بابری مسجد کی شہادت ایک المناک حادثہ
محمد قمر الزماں ندوی
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشئہ مئے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتئی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے ،دھندلا سا ستارہ تو ہے
آج ہی کی تاریخ یعنی 6/ دسمبر 1992ء کو مسلمانوں کی ایک تاریخی مسجد بابری مسجد شہید کردی گئی تھی، ہندوستان کی جمہوریت اور اس کے سیکولرزم پر یہ کاری ضرب تھی، جس واقعہ نے پوری دنیا میں ہندوستان کی سالمیت اور جمہوریت پر داغ و دھبہ لگا دیا اور اس ملک کی رسوائی اور بدنامی ہوئی تھی اکثر ملک کے اکثر منصف مزاج باشندے کو بھی اچھا نہیں لگا تھا اور بہت سوں نے تو اس پر اعتراض جتایا تھا،آج کا دن یقینا ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے ،جو تاریخ میں غم و افسوس کی ایک نہ مٹنے والی یاد بن گیا ہے ،یہ دن اور تاریخ جب بھی آئے گی مسلمان بابری مسجد کی شہادت کے درد و الم کو محسوس کریں گے اور زبان حال و قال سے کہیں گے کہ
پھر ذکر چلا کسی زخم کے چھل جانے کا
پھر کوئی درد ،کوئی خواب پرانا نکلا
اس واقعہ کے بعد مسلمان یہ سمجھ رہے تھے اگر چہ فرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا ،حکومت اور پولیس سے انصاف کی امید نہیں ہے، لیکن عدالتیں ضرور انصاف فراہم کریں گی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گی، لیکن افسوس کہ 30/ ستمبر 2010ء کو الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے نے اس امید کو بھی خاک میں ملا دیا اور یہ مانتے ہوئے بھی کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی، محض آستھا اور عقیدت کی بنیاد پر یہ فیصلہ دے دیا کہ اس جگہ رام مندر کی تعمیر کی جائے اور مسلمانوں کو یہاں سے دور کوئی دوسری جگہ دے دی جائے، جہاں مسلمان مسجد تعمیر کرلیں ۔
اس فیصلے کے بعد ہمارے ملک میں مظلوموں کے لیے آخری سہارا بھی ٹوٹ گیا ۔
اس واقعہ کے بعد ہم تمام مسلمانوں کا یہ مشترکہ احساس ہے ،احساس ہی نہیں بلکہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو شکست تو ہوسکتی ہے ،اس کو طاقت، اور قانون کا غلط استعمال کرکے مجبور تو کیا جاسکتا ہے ،لیکن اسلام کو کبھی شکست نہیں ہوسکتی ،مسجدوں کے درو دیوار اور گنبد و مینار تو شہید کئے جاسکتے ہیں ،لیکن دل کی دنیا میں ایمان کی جو عمارت تعمیر ہوچکی ہے ،اسے نہ کوئی آگ لگا سکتی ہے اور نہ کوئی ہتھیار زندگی سے محروم کرسکتا ہے ۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ماضی میں بعض ظالم اموی بادشاہ نے کعبہ کے در و دیوار کو منہدم کردیا ، اس کے دروازے اور غلاف کو نذر آتش کیا ،ایک موقع پر حجر اسود کو لے کر قرامطہ چلے گئے، لیکن یہ حالات و واقعات اور دل نگارشات حادثات بھی اسلام کے قدم اور ترقی کو نہیں روک سکے اور اسلام بڑھتا گیا اور قیامت تک بڑھتا ہی رہے گا ۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
جتنا کہ دباؤ گے اتنا ہی یہ ابھرے گا
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اس وقت ہمارے بہت سے مذہبی مقامات خطرے کی زد میں ہیں اور زعفرانی طاقتیں انہیں مندر ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں ،عدالتیں بھی عجلت میں عجیب و غریب فیصلے سنا رہی ہیں ، لیکن ہمیں مایوس، کبیدہ خاطر اور افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،اپنے ایمان و یقین اور اعتماد و اعتبار کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ، ہمارا یقین اور مسجد کے تمام متولیوں کا یقین ویسا ہونا چاہیے جو کعبہ کے متولی حضرت عبد المطلب کا یقین تھا کہ ابرھا کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ یقینا کعبہ کا رب ہے جو خود اپنے اس گھر کی رکھوالی اور حفاظت کرے گا ،میں تو صرف اپنے اونٹ کا مالک مالک ہوں ،میرے جو اونٹ آپ نے لے لئے ہیں مجھے واپس کردیں ۔۔۔ کیا یہ یقین ہم مسلمانوں کو حاصل ہے ،، پھر اللہ کی نصرت کیسے آسکتی ہے ؟
