باغ و بہار

باغ و بہار

تحریر: احمد

باغ و بہار اردو کی مختصر ترین داستانوں میں انفرادی حیثیت اور امتیازی اہمیت کی حامل ہے۔ باغ و بہار کا اصل نام قصہ چہار درویش ہے اور اس کا   تاریخی نام باغ و بہار ہے۔ یہ قصہ در اصل فارسی زبان  میں تھا، کہا جاتا ہے کہ امیر خسرو نے اپنے شیخ اور پیر حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کےعلالت کے دنوں میں ان کا دل بہلانے اور غم ہلکا کرنے کے غرض سے تحریر کیا تھا۔ لیکن یہ بات اس لیے فرضی اور بے سند معلوم ہوتی ہے کہ امیر خسرو سنی صوفی تھے جبکہ باغ و بہار کے تخلیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی شیعہ مصنف کی تحریر ہے۔

یہ قصہ جتنا اردو میں مقبول ہوا فارسی میں بھی اس کو اتنی ہی شہرت ملی۔ اس کے دو اردو ترجمے کیے گئے ایک میر عطاحسین تحسین نے “نوطرز مرصع “کے نام سے کیا جس کی زبان دیسی اور غیر ملکی الفاظ کی آمیزش سے ثقیل اور بوجھل ہو گئی، دوسرا ترجمہ میر امن نے تحسین کے اسی ترجمے کو اپنی زبان میں سہل کر کے لکھا۔ مولوی عبد الحق کے مطابق باغ و بہار کا اصل ماخذ عطا حسین تحسین کی نوطرز مرصع ہے جو قصہ چہار درویش کا ترجمہ ہے۔

سبب تالیف اور سن تصنیف

1800ء کے قریب تقریباً پورے ہندوستان پر انگریزوں کا غلبہ ہو چکا تھا۔ انگریزوں کے ہندوستانی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے امور سلطنت کے چلانے میں انہیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، لہذا  انگریز ملازمین کو ہندوستانی  زبان سکھانے کے غرض سے 1800ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل مارکوس ویلزلی کے حکم سے کلکتہ میں” فورٹ ولیم کالج “کا قیام علم میں لایا گیا اور ڈاکٹر جان برتھ وک گلکرسٹ ہندوستانی شعبے کے سربراہ مقرر کیے گئے۔ گل کرسٹ کی سرپستی میں میر امن وہلوی، سید حیدر بخش حیدری، میر شیر علی افسوس، مرزامظہر علی خاں ولا، کاظم علی جواں، خلیل علی خاں اشک، میر بہادر علی حسینی،نہال چند لاہوری، للولال جی وغیرہ کی ایک جماعت تشکیل دی گئی ۔ ان حضرات کے ذمے قصہ کہانیوں کے آسان زبان میں ترجمے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان حضرات کاوشوں کے نتیجے میں متعدد کتابیں تیار کی گئیں مثلاً باغ و بہار، توتاکہانی، آرایش محفل، بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، داستانِ امیر حمزہ، نثرِ بے نظیر، اخلاق ہندی، مذہبِ عشق اور ان کے علاوہ بہت سی کتابیں تیار کی گئیں لیکن مذکورہ کتابوں کو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی۔ البتہ مذکورہ کتابوں میں بھی جتنی قبولیت باغ و بہار کو حاصل ہوئی کسی دوسری کتاب کو نہ ہو سکی۔

میر امن کے بیان کے مطابق انہوں نے اس کتاب کو 1215ھ کے اخیر اور 1801ء کے آغاز میں  تحریر کرنا شروع کیا، 1802ء میں یہ پایہ تکمیل کو پہنچی۔ پہلی بار 1802ء میں اس کے 102 صفحات گل کرسٹ کے ایک” انتخابِ ہندی مینول “میں چہار درویش کے عنوان سے شائع کیے گئے اور مکمل کتاب باغ و بہار کے نام سے 1218ھ مطابق 1803ء میں ہندوستانی پریش کلکتہ سے شائع ہوئی۔ مذکورہ کتاب کے متعدد نسخے شائع کئے گئے، لیکن ان میں دو نسخے (1) نسخہ مولوی عبد الحق (2) نسخہ رشید حسن خان زیادہ مشہور ہوئے۔(باغ وبہار،ص:11)

