کیا سری لنکا کی طرح بھارت کو بھی کنگال بنایا جا رہا ہے؟

کیا سری لنکا کی طرح بھارت کو بھی کنگال بنایا جارہاہے؟

سرفراز احمدقاسمی(حیدرآباد)
برائے رابطہ: 8099695186
         بھارت کا ایک چھوٹا سا پڑوسی ملک “سری لنکا” ان دنوں شدید معاشی بحران کا شکار ہے اوروہ  پوری طرح کنگال ہوچکاہے، وہاں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے،روز مرہ کی بنیادی اشیاء  عوام کی پہونچ سے باہر ہوچکی ہے،گذشتہ ایک ہفتے سے وہاں افراتفری جاری ہے،سری لنکا میں معاشی و مالیاتی بحران شدید ہوچکے ہیں اوروہاں کی عوام سخت دشواریوں کا سامنا کررہی ہے،صدر جی راجہ پکشے نے اس بحران سے نمٹنے کےلئے ایک اہم اقدام کے طور پر ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے،گذشتہ جمعرات کو سری لنکا کےدارالحکوت کولمبو میں عوام سڑکوں پر نکل پڑے تھے،اور صدر کی قیام گاہ کے سامنے بڑے پیمانے پرجمع ہوکر شدید احتجاجی مظاہرہ کیاتھااور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیاتھا،جسکے بعد صدر نے ایمرجنسی  نافذ کردی تھی،خبروں کے مطابق وہاں گذشتہ ایک ماہ سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے،وہاں کی عوام ملک کے معاشی ومالیاتی بحران کے لئے سری لنکا کی موجودہ حکومت کو ذمہ دار قرار دیتی ہے،کسی بھی ملک میں درپیش سنگین مسائل کو حل کرنےکےلئے جب بھی عوام کوئی احتجاج منظم کرتے ہیں تو حکومت وقت اسے اپنے خلاف منظم سازش قرار دیتے ہوئے اسے بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش کرتی ہے،سری لنکا کی حکومت بھی یہی کھیل کھیل رہی ہے،حالانکہ حکومت کی اولین ذمہ داری معاشی ومالیاتی بحران سے نمٹنے کےلئے ٹھوس اقدامات کرناہے،لیکن ایمرجنسی کے نفاذ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عوام کی آواز کچل دیناچاہتی ہے۔
سری لنکا میں اسوقت کرنسی ایندھن اور غذائی اشیاء کا شدید بحران ہے،وہاں کے موجودہ صدر 2019 سے حکومت کررہے ہیں،انکی پارٹی سری لنکا پوڈو جانا نے 2020 میں پارلیمانی الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی،اسوقت راجہ پکشے کو معاشی ومالیاتی بحران کے چیلنج سے نمٹنے کےلئے اپوزیشن سمیت دیگر سیاسی لیڈران کے علاوہ سب کا تعاون حاصل کرنا چاہیے تھا،لیکن ایسا نہیں کیاگیا،ایمرجنسی کے نفاذ سے برسراقتدار پارٹی اور اپوزیشن دونوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں،سری لنکا عرصہ سے معاشی مسائل سے نمٹ رہاہے،اس دوران کورونا وباء سے معیشت پر کاری ضرب لگی اور اب حکومت بے شمار مسائل میں گھرچکی ہے،حکومت کے شہرت پسند اقدامات کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بھاری بوجھ پڑا جسکے نتیجے میں جاریہ بحران سے نمٹنا حکومت کےلئے کافی مشکل ہوگیاہے،حالات دن بہ دن وہاں خراب ہورہے ہیں،اور حکومت کے پاس ان حالات سے فوری نمٹنے کےلئے کوئی روڈ میپ بھی نہیں ہے جسکی وجہ سے اپوزیشن بھی حکومت پر شدید تنقید کررہی ہے۔
