وقعۂ اندور اور سوچنے کی بات

وقعۂ اندور اور سوچنے کی بات

مولانا صابر حسین ندوی

اندور (مدھیہ پردیش) کا واقعہ رہ رہ کر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے، روح بے چین ہوجاتی ہے، دل مچل جاتا ہے، ایک عام آدمی کس قدر بے بَس اور لاچار ہوچکا ہے، ملک اپنے وسیع و عریض رقبے کے باوجود کسی تنہا شخص کو برداشت کرنے سے قاصر ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس کی گود اچھائیوں سے باجھ سی ہوتی جارہی ہے، بھلے لوگوں کا قحط پڑتا جارہا ہے، ہر طرف درندے، لٹیرے اور قزاق بیٹھے ہیں، جو کمزور کو کچلنا چاہتے ہیں، بے کس کو مسلنا چاہتے اور بزدلی کی چادر میں بہادری کا زعم پالنا چاہتے ہیں، ان دنوں سوشل میڈیا پر واویلا کرتے نوجوانوں میں یہ مسئلہ اس قدر گرم ہے کہ کہیں نہ کہیں اس پر نظر پڑ ہی جاتی ہے، The quint نے جو کوریج کی ہے اسے دیکھ کر کوئی بھی انگشت بدنداں رہ جائے گا، بھلا ایک عام آدمی جو روزی روٹی کیلئے کد و کاوش کرتا ہے، دن رات اپنے آپ کو تھکاتا ہے، چوڑیاں بیچتا ہے، زینت بانٹتا پھرتا ہے، گھروں میں رنگینی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، حسن و رعنائی میں اضافے کا سامان لئے پھرتا ہے، اس شخص کی زندگی ویران، بے رنگ اور بے مزہ کردی جاتی ہے، ہندوؤں کی بھیڑ اسے بھوکے بھیڑیے کی طرح دبوچ لیتی ہے، اس کا قصور یہ ہے کہ اس نے ہندو محلے میں سودا سلف کا کام کرنا چاہا، اپنی یومیہ کمائی اور ہندو بہنوں کی زیب و زینت فراہم کرنا چاہا، وہ تو آواز لگا رہا تھا کہ آؤ! زینت کا سامن لے لو، رنگ برنگی اور اَترنگی چوڑیاں لے لو! مگر تعصب اور تشدد کی چھاتی سے دودھ پی کر پلنے، بڑھنے اور پروان پانے والے کہاں خاموش رہ سکتے تھے، وہ بھیڑ اسے اپنی صفائی دینے کا بھی موقع نہیں دیتی، اسے مارتی اور مارتی ہی چلی جاتی ہے، اسے نیم جان کرنے کے بعد ظلم کا عالم یہ کہ اسی پر کیس درج ہوتا ہے، پولس اسی کو گرفتار کرتی ہے،، اور جب اس سے پہلے ان خاکی رنگ والوں سے کارروائی کی گہار لگائی جاتی ہے وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تک کوئی شکایت نہیں ملی، جب شکایت ملے گی تب کارروائی کریں گے، مگر خود مظلوم جب پہنچا تو وہی شکنجے میں کَس دیا گیا، گویا کوئی مجرم ہاتھ لگ گیا ہو، اور اسے سزا دینا، اس پر ڈنڈے برسانا ضروری اور لازمی بن چکا ہو، مستزاد یہ کہ ہندوؤں کی پوری جماعت، اندور کے مختلف علاقوں سے پہنچ کر مارنے والوں کو سپورٹ کرتی ہے، مساجد کے باہر اور مسلمانوں کی آبادیوں میں گھس کر نعرے بازی کرتی ہے، وہ علی الإعلان کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کاٹا جائے، بھگایا جائے، مارا جائے، دریا برد کردیا جائے، قریب ہی پولس تھانہ تماشہ دیکھتی ہے، یہ کوئی پہلا اور کہنا غلط نہ ہوگا کہ آخری واقعہ بھی نہیں ہے؛ بلکہ پچھلے سات سالوں سے اس کا ایک سلسلہ چلا آرہا ہے، قلم پر نالاں ہے، شکوہ و شکایتیں ہیں، مگر کیا کیجئے! حکومت خموش تماشائی بنی ہوئی ہے، بلاشبہ یہ سب کچھ اسی کی شہہ اور پشت پناہی کی بنا پر ہورہا ہے، جس کے شواہد موجود ہیں، آئے دن ہر بینا انہیں دیکھ سکتا ہے.*