” میر امن دہلوی ” نام و نسب و حالات زندگی

نام: میر امن

تخلص: لطف

      میر امن کے آباء و اجداد سلاطینِ مغلیہ کے عہد میں ہندوستان آئے۔ سلاطین مغلیہ کا برتاؤ ان کے آباء کے ساتھ ہر دور میں قابل ستائش رہا، ہر دور میں انہیں اونچے منصب اور جاگیریں عطا کی گئیں۔ میر امن کی پیدائش دلی میں ہوئی اور یہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ احمد شاہ درانی کے حملے اور سورج مل جاٹ کے قبضے نے میر امن کے خاندان دہلی سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ بالآخر مجبوراً 1760-61ء میں دلی کو خیر آباد کہ کر مع اہل و عیال عظیم آباد(پٹنہ) کا رخ کیا۔

ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد میر امن 1798-99ء میں کلکتہ پہونچے۔ یہاں نواب دلاور جنگ کے چھوٹے بھائی محمد کاظم علی خاں کے استاذ مقرر ہوئے۔ دو سال اس خدمت پر مامور رہے، اس کے بعد میر بہادر علی حسینی کے توسط سے ڈاکٹر گل کرسٹ تک رسائی ہوئی۔ 4/ مئی 1801ء میں 40 روپئے ماہانہ تنخواہ پر فورٹ ولیم کالج میں ماتحت منشی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ پانچ سال کالج کی خدمت کرنے کے بعد 1806ء میں بسبب ضعیفی چار ماہ کی زائد تنخواہ کے ساتھ کالج کی خدمات سے سبک دوش ہوئے۔ اس کے بعد میر امن کہاں گئے کب وفات پائی ان تمام چیزوں کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بعض تذکرہ نویش میر امن کی تاریخ وفات 1808ء کلکتہ میں لکھتے ہیں۔ میر امن نے دوران ملازمت دو کتابیں (1) باغ و بہار (2) گنجِ خوبی( ترجمہ اخلاقِ محسنی مولفہ ملا حسین واعظ کاشفی) تحریر کیں۔

آغازِ قصہ باغ و بہار

داستان کا آغاز بادشاہ آزاد بخت کے تمہیدی قصے ہوتا ہے،وہ کچھ اس طرح ہے:

ملک روم میں آزاد بخت نامی ایک عادل، نیک اور انصاف پرور بادشاہ رہتا ہے۔ اسے ہر قسم کے آسائش و آرام کی چیزیں میسر تھیں، لیکن وہ اولاد کی دولت سے محروم تھا۔ لاولدی کے غم میں تخت و تاج سے کنارہ کشی اختیار کر کے وہ گوشہ نشینی کا خواہاں ہوا۔ وزیر کے بہت سمجھانے پر اس نے اپنے ارادہ کو ترک کر دیا۔ ایک دن اس نے کسی کتاب میں پڑھا کہ اگر کوئی شخص افسردہ و رنجیدہ ہو تو قبرستان جائے اور زندگی کی بے ثباتی کو خیال میں لائے ان شاء اللہ رنج والم دور ہوگا۔حسب ہدایت اس نے شب میں قبرستان کا رخ کیا، وہاں اسے ایک چراغ کی روشنی میں چار درویش نیم غنودہ حالت میں بیٹھے نظر آئے۔ تھوڑی دیک بعد ایک کو چھینک آئی اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور چاروں درویش بیدار ہو گئے۔ بادشاہ آزاد بخت چھپ کر ان کی آپ بیتی سننے لگا۔

قصہ پہلے درویش کا

 پہلا درویش دو زانو بیٹھا اور اپنا قصہ کہنا شروع کیا:

 یا معبوداللہ! ذرا ادھر متوجہ ہو اور ماجرا اس بے سرو پا کا سنو!

یہ سر گزشت میری ذرا کان دھر سنو!

مجھ کو فلک نے کر دیا زیر و زبر سنو!