سری لنکا ایک طرف چین کے قرض کے جال میں پھنس چکا ہے تو دوسری طرف معاشی ومالیاتی بدنظمی کی وجہ سے آمدنی بری طرح متاثر ہورہی ہے،بگڑتی معاشی صورتحال کے درمیان کابینہ کے وزراء نے اجتماعی استعفیٰ دیدیاہے،وزراء نے یہ قدم صورتحال سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی کے خلاف احتجاجاً اٹھایاہے،بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے وزیر اعظم مہندرا راجہ پکشے اور انکے بھائی گوٹابایا راجہ پکشے کے علاوہ تمام 26وزراء نے اجتماعی استعفیٰ دیدیاہے۔سری لنکا جزیرے والا ملک ہے،جسکی کل آبادی تقریباً20,2 ملین ہے،پارلیمنٹ میں 225 سیٹیں ہیں،وہاں مسلمانوں کی آبادی 7,6 فیصد ہے،سری لنکا بھارت کے جنوبی مشرقی،بحرہند سے متصل واقع ہے،اسکے پاس 65,610 مربع کیلو میٹر(25,332 مربع میل) کا علاقہ ہے، ایک صدی سے زائد تک برطانیہ نے اس جزیرے پر حکومت کی اور پھر 4 فروری 1948 کو اسے مکمل طور پر آزاد کردیاگیا،اس آزادی کے بعد سے سری لنکا کو اب تک کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے،یہ بحران ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں بھاری  کمی کے باعث  پیدا ہوا ہے جو ایندھن کی درآمدات کی ادائیگی کےلئے استعمال ہوتے ہیں،اسوقت ملک بھر میں بجلی کی طویل بندش، اشیائے خوردونوش اور ادویات جیسی بنیادی اشیاء کی وہاں شدید قلت ہے۔
سری لنکا کو کبھی سونے کی لنکا بھی کہاجاتاتھا،لیکن آج وہاں حالات انتہائی تشویشناک ہیں وہاں حالت اتنے بدترین ہوچکی ہیں کہ امتحانات لکھنے کےلئے کاغذ تک دستیاب نہیں ہیں،ہرطرف دکانات،بینکس اوردوسرےاداروں پرعوام  کی طویل قطاریں لگی ہیں،عالمی مارکٹ سے سامان خریدنے کےلئے انکے پاس پیسے نہیں ہیں،دودھ،دوائیں،پانی،پھل اور سبزیوں سمیت ضروریات کی تمام چیزوں کی شدید قلت ہوگئی ہے، گویا  یہ ملک قحط سالی کا شکار ہوگیا ہے،روزمرہ کے اشیاء کی قیمت آسمان پر ہیں،دال کی قیمت 2020 میں 180روپے فی کیلو تھی، آج 420روپے فی کیلو ہے،یہی حال خوردنی تیل کا بھی ہے،480 روپے فی لیٹر تیل دوسال میں 870روپے فی لیٹر ہوگیاہے،2020 میں وہاں پٹرول 137 روپے فی لیٹر تھا جوآج 254 روپے فی لیٹر تک پہونچ گیاہے،لوگوں کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں،حالات اتنے سنگین ہیں کہ وہاں پوری کابینہ کو راتوں رات استعفیٰ دینا پڑا،وہاں اس افراتفری،اور بدحالی کی کئی ایک وجوہات ہیں،ان میں سے ایک اہم اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بدعنوانی،جھوٹی ترقی کی تشہیر،عوام کو دکھائے جانے والے دلکش خواب،قرض کا بڑھتا شکنجہ،غلبہ کی سیاست اور نفرت کا فروغ بھی ہے،آپ کو یاد ہوگا کہ ہندوستان کی طرح وہاں  اقتدار سنبھالنے والے راجاپکشے کی حکومت نے بدھ مذہب کے قائدین کے اشارے پر   مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیاتھا،نفرت کا پرچار کرتےہوئے وہاں بھی مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جارہی تھی،کبھی حجاب اور کبھی  مساجد پرنشانے سادھے گئے تھے لیکن  حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی،ان شرپسندوں پر لگام لگانے کےلئے وہاں کی حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیاتھا، آج جبکہ وہاں بدترین معاشی بحران جاری ہے کیا اس سے بھارت کوئی سبق لینے کےلئے تیارہے؟
سری لنکا آج جس موڑ پر کھڑا ہے بھارت بھی دانستہ اسی راستے پر جارہاہے،اگر بھارت کے سیاسی لیڈروں نے اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی اور کوئی سبق نہیں لیا تو بھارت دوسری بدترین معاشی تباہی اور بحران کا مرکز بنے گا،ہندوستان کے موجودہ حالات پر ایک نگاہ ڈالئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ملک کے حالات بہت حدتک سری لنکا سے مماثلت رکھتے ہیں،جس طرح سری لنکا کی حکمراں سیاسی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مفت تقسیم کا وعدہ کیا اوراسے قرض لیکر پورا کررہی تھی،ٹھیک اسی طرح بھارت