*اسی طرح اس میں سب سے بڑا کردار میڈیا کا ہے، تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو موجودہ وقت کی میڈیا کو دلال، نالائق اور بہت سے ان الفاظ سے یاد کیا جائے گا جنہیں لکھنا زیب نہیں دیتا، وہ کس ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ظالم کی حمایت کرتے ہیں، مظلوم کو مزید گنہگار ٹھہراتے ہیں، طاقت میں موجود حکومت سے سوال پوچھنے، اسے جوابدہ ٹھہرنے کے بجائے اپوزیشن کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں، انہیں دیکھ کر روح بے قرار ہو جاتی ہے، بدن میں تلملاہٹ اور سرسراہٹ سما جاتی ہے، مگر پھر وہی بات کہ کیا کیا جائے!! لیکن یہ سب تو غیر ہیں، اپنوں کا کیا کردار ہے، اسے بھی تو دیکھیے! الحمد للہ اندور میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے اس نوجوان کیلئے آواز اٹھائی، انہوں نے بھی ہندوؤں کے مد مقابل بھرپور ریلی نکالی اور لوگوں کو فوراً جمع کیا، بعض مسلم سیاست دانوں نے جلدی دکھائی اگرچہ کوئی خاص فرق نہیں پڑا؛ مگر اسے گہرا متعصبانہ رنگ دینے سے قاصر رہ گئے—- اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ اس کا مستقبل حل کیا ہے، وہ اپنے اندر جب تک بیداری اور سیاسی شعور پیدا نہ کریں گے ان کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا، ایک زمانے میں مسلمانوں کو دہشت گردوں کے الزام میں کہیں سے بھی اٹھا لیا جاتا تھا، پھر ایک دور وہ بھی تھا جب نوجوان لڑکوں کو معمولی باتوں پر گرفتار کر کے کہیں لے جاتے اور اسے گولی مار دیتے تھے، مگر اب ایسا نہیں ہے، اگرچہ اس کی سرے سے نفی نہیں ہے؛ لیکن اس کی تعداد میں بہت فرق آیا ہے، دراصل یہ قانونی کارروائی، مخلص مسلمانوں کی پیش رفتگی اور سیاست سے فائدہ اٹھانے کا نتیجہ ہے، ملک میں بلاشبہ بہت سے مسلمان اصحاب ثروت، وجاہت اور رعب دار ہیں، جن میں وکلاء، انٹلیکچول اور رہنما بھی ہیں، بہت سے وہ حضرات ہیں جو خموش سرکار سے قرب رکھ کر مسلمانوں کیلئے خیر خواہانہ جذبہ رکھتے ہیں، ان میں انہیں بھی بہت حد تک شامل کیا جاسکتا ہے جو معروف سیاست دان ہیں وہ خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم؛ لیکن سیکولرازم کی بنیاد کو اصل جانتے ہیں، یقیناً ہمیں ان سے کوئی خاص امید نہیں، پھر بھی وقت کی درکار ہے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں، اس مسئلے کا حل نکالے، فوری کاروائی اور ملک گیر پیمانے پر سرکار کی مذمت کریں، اسے دیش دنیا تک لیکر جائیں، یہ بات طے شدہ ہے کہ جب تک مسلمان متحدہ طور پر پیش قدمی نہیں کریں گے اس طرح کے معاملے نہیں رکیں گے، ابھی اترپردیش کا چناؤ باقی ہے، تناؤ کا ماحول اور بھی سخت ہوگا، ملک کی سیاست میں زہر پھیلے گا اور ہر طرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاےگاکیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے، بی جے پی جان چکی ہے کہ ان کی جیت کی کنجی یہی ہے، ایسے میں مسلمانوں کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو وہ ہر بار کی طرح پھر ایک ٹول اور آلہ کی طرح استعمال ہوجائیں گے اور ان کا سیاسی و ملی دائرہ مزید سکڑ جائے گا۔ 

✍🏻 *محمد صابر حسین ندوی*

اپنی راۓ یہاں لکھیں