جو کچھ کہ پیش آئی ہے شدت میرے تئیں

اس کا بیان کرتا ہوں، تم سر بہ سر سنو!

پہلا درویش اپنے متعلق کہتا ہے کہ وہ ملک یمن کے ایک بڑے تاجر خواجہ احمد کا بیٹا ہے۔ باپ کے انتقال کے بعد اس نے ساری دولت شراب نوشی اور عیاشی میں لٹا دی۔ جب اپنے پاس کچھ نہ بچا تو بہن کے گھر کا قصد کیا۔ بھائی کی حالت پر ترس کھاکر بہن نے  اسے اپنے پاس رکھ لیا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد جب اس کی حالت بہتر ہوئ تو بہن نے بھائی سے کہا کہ تمہیں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے اور کچھ کام دھندا کرنا چاہیے، ورنہ لوگ تمہارے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کریں گے جو میرے اور تمہارے لیے رسوائی اور جگ ہنسائی کا سبب بنیں گی۔

بہن کی باتیں سن کر اسے غیرت آئی اور اس نے بغرض تجارت دمشق کے سفر کا قصد کیا۔ اس نے اپنا سامانِ تجارت خرید کر ایک سوداگر کے سپرد کیا اور خود گھوڑے پر سوار ہوکر خشکی کے راستے دمشق کی جانب نکل پڑا۔ شہر دمشق پہنچے کے بعد شہر کے داخلی دروازے پر اسے ایک خوبصورت لڑکی زخمی حالت میں کراہتے ہوئے ملی۔ اس نے اسے  اٹھایا اور عیسیٰ نامی جراح سے اس کا علاج کروایا۔ تھوڑے دنوں میں وہ لڑکی بالکل صحت مند ہوگئی۔ یہ اس کے عشق میں گرفتار ہو چکا تھا۔ دریافت کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ وہ خاتون دمشق کی شہزادی ہے جس کے بے وفا عاشق نے اس کی یہ حالت بنا دی تھی۔ شہزادی نے خواجہ زادہ کی مدد سے اس غدار اور بے وفا سے انتقام لیا اور اسے اس کے معشوقہ سمیت قتل کر دیا۔

شہزادی خواجہ زادہ(پہلا درویش) کے پرخلوص محبت سے متاثر ہو کر اس سے شادی کر لیتی ہے۔ ایک دن گھوڑے پر سوار ہو کر دونوں دمشق سے نکل جاتے ہیں۔ جنگل میں ایک سمندر کے کنارے قیام کرتے ہیں۔ خواجہ زادہ پیپل کے ایک درخت کے پاس شہزادی کو بٹھا کر اشیائے خورد و نوش اور رہائش کے لیے کسی مناسب جگہ کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ تھوڑی دیر میں جب واپس آتا ہے تو شہزادی کو وہاں نہ پاکر بہت پریشان ہوتا ہے۔ بہت ڈھونڈنے کے بعد مایوس ہو کر خود کشی کے ارادے سے پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے۔ جونہی اپنے آپ کو گرانے والا ہوتا ہے تبھی ایک گھوڑے پر سوار سبز پوش شخص اسے روک لیتا ہے اور ہدایت کرتا ہے کہ ملک روم جا وہاں مصیبت کے مارے تین درویش ملیں گے تم چاروں کی آرزو بادشاہ آزاد بخت سے ملنے کے بعد پوری ہوگی۔ یہ سن کر بادشاہ آزاد بخت خوش ہوتا ہے اور دوسرے درویش درویش کی کہانی سننے لگتا ہے۔

قصہ دوسرے درویش کا

دوسرا درویش دو زانو بیٹھتا ہے اور بولتا ہے:

اے یارو اس فقیر کا ٹک ماجرا سنو!

میں ابتداء سے کہتا ہوں تا انتہاء سنو!

جس کا علاج کر نہیں سکتا کوئی حکیم

ہےگا ہمارا درد نپٹ لا دوا سنو!