میں بھی  ہورہاہے،مفت تقسیم کی وجہ سے ملک کی کئی ریاستیں تباہی کی دہلیز پر کھڑی ہیں،اور نہ صرف ریاستوں کا خزانہ خالی ہے بلکہ قرض کے بھاری بوجھ کی وجہ سے انکی معیشت چرمراگئی ہے،صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ملک کے کئ نوکر شاہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کو خبردار کیاہے کہ ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کےلئے سیاسی پارٹیوں کے ذریعے مفت تقسیم کا سلسلہ جاری ہے،جسکی وجہ سے ملک کی کئی ریاستیں تباہی کے دہانے پر پہونچ گئی ہیں،اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا تو یہ ریاستیں سری لنکا اور یونان  کی طرح کنگال ہوجائیں گی،وزیراعظم کے ساتھ چارگھنٹوں تک ہونے والی اس طویل میٹنگ  میں چند سکریٹریوں نے اس بارے میں کھل کر بات کی،اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کچھ ریاستی حکومتوں کے عوامی اعلانات اور اسکیموں کو زیادہ دنوں تک جاری نہیں رکھاجاسکتا اور مفت والی اسکیمیں زیادہ دنوں تک نہیں چلائی جاسکتی،خاص طور پر مقروض ریاستوں میں اسطرح کی اسکیمیں چلانا بہت خطرناک ہے،ہمیں سری لنکا کی افراتفری سے سبق لینے کی ضرورت ہے،اگر ان پر فی الفور روک نہیں لگائی گئی تو اس سے ریاستیں مالی طور پر دیوالیہ ہوجائیں گی،ان نوکر  شاہوں نے بتایاکہ پنجاب،دہلی،تلنگانہ،آندھرا پردیش اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں کی جانب سے کئے جانے والے اعلانات غیرعملی ہیں اورانکا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے،سیاسی جماعتوں کی جانب سے مفت بجلی اسکیم کی وجہ سے ریاست کے خزانے پر بوجھ پڑرہاہے اور صحت و تعلیم جیسے اہم ترین سماجی شعبوں کےلئے رقم میں کٹوتی کی جارہی ہے،ان نوکر شاہوں کے انتباہ پر سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔
آج ملک میں ووٹوں کی سیاست کی وجہ سے انتخابی وعدوں میں فری راشن سے لیکر دوسری چیزوں کی مفت تقسیم کی جو روایت چل پڑی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے،مفت تقسیم کا یہ رجحان جہاں صاف شفاف انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،وہیں سرکاری خزانے پر بھاری بوجھ پڑرہا ہے،الیکشن جیتنے کےلئے سیاسی پارٹیاں دونوں ہاتھوں سے سرکاری خزانہ لٹاتی ہیں،آمدنی کے ذرائع محدود ہونے کے باوجود مفت تقسیم کی مختلف اسکیمیں جاری کردی جاتی ہیں،جسکے نتیجے میں ریاستیں قرض میں ڈوب جاتی ہیں،اب تک ریاستوں پر کتناقرض ہے اوراسکی حالت کیا ہے ؟ آئیے ذراایک سرسری نگاہ اس پرڈالتے ہیں،یوپی 6,53 لاکھ کروڑ روپے،مغربی بنگال 5,62لاکھ کروڑ روپے،گجرات 5,02 لاکھ کروڑ روپے،آندھرا پردیش 3,98لاکھ کروڑ روپے،پنجاب 2,82 لاکھ کروڑ روپے اور بہار2,46 لاکھ کروڑ روپے قرض واجب الادا ہے جسے ریزرو بینک آف انڈیاکو لوٹاناہے ،سری لنکا میں بھی یہی کچھ ہواتھا جسکا نتیجہ آج وہاں کے عوام بھگت رہے ہیں،سیاسی پارٹیوں کو یہ سمجھنا ہوگاکہ مفت اسکیم کی سیاست ملک کو زوال کی جانب لے جارہی ہے،اگر سیاسی جماعتوں اور ریاستی حکومتوں نے یہ رویہ ترک نہیں کیا تو اسکا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑےگا،ابھی وقت ہے سری لنکا سے سبق لیتے ہوئے اس پر سنجیدگی سے غور کیاجاناچاہئے،ملک کی ترجیح عوامی مقبولیت والی اسکیموں کے بجائے ایسی معاشی پالیسی ہونی چاہئے جس میں ٹکاؤ ہو تاکہ ترقی کا فائدہ ملک میں بسنے والے ہر شخص کو پہونچے اور سری لنکا جیسے حالات سے بھارت کو محفوظ رکھاجاسکے،دو کروڑ 20لاکھ آبادی والے ملک سری لنکا کی جب اتنی سنگین حالت ہے تو اگر ہندوستان اس بحران میں مبتلا ہوگیا تو پھر کیاہوگا؟اسوقت بھارت کی حالت یہ ہے کہ یہاں کی بعض ریاستوں کی حالت سری لنکا سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔
سری لنکا سوا دو کروڑ کی آبادی والا ملک ہے اس سے کئی گنا زیادہ آبادی یہاں کی ریاستوں میں ہے،اوریہاں کی ریاستیں بری طرح قرض میں ڈوب چکی ہیں،یہاں بینک کو لوٹنے اوراسے کنگال بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے،کارپوریٹ کو بڑی تعداد میں حکومت کی جانب سے رعایت دی جارہی ہے اورانکے قرضے معاف کئے جارہے ہیں،بھارت کی حالت یہ ہے کہ اگر ہم یہاں کا جائزہ لیں تو یہاں کی ہر ریاست اپنی جی ڈی پی کے اعتبار سے 35 فیصد قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں،اگر ملک کی ساری ریاستوں کا قرض ملادیاجائے تو بھارت کا قرض 80 لاکھ کروڑ روپے سے زائد ہوجاتاہے،ایک طرف بھارت کنگال ہورہاہے،بعض ریاستوں پر جی ڈی پی کے اعتبار سے 50 فیصد سے زیادہ کا قرض ہے،ایسے میں وہ ریاست تو بالکل کنگال ہوچکی ہیں ،دوسری طرف اڈانی کا کاروبار 100 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوچکاہے،اب آپ سمجھئے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ بھارت کی اکنامی مسلسل نازک بنتی جارہی ہے اور بھارت کنگال ہونے کی جانب بہت تیزی سے بڑھ رہاہے، اڈانی کا نیٹورک 100 ارب ڈالر پر پھیل جائے اسکا کیامطلب ہوسکتاہے؟ اور اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوگی کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ قرض میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور50 ہزار سے زیادہ کا وہ مقروض ہوتاہے،سوارب ڈالر کے ساتھ گوتم اڈانی ایشیا کے سب سے امیر ترین شخص ہیں، اور 99ارب ڈالر کے ساتھ انیل امبانی ایشیا کے دوسرے نمبر کے سب سے مالدار شخص ہیں اور ان دونوں کا تعلق بھارت ہے،سوال یہ ہے کہ بھارت میں مہنگائی،بے روزگاری اور بھوک مری جب عروج پر ہے ایسے مالداروں کی دولت میں مسلسل اضافہ کیسے ہورہاہے؟ حکومت کی غلط پالیسی کی وجہ سے ملک کا غریب اور غریب ہوتا جارہا ہے اور دولت مند مزید مالدار  ہوتاجارہاہے،ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے لیکن اسکے باوجود مودی سینٹرل وسٹا کی تعمیر کے ہزاروں کروڑ روپے خرچ کررہےہیں،اپنے لئے 14/14 کروڑ کا جہاز خرید رہے ہیں،روزانہ دس لاکھ روپے کا سوٹ زیب تن کررہے ہیں،لوگ دانے دانے کو محتاج ہیں لیکن اسکے باوجود وزیراعظم لاکھوں روپے کی کار ہر سال تبدیل کررہے ہیں،کیا اسطرح ملک ترقی کرے گا؟ کیا آپ کو نہیں لگتاکہ حکومت کی یہ غلط پالیسی بہت جلد ملک کو اقتصادی بحران میں مبتلاء کردےگی؟
اس ملک کو سری لنکا کی طرح کنگال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے،لیکن ابھی بھارت کے لوگوں کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے،کیوں کہ ابھی یہاں نفرت کی کھیتی کرنی ہے،اسکو فروغ دینا ہے،اور ہندو مسلم کرکے ووٹ حاصل کرنا ہے اور پورے ملک میں مسلم مخالف ماحول تیار کرنا ہے،ابھی اس ملک کے لئے مہنگائی،بے روزگاری اور بھوک مری کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے۔اسلئے بےفکر رہئے کہ اتنی جلدی بھارت سری لنکا کی طرح دیوالیہ نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
اپنی راۓ یہاں لکھیں