، اور رہنے سہنے کا لالچ دیکر انکو عیسائی بنانے پر تلی تھی،
اسی وقت اللہ نے بزمِ ولی اللہی سے فیضیاب حضرات کے دلوں میں اللہ نے دیوبند نامی جگہ پر مدرسہ کھولنے کا الہام کیا،
مولانا قاسم نانوتوی اور انکے رفقاء نے انگریزی استعمار کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشن ہونے پہلا چراغ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ایک انار کے درخت تلے رکھی، حسنِ اتفاق پہلا استاذ محمود اور پہلا شاگرد محمود
اور یہی شاگرد آگے چلکر شیخ الھند بنا، شورش کاشمیری نے کیا ہی خوب اظہار عقیدت پیش کیا ہے،_____
*اس میں نہیں کلام کہ دیوبند کا وجود*
*ہندوستاں کے سر پہ ہے احسانِ مصطفیٰ*
*تا حشر اس پہ رحمتِ پروردگار ہو*
*پیدا کئے ہیں جس نے فدایانِ مصطفیٰ*
*گونجے گا چار کھونٹ میں نانوتوی کا نام*
*بانٹا ہے جس نے بادۂ عرفانِ مصطفیٰ*
شاملی کے میدان میں بنفس
نفیس شرکت کرنے والے حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا 1880 میں انتقال ہوا،
سر سید نے انگریزوں کے نظامِ تعلیم، کے مقابلے میں 1875 میںM, A, O محمڈن
اینگلو اور ینٹل کالج کی داغ بیل ڈالی، جسے 1920 میں یونیورسٹی کا درجہ ملا، اب A, M, Uعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں،
1905 میں سرخیل علماء قطب عالم رشید احمد گنگوہی
کا انتقال ہوا،
1912 تحریک ریشمی رومال کی ابتدا ہوئی،
جسکے روح رواں شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی تھے انہوں نے اپنے شاگرد خا ص عبیداللہ سندھی کو سرحد پر بھیجا تھا اور اسکا مقصد جرمنی، ترکی، اور افغان کی مدد سے ہندوستان کو آزاد کرا نا تھا مگر مخبری کی وجہ سے یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی، جسکے نتیجے میں شیخ الھند کو مالٹا کے کالا پانی کی سزا ہوئی، انکے ساتھ میں شیخ الاسلام مولانا حسین مدنی، مولانا عزیز گل پشاوری، حکیم نصرت حسین بھی اپنے شیخ کی خدمت کے
لیے جیل گئے،
1920 میں علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد، شیخ الھند، محمد علی جوہر،حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبد الحمید خواجہ، ان حضرات کے دست با برکات سے وجود میں آیا،
1925 جامعہ ملیہ اسلامیہ کو دلی قرول باغ منتقل کیا گیا،
پھر 1935 میں اوکھلا میں اسکی بنیاد رکھی گئی، 1988 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ ملا
مالٹا سے واپسی کے چھ مہینے کے بعد ہ یہ سپریم لیڈر آف انڈیا (شیخ الھند) ڈاکٹر مختار انصاری کےمکان پر بسترِ مرگ پہ یہ کہتے ہوئے اس دار فانی سے رخصت ہواکہ ،،،، مرنےکا کچھ افسوس نہیں افسوس تو یہ ہے کہ بستر پر مررہا ہوں، تمنا یہ تھی کہ میدان جہاد ہوتا، اور اعلائے کلمۃ اللہ کے جرم میں میرے ٹکڑے کیے جاتے،،،
مدینہ کے گورنر جمال پاشا نے شیخ الھند کے بارے میں کہا تھا
،،، شیخ الھند کی مٹھی بھر ہڈیوں اور مختصر سے جثے میں کیا حرارت رکھی تھی، کہ اس نے پوری دنیائے اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،،،
آزاداد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم امام حریت مولانا ابو الکلام آزادجمیعت علمائے ہند کے تیسرے اجلاس لاہور 18 نومبر تا بیس نومبر 1921 صدارتی خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا
،،،، انکی وفات بلا شبہ ایک قومی ماتم ہے، مولانا مرحوم ہندوستان کے گزشتہ دور کے آخری یادگار تھے، انکی زندگی اس عہدِحرمان و فقدان میں علمائے حق کے اوصاف و خصائل کا بہترین نمونہ تھی، انکا آخری زمانہ جن اعمال حقہ میں بسر ہوا، وہ علمائے ہند کی تاریخ میں یادگار رہینگے، ستر برس کی عمر میں جب انکا قد انکے دل کی طرف اللہ کے آگے جھک چکا تھا، بیت اللہ کے قریب گرفتار کیے گیے، اور جزیرہ مالٹا میں نظر بند رہے، یہ مصیبت صرف انہیں اس لیے برداشت کرنی پڑی، کہ ملتِ اسلام کی تباہی و بربادی پر انکا خدا پرست دل صبر نہ کرسکا، اور انہوں نے حق کے دشمنوں کی خواہشات کی تسلیم و اطاعت سے مردانہ وار مقابلہ کیا، در حقیقت انہوں نے علمائے حق و سلف کی سنت زندہ کردی اور علمائے ہند کے لیے اپنی سنت حسنہ بطور یادگار چھوڑ گیے، وہ اگرچہ اب ہم میں موجود نہیں ہیں، لیکن انکا روحِ عمل موجود ہے، اور اسکے لیے جسم کی طرح موت نہیں،،،،
(مولانا محمود حسن حضرت شیخ الھند. صفحہ 61)
1919 میں ہندوستان کے متحرک و فعال تنظیم جمیعت علماء ہند کا قیام ہوا جسکے پہلے صدر مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی کو بنایا گیا،
بعد ازاں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اسکے صدر بنے،
اور اسی سال جلیاں والا باغ کانڈ ہوا، جس میں جنرل ڈائر نے دفعہ 144 کے بہانے سے چارسو نہتے ہندوستانیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا،
اور 1931 میں تحریکِ خلافت کے روح رواں مولانا محمد علی جوہر لندن راونڈ ٹیبل کانفرس شرکت کی غرض سے گئے ہو ئے تھے،وہیں انکا انتقال ہوا
اور حکومت کے خرچ پر ارض مقدس، برکتوں کا شہر، بیت المقدس میں تدفین کا عمل ہوا،
شفیق رامپوری کا یہ شعر جو کہ علی برادران کی فکر مندی کو درشاتا ہے___
*بولیں اماں محمد علیؔ کی*
*جان بیٹا خلافت پہ دے دو*
*ساتھ تیرے ہیں شوکتؔ علی بھی*
*جان بیٹا خلافت پہ دے دو*
،،،،1920ء میں گاندھی جی اورمولاناابوالکلام آزادنے ودیشی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن(ترک موالات)کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیارتھا، جواس جنگ آزادی اورقومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کاپوراپورانوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کاخطرہ پیداہواکہ پوراملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے،
اور یہ سب آثارانگریزی حکومت کے خاتمہ کی پیشینگوئی کررہے تھے۔
1921ء میں موپلابغاوت،1922ء میں چوراچوری میں پولیس فائرنگ،
1930ء میں تحریک سول نافرمانی ونمک آندولن
، 1942ء میں ہندوستان چھوڑوتحریک(Quit India Movement)
، 1946ء میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پرپولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہیدہوئے،،،،،
(ماہ نامہ شمارہ دارالعلوم دیوبند اپریل 2011)
غرضیکہ 1757 سے لیکر 1947 تک پانچ لاکھ کے قریب، مسلمان جس میں علماء، قوم کے سر برآوردہ حضرات خواتین و عام مسلمانوں نے اپنے لہو سے یہ عروسِ آزادی کے دست پر حنا بندی کی ، تب جاکر یہ ملک ایک طویل عرصے کی جسمانی ذہنی و فکری غلامی سے آزاد ہوا، لیکن افسوس صد افسوس برادرِ وطن کی عیاری و مسلموں کی سادگی و غفلت شعاری سے آزادی کے ہمارے تمام مرکزی کردار، آزادی ہند میں اہم رول و پارٹ ادا کرنے تمام ہیروز کو مسلسل. نظر انداز، کردیا گیا بلکہ ستم ظریفی یہ ہے انکے مسلم ہونے کے بنا پر پرو پیگنڈے کے تحت انکی کردار کشی، اور انکے تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے،
نصابوں سے انہیں خارج کیا جارہا ہے، انکے ناموں پر بسے شہروں کو کھرچ کھرچ کرمٹا یا جارہا، سیاسی مفاد کے خاطر مستقل سوشل سائٹ پر سلاطینِ ہند کے بارے میں غلط امیج بنا یا جارہا ہے، اور ذہنوں میں نفرت کا بیج بویا جارہا ہے،
آج وقت کی نزاکت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اور اپنے اسلاف کے قربانیوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے،
تاکہ مستقبل کے پیش آمدہ خطرات کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جا سکے، اور دگرگوں حالات سے نمٹا جا سکے،
محمد سلمان قاسمی بلرامپوری
13 اگست 2023