دوسرا درویش فارس(ایران) کا شہزادہ رہتا ہے۔ حاتم کی سخاوت کے قصے نے اسے سخاوت پر آمادہ کیا، پھر ایک فقیر کی زبانی بصرے کی شہزادی کی سخاوت کے متعلق سنتا ہے۔ شہزادی کی سخاوت سے متاثر ہوکروہ اس سے ملنے کی آرزو میں فارس کا رخ کرتا ہے۔ شہزادی کی سخاوت اپنی آنکھوں سے دیکھ کر وہ اس پر عاشق ہو جاتا ہے۔ درویش شہزادی سے اس بے پناہ دولت کے متعلق سوال کرتا ہے، جواب میں شہزادی اپنا واقعہ سناتی ہے کہ وہ ایک بادشاہ کی بیٹی ہے جس کو اس کے باپ نے اس کی جھوٹی تعریف نہ کرنے کی وجہ سے محل سے نکال دیا تھا۔ وہ جنگل میں اکیلی رہتی اور خدا کی عبادت کرتی۔ اتفاقاً ایک دن اسے جنگل میں ایک خزانہ ہاتھ لگ جاتا ہے جس سے بے پناہ مال و دولت کی مالک ہو جاتی ہے۔ اور ان مال و زر کو خدا کی مخلوق پر دل کھول کر خرچ کرتی ہے۔

درویش جب اس سے نکاح کی خواہش ظاہر کرتاہے تو شہزادی اس شرط پر رضامند ہوتی ہے کہ وہ اسے شہرِ نیم روز کی خبر لا کر دےگا۔ درویش شرط کی تکمیل کیلئے شہر نیم روز پہنچتا ہے، وہاں نیم روز کے بادشاہ کی داستانِ محبت سن کر اسے اس کے محبوب سے ملانے کا وعدہ کر بیٹھتا ہے۔ پانچ سال تک صحراء میں پھرتا رہتا ہے لیکن اسے اس کے مقصد میں کامیابی نہیں ملتی۔ بالآخر مایوس ہو کر خودکشی کا ارادہ کرتاہے تبھی عین موقع پر وہی سوار برقع پوش اسے روک لیتا ہے اور روم جانے کا حکم دیتا ہے کہ وہیں تمہاری دلی آرزو پوری ہوگی۔

دوسرے درویش کے قصے میں در اصل تین قصے ہیں:

پہلا: فارس کے شہزادے کا قصہ

دوسرا: بصرے کی شہزادی کا قصہ

تیسرا: شہر نیم روز کے شہزادے کا قصہ

دوسرے درویش کی کہانی رات کے آخری حصے میں ختم ہوتی ہے۔ آزاد بخت اپنے محل لوٹ آتا ہے۔ صبح فقیروں کو بلوا کر بقیہ دو درویشوں کے قصے کو سننے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ درویش بادشاہ کے دربار میں کافی خودزدہ ہوتے ہیں، آزاد بخت یہ محسوس کر ان کے خوف کو دفع کرنے کے لیے ایک قصہ خواجہ سگ پرست کا خود کہنا شروع کرتا ہے۔

قصہ آزاد بخت کا

آزاد بخت نے کہنا شروع کیا:

اے شاہو! بادشاہ کا اب ماجرا سنو!

جو کچھ کہ میں نے دیکھا ہے اور ہے سنا سنو!

آزاد بخت کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ اسے ایک تاجر نے تحفۃً ایک لعل(موتی) پیش کیا، آزاد بخت نے ویسا لعل کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ اسے روزانہ منگواتا اور تمام درباریوں کے سامنے اس کی نمائش کرتا اور خوب تعریف کرتا۔ وزیر کو یہ بات ناگوار گزری اس نے آزاد بخت سے کہا حضور ایک بادشاہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک پتھر کی اتنی تعریف کرے، لوگ سنیں گے تو بڑی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوگی۔ یہ ایک پتھر ہی تو ہے اس کی کیا حیثیت ہے ایسے ایسے سات پتھر ایک سوداگر کے کتے کے گلے لٹکے ہوئے ہیں۔