بہر حال اس وقت مسلمانوں کو صبر ہمت اور حوصلہ و حکمت و دانائی سے کام لینے کی ضرورت ہے، صبر کو ہم اور آپ بزدلی نہیں سمجھیں بلکہ یہ بہادری ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اصل بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے ۔صبر شکست نہیں بلکہ تدبیر ہے کیونکہ جب آدمی اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہے تو وہ ٹھنڈے دل سے غور و خوض کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف مکہ مکرمہ میں صبر سے کام لیا بلکہ مدینہ منورہ میں جہاں آپ کو قوت و طاقت حاصل ہوگئی وہاں بھی آپ نے صبر سے کام لیا ۔
اس وقت ہمت بالکل نہ ہاریں ،استقامت کا ثبوت دیں اور جس حد تک مذہبی مقامات کی حفاظت کے لیے چارہ جوئی کرسکتے ہیں کریں ،آپس میں تمام مسلمان اس کے لیے متحد ہو جائیں اتحاد ہی سے ہمیں کامیابی ملے گی اور ہم مشکل حالات پر قابو پاسکیں گے ۔
ایک کام ہم یہ کریں کہ تاریخ کا مطالعہ کریں ،قانون اور آئین کو پڑھیں ، دودھ کا دودھ اور پانی پانی کرنا جانیں ،اچھے وکلاء اور ماہرین قانون پیدا کریں ، اسلام کی صحیح اور سچی تصویر لوگوں تک پہنچائیں ،دعوت و تبلیغ کے لیے فضا بنائیں اور اس ذمہ داری کو حکمت و دانائی کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ اور اسلام کے پیام انسانیت اور پیام امن کو لوگوں تک پہنچائیں ، برادران وطن اور بھٹکے ذہن کے لوگوں کی ذہن سازی کریں اور ان کو ملکی سالمیت کے لیے فکر مند کریں ۔
اور اس وقت ایک جانب ہم خاص طور پر متوجہ ہوں ،جس کی طرف علماء کرام اور رہنمائے ملت ہماری رہنمائی کرتے ہیں وہ یہ کہ انسان کی فطرت ہے کہ جب کوئی چیز اس کے ہاتھ سے کھوجاتی ہے، تو وہ اس کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ،اگر آم کا درخت سوکھ جائے تو نئے درخت 🌲 لگائے جاتے ہیں ۔اگر انسان کا گھر 🏠 چھین لیا جائے تو وہ نئے گھر کی تعمیر کی کوشش کرتا ہے ،اسی طرح بابری مسجد کے اس واقعہ میں مثبت پہلو تلاش کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان اس مسجد کی تلافی کے لیے مسجد تعمیر کریں ،جہاں مسجد نہیں ہے وہاں مسجد کی تعمیر کی فکر کریں ،ان دور دراز دیہاتوں تک پہنچیں اور وہاں کے مسلمانوں کی خبر بھی لیں اور وہاں مسجد کی تعمیر کریں ، مسلمان مسجدوں کو آباد رکھیں ، ان کی تعمیر و توسیع کی فکر کریں ،موذنین اور ائمہ کرام کا خیال رکھیں ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے بھی فکر مند ہوں، مساجد کو دیگر اسلامی کاز کے لیے مسجد نبوی کے طرز پر کام میں لائیں، عبادت کے ساتھ علم و ذکر اور دعوت و تبلیغ اور سماجی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں ۔
مساجد کا وجود مسلم سماج کے لیے ایک شناخت یہ وہ محور ہے جس کے ارد گرد مسلمان کی زندگی گردش کرتی ہے ،مسلمان خواہ کتنا ناخواندہ ،جاہل اور بے عمل ہو ،لیکن مسجدیں ان کے اندر کے مسلمان ہونے کا احساس جگائے رکھتی ہے اور اس طرح زندگی میں ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ وہ اپنے دین کی طرف لوٹ آتا ہے ،اس لیے بابری مسجد کی شہادت کے اس صدمہ آمیز واقعہ کو ایک نفع خیز اور عبرت آمیز واقعہ بنا لینا چاہیے ،اس سے انشاء اللہ دین و دنیا دونوں کا نفع ظاہر ہوگا ۔
اس وقت مسلمانوں کو ہرگز کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے اور نہ کوئی ایسی تقریر و بیان کرنا چاہیے جس سے مسلمان میں کوئی ایسا جوش و جذبہ پیدا ہو جس سے دوسروں کو انگلی اٹھانے اور ہمیں مجرم ثابت کرنے کا موقع ملے اور ہم پھر اپنی صفائی پیش کرنے لگیں، اس لیے اس وقت بہت پھونک پھونک کر چلنے اور قدم رکھنے کی ضرورت ہے ،امید کہ ہم سب ان باتوں پر عمل کریں ۔