درباریوں کے سامنے وزیر کی اس طرح کی بات سے آزاد بخت کو بڑا غصہ آیا اور اس نے وزیر کے حبس کا حکم صادر کر دیا۔ وزیر کے قید کی خبر جب اس کے گھر پہنچی تو وزیر زادی نے اپنے  باپ کو قید سے رہا کروانے کے ارادہ سے  اس سوداگر کی تلاش میں نکل پڑی جس کے متعلق کہنے کی بناء پر اس کے باپ کو قید میں ڈالا گیا تھا۔ وزیر زادی نے مردانہ لباس زیب تن کر کے مردانہ بھیس بنا  کر سفر پر نکل پڑی اور لوگوں سے اپنا تعارف سوداگر بچہ کے نام سے کرایا۔ مختلف علاقوں کی سیاحت کے بعد سوداگر بچہ( وزیر زادی) نیشاپور پہنچا، وہاں اسے وہ سوداگر مل گیا جس کے کتے کے گلے میں سات لعل جڑے ہوئے تھے۔ سوداگر بچے نے پہلے اس سوداگر کو اپنے عشق میں گرفتار کیا اور پھے اسے اپنے ملک آزاد بخت کے پاس لانے پر آمادہ کیا۔

خواجہ سگ پرست اپنے کتے اور پنجرے میں قید دو قیدیوں کو لیکر پورے ساز و سامان کے ساتھ ملک روم روانہ ہوا۔ تھوڑے عرصے میں یہ ملک روم پہنچ گئے۔ آزاد بخت کو جب ان کی اطلاع ملی تو اس نے ان کو اپنے حضور طلب کیا۔ آزاد بخت نے سوداگر کے کتے کے گلے میں سات لعل دیکھ کر اپنے وزیر کی باتوں پر یقین کر لیا، لیکن ساتھ ہی پنجرے مین بند آدم زاد کو دیکھ اسے سوداگر پر بڑا غصہ آیا اور قید کرنے کی وجہ دریافت کیا۔ آزاد بخت کے بار بار اصرار اور خفگی کو دیکھتے ہوئے سوداگر بادل نخواستہ کہنا شروع کیا کہ:

یہ دونوں میرے بڑے بھائی ہیں، میں نے بار بار ان کے ساتھ ہمدردی اور غمخواری کا معاملہ کیا لیکن انہوں نے ہر بار مجھ سے دغا کی اور پشت میں خنجر بھونکنے کی کوشش کی، حتیٰ کہ میری جان لینے کی حد تک گئے اور یہ کتا جس کے گلے میں آپ لعل( موتی) دیکھ رہے ہیں اس نے میرے ساتھ وفا کی اور میری جان بچائی۔

حقیقت حال سے واقف ہونے کے بعد آزاد بخت کا غصہ فرو ہو گیا۔ اس نے سوداگر کا نکاح سوداگر بچہ( وزیر زادی) سے کرا دیا۔ اپنا قصہ کہنے کے بعد آزاد بخت درویشوں سے مخاطب ہوا کہ میں  نے کل رات دو فقیروں کی سرگزشت سنی تھی، اب جو باقی ہیں میں ان کی سرگزشت سننے کا خواہشمند ہوں۔ اس پر تیسرے درویش نے کہنا شروع کیا۔

قصہ تیسرے درویش کا

تیسرا درویش اپنی بات اس طرح شروع کرتا ہے:

احوال اس فقیر کا اے دوستاں سنو!

یعنی جو مجھ پہ بیتی ہے وہ داستاں سنو!

جو کچھ کہ شاہ عشق نے مجھ سے کیا سلوک

تفصیل وار کرتا ہوں اس کا بیاں سنو!

تیسرا درویش عجم کے بادشاہ کا رہتا ہے۔ ایک دن اپنے مصاحبوں کے ساتھ شکار پر نکلا، ناگاہ اسے ایک کالا ہرن دکھائی دیا۔ بادشاہ زادہ(تیسرا درویش) نے اس پہ تیر چلائی جو جاکر اس کے پیروں میں پیوست ہو گئی۔ ہرن لڑکھڑاتا ہوا پہاڑ کے دامن میں اترنے لگا اس نے بھی اس کا تعاقب کیا، کچھ دور چلنے کا بعد ایک بوڑھا شخص نظر آیا جو اس ہرن کے پیروں سے تیر نکالنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے زخمی کرنے والے کو بددعائیں دے رہا تھا۔ درویش نے اسے سلام کیا اور معذرت کی کہ یہ غلطی مجھ سے سرزد ہوئی ہے۔ اور تیر نکالنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ اس بوڑھے نے درویش کی مہمان نوازی کی اور سونے کے واسطے چارپائی کا بند و بست کر دیا۔

درویش جب سو کر بیدار ہوا تو گھر خالی پا کر پریشان ہوا۔ تھوڑی جستجو کے بعد وہ بوڑھا شخص ایک خوبصورت پری رو لڑکی کےسامنے  بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔ درویش نے اسے سلام کیا لیکن کچھ جواب نہ ملا۔  اس پر اسے اس پری روپر  لڑکی پر بڑا غصہ آیا ۔ بہت کچھ کہنے کے باوجود اس نے کچھ جواب نہ دیا تو درویش نے اسے جھنجھوڑنے کے غرض سے اس کے پاؤ چھوئے تو سخت معلوم ہوا۔ وہ آدم زاد نہیں بلکہ اس کا ایک مجسمہ تھا جو بالکل زندہ و جاوید معلوم ہوتا تھا۔

درویش کے اس بوڑھے اور اس مجسمے کے متعلق اصرار پر اس بوڑھے نے یہ راز کھولا کہ اس کا نام نعمان سیاح ہے جو اپنے وقت کا بڑا سوداگر تھا۔ ایک دفعہ بغرض تجارت فرنگ پہنچا اور وہاں کی ملکہ کو دل دے بیٹھا اور اس کے کہنے پر اس کے عاشق کو جس کو اس کے (عاشق کے) چچا نے قید کر رکھا تھا خط دینے کیلئے روانہ ہوا۔ لیکن میں پکڑا گیا اور بری طرح زخمی حالت میں جنگل میں پھینک دیا گیا۔ پھر ایک نیک شخص نے مجھے اٹھا کر میرا علاج و معالجہ کیا اور پھر میری ملاقات اسی شہزادی سے کرائی جس کے عشق کے خاطر میں نے یہ ساری اذییتیں برداشت کی۔

ایک دن میں اور شہزادی بہزاد خان نامی ایک شخص کی مدد سے اپنے ملک واپس لوٹنے کے لیے شہر سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں اپنے ملک کے قریب پہنچنے ہی والا تھا اور دریا عبور کر رہا تھا اور میرے پیچھے  شہزادی اپنے گھوڑے پر سوار تھی، میں نے تو دریا عبور کر لی لیکن شہزادی کا گھوڑا مع شہزادی کے دریا میں غرق ہو گیا۔ بہزاد خان نے اسے بچانے کے خاطر دریا میں غوطہ لگایا۔ لیکن نہ ہی شہزادی اور نہ بہزاد خاں کا کچھ سراغ مل سکا۔ شہزادی کے غم میں میں خودکشی کرنے والا تھا تبھی وہ برقعہ پوش سوار نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بشارت دی کہ شہزادی اور بہزاد خان دونوں باحیات ہیں اب تم روم کی طرف جاؤ وہاں تین درویش ملیں گے وہیں تمہاری دلی خواہش اپنے تکمیل کو پہنچےگی۔ یہاں تیرسےدروش کا قصہ ختم ہوتا ہے۔

قصہ چوتھے درویش کا

چوتھا درویش اپنی آپ بیتی رو رو کر کچھ اس طرح کہنا شروع کرتا ہے:

قصہ ہماری بے سرو پائی کا اب سنو!

ٹک اپنا دھیان رکھ کے مرا حال سب سنو!

کس واسطے میں آیا ہوں یہاں تک تباہ ہو!

سارا بیان کرتا ہوں اس کا سبب سنو!

چوتھا درویش چین کے بادشاہ کا بیٹا رہتا ہے۔ باپ کے انتقال کے بعد چچا نے اس کی پرورش کی۔ درویش کے باپ نے اس کے چچا کو وصیت کی تھی کہ جب یہ بڑا ہو جائے تو اس کی شادی اپنی بیٹی روشن اختر سے کر کے بادشاہت کی ذمہ داری اس کے ذمہ سونپ دے۔ لیکن چچا نے بھائی کے وصیت کو فراموش کر بھتیجے( درویش) کے جان لینے کے درپے ہو گیا۔ ایک حبشی غلام مبارک نامی جو اس کے باپ کا سچا وفادار خادم تھا کے ذمہ بھتیجے کے قتل کی ذمہ داری سونپ دی۔

مبارک نے درویش کی خیر خواہی سونچی اور اسے بچانے کی ترکیب سونچنے لگا۔ وہ اسے اس کے باپ کے چھپائے ہوئے خزانے والے تہ خانے میں لے گیا، وہاں وہ اسے ملک صادق (جنوں کا بادشاہ) کے دئے ہوئے 39 بے جان بندروں کی مورتی دکھا کر اس کے باپ کے قول کے مطابق اسے بتاتا ہے کہ اس میں ہر بندر کے ماتحتی میں ایک ہزار دیو ہیں لیکن یہ سب اسی وقت کارآمد ہو سکتے ہیں جب ان کی تعداد چالیس کو پہنچے گی۔ مبارک نے درویش سے کہا اگر ہم چالیسوا بندر حاصل کر لیں تو تمہاری جان اور بادشاہت دونوں باقی رہ جائے گی۔

درویش نے مبارک کے ہمراہ ملک صادق کی طرف کوچ کیا۔ ملک صادق سے مل کر اپنا تعارف کرایا اور اپنا مقصد اس کے سامنے رکھا ۔ تمام باتیں سننے کے بعد ملک صادق نے ایک کاغذ نکال کر درویش کو دیا اور کہا کہ اس پر جس کی شبیہ ہے اگر تو اسے ڈھونڈ لائےگا تو اپنی امید سے زیادہ پائے گا۔ درویش نے اس کاغذ کو لیا اور اس شبیہ جو ایک خوبصورت لڑکی کی تصویر تھی کی تلاش میں نکل پڑا۔ سات سال مختلف علاقوں کی خاک چھاننے کے بعد اسے وہ لڑکی مل گئی۔ وہ اسے لے کر ملک صادق کے حوالے کرنے کے ارادے سے چلا لیکن اس خوبصورت اور خوبرو کی محبت نے اسے ملک صادق کے حوالے کرنے سے روکا۔ درویش نے مبارک سے اپنی حالت و کیفیت کا اظہار کیا۔ پہلے پہل مبارک نے اسے اس عمل سے باز آنے کی بہت تلقین کی لیکن درویش کے ضد کے آگے بے بس ہو گیا۔ بالاۤخر اس نے یہ تدبیر پیش کی کہ ایک بدبو دار تیل اس لڑکی کے جسم پہ مل دے جس سے ملک صادق اس سے متنفر ہو جائے گا اورتو  اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔

لہذا ؛دونوں نے ایسا ہی کیا۔ جب دونوں ملک صادق کے پاس پہنچے تو اس تیل کی بو سے ملک صادق کی حالت دیگر گوں  ہونے لگی اور وہ ان دونوں پر بھڑک اٹھا۔ تبھی درویش نے ایک چاقو سے ملک صادق کے پیٹ پر وار کر دیا۔ درویش کے اس عمل نے ملک صادق کے غصے کو مزید ہوا دے دی۔ اس پر اس نے  درویش کو ایسی لات ماری کہ وہ کہیں دور کسی جنگل میں جا  گرا۔ جب ہوش بحلا ہوئے تو لوگوں سے ملک صادق کے متعلق پوچھ گوچھ کی لیکن  کسی سے کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ اپنے محبوب کے فراق کے غم میں خود کو ہلاک کرنے کے غرض سے ایک روز پہاڑ پہ چڑھا، جونہی خود کو گرانے والا ہوتا ہے تبھی وہی سوار برقعہ پوش ظاہر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنی جان نہ گنوا ملک روم جا ،ستم رسیدہ تین درویش ملیں گے ان سے ملاقات کر اور وہاں کے بادشاہ سے مل تم سب کی خواہش ایک ہی جگہ پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔

چوتھے درویش نے جیسے ہی اپنا قصہ مکمل کیا ایک خبری نے آکر خبر دی بادشاہ کے گھر ایک چاند سا لڑکا پیدا ہوا ہے۔ چارو درویشوں نے بادشاہ کو مبارکبادی پیش کی اور اس بچے کے لیے دعائیں کیں۔ پورے شہر میں خوشیاں منائی گئیں۔ چند دنوں بعد اچانک شہزادہ غائب ہو گیا، پورے شہر میں ماتم پھیل گیا ہر طرف سے رونے پیٹنے کی سدائیں بلند ہونے لگی۔ تین دن بعد شہزادہ پھر صحیح سالم واپس آگیا۔ اس کے بعد ہر چاند کی نوچندی کو شہزادہ غائب ہوتا اور تیسرے دن ڈھیر سارے قیمتی کھلونے اور ساغاتوں کے ساتھ  واپس لوٹ آتا۔

سات سال بعد یہ عقدہ کھلا کہ شہنشاہِ جن ملک شہبال شہزادہ بختیار کو منگوایا کرتا تھا اور اس نے اپنی بچی روشن اختر کے لیے شہزادے کو پسند کر لیا تھا۔ ملک شہبال نے چاروں درویشوں سے مل کر ان کی دکھ بھری کہانی سنی اور ان کے گمشدہ افراد کو ڈھونڈ نکالا۔ اور شہزادہ بختیار( پسر آزاد بخت) کی شادی روشن اختر( دخترِ ملک شہبال) سے ،خواجہ زادہ یمن کا نکاح دمشق کی شہزادی سے، ملک فارس کے شہزادے کا عقد بصرہ کی شہزادی سے، عجم کے شہزادے کا نکاح فرنگ کی ملکہ سے کر دیا۔ بہزاد خان کی شادی نیم روز کی شہزادی، شہزادۂ نیم روز کا نکاح جن کی شہزادی اور چین کے شہزادے کی کتخدائی پیر مرد عجمی کی بیٹی سے ہوئی۔ اس طرح ہر ایک اپنی مراد کو پہنچے۔ بہزاد خان اور خواجہ زادہۂ یمن نے بادشاہ آزاد بخت کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ بقیہ افراد اپنے اپنے وطن کو لوٹ گئے۔

داستانِ باغ و بہار کے اہم کردار حسب ذیل ہیں:

آزاد بخت: ملک روم کا بادشاہ بختیار خان کا باپ۔

ملک شہبال: جنوں کا بادشاہ جو چارو درویشوں کو انکے گمشدہ افراد سے ملاتا ہے۔

روشن اختر: ملک شہبال کی بیٹی جس کی شادی بختیار خان سے ہوتی ہے۔

پہلا درویش: ملک یمن کے ایک بڑے تاجر خواجہ احمد کا بیٹا۔

دوسرا درویش: ملک فارس کا شہزادہ۔

تیسرا درویش: عجم کے بادشاہ کا بیٹا۔

چوتھا درویش : چین کا شہزادہ۔

خواجہ سگ پرست: نیشا پور کا سوداگر جس کی شادی آزاد بخت کے وزیر زادی سے ہوتی ہے۔

مبارک: چوتھے درویش کے باپ کا غلام۔

ملک صادق: جنوں کا بادشاہ جس کے پیٹ میں چوتھا درویش چاقو بھونکتا ہے۔

عیسٰ: جراح جو دمشق کی شہزادی کا علاج کرتا ہے۔

اس کے علاوہ دیگر کردار شہر نیم روز کا شہزادہ، بصرہ کی شہزادی اور اس کے باپ کا کردار، فرنگ کی ملکہ وغیرہ ہیں۔

 حوالہ:۔باغ و بہار، اردو ادب کی مختصر تاریخ

باغ و بہار“ ایک تبصرہ

اپنی راۓ یہاں لکھیں